آیات 96 - 97
 

اِنَّ اَوَّلَ بَیۡتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیۡ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّ ہُدًی لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۚ۹۶﴾

۹۶۔سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لیے بنایا گیا وہ وہی ہے جو مکہ میں ہے جو عالمین کے لیے بابرکت اور راہنما ہے۔

فِیۡہِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبۡرٰہِیۡمَ ۬ۚ وَ مَنۡ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا ؕ وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الۡبَیۡتِ مَنِ اسۡتَطَاعَ اِلَیۡہِ سَبِیۡلًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۹۷﴾

۹۷۔ اس میں واضح نشانیاں ہیں (مثلاً) مقام ابراہیم اور جو اس میں داخل ہوا وہ امان والا ہو گیا اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو اس گھر تک جانے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس گھر کا حج کرے اور جو کوئی اس سے انکار کرتا ہے تو (اس کا اپنا نقصان ہے) اللہ تو عالمین سے بے نیاز ہے۔

تشریح کلمات

بَیۡتٍ:

( ب ی ت ) رات کا ٹھکانا۔ رات کا قیام ببیوتہ کہلاتا ہے۔ بعد میں لفظ بَيْت ہر مسکن اور مکان کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔

بکۃ:

یعنی مکہ۔ قدیم زمانے میں اس شہر کا نام بکّہ تھا، بعد میں باء میم سے بدل گیا۔ قرآن نے قدیم لفظ استعمال فرما کر خانہ کعبہ کی قدامت کی طرف لطیف اشارہ فرمایا ہے۔ بعض فرماتے ہیں کہ مسجد الحرام کی جگہ کو بکّہ اور پورے حرم کو جس میں دوسرے گھر بھی شامل ہیں مکہ کہا جاتا ہے۔(التبیان ۲: ۵۳۵) یہ اصل میں تباک سے ماخوذ ہے، جس کا معنی اژدھام ہے۔ چونکہ وہاں طواف کے لیے لوگوں کا اژدھام رہتا ہے اسی لیے بکّہ کہا گیا ہے۔

بعض ماہرین کہتے ہیں کہ بکّہ بابلی لفظ ہے، جس کا معنی آبادی ہے۔ جیسے بعلبک یعنی بعل کا شہر۔ ممکن ہے کہ یہ لفظ شروع میں حضرت ابراہیم (ع) نے استعمال کیا ہو، کیونکہ آپؑ بابل سے تشریف لائے تھے۔ چنانچہ قدیم صحیفوں میں اس وادی کا یہی نام مذکور ہے۔

مبارک:

( ب ر ک ) ہر وہ چیز جس میں خیر و برکت پائی جائے۔ برکۃ کسی چیز میں اللہ کی طرف سے اچھائی ثابت ہونے کے معنوں میں ہے۔ اصل میں یہ لفظ برک یعنی اونٹ کا سینہ (جس پر وہ جم کر بیٹھتا ہے) سے ماخوذ ہے۔ یہاں سے ثابت قدمی اور استقامت کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ حوض کو اس لیے برکۃ کہا جاتا ہے کہ وہاں پانی جمع رہتا ہے۔ اسی وجہ سے مبارک خیر و برکت جمع ہونے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے۔

تفسیر آیات

اس آیہ شریفہ میں درج ذیل مباحث قابل توجہ ہیں:

۱۔ یہودیوں کو اعتراض تھا کہ رسول اسلام (ص) نے سابقہ انبیاء کے قبلے یعنی بیت المقدس کو چھوڑ کر اپنے لیے ایک نیا قبلہ بنا لیا ہے۔ اس کے جواب میں فرما یا جا رہا ہے: سب سے پہلا گھر یعنی قبلہ تو کعبہ ہے، جو انبیاء کا قبلہ رہا ہے۔

۲۔ اَوَّلَ بَیۡتٍ: خانہ کعبہ کو اولین خانہ خدا ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اسلامی روایات کی روسے سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے اس گھر کی تعمیر کی۔ بقول بعضے طوفان نوح علیہ السلام کے باعث انہدام کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے دوبارہ تعمیر کیا۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ خانہ کعبہ کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کی۔ توریت میں بھی اس بات کا ذکر موجود ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت ایل یعنی بیت اللہ کی تعمیر کی۔ یہودی اس سے بیت المقدس مراد لیتے ہیں۔ حالانکہ خود یہودیوں کے ہاں یہ امر مسلم ہے کہ بیت المقدس کو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے سینکڑوں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ساڑھے چار سو برس بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا اور انہی کے زمانے میں اسے قبلہ قرار دیا گیا۔

بائبل کی ایک عبارت میں وادی مکہ کا ذکر اس طرح آیا ہے:

وہ بکَّۃ کی وادی میں گزر کرتے ہوئے اسے ایک کنواں بتاتے۔

یہودیوں نے نسلی تعصب کی بنیاد پر اولاد اسماعیل (ع) سے مربوط تمام آثار کو اپنے تحریفی حربوں کے ذریعے اپنی کتب سے حذف کر دیا۔ چنانچہ بکّۃ کا ترجمہ ’’رونے کی وادی‘‘ کر دیا تاکہ کسی کا ذہن سر زمین حجاز میں واقع وادی مکہ کی طرف ہی نہ جائے، جہاں سے نبی آخر الزمان (ص)نے مبعوث ہونا تھا۔ افسوس کا مقام ہے کہ آج بھی بعض اسلامی ممالک سے شائع ہونے والی تاریخ اور حدیث کی کتب سے ان حقائق کو حذف کیا جا رہا ہے جو ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کے وارث آل محمد (ص) کی حقانیت کو ثابت کرتے ہیں اور کسی مخصوص فرقے کے باطل نظریات کے خلاف ہیں۔ ذبیح اللہ کے وارث جس طرح پہلے یہودی نسل پرستی کے ظلم و ستم کا تختہ مشق بنے رہے، اسی طرح آج بھی خود مسلمانوں کے ہاتھوں مظلوم واقع ہو رہے ہیں۔

خانہ کعبہ، حضرت ابراہیم (ع) کی تعمیر سے پہلے بطور بیت اللہ موجود تھا۔ اس پر قرآن کی دو آیتوں سے استدلال کیا جا سکتا ہے:

i. وَ اِذۡ یَرۡفَعُ اِبۡرٰہٖمُ الۡقَوَاعِدَ مِنَ الۡبَیۡتِ وَ اِسۡمٰعِیۡلُ ۔۔۔۔ (۲ بقرہ: ۱۲۷)

اور جب ابراہیم و اسماعیل اس گھر کی بنیادیں اٹھا رہے تھے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بنیادوں کا وجود پہلے سے تھا۔ حضرت ابراہیم (ع) تواس کی صرف تعمیر نو کر رہے تھے۔

ii۔ رَبَّنَاۤ اِنِّیۡۤ اَسۡکَنۡتُ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ بِوَادٍ غَیۡرِ ذِیۡ زَرۡعٍ عِنۡدَ بَیۡتِکَ الۡمُحَرَّمِ ۔۔۔۔ (۱۴ ابراہیم: ۳۷)

اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو تیرے محترم گھر کے نزدیک ایک بنجر وادی میں بسایا۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم جب حضرت اسماعیل علیہما السلام کو طفولیت کے وقت سرزمین مکہ میں بسا رہے تھے، کعبہ اس وقت بطور بیت موجود تھا۔ بعد میں حضرت اسماعیل (ع) کے زمانۂ شباب میں کعبے کی تعمیر نو فرمائی۔

۳۔ مُبٰرَکًا وَّ ہُدًی لِّلۡعٰلَمِیۡنَ: بابرکت اس لیے ہے کہ دنیا کا مقدس ترین خانۂ خدا اور مناسک حج کا مرکز ہونے کی وجہ سے دنیا بھر کے موحدین کے لیے یہ جگہ قابل توجہ اور قابل احترام رہی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ساری دنیا سے لوگ دنیا بھر کی نعمتیں یہاں لاتے ہیں۔ اس طرح لوگوں کی آمد و رفت سے زندگی کے لواز م اور معیشت میں آسودگی آتی رہی ہے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم (ع) کی دعا میں انہی دو باتوں کا تذکرہ ہے:

فَاجۡعَلۡ اَفۡئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہۡوِیۡۤ اِلَیۡہِمۡ وَارۡ زُقۡہُمۡ مِّنَ الثَّمَرٰتِ ۔۔۔۔۔ (۱۴ ابراہیم: ۳۷)

لہٰذا تو کچھ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما۔۔۔۔

ii۔ یُّجۡبٰۤی اِلَیۡہِ ثَمَرٰتُ کُلِّ شَیۡءٍ ۔۔۔ (۲۸ قصص: ۵۷)

جس کی طرف ہر چیز کے ثمرات کھنچے چلے آتے ہیں۔

یعنی باہر سے ہر چیز کے ثمرات اس کی طرف لائے جاتے ہیں۔

۴۔ وَّ ہُدًی لِّلۡعٰلَمِیۡنَ: کعبہ، عالمین کے لیے ہدایت کا مرکز اس لیے ہے کہ عصر ابراہیم (ع) سے بہت پہلے کے زمانے سے لے کر آج تک یہ جگہ بارگاہ تقرب الٰہی اور محل عبادت خداوندی رہی ہے۔ یہاں سے دعوت توحید کی ابتداء ہوئی اور ہجرت ابراہیمی کی انتہا۔ یہ جگہ وحی الٰہی کا محل نزول اور ہادی بشریت،محسن انسانیت کی جائے ظہور ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ آیت ۱۴۲ کی تفسیر۔

۵۔ فِیۡہِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبۡرٰہِیۡمَ: یہ مقام آیات بینات میں شامل ہے، کیونکہ یہ رسول اسلام (ص) کی صداقت اور قبلہ مسلمین کی قداست و قدامت کی واضح دلیل ہے۔ حضرت ابراہیم (ع) کے قدم مبارک کا نشان ایک زندہ ثبوت ہے کہ اس گھر کو ابراہیم خلیل اللہ (ع) نے تعمیر کیا اور یہی انبیاء (ع) کا قبلہ تھا۔ یہ علامات زمانے میں پیش آنے والے بے شمار طبیعی اور حربی حالات کے باوجود آج تک محفوظ اور موجود ہیں۔ جب کہ دوسرے مقامات پر اس سے کمتر حالات میں پورے تمدن کے نشانات مٹ جاتے اور پوری قوم کے آثار ناپید ہوجاتے ہیں۔

۶۔ وَ مَنۡ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا: دوسری نشانی یہ ہے کہ اس گھر کو خطہ امن قرار دیا گیا۔ یعنی قانونی امن فراہم کیا کہ یہاں آنے والا خواہ انسان ہو یا حیوان، مجرم اور قاتل ہو یا جرم و خطا کا مرتکب، اسے امن حاصل ہے۔ یہ دعائے ابراہیم (ع) کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وضع کردہ اس قانونی امن کا ایک نہایت دیرپا اثر انسانوں کے دلوں میں راسخ رہا۔ یہاں تک کہ زمانۂ جاہلیت میں بھی، جہاں تمام اقدار کو پامال کیا جاتا تھا، اس قانونی امن کا احترام ہو تا رہا۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ آیت ۱۲۶۔

۷۔ وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الۡبَیۡتِ مَنِ اسۡتَطَاعَ اِلَیۡہِ سَبِیۡلًا: یہ تیسری نشانی ہے کہ یہ گھر حضرت ابراہیم (ع) سے مربوط ہے اوریہاں حج کا اعلان حضرت ابراہیم(ع) ہی نے کیا تھا:

وَ اَذِّنۡ فِی النَّاسِ بِالۡحَجِّ ۔۔۔۔ (۲۲ حج:۲۷)

اور لوگوں میں حج کے لیے اعلان کرو۔۔۔۔

چنانچہ عصر ابراہیم(ع) سے لے کر آج تک اس گھر کا حج ہو رہا ہے۔ عرب جاہلیت بھی اس تسلسل کو نہیں روک سکی۔ لہٰذا حج کا تواتر کے ساتھ عصر حضرت ابراہیم (ع) سے حضرت محمد (ص) تک جاری رہنا، اس بات کی واضح دلیل ہے کہ رسول کریم (ص)، دین ابراہیم(ع) کے وارث ہیں۔

احادیث

حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ جب آپ (ع) سے فِیۡہِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ کے بارے میں سوال کیا گیا کہ یہ نشانیاں کون سی ہیں تو آپ (ع) نے فرمایا:

مَقَامُ اِبْرَاہِیمَ حِیْثُ قَامَ عَلَی الْحَجَرِ فَاَثَّرَتْ فِیہِ قَدَمَاہُ، وَ الْحَجَرُ الْاَسْوَدُ، وَ مَنْزِلُ اِسْمَاعِیْلَ ع ۔ (اصول الکافی: ۴: ۲۲۳ )

ایک تو مقام ابراہیمؑ ہے، جہاں آپؑ جس پتھر پر کھڑے ہوئے تو اس پر آپؑ کا نقش قدم ثبت ہوگیا۔ دوسرا حجر اسود اور تیسرا مسکن اسماعیلؑ ہے۔

اہم نکات

۱۔ کعبہ سب سے پہلا عبادت خانہ ہے۔ اس کے معمار حضرت ابراہیم (ع) ہیں اور ان کے وارث محمد مصطفی (ص) ہیں۔ اس بات کے تین شواہد موجود ہیں:

الف: مقام ابراہیم (ع) ایک زندہ ثبوت ہے، جس میں آپ (ع) کا نقش قدم ثبت ہے۔

ب: اس گھر میں داخل ہونے والوں کے لیے حضرت ابراہیم (ع) نے امن کا تقاضا کیا تھا جو آج تک ایک قانون کی صورت میں نافذ العمل ہے۔

ج۔ حضرت ابراہیم نے بحکم خدا اس گھر کے حج کا اعلان کیا تھا، جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔

چنانچہ حضرت ابراہیم (ع) کے ساتھ یہودیت کا نہیں، بلکہ دین اسلام کا ربط ثابت ہو جاتا ہے۔


آیات 96 - 97