یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡکُلُوا الرِّبٰۤوا اَضۡعَافًا مُّضٰعَفَۃً ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ﴿۱۳۰﴾ۚ

۱۳۰۔ اے ایمان والو! کئی گنا بڑھا چڑھا کر سود نہ کھایا کرو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔

130۔ کچھ حضرات اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ قرآن نے جس سود کو حرام قرار دیا ہے وہ جاہلیت کے زمانے میں رائج سود در سود یعنی سودِ مرکب ہے اور معاملاتی سود حرام نہیں۔ اس پر دلیل یہ دیتے ہیں کہ نزول آیت کے زمانے میں لوگ دو گنا چوگنا سود لیتے تھے اور قرضی سود اور معاملاتی سود میں دگنا چوگنا نہیں ہوتا۔ (الربا فی الاسلام: 52۔ رشید رضا) جواب یہ ہے کہ آیت میں لفظ اَضۡعَافًا ربا کی صفت ہے، سرمائے کی نہیں اور ضعف کی جمع ہے۔ضعف یعنی دو گنا، اَضۡعَافًا یعنی کئی گنا، اقلًا تین دگنے یعنی چھ گنا ہو جائے تو سود حرام ہو جائے گا۔ اس کا کوئی قائل نہیں ہے۔ لہٰذا ماننا پڑے گا کہ آیت کا اشارہ امر واقع کی طرف ہے کہ سود سرمائے کے ساتھ ملا دیا جائے تو اکثر دگنا اور چوگنا ہو جاتا ہے۔