ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الذِّلَّۃُ اَیۡنَ مَا ثُقِفُوۡۤا اِلَّا بِحَبۡلٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ حَبۡلٍ مِّنَ النَّاسِ وَ بَآءُوۡ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الۡمَسۡکَنَۃُ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ کَانُوۡا یَکۡفُرُوۡنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ یَقۡتُلُوۡنَ الۡاَنۡۢبِیَآءَ بِغَیۡرِ حَقٍّ ؕ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوۡا وَّ کَانُوۡا یَعۡتَدُوۡنَ﴿۱۱۲﴾٭

۱۱۲۔یہ جہاں بھی ہوں گے ذلت و خواری سے دوچار ہوں گے ، مگر یہ کہ اللہ کی پناہ سے اور لوگوں کی پناہ سے متمسک ہو جائیں اور یہ اللہ کے غضب میں مبتلا رہیں گے اور ان پر محتاجی مسلط کر دی گئی ہے، یہ سب اس وجہ سے ہوا کہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے اور انبیاء کو ناحق قتل کرتے تھے۔ ان (جرائم کے ارتکاب) کا سبب یہ ہے کہ وہ نافرمانی اور زیادتی کرتے تھے۔

112۔ سلسلہ کلام اہل کتاب کے بارے میں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے حق میں یہ ذلت و خواری قانون جزیہ وغیرہ نافذ ہونے کی وجہ سے ہو اور اسلامی شریعت کی روسے یہ لوگ ذلیل ٹھہریں، جب تک وہ اسلامی قوانین کی بالادستی قبول نہ کریں یا مسلمانوں کی امان میں پناہ نہ لیں۔ ممکن ہے کہ اللہ ان کی تقدیر کی پیشگوئی فرما رہا ہو کہ یہ لوگ ہمیشہ ذلت و خواری سے دو چار رہیں گے اور اگر انہیں کہیں امن و سکون نصیب ہو گا تو دوسروں کی مہربانی و حمایت سے ہو گا۔ یعنی کبھی اللہ کے قانون کی پناہ میں اور کبھی دوسرے لوگوں کے رحم و کرم کے سہارے سکھ اور چین نصیب ہو سکے گا۔