اِنۡ یَّمۡسَسۡکُمۡ قَرۡحٌ فَقَدۡ مَسَّ الۡقَوۡمَ قَرۡحٌ مِّثۡلُہٗ ؕ وَ تِلۡکَ الۡاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیۡنَ النَّاسِ ۚ وَ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ یَتَّخِذَ مِنۡکُمۡ شُہَدَآءَ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۱۴۰﴾ۙ

۱۴۰۔ اگر تمہیں کوئی زخم لگا ہے تو تمہارے دشمن کو بھی ویسا ہی زخم لگ چکا ہے اور یہ ہیں وہ ایام جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں اور اس طرح اللہ دیکھنا چاہتا ہے کہ مومن کون ہیں اور چاہتا ہے کہ تم میں سے کچھ کو گواہ کے طور پر لیا جائے،کیونکہ اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا۔

140۔حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کے اٹل اصولوں سے مسلمان بھی مستثنیٰ نہیں ہیں۔ اللہ کا وضع کردہ تکوینی و فطری دستور مکمل غیر جانبدار اور سب کے لیے یکساں ہے۔ ایسا نہیں کہ کافر کی تیز دھار تلوار نہ کاٹے اور مسلمان کی کند تلوار کاٹتی رہے۔ قوانین فطرت میں برابری اور تاریخ کے اصولوں میں یکسانیت کی وجہ سے ہی مسلمان امتحان و آزمائش میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اسی امتحان و آزمائش سے انہیں ارتقاء و تکامل کے لیے مواقع میسر آتے ہیں۔ اگر قانون فطرت سب کے لیے یکساں نہ ہو اور مسلمان اس سے مستثنیٰ ہوں تو پھر امتحان و آزمائش کے ذریعے ارتقاء و تکامل کا حصول ممکن نہیں رہے گا۔