آیت 111
 

لَنۡ یَّضُرُّوۡکُمۡ اِلَّاۤ اَذًی ؕ وَ اِنۡ یُّقَاتِلُوۡکُمۡ یُوَلُّوۡکُمُ الۡاَدۡبَارَ ۟ ثُمَّ لَا یُنۡصَرُوۡنَ﴿۱۱۱﴾

۱۱۱۔ یہ لوگ ایذا رسانی کے سوا تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور اگر تمہارے ساتھ لڑائی کی نوبت آئی تو یہ تمہیں پیٹھ دکھا کر بھاگ جائیں گے، پھر انہیں کہیں سے مدد نہیں ملے گی۔

تفسیر آیات

اگر مسلمان خیر امت کے منصب پر فائز رہنے کی شرط یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تحریک سے وابستہ رہیں تو اس صورت میں تین بشارتیں موجود ہیں:

اول: لَنۡ یَّضُرُّوۡکُمۡ: دشمن انہیں قابل ذکر ضرر نہیں پہنچا سکیں گے۔

دوم: یُوَلُّوۡکُمُ الۡاَدۡبَارَ: اگر دشمن میدان جنگ میں مسلمانوں کا مقابلہ کریں تو انہیں شکست ہو گی۔

سوم: لَا یُنۡصَرُوۡنَ: یہ کہ دشمن بے یار و مددگار رہیں گے اوران کا کوئی حمایتی نہ ہو گا۔

سیاق آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں دشمن سے مراد اہل کتاب ہیں۔

اہم نکات

۱۔ مسلمانوں کی زبوں حالی کا ایک اہم سبب حکومتی اور معاشرتی سطح پر امر بالمعروف سے روگردانی ہے۔


آیت 111