آیت 105
 

وَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ تَفَرَّقُوۡا وَ اخۡتَلَفُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡبَیِّنٰتُ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ﴿۱۰۵﴾ۙ

۱۰۵۔ اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو واضح دلائل آجانے کے بعد بٹ گئے اور اختلاف کا شکار ہوئے اور ایسے لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہو گا ۔

تفسیر آیات

سابقہ آیت میں بھی ذکر کیاگیا ہے کہ قرآن آیندہ وقوع پذیر ہونے والے حالا ت کے پیش نظر امت کو پیش آنے والے حادثات سے قبل از وقت خبردار کرتا ہے۔ قرآن جب بھی کسی معاملے میں تاکیدی جملوں کے ساتھ تنبیہ کرتا ہے تویہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ یہ حادثہ پیش آنے والا ہے یا اس واقعے کا ارتکاب ہونے والا ہے۔

چنانچہ زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ حضور (ص) کی حیات کے آخری ایام میں ہی یہ اختلاف خود حضور (ص) کے سامنے شروع ہوا اور یہ اختلاف اس قدر بڑھ گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان اختلاف کرنے والوں کو اپنی بارگاہ سے قوموا عنی کہ کر نکال دیا۔ ملاحظہ ہو صحیح بخاری جلد دوم صفحہ ۸۴۶ کتاب المرضی حدیث ۵۶۶۹۔ صحیح مسلم باب ترک الوصیۃ جلد دوم صفحہ ۴۲۔

اس میں وہ اختلاف و افتراق بھی شامل ہے جو قطعی نص کے مقابلے میں ذاتی رائے پر عمل کے ذریعے اجتہاد کے نام سے ہوا کرتا ہے۔

احادیث

رسول اکرم (ص) سے روایت ہے:

اِفْتَرَقَتِ الْیَھُوْدُ عَلَی اِحْدَی وَ سَبْعِیِْنَ فِرْقَۃٍ، وَ تَفَرَّقَتِ النَّصَارَی عَلَی اِثْنَیْنِ وَ سَبْعِیْنَ فِرْقَۃٍ، وَتَفْتَرِقُ اُمَّتِیْ عَلَی ثَلَاثَ وَ سَبْعِیْنَ فِرْقَۃٍ ۔ (سنن ابن ماجہ باب افتراق الامم۔ صحیح ترمذی۔ سنن ابی داؤد باب شرح السنۃ۔)

یہودی اکہتر (۷۱) فرقوں میں بٹ گئے اور نصاریٰ بہتر (۷۲) فرقوں میں اور میری امت تہتر (۷۳) فرقوں میں بٹ جائے گی۔

یہ روایت مختلف عبارات میں مستند شیعہ کتب اور صحاح اہل سنت میں مذکور ہے۔ بعض روایات کے آخر میں ہے: کُلُّھُمْ فِی النَّارِ اِلاَّ وَاحِدَۃً ۔ سب فرقے دوزخی ہوں گے سوائے ایک فرقے کے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مروی ہے:

کُلُّ مَاکَانَ فِیْ الْاُمَمِ السَّالِفَۃِ فَاِنَّہُ یَکُوْنُ فِیْ ھَذِہِ اْلاُمَّۃِ حَذْ وَ النَّعْلِ باِلنَّعْلِ وَ اْلقُذَّۃَ بِالقُذَّۃِ ۔

سابقہ امتوں میں جو کچھ رونما ہوا ہے، وہ اس امت میں بھی قدم بقدم اور نشانہ بہ نشانہ رونما ہو گا۔

یہ روایت بھی تفسیر قمی، اکمال الدین اور صحیح ترمذی وغیرہ میں مختلف عبارتوں سے مذکور ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد پیش آنے والے واقعات کے بارے میں مزید توضیح کے لیے سورہ آل عمران کی آیت ۱۴۴ کے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔

اہم نکات

۱۔ عالم اسلام کی پسماندگی، مسائل اور مشکلات کا سب سے بڑا سبب فرقہ پرستی ہے۔

۲۔ فرمان رسول(ص) کی غلط توجیہ اور افتراق کی ابتدا رسول اللہ (ص) کی زندگی کے آخری لمحات میں ہوئی۔


آیت 105