آیات 135 - 136
 

وَ الَّذِیۡنَ اِذَا فَعَلُوۡا فَاحِشَۃً اَوۡ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسۡتَغۡفَرُوۡا لِذُنُوۡبِہِمۡ ۪ وَ مَنۡ یَّغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ اِلَّا اللّٰہُ ۪۟ وَ لَمۡ یُصِرُّوۡا عَلٰی مَا فَعَلُوۡا وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۳۵﴾

۱۳۵۔اور جن سے کبھی نازیبا حرکت سرزد ہو جائے یا وہ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھیں تو اسی وقت خدا کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں اور اللہ کے سوا گناہوں کا بخشنے والا کون ہے؟ اور وہ جان بوجھ کر اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے ہیں۔

اُولٰٓئِکَ جَزَآؤُہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ جَنّٰتٌ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ وَ نِعۡمَ اَجۡرُ الۡعٰمِلِیۡنَ﴿۱۳۶﴾ؕ

۱۳۶۔ ایسے لوگوں کی جزا ان کے رب کی مغفرت اور وہ باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے اور (نیک) عمل کرنے والوں کے لیے کیا ہی خوب جزا ہے۔

تشریح کلمات

فَاحِشَۃً:

( ف ح ش ) الفحش ۔ وہ قول یا فعل جو قباحت میں حد سے بڑھا ہوا ہو۔

تفسیرآیات

۱۔ اِذَا فَعَلُوۡا فَاحِشَۃً: فاحشۃ اور فحشاء قرآن میں زنا کے لیے استعمال ہوا ہے:

وَ الّٰتِیۡ یَاۡتِیۡنَ الۡفَاحِشَۃَ مِنۡ نِّسَآئِکُمۡ ۔۔۔۔ (۴ نساء: ۱۵)

اور تمہاری عورتوں میں جو بدکاری کی مرتکب ہو جاتی ہیں۔

وَ لَا تَقۡرَبُوا الزِّنٰۤی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً۔ (۱۷ اسراء: ۳۲)

اور زنا کے قریب بھی نہ جاؤ، یقینا یہ بڑی بے حیائی ہے۔

اس لیے اکثر نے فَاحِشَۃً سے زنا مراد لیا ہے، لیکن خود آیت میں اس تقیید پر کوئی قرینہ نہیں ہے، لہٰذا اس سے گناہان کبیرہ مراد لینا بہتر ہے۔

۲۔ اَوۡ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ: ہر گناہ ظلم بہ نفس ہوتا ہے، لہٰذا اس سے گناہان کبیرہ کے علاوہ گناہ مراد لینا مناسب ہے۔

۳۔ ذَکَرُوا اللّٰہَ: گناہ کا ارتکاب کرنے کے بعد اسے اللہ یاد آ جاتا ہے۔ یہ دل کا زندہ ہے۔ گناہ کا احساس ہے، ضمیر بھی بیدار ہے، اس لیے اللہ یاد آتا ہے۔ اللہ کی بندگی کے دائرے میں ہے، اس لیے اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کرنے کے بعد اللہ یاد آتا ہے۔ شرمندہ ہوتا ہے۔

۴۔ فَاسۡتَغۡفَرُوۡا لِذُنُوۡبِہِمۡ: احساس گناہ اس کو استغفار و ندامت کے لیے آمادہ کرتا ہے اور ساتھ اس بات کا ادراک بھی ہے۔ وَمَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللہُ۔ اللہ کے سوا ان گناہوں کا معاف کرنے والا کوئی نہیں۔

۵۔ وَ لَمۡ یُصِرُّوۡا عَلٰی مَا فَعَلُوۡا: آیندہ کے لیے، کبھی بھی دانستہ طور پر ارتکاب مکرر نہ کریں۔

۶۔ وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ: وہ جان بوجھ کر گناہ پر اصرار نہ کریں اور اگر نہیں جانتے تو گناہ نہیں ہے۔ نہ جاننے کی دو صورتیں ہیں: ایک موضوع کا نہ جاننا۔ دوسری صورت حکم کا نہ جاننا۔ جیسے علم نہ تھا گلاس میں شراب ہے۔ شربت سمجھ کر پی لی۔ گناہ نہیں ہے۔ عورت کے بارے میں علم نہ تھا کہ یہ رضاعی بہن ہے، شادی کر لی گناہ نہیں ہے۔ لیکن اگر شراب کے حرام ہونے کا علم نہ ہو اور رضاعی بہن سے شادی کرنا حرام ہونے کا علم نہ ہو تو اگر علم حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہ تھا تو اس کو جاہل قاصر کہتے ہیں، گناہ نہیں ہے، لیکن اگر حکم پر علم حاصل کرنے کا راستہ تھا تو وہ گنہگار ہے۔

۷۔ اُولٰٓئِکَ جَزَآؤُہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ: ایسے بڑے اور چھوٹے گناہوں کے ارتکاب کرنے والوں کے لیے مغفرت ہے۔ ان کے گناہوں سے در گزری ہے اور جنت کے باغات بھی ہیں، جن میں وہ ہمیشہ رہیں

گے۔

۸۔ وَ نِعۡمَ اَجۡرُ الۡعٰمِلِیۡنَ: عمل کے بغیر صرف نسبت سے اجر کی توقع رکھنا یہودیوں کا عقیدہ ہے۔

احادیث

حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

سَیِّئَۃٌ تَسُوْؤُکَ خَیْرٌ مِنْ حَسَنَۃٍ تُعْجِبُکَ ۔ (غرر الحکم ص ۳۰۸۔ باب العجب و ذمہ)

وہ گناہ جو خود تجھے برا لگے، اس نیکی سے بہتر ہے جو تجھے خود پسند بنا دے۔

حضرت امام جعفر صادق (ع) سے منقول ہے:

لاَ صَغِیْرۃَ مَعَ ْالِاصْرَارِ وَلاَ کَبِیْرۃَ مَعَ الْاِسْتِغْفَارِ (اصول الکافی ۲: ۲۸۸۔ المیزان)

تکرار کی صورت میں کوئی گناہ صغیرہ نہیں رہتا (یعنی کبیرہ میں بدل جاتا ہے) اور استغفار کی صورت میں کوئی گناہ کبیرہ نہیں رہتا (یعنی بخش دیا جاتا ہے)۔

حضرت امام جعفر صادق (ع) سے منقول ہے:

لَمَّا نَزَلَتْ ہَذِہِ الْآیَۃُ۔۔۔صَعِدَ اِبْلِیْسُ جَبَلاً بِمَکَّۃَ یُقَالُ لَہٗ ثَوْرٌ فَصَرَخَ بَاَعْْلَی صَوْتِہِ بِعَفَارِیْتِہِ فَاجْتَمَعُوا اِلَیْہِ فَقَالَ: نَزَلَتَْ ہَذِہِ الْآیَۃُ فَمَنْ لَھَا فَقَامَ عِفْرِیتٌ مِنَ الشَّیَاطِیْنِ فَقَالَ اَنَا لَھَا بِکَذَا وَ کَذَا فَقَالَ لَسْتَ لَھَا ثُمَّ قَامَ آخَرُ فَقَالَ مِثْلَ ذَلِکَ فَقَالَ لَسْتَ لَھَا فَقَالَ الْوَسْوَاسُ الْخَنَّاسُ اَنَا لَھَا قَالَ بَمَا ذَا قَالَ اَعِدُھُمْ وَ اُمَنِّیھِمْ حَتَّی یُوَاقِعُوا الْخَطِیئَۃَ فَاِذَا وَاقَعُوا الْخَطِیْئَۃَ اَنْسَیْتُھُمْ الْاِسْتِغْفَارَ فَقَالَ اَنْتَ لَھَا فَوَکَّلَہٗ بِھَا اِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ۔ (وسائل الشیعۃ ۱۶: ۱۶۔ باب وجوب الاستغفار)

جب یہ آیت۔۔۔ نازل ہوئی تو ابلیس مکہ کی ایک پہاڑی پر چڑھ گیا جسے ثور کہتے ہیں اور اس نے اپنے عفریتوں کو بلایا۔ سب نے پو چھا: اے سردار ہمیں کس لیے بلایا ہے؟ ابلیس نے کہا: یہ آیت نازل ہوئی ہے، بتاؤ اس کا علاج کس کے پاس ہے؟ ایک نے کہا: میں اس کا یہ علاج کروں گا۔ ابلیس نے قبول نہ کیا۔ دوسرے عفریت نے کوئی اور طریقہ بتایا۔ ابلیس نے اسے بھی رد کر دیا۔ آخر میں وسواس خناس نے کہا: میں انہیں وعدوں اور آرزؤں میں مبتلا کر دوں گا تاکہ وہ گناہ میں ملوث ہو جائیں، جب وہ گناہ میں ملوث ہو جائیں گے تو میں استغفار بھلوا دوں گا۔ ابلیس نے کہا: یہی طریقہ درست ہے۔ پھر قیامت تک یہ ذمہ داری اس کے سپرد ہو گئی۔

اہم نکات

۱۔ متقی وہ ہے جو توبہ کے بعد پھر گناہ نہ کرے: وَ الَّذِیۡنَ اِذَا فَعَلُوۡا فَاحِشَۃً ۔۔۔ وَ لَمۡ یُصِرُّوۡا عَلٰی مَا فَعَلُوۡا ۔۔۔۔


آیات 135 - 136