آیات 98 - 99
 

قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لِمَ تَکۡفُرُوۡنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ٭ۖ وَ اللّٰہُ شَہِیۡدٌ عَلٰی مَا تَعۡمَلُوۡنَ﴿۹۸﴾

۹۸۔کہدیجئے: اے اہل کتاب! تم اللہ کی نشانیوں کا انکار کیوں کرتے ہو جب کہ اللہ تمہارے اعمال کا مشاہدہ کرنے والا ہے۔

قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لِمَ تَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ مَنۡ اٰمَنَ تَبۡغُوۡنَہَا عِوَجًا وَّ اَنۡتُمۡ شُہَدَآءُ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ﴿۹۹﴾

۹۹۔ کہدیجئے : اے اہل کتاب ! تم ایمان لانے والوں کو راہ خدا سے کیوں روکتے ہو؟ تم چاہتے ہو اس راہ میں کجی آئے حالانکہ تم خود اس پر شاہد ہو (کہ وہ راہ راست پر ہیں) اور اللہ تمہاری حرکتوں سے غافل نہیں ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لِمَ تَکۡفُرُوۡنَ: کھانے کی چیزوں کی حرمت و حلیت، کعبے کی قداست و قدامت اور اس کے حضرت ابراہیم (ع) کے ساتھ ربط و نسبت اور دیگر حقائق سے پردہ اٹھانے کے بعد اب ان آیات میں ارشاد ہو رہا ہے کہ اے اہل کتاب تم اللہ کی نشانیوں کے منکر کیوں ہو رہے ہو، حالانکہ تم خود ان کے برحق ہونے پر شاہد ہو۔

لیکن اہل کتاب نہ صرف خود ان آیات کے منکر ہیں بلکہ وہ اسلامی احکام اور قبلۂ مسلمین کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر کے اہل ایمان کو گمراہ کرنے کی گھناؤنی سازش بھی کر رہے ہیں۔

۲۔ وَ اللّٰہُ شَہِیۡدٌ: حالانکہ تمہیں علم ہے یا ہونا چاہیے کہ تمہارے اعمال کی حقیقت پر اللہ گواہ ہے کہ تم اس کفر کا ارتکاب کن محرکات کی بنیاد پر کر رہے ہو۔

۳۔ لِمَ تَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ: اے اہل کتاب اگر تم اسلام کی طرف نہیں آتے ہو اور اسلام کو تم برحق نہیں سمجھتے ہو تو تم خود اسے اپنانے سے پرہیز کرو، دوسروں کو اس راستے پر آنے سے کیوں روکتے ہو؟ ترتیب کلام اس طرح ہے۔ لم تصدون من آمن عن سبیل اللہ ۔ موضوع کلام سبیل اللہ ہونے اور اہمیت سبیل اللہ کو دینے کے لیے اس کا ذکر پہلے کیا ہے۔

۴۔ تَبۡغُوۡنَہَا عِوَجًا: تم راہ خدا میں کجی لانا چاہتے ہو اور اس کے لیے دن رات سازش میں مشغول رہتے ہو ہر قسم کا حربہ استعمال کرتے ہو۔

۵۔ وَّ اَنۡتُمۡ شُہَدَآءُ: حالانکہ تم اس راہ کے برحق ہونے پر شاہد ہو۔ یعنی تم جانتے ہو یہ برحق سبیل اللہ ہے، جس کی بشارت تم اپنی کتابوں میں پڑھ چکے ہو۔


آیات 98 - 99