آیات 113 - 115
 

لَیۡسُوۡا سَوَآءً ؕ مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ اُمَّۃٌ قَآئِمَۃٌ یَّتۡلُوۡنَ اٰیٰتِ اللّٰہِ اٰنَآءَ الَّیۡلِ وَ ہُمۡ یَسۡجُدُوۡنَ﴿۱۱۳﴾

۱۱۳۔ سب برابر نہیں ہیں، اہل کتاب میں کچھ (لوگ) ایسے بھی ہیں جو (حکم خدا پر) قائم ہیں، رات کے وقت آیات خدا کی تلاوت کرتے ہیں اور سر بسجود ہوتے ہیں۔

یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ یُسَارِعُوۡنَ فِی الۡخَیۡرٰتِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ﴿۱۱۴﴾

۱۱۴۔وہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے، نیک کاموں کا حکم دیتے، برائیوں سے روکتے اور بھلائی کے کاموں میں جلدی کرتے ہیں اور یہی صالح لوگوں میں سے ہیں۔

وَ مَا یَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَلَنۡ یُّکۡفَرُوۡہُ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالۡمُتَّقِیۡنَ﴿۱۱۵﴾

۱۱۵۔ اور یہ لوگ نیکی کا جو بھی کام انجام دیں گے اس کی ناقدری نہ ہو گی اور اللہ تقویٰ والوں کو خوب جانتا ہے۔

تشریح کلمات

اٰنَآءَ:

( ا ن ی ) انی یا انوا کی جمع ہے۔ یعنی وقت۔

یُسَارِعُوۡنَ:

( س ر ع ) مسارعت۔ سرعت۔ بروقت اور بلاتاخیر انجام دینا۔ سرعت اور عجلت میں یہ فرق ہے کہ سرعت سستی کے مقابلے میں اور عجلت سنجیدگی کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے۔ لہٰذا سرعت اور مسارعت پسندیدہ اور عجلت ناپسندیدہ عمل ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ لَیۡسُوۡا سَوَآءً: ان آیات میں ایک ممکنہ غلط فہمی کا ازالہ ہے کہ اہل کتاب اور خاص کر یہودیوں کی سیاہ کاریاں دیکھ کر مسلمانوں کے ذہن میں ایک نسلی منافرت اور قومی عصبیت پیدا نہ ہو جائے۔ اس لیے انہیں بتایا گیا کہ تمام اہل کتاب کو یکساں نہ سمجھو اور ان سے نسلی اور قبائلی بنیادوں پر تعصب نہ بر تو، کیونکہ ان میں اہل ایمان، صالح اور متقی لوگ بھی ہیں، جو اپنے غیر محرّف دین پر قائم ہیں۔

۲۔ اُمَّۃٌ قَآئِمَۃٌ: قائم سے مراد حق پر ثابت قدم ہیں۔ یعنی اپنے اپنے انبیاء کے لائے ہوئے دین پر قائم اور ثابت قدم ہیں۔ دوسرے اکثر لوگوں کی طرح منحرف نہیں ہوئے۔ چنانچہ دوسری جگہ فرمایا:

وَ مِنۡ قَوۡمِ مُوۡسٰۤی اُمَّۃٌ یَّہۡدُوۡنَ بِالۡحَقِّ وَ بِہٖ یَعۡدِلُوۡنَ﴿﴾ (۷ اعراف: ۱۵۹)

اور قوم موسیٰ میں ایک جماعت ایسی تھی جو حق کے مطابق رہنمائی اور اسی کے مطابق عدل کرتی تھی۔

۳۔ یَّتۡلُوۡنَ اٰیٰتِ اللّٰہِ: وہ اپنی غیر محرّف کتاب کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں اور ان کے غیر محرّف دین میں رائج دعاؤں سے اللہ کی بارگاہ میں قرب حاصل کرتے ہیں۔

۴۔ یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ: وہ اللہ تعالیٰ کی وحدت پر ایمان لے آئے ہیں۔ شرک نہیں کرتے اور روز آخرت پر بھی ان کا ایمان ہوتا ہے۔ اس لیے وہ اپنی آخرت کو چند سکوں کے عوض فروخت نہیں کرتے۔

۵۔ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ: امر بمعروف اور نہی از منکر کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں۔ اگرچہ اپنی امت میں ان کی کوئی آواز نہیں ہوتی اور قلیل تعداد میں ہونے کی وجہ سے ان کو معاشرے میں کوئی مقام نہیں ملتا، تاہم وہ اپنے فریضہ کو انجام دیتے ہیں۔

۶۔ وَ یُسَارِعُوۡنَ فِی الۡخَیۡرٰتِ: اور بھلائی کے کاموں میں پیش قدم ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ہر مؤمن کا شیوہ ہے۔

۷۔ وَ مَا یَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَلَنۡ یُّکۡفَرُوۡہُ: یہ لوگ جو بھی کارخیر انجام دیں گے اس کی ناقدری نہ ہو گی۔ فَلَنۡ یُّکۡفَرُوۡہُ میں یکفرو ناشکری کے معنوں میں ہے۔ یعنی ان کے کارہائے خیر کو چھپایا نہیں جائے گا۔ اس کے آثار ثواب کی شکل میں ظاہر ہوں گے۔

اہم نکات

۱۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر تمام ادیان الٰہی کا اہم عنصر رہا ہے۔

۲۔ تعصب کا جواب تعصب سے نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ رویے سے دینا چاہیے۔


آیات 113 - 115