آیت 120
 

اِنۡ تَمۡسَسۡکُمۡ حَسَنَۃٌ تَسُؤۡہُمۡ ۫ وَ اِنۡ تُصِبۡکُمۡ سَیِّئَۃٌ یَّفۡرَحُوۡا بِہَا ؕ وَ اِنۡ تَصۡبِرُوۡا وَ تَتَّقُوۡا لَا یَضُرُّکُمۡ کَیۡدُہُمۡ شَیۡـًٔا ؕ اِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ مُحِیۡطٌ﴿۱۲۰﴾٪

۱۲۰۔اگر تمہیں آسودگی میسر آتی ہے تو (وہ) انہیں بری لگتی ہے اور اگر تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ اس پر خوش ہوتے ہیں اور اگر تم صبر کرو اور تقوی اختیار کرو تو ان کی فریب کاری تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی، بے شک اللہ ان کے تمام اعمال پر احاطہ رکھتا ہے۔

تفسیرآیات

۱۔ اِنۡ تَمۡسَسۡکُمۡ حَسَنَۃٌ: اگر آسودگی نے اے مؤمنو تمہیں مس کیا ہے۔ کوئی معمولی سی آسودگی آ جائے تو وہ ان کو بری لگتی ہے۔ تم کو اللہ کی طرف سے کوئی نعمت ملتی ہے، مسلمان کو فتح و نصرت ملتی ہے، ان میں اتحاد اور وحدت قائم ہوتی ہے تو یہ ان کو بری لگتی ہے۔

۲۔ وَ اِنۡ تُصِبۡکُمۡ سَیِّئَۃٌ: اگر تم میں اختلاف آ گیا۔ دشمن کے مقابلے میں کہیں پسپائی اختیار کرنا پڑی تو وہ ان کو اچھی لگتی ہے۔

۳۔ وَ اِنۡ تَصۡبِرُوۡا وَ تَتَّقُوۡا: دشمنوں کی اس معاندانہ چال کا مقابلہ کرنے کے لیے تمہیں دو طاقتوں سے کام لینا ہو گا۔ وہ دو طاقتیں صبر اور تقویٰ ہیں۔ صبر کی طاقت سے اس وقت کام لینا ہو گا جب جہاد کا وقت آتا ہے۔ دشمن کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کا وقت آئے، اپنے رسولؐ کے حکم کی تعمیل کرنے کا وقت آئے تو تقویٰ یعنی اپنے بچاؤ کے ذریعے، اللہ کی نافرمانی، رسولؐ کی نافرمانی اور تفرقہ بازی سے بچنے کے ساتھ ان کا مقابلہ ہو سکتا ہے۔

۴۔ لَا یَضُرُّکُمۡ کَیۡدُہُمۡ: ان دو عظیم طاقتوں کے استعمال کی صورت میں ان کی سازش اور عناد تمہیں کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتا۔

اہم نکات

۱۔ دشمن کی فریب کاریوں کو سمجھ کر مناسب اقدامات کے ساتھ ساتھ صبر و تقویٰ کی راہ پر عمل ہو تو کوئی فریب کاری کارگر نہیں ہوتی۔ اسی لیے قرآن دشمن کی سیاہ کاریوں کو بیان کرتا ہے۔

۲۔ دشمن کی سازش صبر آزما ہو گی۔ صبر ہی اس کا حل ہے: وَ اِنۡ تَصۡبِرُوۡا ۔۔۔۔


آیت 120