وَ اِذۡ غَدَوۡتَ مِنۡ اَہۡلِکَ تُبَوِّیٴُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ مَقَاعِدَ لِلۡقِتَالِ ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ﴿۱۲۱﴾ۙ

۱۲۱۔ اور (اے رسول! وہ وقت یاد کرو ) جب آپ صبح سویرے اپنے گھر والوں کے پاس سے نکل کر ایمان والوں کو جنگ کے لیے مختلف مورچوں پر متعین کر رہے تھے اور اللہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

121۔ یہ جنگ احد کا تذکرہ ہے۔ شوال 3 ہجری کے اوائل میں ابو سفیان نے بدر کا بدلہ لینے کے لیے تین ہزار کی فوج لے ک رمدینے پر حملہ آور ہونا چاہا۔ رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک ہزار افراد کو لے کر نکلے۔ راستے میں عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر لشکر سے الگ ہو گیا اور مدینے واپس چلا گیا۔ 700 کا لشکر مقابلے کے لیے آمادہ تھا۔ اس میں رسولِ خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پچاس تیر اندازوں کو عبداللہ بن جبیر کی سربراہی میں درے پر متعین فرمایا اور تاکید فرمائی کہ اگر ہم مشرکین کو مکّہ تک یا مشرکین ہمیں مدینہ تک دھکیل دیں تو بھی تم نے یہ جگہ نہیں چھوڑنی۔ جنگ شروع ہوئی ابتدائی حملے میں دشمن پسپا ہو گیا۔ مسلمان مال غنیمت پر ٹوٹ پڑے، تیر اندازوں نے بھی درہ چھوڑ دیا۔ خالد بن ولید نے موقع پا کر درے کے عقب سے حملہ کیا اور دوسری طرف سے بھاگا ہوا دشمن بھی پلٹ کر حملہ آور ہوا جس سے لشکر اسلام پراگندہ ہو گیا۔ اکثریت نے راہ فرار اختیار کی اور یہ افواہ بھی اڑ گئی کہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شہید ہو گئے۔ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گرد صرف دس بارہ سرفروش رہ گئے تھے۔ تاریخ طبری کے مطابق رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن کے اہم جتھوں کی نشاندہی فرماتے اور علی علیہ السلام ان پر حملہ کرتے۔ یہاں تک کہ آپ علیہ السلام کی تلوار ٹوٹ گئی تو رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی تلوار ذوالفقار عنایت فرمائی۔ جب مسلمانوں کو پتہ چلا کہ حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زندہ ہیں تو سب واپس آگئے۔ اسی اثنا میں حضرت حمزہ علیہ السلام شہید ہو گئے اور ابو سفیان کی زوجہ ہندہ نے حضرت حمزہ علیہ السلام کا جگر چبانے کی کوشش کی۔ اسی لیے اس سلسلۂ نسب کو آکلۃ الاکباد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

اِذۡ ہَمَّتۡ طَّآئِفَتٰنِ مِنۡکُمۡ اَنۡ تَفۡشَلَا ۙ وَ اللّٰہُ وَلِیُّہُمَا ؕ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ﴿۱۲۲﴾

۱۲۲۔(یہ اس وقت کی بات ہے) جب تم میں سے دو گروہ بزدلی دکھانے پر آمادہ ہو گئے تھے حالانکہ اللہ ان کا مددگار تھا اور مومنین کو چاہیے کہ اللہ پر توکل کریں۔

وَ لَقَدۡ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدۡرٍ وَّ اَنۡتُمۡ اَذِلَّۃٌ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ﴿۱۲۳﴾

۱۲۳۔ بتحقیق بدر میں اللہ نے تمہاری مدد کی جب تم کمزور تھے،پس اللہ سے ڈرو تاکہ شکر گزار بن جاؤ۔

اِذۡ تَقُوۡلُ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَلَنۡ یَّکۡفِیَکُمۡ اَنۡ یُّمِدَّکُمۡ رَبُّکُمۡ بِثَلٰثَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ مُنۡزَلِیۡنَ﴿۱۲۴﴾ؕ

۱۲۴۔ جب آپ مومنین سے کہ رہے تھے: کیا تمہارے لیے کافی نہیں ہے کہ تمہارا رب تین ہزار فرشتے نازل فرما کر تمہاری مدد کرے ؟

بَلٰۤی ۙ اِنۡ تَصۡبِرُوۡا وَ تَتَّقُوۡا وَ یَاۡتُوۡکُمۡ مِّنۡ فَوۡرِہِمۡ ہٰذَا یُمۡدِدۡکُمۡ رَبُّکُمۡ بِخَمۡسَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ مُسَوِّمِیۡنَ﴿۱۲۵﴾ ۞ٙ

۱۲۵۔ہاں اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو دشمن جب بھی تم پر اچانک حملہ کر دے تمہارا رب اسی وقت پانچ ہزار نشان زدہ فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا۔

وَ مَا جَعَلَہُ اللّٰہُ اِلَّا بُشۡرٰی لَکُمۡ وَ لِتَطۡمَئِنَّ قُلُوۡبُکُمۡ بِہٖ ؕ وَ مَا النَّصۡرُ اِلَّا مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَکِیۡمِ﴿۱۲۶﴾ۙ

۱۲۶۔ اور یہ بات اللہ نے صرف تمہاری خوشی اور اطمینان قلب کے لیے کی ہے، اور فتح و نصرت صرف اللہ ہی کی جانب سے ہے جو بڑا غالب آنے والا ، حکمت والا ہے۔

لِیَقۡطَعَ طَرَفًا مِّنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَوۡ یَکۡبِتَہُمۡ فَیَنۡقَلِبُوۡا خَآئِبِیۡنَ﴿۱۲۷﴾

۱۲۷۔(اس مدد کا مقصد یہ ہے کہ) کافروں کے ایک دستے کو کاٹ دے یا انہیں ذلیل و خوار کر دے تاکہ وہ نامراد پسپا ہو جائیں۔

127۔ اس غیبی امداد کا مقصد تمہاری روحانی تقویت اور اطمینان قلب ہے اور یہ یقین دلانا کہ فتح و نصرت تو صرف اللہ کی جانب سے ہے تاکہ اس فتح و نصرت سے کافروں کا ایک بازو کٹ جائے یا وہ ذلیل و خوار ہو کر شکست کھا جائیں۔ چنانچہ جنگ بدر میں ایسا ہی ہوا۔ ان کے ستر (70) سرکردہ افراد مارے گئے اور ستر (70) اسیر ہو گئے۔ باقی ذلت و خواری کے ساتھ پسپا ہو گئے۔ یہ سب کچھ اللہ کی تائید کی اہلیت حاصل کرنے پر خود مسلمانوں کے ہاتھوں سے ہوا۔ جیسا کہ سنت الٰہی یہی ہے کہ ارتقاء اور تکامل کے لیے خود بندوں کو آزمائش میں ڈال دیا جاتا ہے، ورنہ اللہ اپنی طاقت استعمال کرے تو نہ آزمائش رہے نہ ارتقاء، بلکہ انسان عاقل کو مکلف بنانے کا فلسفہ ہی ختم ہو جاتا ہے۔

لَیۡسَ لَکَ مِنَ الۡاَمۡرِ شَیۡءٌ اَوۡ یَتُوۡبَ عَلَیۡہِمۡ اَوۡ یُعَذِّبَہُمۡ فَاِنَّہُمۡ ظٰلِمُوۡنَ﴿۱۲۸﴾

۱۲۸۔(اے رسول) اس بات میں آپ کا کوئی دخل نہیں، چاہے تو اللہ انہیں معاف کرے اور چاہے تو سزا دے کیونکہ یہ لوگ ظالم ہیں۔

وَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ یَغۡفِرُ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۲۹﴾٪

۱۲۹۔اور آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اس کا مالک اللہ ہے، اللہ جسے چاہے بخش دے اور جسے چاہے عذاب دے اور اللہ بڑا بخشنے والا، خوب رحم کرنے والا ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡکُلُوا الرِّبٰۤوا اَضۡعَافًا مُّضٰعَفَۃً ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ﴿۱۳۰﴾ۚ

۱۳۰۔ اے ایمان والو! کئی گنا بڑھا چڑھا کر سود نہ کھایا کرو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔

130۔ کچھ حضرات اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ قرآن نے جس سود کو حرام قرار دیا ہے وہ جاہلیت کے زمانے میں رائج سود در سود یعنی سودِ مرکب ہے اور معاملاتی سود حرام نہیں۔ اس پر دلیل یہ دیتے ہیں کہ نزول آیت کے زمانے میں لوگ دو گنا چوگنا سود لیتے تھے اور قرضی سود اور معاملاتی سود میں دگنا چوگنا نہیں ہوتا۔ (الربا فی الاسلام: 52۔ رشید رضا) جواب یہ ہے کہ آیت میں لفظ اَضۡعَافًا ربا کی صفت ہے، سرمائے کی نہیں اور ضعف کی جمع ہے۔ضعف یعنی دو گنا، اَضۡعَافًا یعنی کئی گنا، اقلًا تین دگنے یعنی چھ گنا ہو جائے تو سود حرام ہو جائے گا۔ اس کا کوئی قائل نہیں ہے۔ لہٰذا ماننا پڑے گا کہ آیت کا اشارہ امر واقع کی طرف ہے کہ سود سرمائے کے ساتھ ملا دیا جائے تو اکثر دگنا اور چوگنا ہو جاتا ہے۔