آیات 128 - 129
 

لَیۡسَ لَکَ مِنَ الۡاَمۡرِ شَیۡءٌ اَوۡ یَتُوۡبَ عَلَیۡہِمۡ اَوۡ یُعَذِّبَہُمۡ فَاِنَّہُمۡ ظٰلِمُوۡنَ﴿۱۲۸﴾

۱۲۸۔(اے رسول) اس بات میں آپ کا کوئی دخل نہیں، چاہے تو اللہ انہیں معاف کرے اور چاہے تو سزا دے کیونکہ یہ لوگ ظالم ہیں۔

وَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ یَغۡفِرُ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۲۹﴾٪

۱۲۹۔اور آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اس کا مالک اللہ ہے، اللہ جسے چاہے بخش دے اور جسے چاہے عذاب دے اور اللہ بڑا بخشنے والا، خوب رحم کرنے والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ لَیۡسَ لَکَ مِنَ الۡاَمۡرِ شَیۡءٌ: الامر سے مراد ممکن ہے وہ چار امور ہوں جن کا ذکر ان دو آیتوں میں آیا ہے۔ یعنی کافروں کے دستے کو کاٹنا اور ان کو ذلیل و خوار کرنا یا انہیں معاف کردینا یا انہیں سزا دینا۔

اس آیت کے شان نزول میں متعدد طرق سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احد کے دن یہ دعا فرمائی: اللھم العن ابا سفیان، اللھم العن الحرث بن ھشام، اللھم العن سہیل بن عمر، اللھم العن صفوان بن امیہ، فنزلت ھذہ الایۃ ۔ تمام مصادر میں یہ روایت اس طرح ہے لیکن ابن کثیر ہمیشہ کی طرح اپنی پسند، نا پسند کی بنیاد پر حدیث میں تحریف کرتے ہیں اور ابو سفیان کا نام حذف کر کے اس جگہ فلانا رکھ دیا۔

سلسلہ کلام سابقہ آیت کے ساتھ مربوط ہے۔ لَیۡسَ لَکَ مِنَ الۡاَمۡرِ شَیۡءٌ ، یہ جملہ معترضہ ہے۔ دونوں آیتوں کو مربوط کیاجائے تو یہ مطلب نکلتا ہے:

اے حبیب! اگر مسلمانوں کو شکست ہوئی تو آپ (ص) اس کے ذمہ دار نہیں۔ اسی طرح فتح و نصرت نصیب ہوئی تو یہ صرف آپ (ص) کے حسن تدبیر کی مرہون منت نہیں ہے۔ کوئی کفر اختیار کرتا ہے یا میدان جہاد سے فرار کرتا ہے تو اس پر آپ (ص) جوابدہ نہیں ہیں۔ کفار کو شکست و خواری سے دوچار کرنا یا انہیں کوئی نقصان پہنچانا یا ان میں سے کسی کو عذاب دینا، یہ سب امور اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔

۲۔ وَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ: کل کائنات اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ وہ اپنی حکیمانہ اور عادلانہ مشیت کے مطابق کسی کو عذاب دیتا ہے اور کسی کو معاف فرماتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ عذاب اور مغفرت صرف اللہ ہی کے اختیار میں ہیں۔


آیات 128 - 129