جنگ احد


اِنَّ اَوَّلَ بَیۡتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیۡ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّ ہُدًی لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۚ۹۶﴾

۹۶۔سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لیے بنایا گیا وہ وہی ہے جو مکہ میں ہے جو عالمین کے لیے بابرکت اور راہنما ہے۔

96۔ بَکَّۃَ اژدھام کی جگہ کو کہتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق بکہ بابلی لفظ ہے جس کے معنی آبادی کے ہیں جیسے بعلبک یعنی بعل کی آبادی۔ ممکن ہے یہ لفظ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے استعمال فرمایا ہو، کیونکہ آپ علیہ السلام بابل سے یہاں تشریف لائے تھے، چنانچہ قدیم صحیفوں میں اس وادی کا یہی نام مذکور ہے۔ دنیا کا یہ پہلا گھر عالمین کے لیے ہدایت کا مرکز رہا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے لے کر آج تک تقربِ الہٰی کے لیے مرجعِ خلائق ہے۔ یہ جگہ وحی الہٰی کا محلِ نزول اور ہادئ بشریت، محسنِ انسانیت کی جائے ظہور ہے۔

فِیۡہِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبۡرٰہِیۡمَ ۬ۚ وَ مَنۡ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا ؕ وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الۡبَیۡتِ مَنِ اسۡتَطَاعَ اِلَیۡہِ سَبِیۡلًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۹۷﴾

۹۷۔ اس میں واضح نشانیاں ہیں (مثلاً) مقام ابراہیم اور جو اس میں داخل ہوا وہ امان والا ہو گیا اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو اس گھر تک جانے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس گھر کا حج کرے اور جو کوئی اس سے انکار کرتا ہے تو (اس کا اپنا نقصان ہے) اللہ تو عالمین سے بے نیاز ہے۔

97۔ مقامِ ابراہیم علیہ السلام ، یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدم مبارک کی نشانی جو مختلف ادوار میں پیش آنے والے قدرتی،حربی اور تخریبی حالات کے باجود محفوظ ہے ورنہ ایسے حالات میں دوسری جگہوں پر پورے تمدن کے نشانات اور پوری قوم کے آثار مٹ جاتے ہیں۔

قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لِمَ تَکۡفُرُوۡنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ٭ۖ وَ اللّٰہُ شَہِیۡدٌ عَلٰی مَا تَعۡمَلُوۡنَ﴿۹۸﴾

۹۸۔کہدیجئے: اے اہل کتاب! تم اللہ کی نشانیوں کا انکار کیوں کرتے ہو جب کہ اللہ تمہارے اعمال کا مشاہدہ کرنے والا ہے۔

قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لِمَ تَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ مَنۡ اٰمَنَ تَبۡغُوۡنَہَا عِوَجًا وَّ اَنۡتُمۡ شُہَدَآءُ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ﴿۹۹﴾

۹۹۔ کہدیجئے : اے اہل کتاب ! تم ایمان لانے والوں کو راہ خدا سے کیوں روکتے ہو؟ تم چاہتے ہو اس راہ میں کجی آئے حالانکہ تم خود اس پر شاہد ہو (کہ وہ راہ راست پر ہیں) اور اللہ تمہاری حرکتوں سے غافل نہیں ہے۔

98۔ 99 کھانے کی چیزوں کی حرمت و حلیت، کعبے کی قداست و قدامت اور اس کے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ربط و نسبت اور دیگر حقائق سے پردہ اٹھانے کے بعد اب ان آیات میں ارشاد ہو رہا ہے کہ اے اہل کتاب تم اللہ کی نشانیوں کے منکر کیوں ہو رہے ہو حالانکہ تم خود ان کے برحق ہونے پر شاہد ہو۔ لیکن اہل کتاب نہ صرف خود ان آیات کے منکر ہیں بلکہ وہ اسلامی احکام اور قبلۂ مسلمین کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر کے اہل ایمان کو گمراہ کرنے کی گھناؤنی سازش بھی کر رہے ہیں۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تُطِیۡعُوۡا فَرِیۡقًا مِّنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ یَرُدُّوۡکُمۡ بَعۡدَ اِیۡمَانِکُمۡ کٰفِرِیۡنَ﴿۱۰۰﴾

۱۰۰۔اے ایمان والو! اگر تم نے اہل کتاب میں سے کسی ایک گروہ کی بات مان لی تو وہ تمہارے ایمان لانے کے بعد تمہیں کافر بنا دیں گے۔

100۔ ایک یہودی سازش کار نے اوس اور خزرج کے دونوں قبیلوں کو پھر سے لڑانے کے لیے عہد جاہلیت کی مشہور لڑائی ”جنگ بعاث“ کے جنگ نامہ کے اشعار پڑھ کر پرانی عداوتوں کو تازہ کرنے کی سعی کی، لیکن رسول کریم ﷺ کی نصیحتوں کی وجہ سے جنگ نہ چھڑی۔ اس سلسلہ میں یہ آیت نازل ہوئی۔

وَ کَیۡفَ تَکۡفُرُوۡنَ وَ اَنۡتُمۡ تُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتُ اللّٰہِ وَ فِیۡکُمۡ رَسُوۡلُہٗ ؕ وَ مَنۡ یَّعۡتَصِمۡ بِاللّٰہِ فَقَدۡ ہُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿۱۰۱﴾٪

۱۰۱۔ اور تم کس طرح پھر کفر اختیار کر سکتے ہو جبکہ تمہیں اللہ کی آیات سنائی جا رہی ہیں اور تمہارے درمیان اللہ کا رسول بھی موجود ہے؟ اور جو اللہ سے متمسک ہو جائے وہ راہ راست ضرور پا لے گا۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَ لَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ﴿۱۰۲﴾

۱۰۲۔اے ایمان والو! اللہ کا خوف کرو جیسا کہ اس کا خوف کرنے کا حق ہے اور جان نہ دینا مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔

102۔ روایت ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے جب حق تقویٰ ادا کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: یطاع فلا یعصی و یذکر فلا ینسی و یشکر فلا یکفر ۔ ”اللہ کی اطاعت ہو پھر معصیت نہ کرے، ذکر خدا بجا لائے پھر اللہ کو نہ بھولے، اس کا شکر ادا کرے پھر کفرانِ نعمت نہ کرے۔“

وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا ۪ وَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ کُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِہٖۤ اِخۡوَانًا ۚ وَ کُنۡتُمۡ عَلٰی شَفَا حُفۡرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنۡقَذَکُمۡ مِّنۡہَا ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمۡ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ﴿۱۰۳﴾

۱۰۳۔ اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو اور تم اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈالی اور اس کی نعمت سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ گئے تھے کہ اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا، اس طرح اللہ اپنی آیات کھول کر تمہارے لیے بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو۔

103۔ جب یہ حکم آتا ہے کہ سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو تو فوراً ذہنوں میں ایک خطرے کا احساس ہوتا ہے کہ کوئی سیلاب آنے والا ہے، غرق ہونے کا خطرہ ہے، کوئی طوفان آنے والا ہے کہ اس امت کی کشتی کا شیرازہ بکھرنے والا ہے، کوئی آندھی آنے والی ہے جو اس انجمن کو منتشر کر دے۔ اللہ کی رسی کو تھام لو، وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا سے پتہ چلا کہ فرقہ پرستی کس قسم کا سیلاب ہے، کس قدر خطرناک طوفان اور کتنی مہلک آندھی ہے۔ چنانچہ رسولِ اسلام ﷺ کے بعد سے آج تک ہم یہی دیکھ رہے ہیں کہ اپنے مسلک سے ذرا اختلاف رکھنے والوں کو کافر قرار دے دیا جاتا ہے۔ دین سے زیادہ انہیں مسلک عزیز ہے اور دوسروں کو زیر کرنے کی خاطر اپنے دین تک سے ہاتھ دھونے کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں۔

وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ﴿۱۰۴﴾

۱۰۴۔اور تم میں ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو نیکی کی دعوت اور بھلائی کا حکم دے اور برائیوں سے روکے اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔

104۔ صحت مند معاشرہ تشکیل دینے کے لیے اسلام کے پاس نظامِ دعوت اور کلمۂ حق کہنے کا ایک فریضہ ہے۔ اسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کہتے ہیں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے: تعمر الارض و ینتصف من الاعداء و یستقیم ۔ ”زمین کی آبادکاری، دشمنوں سے انتقام اور نظام کا استحکام، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں مضمر ہے۔“

وَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ تَفَرَّقُوۡا وَ اخۡتَلَفُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡبَیِّنٰتُ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ﴿۱۰۵﴾ۙ

۱۰۵۔ اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو واضح دلائل آجانے کے بعد بٹ گئے اور اختلاف کا شکار ہوئے اور ایسے لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہو گا ۔

105۔ سابقہ آیت میں بھی ذکر کیا گیا ہے کہ قرآن آئندہ وقوع پذیر ہونے والے حالات کے پیش نظر امت کو پیش آنے والے حادثات سے قبل از وقت خبردار کرتا ہے۔ قرآن جب بھی کسی معاملے میں تائیدی جملوں کے ساتھ تنبیہ کرتا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ یہ حادثہ پیش آنے والا ہے یا اس واقعے کا ارتکاب ہونے والا ہے۔ چنانچہ زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ حضور ﷺ کی حیات کے آخری ایام میں ہی یہ اختلاف خود حضور ﷺ کے سامنے شروع ہوا اور یہ اختلاف اس قدر بڑھ گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان اختلاف کرنے والوں کو اپنی بارگاہ سے قوموا عنی کہ کر نکال دیا۔ ملاحظہ ہو صحیح بخاری جلد دوم صفحہ 846 کتاب المرضی حدیث 5669۔ صحیح مسلم باب ترک الوصیۃ جلد دوم صفحہ 42۔

یَّوۡمَ تَبۡیَضُّ وُجُوۡہٌ وَّ تَسۡوَدُّ وُجُوۡہٌ ۚ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ اسۡوَدَّتۡ وُجُوۡہُہُمۡ ۟ اَکَفَرۡتُمۡ بَعۡدَ اِیۡمَانِکُمۡ فَذُوۡقُوا الۡعَذَابَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَکۡفُرُوۡنَ﴿۱۰۶﴾

۱۰۶۔ قیامت کے دن کچھ لوگ سرخرو اور کچھ لوگ سیاہ رو ہوں گے، پس روسیاہ لوگوں سے کہا جائے گا :کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کیا؟ پس اب اپنے اس کفر کے بدلے عذاب چکھو۔

106۔ ایمان کے بعد کفر سے مراد اہل بدعت اور باطل نظریات رکھنے والے فرقے ہیں، جیسا کہ روایت میں آیا ہے (مجمع البیان ذیل آیت)

وَ اَمَّا الَّذِیۡنَ ابۡیَضَّتۡ وُجُوۡہُہُمۡ فَفِیۡ رَحۡمَۃِ اللّٰہِ ؕ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿۱۰۷﴾

۱۰۷۔ اور جن کے چہرے روشن ہوں گے وہ اللہ کی رحمت میں ہوں گے، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

تِلۡکَ اٰیٰتُ اللّٰہِ نَتۡلُوۡہَا عَلَیۡکَ بِالۡحَقِّ ؕ وَ مَا اللّٰہُ یُرِیۡدُ ظُلۡمًا لِّلۡعٰلَمِیۡنَ﴿۱۰۸﴾

۱۰۸۔ یہ ہیں اللہ کی نشانیاں جو صحیح انداز میں ہم آپ کو سنا رہے ہیں اور اللہ اہل عالم پر ظلم نہیں کرنا چاہتا۔

وَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ اِلَی اللّٰہِ تُرۡجَعُ الۡاُمُوۡرُ ﴿۱۰۹﴾٪

۱۰۹۔ اور آسمانوں اور زمین کی ساری چیزوں کا مالک اللہ ہے اور تمام معاملات کی بازگشت اللہ ہی کی طرف ہے۔

کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ ؕ وَ لَوۡ اٰمَنَ اَہۡلُ الۡکِتٰبِ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ ؕ مِنۡہُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَ اَکۡثَرُہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ﴿۱۱۰﴾

۱۱۰۔تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی اصلاح) کے لیے پیدا کیے گئے ہو تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو خود ان کے لیے بہتر تھا۔ اگرچہ ان میں سے کچھ لوگ ایمان والے ہیں لیکن ان کی اکثریت فاسق ہے۔

110۔ ہر حکم شرعی جو آپ کے علم میں ہے اسے دوسروں تک پہنچانا واجب ہے۔ آپ کے سامنے ایک شخص گناہ کرتا ہے تو آپ پر واجب ہے کہ اسے روکیں، اگر آپ کے پاس طاقت ہے تو طاقت استعمال کریں ورنہ زبانی طور پر۔ اگر یہ غیر مؤثر ہے تو قلبی کراہت ضروری ہے۔ اسی طرح اگر آپ کے سامنے ایک شخص وضو درست طریقے سے نہیں کر رہا تو آپ پر واجب ہے اسے صحیح طریقہ بتائیں۔ بہترین امت ہونے کا دار و مدار امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر ہے۔ اس پروگرام پر عمل سے اسلام کا انسان ساز اور حیات آفرین نظام عملاً نافذ رہتا ہے۔ تفسیر در منثور میں آیا ہے: خیر امت سے مراد اہل بیت نبی اکرم ﷺ ہیں۔

لَنۡ یَّضُرُّوۡکُمۡ اِلَّاۤ اَذًی ؕ وَ اِنۡ یُّقَاتِلُوۡکُمۡ یُوَلُّوۡکُمُ الۡاَدۡبَارَ ۟ ثُمَّ لَا یُنۡصَرُوۡنَ﴿۱۱۱﴾

۱۱۱۔ یہ لوگ ایذا رسانی کے سوا تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور اگر تمہارے ساتھ لڑائی کی نوبت آئی تو یہ تمہیں پیٹھ دکھا کر بھاگ جائیں گے، پھر انہیں کہیں سے مدد نہیں ملے گی۔

111۔ اگر مسلمان خیر امت کے منصب پر فائز رہنے کی شرط یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تحریک سے وابستہ رہیں تو اس صورت میں تین بشارتیں موجود ہیں: اول یہ کہ دشمن انہیں قابل ذکر ضرر نہیں پہنچا سکیں گے۔ دوم یہ کہ اگر دشمن میدان جنگ میں مسلمانوں کا مقابلہ کریں تو انہیں شکست ہو گی۔ سوم یہ کہ دشمن بے یار و مددگار رہیں گے اور ان کا کوئی حمایتی نہ ہو گا۔ سیاق آیت سے مفہوم ہوتا ہے کہ یہاں دشمن سے مراد اہل کتاب ہیں۔

ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الذِّلَّۃُ اَیۡنَ مَا ثُقِفُوۡۤا اِلَّا بِحَبۡلٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ حَبۡلٍ مِّنَ النَّاسِ وَ بَآءُوۡ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الۡمَسۡکَنَۃُ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ کَانُوۡا یَکۡفُرُوۡنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ یَقۡتُلُوۡنَ الۡاَنۡۢبِیَآءَ بِغَیۡرِ حَقٍّ ؕ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوۡا وَّ کَانُوۡا یَعۡتَدُوۡنَ﴿۱۱۲﴾٭

۱۱۲۔یہ جہاں بھی ہوں گے ذلت و خواری سے دوچار ہوں گے ، مگر یہ کہ اللہ کی پناہ سے اور لوگوں کی پناہ سے متمسک ہو جائیں اور یہ اللہ کے غضب میں مبتلا رہیں گے اور ان پر محتاجی مسلط کر دی گئی ہے، یہ سب اس وجہ سے ہوا کہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے اور انبیاء کو ناحق قتل کرتے تھے۔ ان (جرائم کے ارتکاب) کا سبب یہ ہے کہ وہ نافرمانی اور زیادتی کرتے تھے۔

112۔ سلسلہ کلام اہل کتاب کے بارے میں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے حق میں یہ ذلت و خواری قانون جزیہ وغیرہ نافذ ہونے کی وجہ سے ہو اور اسلامی شریعت کی روسے یہ لوگ ذلیل ٹھہریں، جب تک وہ اسلامی قوانین کی بالادستی قبول نہ کریں یا مسلمانوں کی امان میں پناہ نہ لیں۔ ممکن ہے کہ اللہ ان کی تقدیر کی پیشگوئی فرما رہا ہو کہ یہ لوگ ہمیشہ ذلت و خواری سے دو چار رہیں گے اور اگر انہیں کہیں امن و سکون نصیب ہو گا تو دوسروں کی مہربانی و حمایت سے ہو گا۔ یعنی کبھی اللہ کے قانون کی پناہ میں اور کبھی دوسرے لوگوں کے رحم و کرم کے سہارے سکھ اور چین نصیب ہو سکے گا۔

لَیۡسُوۡا سَوَآءً ؕ مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ اُمَّۃٌ قَآئِمَۃٌ یَّتۡلُوۡنَ اٰیٰتِ اللّٰہِ اٰنَآءَ الَّیۡلِ وَ ہُمۡ یَسۡجُدُوۡنَ﴿۱۱۳﴾

۱۱۳۔ سب برابر نہیں ہیں، اہل کتاب میں کچھ (لوگ) ایسے بھی ہیں جو (حکم خدا پر) قائم ہیں، رات کے وقت آیات خدا کی تلاوت کرتے ہیں اور سر بسجود ہوتے ہیں۔

یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ یُسَارِعُوۡنَ فِی الۡخَیۡرٰتِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ﴿۱۱۴﴾

۱۱۴۔وہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے، نیک کاموں کا حکم دیتے، برائیوں سے روکتے اور بھلائی کے کاموں میں جلدی کرتے ہیں اور یہی صالح لوگوں میں سے ہیں۔

وَ مَا یَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَلَنۡ یُّکۡفَرُوۡہُ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالۡمُتَّقِیۡنَ﴿۱۱۵﴾

۱۱۵۔ اور یہ لوگ نیکی کا جو بھی کام انجام دیں گے اس کی ناقدری نہ ہو گی اور اللہ تقویٰ والوں کو خوب جانتا ہے۔

113 تا115۔ ان آیات میں ایک ممکنہ غلط فہمی کا ازالہ ہے کہ اہل کتاب اور خاص کر یہودیوں کی سیاہ کاریاں دیکھ کر مسلمانوں کے ذہن میں ایک نسلی منافرت اور قومی عصبیت پیدا نہ ہو جائے۔ اس لیے انہیں بتایا گیا کہ تمام اہل کتاب کو یکساں نہ سمجھو اور ان سے نسلی اور قبائلی بنیادوں پر تعصب نہ برتو، کیونکہ ان میں اہل ایمان، صالح اور متقی لوگ بھی ہیں۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَنۡ تُغۡنِیَ عَنۡہُمۡ اَمۡوَالُہُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُہُمۡ مِّنَ اللّٰہِ شَیۡـًٔا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۱۱۶﴾

۱۱۶۔ جنہوں نے کفر اختیار کیا ہے اللہ کے مقابلے میں ان کے اموال اور اولاد بلاشبہ کسی کام نہ آئیں گے اور یہ لوگ جہنمی ہیں، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

مَثَلُ مَا یُنۡفِقُوۡنَ فِیۡ ہٰذِہِ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا کَمَثَلِ رِیۡحٍ فِیۡہَا صِرٌّ اَصَابَتۡ حَرۡثَ قَوۡمٍ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ فَاَہۡلَکَتۡہُ ؕ وَ مَا ظَلَمَہُمُ اللّٰہُ وَ لٰکِنۡ اَنۡفُسَہُمۡ یَظۡلِمُوۡنَ﴿۱۱۷﴾

۱۱۷۔ وہ اس دنیاوی زندگی میں جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس ہوا کی سی ہے جس میں تیز سردی ہو اور وہ ان لوگوں کی کھیتی پر چلے جنہوں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور اسے تباہ کر دے اور اللہ نے ان پر کچھ بھی ظلم نہیں کیا بلکہ یہ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔

116۔ 117۔ان آیات میں دشمنوں کے مالی اور انسانی وسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کے اقتصادی حربوں کے انجام کا ذکر ہے کہ وہ مال و زر کے ذریعے بھی اپنے برے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے اور تخریب کاری پر انہوں نے جتنی دولت صرف کی ہو گی وہ سب رائیگاں جائے گی۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا بِطَانَۃً مِّنۡ دُوۡنِکُمۡ لَا یَاۡلُوۡنَکُمۡ خَبَالًا ؕ وَدُّوۡا مَا عَنِتُّمۡ ۚ قَدۡ بَدَتِ الۡبَغۡضَآءُ مِنۡ اَفۡوَاہِہِمۡ ۚۖ وَ مَا تُخۡفِیۡ صُدُوۡرُہُمۡ اَکۡبَرُ ؕ قَدۡ بَیَّنَّا لَکُمُ الۡاٰیٰتِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ﴿۱۱۸﴾

۱۱۸۔ اے ایمان والو! اپنوں کے سوا دوسروں کو اپنا رازدار نہ بناؤ یہ لوگ تمہارے خلاف شر پھیلانے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے، جس بات سے تمہیں کوئی تکلیف پہنچے وہی انہیں بہت پسند ہے، کبھی تو (ان کے دل کے کینہ و ) بغض کا اظہار ان کے منہ سے بھی ہوتا ہے، لیکن جو (بغض و کینہ) ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے وہ کہیں زیادہ ہے، بتحقیق ہم نے آیات کو واضح کر کے تمہارے لیے بیان کیا ہے۔ اگر تم عقل رکھتے ہو۔

118۔ اسلامی سلطنت کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری اندرونی اور داخلی معاملات کی رازداری ہے۔ کسی دشمن کو مملکت کے امور میں راز دار بنانا مکمل طور پر ممنوع ہے۔ قرآن نے مسلمانوں کو متنبہ کیا ہے کہ دشمن کے عزائم برے ہوتے ہیں اور تمہارے بارے میں وہ ہمیشہ تاک میں رہتے ہیں کہ تمہاری کوئی کمزوری ان کے علم میں آ جائے تو وہ اسے اپنے حق میں اور تمہارے خلاف استعمال کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے۔ قرآن کا یہ حکم ایک ابدی دستور، ایک لازوال نظام کا اہم ستون اور اس جامع نظام حیات کی ایک بنیادی دفعہ ہے جو ناقابل ترمیم و تنسیخ ہے۔ لیکن صد افسوس کہ اس کے باوجود مسلمانوں نے اسلامی دستور کی اس اہم شق پر عمل نہ کیا اور بہت جلد دشمنوں کو کاروبار حکومت میں دخل اندازی کا موقع فراہم کر دیا۔ قرطبی اپنے زمانے کی حالت زار پر نالاں ہیں، لیکن تفسیر منار میں یہ بھی لکھ دیا ہے : ”حضرت عمر کے زمانے ہی میں رومیوں کو منشی بنا کر بہت سے معاملات کا انچارج بنا دیا گیا تھا۔ سلطنتِ عثمانی کے زوال میں اس مسئلے کو سب سے زیادہ دخل رہا کہ اس کے اکثر سفیر غیر مسلم تھے۔“ (المنار 4:84)

ہٰۤاَنۡتُمۡ اُولَآءِ تُحِبُّوۡنَہُمۡ وَ لَا یُحِبُّوۡنَکُمۡ وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡکِتٰبِ کُلِّہٖ ۚ وَ اِذَا لَقُوۡکُمۡ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا ۚ٭ۖ وَ اِذَا خَلَوۡا عَضُّوۡا عَلَیۡکُمُ الۡاَنَامِلَ مِنَ الۡغَیۡظِ ؕ قُلۡ مُوۡتُوۡا بِغَیۡظِکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ﴿۱۱۹﴾

۱۱۹۔ تم لوگ تو اس طرح کے ہو کہ ان سے محبت رکھتے ہو جب کہ وہ تم سے محبت نہیں رکھتے حالانکہ تم پوری (آسمانی) کتاب کو مانتے ہو (مگر تمہاری کتاب کو نہیں مانتے) اور جب وہ تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم ایمان لے آئے ہیں اور جب خلوت میں جاتے ہیں تو تم پر غصے کے مارے انگلیاں کاٹ لیتے ہیں، ان سے کہدیجئے: تم اپنے غصے میں جل مرو، یقینا اللہ سینوں کے راز خوب جانتا ہے۔

119۔ اس آیت میں اہل کتاب کی معاندانہ روش کی ایک پیشگوئی ہے اور مسلمانوں کو تنبیہ بھی کہ تم ان سے محبت کیوں رکھتے ہو۔ اصولاً مسلمانوں کو اہل کتاب سے زیادہ متنفر ہونا چاہیے کیونکہ مسلمان اہل کتاب کے عقائد کا احترام کرتے ہیں، ان کے نبی اور ان کی کتاب کی تصدیق کرتے ہیں لیکن اہل کتاب مسلمانوں کے اعتقادات کا احترام نہیں کرتے، اس کے باوجود مسلمان اہل کتاب سے محبت رکھتے ہیں جب کہ وہ مسلمانوں سے نہ صرف محبت نہیں رکھتے بلکہ ان کے سینے مسلمانوں کے خلاف غیض و غضب سے پر ہوتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ ہمارے معاصر اہل کتاب مسلمانوں کو شدت پسند اور بنیاد پرست ہونے کے طعنے دیتے ہیں۔

اِنۡ تَمۡسَسۡکُمۡ حَسَنَۃٌ تَسُؤۡہُمۡ ۫ وَ اِنۡ تُصِبۡکُمۡ سَیِّئَۃٌ یَّفۡرَحُوۡا بِہَا ؕ وَ اِنۡ تَصۡبِرُوۡا وَ تَتَّقُوۡا لَا یَضُرُّکُمۡ کَیۡدُہُمۡ شَیۡـًٔا ؕ اِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ مُحِیۡطٌ﴿۱۲۰﴾٪

۱۲۰۔اگر تمہیں آسودگی میسر آتی ہے تو (وہ) انہیں بری لگتی ہے اور اگر تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ اس پر خوش ہوتے ہیں اور اگر تم صبر کرو اور تقوی اختیار کرو تو ان کی فریب کاری تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی، بے شک اللہ ان کے تمام اعمال پر احاطہ رکھتا ہے۔

120۔ دشمن کی باطنی خباثت کی نشاندہی ہو رہی ہے اور ساتھ ہی ایک بشارت بھی ہے کہ وہ مسلمانوں کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ البتہ اس کی دو شرائط ہیں: صبر و استقامت اور تقویٰ۔ آج کے مسلمان اپنی عظمت رفتہ کو واپس لینا چاہیں تو قرآن نے اس کا طریقہ کار بتا دیا ہے کہ وہ صبر اور تقویٰ اختیار کریں۔ نہایت تلخ تجربات سے ثابت ہو چکا ہے کہ دشمن کس قدر عیار ہے۔ اس کی طاقت کے مقابلے میں اگر مسلمان طاقت نہیں رکھتے تو ان کی عیاری کا مقابلہ صبر، اسلامی تعلیمات کی پابندی اور تقویٰ ہی کے ذریعے ہو سکتا ہے۔

وَ اِذۡ غَدَوۡتَ مِنۡ اَہۡلِکَ تُبَوِّیٴُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ مَقَاعِدَ لِلۡقِتَالِ ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ﴿۱۲۱﴾ۙ

۱۲۱۔ اور (اے رسول! وہ وقت یاد کرو ) جب آپ صبح سویرے اپنے گھر والوں کے پاس سے نکل کر ایمان والوں کو جنگ کے لیے مختلف مورچوں پر متعین کر رہے تھے اور اللہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

121۔ یہ جنگ احد کا تذکرہ ہے۔ شوال 3 ہجری کے اوائل میں ابو سفیان نے بدر کا بدلہ لینے کے لیے تین ہزار کی فوج لے ک رمدینے پر حملہ آور ہونا چاہا۔ رسول خدا ﷺ ایک ہزار افراد کو لے کر نکلے۔ راستے میں عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر لشکر سے الگ ہو گیا اور مدینے واپس چلا گیا۔ 700 کا لشکر مقابلے کے لیے آمادہ تھا۔ اس میں رسولِ خدا ﷺ نے پچاس تیر اندازوں کو عبداللہ بن جبیر کی سربراہی میں درے پر متعین فرمایا اور تاکید فرمائی کہ اگر ہم مشرکین کو مکّہ تک یا مشرکین ہمیں مدینہ تک دھکیل دیں تو بھی تم نے یہ جگہ نہیں چھوڑنی۔ جنگ شروع ہوئی ابتدائی حملے میں دشمن پسپا ہو گیا۔ مسلمان مال غنیمت پر ٹوٹ پڑے، تیر اندازوں نے بھی درہ چھوڑ دیا۔ خالد بن ولید نے موقع پا کر درے کے عقب سے حملہ کیا اور دوسری طرف سے بھاگا ہوا دشمن بھی پلٹ کر حملہ آور ہوا جس سے لشکر اسلام پراگندہ ہو گیا۔ اکثریت نے راہ فرار اختیار کی اور یہ افواہ بھی اڑ گئی کہ رسول اللہ ﷺ شہید ہو گئے۔ رسول کریم ﷺ کے گرد صرف دس بارہ سرفروش رہ گئے تھے۔ تاریخ طبری کے مطابق رسول کریم ﷺ دشمن کے اہم جتھوں کی نشاندہی فرماتے اور علی علیہ السلام ان پر حملہ کرتے۔ یہاں تک کہ آپ علیہ السلام کی تلوار ٹوٹ گئی تو رسول کریم ﷺ نے اپنی تلوار ذوالفقار عنایت فرمائی۔ جب مسلمانوں کو پتہ چلا کہ حضور ﷺ زندہ ہیں تو سب واپس آگئے۔ اسی اثنا میں حضرت حمزہ علیہ السلام شہید ہو گئے اور ابو سفیان کی زوجہ ہندہ نے حضرت حمزہ علیہ السلام کا جگر چبانے کی کوشش کی۔ اسی لیے اس سلسلۂ نسب کو آکلۃ الاکباد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

وَ اِذۡ غَدَوۡتَ مِنۡ اَہۡلِکَ تُبَوِّیٴُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ مَقَاعِدَ لِلۡقِتَالِ ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ﴿۱۲۱﴾ۙ

۱۲۱۔ اور (اے رسول! وہ وقت یاد کرو ) جب آپ صبح سویرے اپنے گھر والوں کے پاس سے نکل کر ایمان والوں کو جنگ کے لیے مختلف مورچوں پر متعین کر رہے تھے اور اللہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

121۔ یہ جنگ احد کا تذکرہ ہے۔ شوال 3 ہجری کے اوائل میں ابو سفیان نے بدر کا بدلہ لینے کے لیے تین ہزار کی فوج لے ک رمدینے پر حملہ آور ہونا چاہا۔ رسول خدا ﷺ ایک ہزار افراد کو لے کر نکلے۔ راستے میں عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر لشکر سے الگ ہو گیا اور مدینے واپس چلا گیا۔ 700 کا لشکر مقابلے کے لیے آمادہ تھا۔ اس میں رسولِ خدا ﷺ نے پچاس تیر اندازوں کو عبداللہ بن جبیر کی سربراہی میں درے پر متعین فرمایا اور تاکید فرمائی کہ اگر ہم مشرکین کو مکّہ تک یا مشرکین ہمیں مدینہ تک دھکیل دیں تو بھی تم نے یہ جگہ نہیں چھوڑنی۔ جنگ شروع ہوئی ابتدائی حملے میں دشمن پسپا ہو گیا۔ مسلمان مال غنیمت پر ٹوٹ پڑے، تیر اندازوں نے بھی درہ چھوڑ دیا۔ خالد بن ولید نے موقع پا کر درے کے عقب سے حملہ کیا اور دوسری طرف سے بھاگا ہوا دشمن بھی پلٹ کر حملہ آور ہوا جس سے لشکر اسلام پراگندہ ہو گیا۔ اکثریت نے راہ فرار اختیار کی اور یہ افواہ بھی اڑ گئی کہ رسول اللہ ﷺ شہید ہو گئے۔ رسول کریم ﷺ کے گرد صرف دس بارہ سرفروش رہ گئے تھے۔ تاریخ طبری کے مطابق رسول کریم ﷺ دشمن کے اہم جتھوں کی نشاندہی فرماتے اور علی علیہ السلام ان پر حملہ کرتے۔ یہاں تک کہ آپ علیہ السلام کی تلوار ٹوٹ گئی تو رسول کریم ﷺ نے اپنی تلوار ذوالفقار عنایت فرمائی۔ جب مسلمانوں کو پتہ چلا کہ حضور ﷺ زندہ ہیں تو سب واپس آگئے۔ اسی اثنا میں حضرت حمزہ علیہ السلام شہید ہو گئے اور ابو سفیان کی زوجہ ہندہ نے حضرت حمزہ علیہ السلام کا جگر چبانے کی کوشش کی۔ اسی لیے اس سلسلۂ نسب کو آکلۃ الاکباد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

وَ اِذۡ غَدَوۡتَ مِنۡ اَہۡلِکَ تُبَوِّیٴُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ مَقَاعِدَ لِلۡقِتَالِ ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ﴿۱۲۱﴾ۙ

۱۲۱۔ اور (اے رسول! وہ وقت یاد کرو ) جب آپ صبح سویرے اپنے گھر والوں کے پاس سے نکل کر ایمان والوں کو جنگ کے لیے مختلف مورچوں پر متعین کر رہے تھے اور اللہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

121۔ یہ جنگ احد کا تذکرہ ہے۔ شوال 3 ہجری کے اوائل میں ابو سفیان نے بدر کا بدلہ لینے کے لیے تین ہزار کی فوج لے ک رمدینے پر حملہ آور ہونا چاہا۔ رسول خدا ﷺ ایک ہزار افراد کو لے کر نکلے۔ راستے میں عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر لشکر سے الگ ہو گیا اور مدینے واپس چلا گیا۔ 700 کا لشکر مقابلے کے لیے آمادہ تھا۔ اس میں رسولِ خدا ﷺ نے پچاس تیر اندازوں کو عبداللہ بن جبیر کی سربراہی میں درے پر متعین فرمایا اور تاکید فرمائی کہ اگر ہم مشرکین کو مکّہ تک یا مشرکین ہمیں مدینہ تک دھکیل دیں تو بھی تم نے یہ جگہ نہیں چھوڑنی۔ جنگ شروع ہوئی ابتدائی حملے میں دشمن پسپا ہو گیا۔ مسلمان مال غنیمت پر ٹوٹ پڑے، تیر اندازوں نے بھی درہ چھوڑ دیا۔ خالد بن ولید نے موقع پا کر درے کے عقب سے حملہ کیا اور دوسری طرف سے بھاگا ہوا دشمن بھی پلٹ کر حملہ آور ہوا جس سے لشکر اسلام پراگندہ ہو گیا۔ اکثریت نے راہ فرار اختیار کی اور یہ افواہ بھی اڑ گئی کہ رسول اللہ ﷺ شہید ہو گئے۔ رسول کریم ﷺ کے گرد صرف دس بارہ سرفروش رہ گئے تھے۔ تاریخ طبری کے مطابق رسول کریم ﷺ دشمن کے اہم جتھوں کی نشاندہی فرماتے اور علی علیہ السلام ان پر حملہ کرتے۔ یہاں تک کہ آپ علیہ السلام کی تلوار ٹوٹ گئی تو رسول کریم ﷺ نے اپنی تلوار ذوالفقار عنایت فرمائی۔ جب مسلمانوں کو پتہ چلا کہ حضور ﷺ زندہ ہیں تو سب واپس آگئے۔ اسی اثنا میں حضرت حمزہ علیہ السلام شہید ہو گئے اور ابو سفیان کی زوجہ ہندہ نے حضرت حمزہ علیہ السلام کا جگر چبانے کی کوشش کی۔ اسی لیے اس سلسلۂ نسب کو آکلۃ الاکباد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

اِذۡ ہَمَّتۡ طَّآئِفَتٰنِ مِنۡکُمۡ اَنۡ تَفۡشَلَا ۙ وَ اللّٰہُ وَلِیُّہُمَا ؕ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ﴿۱۲۲﴾

۱۲۲۔(یہ اس وقت کی بات ہے) جب تم میں سے دو گروہ بزدلی دکھانے پر آمادہ ہو گئے تھے حالانکہ اللہ ان کا مددگار تھا اور مومنین کو چاہیے کہ اللہ پر توکل کریں۔

وَ لَقَدۡ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدۡرٍ وَّ اَنۡتُمۡ اَذِلَّۃٌ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ﴿۱۲۳﴾

۱۲۳۔ بتحقیق بدر میں اللہ نے تمہاری مدد کی جب تم کمزور تھے،پس اللہ سے ڈرو تاکہ شکر گزار بن جاؤ۔

اِذۡ تَقُوۡلُ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَلَنۡ یَّکۡفِیَکُمۡ اَنۡ یُّمِدَّکُمۡ رَبُّکُمۡ بِثَلٰثَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ مُنۡزَلِیۡنَ﴿۱۲۴﴾ؕ

۱۲۴۔ جب آپ مومنین سے کہ رہے تھے: کیا تمہارے لیے کافی نہیں ہے کہ تمہارا رب تین ہزار فرشتے نازل فرما کر تمہاری مدد کرے ؟

بَلٰۤی ۙ اِنۡ تَصۡبِرُوۡا وَ تَتَّقُوۡا وَ یَاۡتُوۡکُمۡ مِّنۡ فَوۡرِہِمۡ ہٰذَا یُمۡدِدۡکُمۡ رَبُّکُمۡ بِخَمۡسَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ مُسَوِّمِیۡنَ﴿۱۲۵﴾

۱۲۵۔ہاں اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو دشمن جب بھی تم پر اچانک حملہ کر دے تمہارا رب اسی وقت پانچ ہزار نشان زدہ فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا۔

وَ مَا جَعَلَہُ اللّٰہُ اِلَّا بُشۡرٰی لَکُمۡ وَ لِتَطۡمَئِنَّ قُلُوۡبُکُمۡ بِہٖ ؕ وَ مَا النَّصۡرُ اِلَّا مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَکِیۡمِ﴿۱۲۶﴾ۙ

۱۲۶۔ اور یہ بات اللہ نے صرف تمہاری خوشی اور اطمینان قلب کے لیے کی ہے، اور فتح و نصرت صرف اللہ ہی کی جانب سے ہے جو بڑا غالب آنے والا ، حکمت والا ہے۔

لِیَقۡطَعَ طَرَفًا مِّنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَوۡ یَکۡبِتَہُمۡ فَیَنۡقَلِبُوۡا خَآئِبِیۡنَ﴿۱۲۷﴾

۱۲۷۔(اس مدد کا مقصد یہ ہے کہ) کافروں کے ایک دستے کو کاٹ دے یا انہیں ذلیل و خوار کر دے تاکہ وہ نامراد پسپا ہو جائیں۔

127۔ اس غیبی امداد کا مقصد تمہاری روحانی تقویت اور اطمینان قلب ہے اور یہ یقین دلانا کہ فتح و نصرت تو صرف اللہ کی جانب سے ہے تاکہ اس فتح و نصرت سے کافروں کا ایک بازو کٹ جائے یا وہ ذلیل و خوار ہو کر شکست کھا جائیں۔ چنانچہ جنگ بدر میں ایسا ہی ہوا۔ ان کے ستر (70) سرکردہ افراد مارے گئے اور ستر (70) اسیر ہو گئے۔ باقی ذلت و خواری کے ساتھ پسپا ہو گئے۔ یہ سب کچھ اللہ کی تائید کی اہلیت حاصل کرنے پر خود مسلمانوں کے ہاتھوں سے ہوا۔ جیسا کہ سنت الٰہی یہی ہے کہ ارتقاء اور تکامل کے لیے خود بندوں کو آزمائش میں ڈال دیا جاتا ہے، ورنہ اللہ اپنی طاقت استعمال کرے تو نہ آزمائش رہے نہ ارتقاء، بلکہ انسان عاقل کو مکلف بنانے کا فلسفہ ہی ختم ہو جاتا ہے۔

لَیۡسَ لَکَ مِنَ الۡاَمۡرِ شَیۡءٌ اَوۡ یَتُوۡبَ عَلَیۡہِمۡ اَوۡ یُعَذِّبَہُمۡ فَاِنَّہُمۡ ظٰلِمُوۡنَ﴿۱۲۸﴾

۱۲۸۔(اے رسول) اس بات میں آپ کا کوئی دخل نہیں، چاہے تو اللہ انہیں معاف کرے اور چاہے تو سزا دے کیونکہ یہ لوگ ظالم ہیں۔

وَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ یَغۡفِرُ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۲۹﴾٪

۱۲۹۔اور آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اس کا مالک اللہ ہے، اللہ جسے چاہے بخش دے اور جسے چاہے عذاب دے اور اللہ بڑا بخشنے والا، خوب رحم کرنے والا ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡکُلُوا الرِّبٰۤوا اَضۡعَافًا مُّضٰعَفَۃً ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ﴿۱۳۰﴾ۚ

۱۳۰۔ اے ایمان والو! کئی گنا بڑھا چڑھا کر سود نہ کھایا کرو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔

130۔ کچھ حضرات اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ قرآن نے جس سود کو حرام قرار دیا ہے وہ جاہلیت کے زمانے میں رائج سود در سود یعنی سودِ مرکب ہے اور معاملاتی سود حرام نہیں۔ اس پر دلیل یہ دیتے ہیں کہ نزول آیت کے زمانے میں لوگ دو گنا چوگنا سود لیتے تھے اور قرضی سود اور معاملاتی سود میں دگنا چوگنا نہیں ہوتا۔ (الربا فی الاسلام: 52۔ رشید رضا) جواب یہ ہے کہ آیت میں لفظ اَضۡعَافًا ربا کی صفت ہے، سرمائے کی نہیں اور ضعف کی جمع ہے۔ضعف یعنی دو گنا، اَضۡعَافًا یعنی کئی گنا، اقلًا تین دگنے یعنی چھ گنا ہو جائے تو سود حرام ہو جائے گا۔ اس کا کوئی قائل نہیں ہے۔ لہٰذا ماننا پڑے گا کہ آیت کا اشارہ امر واقع کی طرف ہے کہ سود سرمائے کے ساتھ ملا دیا جائے تو اکثر دگنا اور چوگنا ہو جاتا ہے۔

وَ اتَّقُوا النَّارَ الَّتِیۡۤ اُعِدَّتۡ لِلۡکٰفِرِیۡنَ﴿۱۳۱﴾ۚ

۱۳۱۔ اور اس آگ سے بچو جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔

وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ﴿۱۳۲﴾ۚ

۱۳۲۔ اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

132۔ اس آیت کی روسے رحمت خدا کے شامل حال ہونے کے لیے اللہ کی اطاعت کے ساتھ رسول ﷺ کی اطاعت بھی ضروری ہے اگر صرف قرآن کے ذریعے اللہ کی اطاعت کافی ہوتی تو اطاعت رسول ﷺ کا علیحدہ ذکر کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ اسی وجہ سے رسول کی ذمہ داری صرف قرآنی آیات پڑھ کر سنانا نہیں بلکہ قرآن رسول ﷺ کی تین ذمہ داریوں کا ذکر کرتا ہے۔ اول تلاوت آیات، دوم تزکیہ نفس، سوم تعلیم و تربیت۔ اسی لیے قرآن کے کلی احکام کی تفصیل رسول ﷺ کے ذمے ہے جسے ”سنت“ کہتے ہیں۔

وَ سَارِعُوۡۤا اِلٰی مَغۡفِرَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ جَنَّۃٍ عَرۡضُہَا السَّمٰوٰتُ وَ الۡاَرۡضُ ۙ اُعِدَّتۡ لِلۡمُتَّقِیۡنَ﴿۱۳۳﴾ۙ

۱۳۳۔اور اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جانے میں سبقت لو جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، جو اہل تقویٰ کے لیے آمادہ کی گئی ہے۔

الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ وَ الۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۱۳۴﴾ۚ

۱۳۴۔ (ان متقین کے لیے)جو خواہ آسودگی میں ہوں یا تنگی میں ہر حال میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں سے درگزر کرتے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

134۔135۔ متّقین کے اوصاف کا بیان ہے: ٭ وہ آسودگی میں ہوں یا تنگی میں، بہرحال راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں۔ ٭ غصے سے مغلوب نہیں ہوتے۔ ٭ لوگوں سے درگزر کرتے ہیں۔ ٭ لوگوں پر احسان کرتے ہیں۔ ٭ گناہ سرزد ہونے کی صورت میں دو کام کرتے ہیں: ایک تو استغفار کرتے ہیں اور دوسرا اس گناہ کے نزدیک دوبارہ نہیں جاتے: وَ لَمۡ یُصِرُّوۡا ۔

وَ الَّذِیۡنَ اِذَا فَعَلُوۡا فَاحِشَۃً اَوۡ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسۡتَغۡفَرُوۡا لِذُنُوۡبِہِمۡ ۪ وَ مَنۡ یَّغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ اِلَّا اللّٰہُ ۪۟ وَ لَمۡ یُصِرُّوۡا عَلٰی مَا فَعَلُوۡا وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۳۵﴾

۱۳۵۔اور جن سے کبھی نازیبا حرکت سرزد ہو جائے یا وہ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھیں تو اسی وقت خدا کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں اور اللہ کے سوا گناہوں کا بخشنے والا کون ہے؟ اور وہ جان بوجھ کر اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے ہیں۔

اُولٰٓئِکَ جَزَآؤُہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ جَنّٰتٌ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ وَ نِعۡمَ اَجۡرُ الۡعٰمِلِیۡنَ﴿۱۳۶﴾ؕ

۱۳۶۔ ایسے لوگوں کی جزا ان کے رب کی مغفرت اور وہ باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے اور (نیک) عمل کرنے والوں کے لیے کیا ہی خوب جزا ہے۔

قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ سُنَنٌ ۙ فَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَانۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الۡمُکَذِّبِیۡنَ﴿۱۳۷﴾

۱۳۷۔تم سے پہلے مختلف روشیں گزر چکی ہیں پس تم روئے زمین پر چلو پھرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔

137۔ قرآن اقوام عالم کی سرگزشت کا مطالعہ کرنے کے لیے سِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ زمین کے مطالعاتی سفر کی دعوت دیتا ہے۔جابر بادشاہوں، ظالم حکمرانوں اور خونخوار فرعونوں کے باقی ماندہ آثار بتلاتے ہیں کہ کسی زمانے میں ان قصور و محلات میں کچھ لوگ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى کے مدعی تھے اور اپنی ہوس رانی میں بدمست ہو کر انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کیا کرتے تھے اور کسی قسم کی اقدار پر ایمان نہیں رکھتے تھے۔ آج انہی لوگوں کے محلات ویرانوں میں بدل گئے ہیں۔ ان کی ہڈیاں خاک ہو چکی ہیں، جو آنے والی نسلوں کے لیے عبرت بن گئی ہیں۔ انہوں نے چند روزہ عیش و نوش میں اپنی ابدی زندگی کو برباد کیا اور آخرکار اس دنیا کی زندگی بھی ہار بیٹھے۔ آج ان ویرانوں سے ان کی بوسیدہ ہڈیاں آواز دے رہی ہیں کہ دیکھ لو تکذیب کرنے والوں کا کیا انجام ہوا ہے۔

ہٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَ ہُدًی وَّ مَوۡعِظَۃٌ لِّلۡمُتَّقِیۡنَ﴿۱۳۸﴾

۱۳۸۔ یہ (عام) لوگوں کے لیے ایک واضح بیان ہے اور اہل تقویٰ کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے۔

وَ لَا تَہِنُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَ اَنۡتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ﴿۱۳۹﴾

۱۳۹۔ہمت نہ ہارو اور غم نہ کرو کہ تم ہی غالب رہوگے بشرطیکہ تم مومن ہو۔

139۔ جنگ احد میں مسلمانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور ستر (70 ) اہم افراد شہید ہو گئے اور وہ بھی مسلمانوں کے گھروں کے قریب۔ فطری طور پر اس سے مسلمانوں میں بددلی پھیل گئی اور ان کے دلوں میں حزن و ملال چھا گیا۔ اللہ تعالیٰ ان حوصلہ ہارنے والوں کو حوصلہ دیتے ہوئے فرماتا ہے : ٭ اپنے عزم و ارادے میں سستی کو راہ نہ دو۔ ٭ شکست کا زیادہ احساس کر کے اپنے آپ کو حزن و ملال اور غم و اندوہ میں مبتلا نہ رکھو۔ اگر تم نے اپنے ایمان میں پختگی ثابت رکھی اور اس کے نتیجے میں صبر و تقویٰ کا دامن تھامے رکھا تو تم ہی غالب رہو گے۔ اس آیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کے اعمال و مقدرات میں ایمان کا کتنا گہرا اثر اور دخل ہے۔

اِنۡ یَّمۡسَسۡکُمۡ قَرۡحٌ فَقَدۡ مَسَّ الۡقَوۡمَ قَرۡحٌ مِّثۡلُہٗ ؕ وَ تِلۡکَ الۡاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیۡنَ النَّاسِ ۚ وَ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ یَتَّخِذَ مِنۡکُمۡ شُہَدَآءَ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۱۴۰﴾ۙ

۱۴۰۔ اگر تمہیں کوئی زخم لگا ہے تو تمہارے دشمن کو بھی ویسا ہی زخم لگ چکا ہے اور یہ ہیں وہ ایام جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں اور اس طرح اللہ دیکھنا چاہتا ہے کہ مومن کون ہیں اور چاہتا ہے کہ تم میں سے کچھ کو گواہ کے طور پر لیا جائے،کیونکہ اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا۔

140۔حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کے اٹل اصولوں سے مسلمان بھی مستثنیٰ نہیں ہیں۔ اللہ کا وضع کردہ تکوینی و فطری دستور مکمل غیر جانبدار اور سب کے لیے یکساں ہے۔ ایسا نہیں کہ کافر کی تیز دھار تلوار نہ کاٹے اور مسلمان کی کند تلوار کاٹتی رہے۔ قوانین فطرت میں برابری اور تاریخ کے اصولوں میں یکسانیت کی وجہ سے ہی مسلمان امتحان و آزمائش میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اسی امتحان و آزمائش سے انہیں ارتقاء و تکامل کے لیے مواقع میسر آتے ہیں۔ اگر قانون فطرت سب کے لیے یکساں نہ ہو اور مسلمان اس سے مستثنیٰ ہوں تو پھر امتحان و آزمائش کے ذریعے ارتقاء و تکامل کا حصول ممکن نہیں رہے گا۔

وَ لِیُمَحِّصَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ یَمۡحَقَ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۱۴۱﴾

۱۴۱۔نیز اللہ ایمان والوں کو چھانٹنا اور کافروں کو نابود کرنا چاہتا ہے۔

اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تَدۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَعۡلَمِ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ جٰہَدُوۡا مِنۡکُمۡ وَ یَعۡلَمَ الصّٰبِرِیۡنَ﴿۱۴۲﴾

۱۴۲۔ کیا تم (لوگ) یہ سمجھتے ہو کہ جنت میں یونہی چلے جاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے جہاد کرنے والے اور صبر کرنے والے کون ہیں؟

142۔اس آیت میں اس غلط فہمی کا ازالہ ہے جس میں عصر رسول ﷺ کے مسلمان بھی اسی طرح مبتلا تھے جس طرح آج بھی کچھ لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ اسلامی یا ایمانی جماعت میں شامل ہونا کافی ہے، صبر و جہاد یعنی عمل کے ذریعے استحقاق پیدا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

وَ لَقَدۡ کُنۡتُمۡ تَمَنَّوۡنَ الۡمَوۡتَ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَلۡقَوۡہُ ۪ فَقَدۡ رَاَیۡتُمُوۡہُ وَ اَنۡتُمۡ تَنۡظُرُوۡنَ﴿۱۴۳﴾٪

۱۴۳۔ اور موت کے سامنے آنے سے قبل تو تم مرنے کی تمنا کر رہے تھے، سو اب وہ تمہارے سامنے ہے جسے تم دیکھ رہے ہو۔

وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّنۡقَلِبۡ عَلٰی عَقِبَیۡہِ فَلَنۡ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیۡئًا ؕ وَ سَیَجۡزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیۡنَ﴿۱۴۴﴾

۱۴۴۔ اور محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تو بس رسول ہی ہیں، ان سے پہلے اور بھی رسول گزر چکے ہیں، بھلا اگر یہ وفات پا جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ اور جو الٹے پاؤں پھر جائے گا وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا، اور اللہ عنقریب شکر گزاروں کو جزا دے گا۔

144۔مسلمانوں کو جنگ احد میں امتحان کے مراحل سے گزارنے کے بعد جو نتائج سامنے آئے ان کا تذکرہ جاری ہے۔ اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو رسول کریم ﷺ کی شہادت کی افواہ سن کر اپنے ایمان کی دلی کیفیت کو فاش کرتے ہوئے مرتد ہو گئے اور کہنے لگے: اگر محمد ﷺ خدا کے رسول ہوتے تو کبھی قتل نہ ہوتے۔ چنانچہ اصحاب صخرہ نے تو ابوسفیان سے امان نامہ حاصل کرنے کے لیے منافقین کے سربراہ عبد اللہ بن ابی سے رابطہ قائم کرنے کا تہیہ بھی کر لیا تھا۔ قرآن نے جنگ سے فرار کرنے والوں کے لیے ہمیشہ وَلَّیۡتُمۡ مُّدۡبِرِیۡنَ (توبة: 25) ”پیٹھ دکھا کر بھاگ کھڑے ہوئے“ کی تعبیر اختیار کی، لیکن اس آیت میں انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ تم الٹے پاؤں پھر گئے کی تعبیر اختیار کی جو مرتد ہونے کے معنوں میں ہے۔ اس طرح قرآن فرار کے لیے ولی مدبرا اور ارتداد کے لیے انۡقَلَبۡ کا لفظ استعمال فرماتا ہے۔ جیسا کہ سید قطب نے لکھا ہے: یہاں ارتداد سے مراد شکست و فرار نہیں، بلکہ دین و عقیدہ سے ارتداد ہے۔ (فی ظلال القرآن :94)

وَ مَا کَانَ لِنَفۡسٍ اَنۡ تَمُوۡتَ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ کِتٰبًا مُّؤَجَّلًا ؕ وَ مَنۡ یُّرِدۡ ثَوَابَ الدُّنۡیَا نُؤۡتِہٖ مِنۡہَا ۚ وَ مَنۡ یُّرِدۡ ثَوَابَ الۡاٰخِرَۃِ نُؤۡتِہٖ مِنۡہَا ؕ وَ سَنَجۡزِی الشّٰکِرِیۡنَ﴿۱۴۵﴾

۱۴۵۔ اور کوئی جاندار اذن خدا کے بغیر نہیں مر سکتا، اس نے (موت کا) وقت مقرر کر کے لکھ رکھا ہے اور جو (شخص اپنے اعمال کا) صلہ دنیا میں چاہے گا اسے ہم دنیا میں دیں گے اور جو آخرت کے ثواب کا خواہاں ہو گا اسے آخرت میں دیں گے اور ہم عنقریب شکر گزاروں کو اچھا صلہ دیں گے۔

145۔ یہاں میدان جنگ سے بھاگنے والوں کو تنبیہ کرنا بھی مقصود ہے کہ جنگ سے فرار کے ذریعے تم اپنی موت کو ٹال نہیں سکتے۔ لہٰذا موت کے خوف سے فرار اختیار کرنا اس عقیدے کے منافی ہے کہ موت و حیات اللہ کے ہاتھ میں ہے نیز وہ راہ خدا میں قتل ہونے سے بچ کر صرف دنیا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور آخرت کی حیات ابدی کا عقیدہ نہیں رکھتے۔