آیت 110
 

کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ ؕ وَ لَوۡ اٰمَنَ اَہۡلُ الۡکِتٰبِ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ ؕ مِنۡہُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَ اَکۡثَرُہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ﴿۱۱۰﴾

۱۱۰۔تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی اصلاح) کے لیے پیدا کیے گئے ہو تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو خود ان کے لیے بہتر تھا۔ اگرچہ ان میں سے کچھ لوگ ایمان والے ہیں لیکن ان کی اکثریت فاسق ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ کُنۡتُمۡ: ایک نظریہ کنتم کان تامہ ہے۔ یعنی تم بہترین امت ہو۔ دوسرا نظریہ ہے: کان ناقصہ ۔ تم بہترین تھے۔ یعنی صدر اسلام میں تم بہترین امت تھے۔ امر بمعروف نہی از منکر کرتے تھے۔ وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ تمہارا ایمان باللہ بھی مضبوط تھا۔

ہم نے پہلا نظریہ اختیار کیا۔ چونکہ آیت میں وَ لَوۡ اٰمَنَ اَہۡلُ الۡکِتٰبِ قرینہ بنتا ہے کہ یہ خطاب امت مسلمہ سے ہے کہ اہل کتاب اگر ایمان لے آتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھا۔ وہ اس امت میں شامل ہو جاتے۔

۲۔ خَیۡرَ اُمَّۃٍ: بہترین امت ہونے کا دار و مدار امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے وظیفے کی انجام دہی پر موقوف ہے۔ اس آیت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو امت مسلمہ کی بہتری کی وجہ اور علت کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس میں ساری امت شامل نہیں ہے بلکہ امت کا وہ گروہ مقصود ہے، جو اس ذمہ داری پر عمل کرتا ہے۔ جیسا کہ سابقہ آیت (۱۰۴) میں فرمایا:

وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ ۔۔۔۔ (۳ آل عمران: ۱۰۴)

اور تم میں ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو نیکی کی دعوت دے۔۔۔۔

ان دو عظیم فرائض سے اسلام کاانسان ساز اور حیات آفرین نظام حیات اور دستور زندگی عملاً نافذ رہتا ہے اور نفاذ اسلام کا ذریعہ یہی دو عظیم فرائض ہیں۔ لہٰذا ان دونوں کا ذکر، ایمان سے پہلے کیا گیاہے۔

۳۔ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ: انسانوں کی امامت و رہنمائی کے منصب سے بنی اسرائیل کو معزول کرنے کے بعدجب اس منصب کا تاج امت مسلمہ کے سر پر سجایا گیا تو اس قائدانہ ذمہ داری سونپنے کے بعدیہ اعزاز فرمایا: تم بہترین امت ہو۔ اُخۡرِجَتۡ پیدا کیے گئے، لِلنَّاسِ لوگوں کے لیے۔ یعنی اس امت کی غرض تخلیق یہی ہے کہ لوگوں کی رہنمائی کریں۔

۴۔ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ: امر بمعروف و نہی از منکر کی وجہ سے یہ امت بہترین امت قرار پاتی ہے۔ تاہم یہ کام ایک ایسا مستحسن کام ہے کہ اسے دیگر امتیں بھی اپنا سکتی ہیں۔ لہٰذا بعد میں وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ کی قید سے دیگر امتیں خارج ہو جاتی ہیں، جن میں ایمان نہیں ہے۔ اسی لیے بعد میں فرمایا: وَ لَوۡ اٰمَنَ اَہۡلُ الۡکِتٰبِ اگر ہل ایمان بھی ایمان لے آتے تو ان کے لیے بہتر تھا۔

۵۔ مِنۡہُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ: البتہ اہل کتاب میں سے بعض ایمان لے آئے ہیں۔

۶۔ وَ اَکۡثَرُہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ: اہل کتاب کی اکثریت فاسق ہے۔ اگر ایمان سے مراد اسلام پر ایمان ہے تو فاسق سے مراد خروج از ایمان ہے۔ اگر ایمان سے مراد ایمان بہ دین اہل کتاب لیا جائے تو فاسق سے مراد، ان کے اپنے دین سے نا فرمانی ہو گی۔

وَ لَوۡ اٰمَنَ اَہۡلُ الۡکِتٰبِ: اہل کتاب اگر تمہاری قیادت کو تسلیم کر کے رسول اسلام (ص) پر ایمان لے آتے تو اس میں خود اہل کتاب کی بھلائی تھی اور ایمان کی وجہ سے وہ بھی خیر امت میں شامل ہو جاتے۔

احادیث

در منثور میں مذکور ہے: خیر امت سے مراد اہل بیت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔

اہم نکات

۱۔ ہر اس اچھی بات کا دوسروں تک پہنچانا واجب ہے جو آپ کے علم میں ہے۔

۲۔ ارتکاب گناہ سے روکنا ضروری ہے۔ طاقتور کے لیے طاقت کے ذریعے اور کمزور کے لیے زبانی طور پر واجب ہے اور روکنا غیر مؤثر ہو تو قلبی کراہت ضروری ہے۔

۳۔ اصلاح معاشرہ اور امر بالمعروف کرنے والے ہی بہترین امت ہونے کے حقدار ہیں۔

۴۔ خیر امت کے منصب پر فائز رہنے کی شرط ایمان اور امر بالمعروف ہے۔

۵۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر انفرادی، اجتماعی اور ریاستی فریضہ ہے۔


آیت 110