ہٰۤاَنۡتُمۡ اُولَآءِ تُحِبُّوۡنَہُمۡ وَ لَا یُحِبُّوۡنَکُمۡ وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡکِتٰبِ کُلِّہٖ ۚ وَ اِذَا لَقُوۡکُمۡ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا ۚ٭ۖ وَ اِذَا خَلَوۡا عَضُّوۡا عَلَیۡکُمُ الۡاَنَامِلَ مِنَ الۡغَیۡظِ ؕ قُلۡ مُوۡتُوۡا بِغَیۡظِکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ﴿۱۱۹﴾

۱۱۹۔ تم لوگ تو اس طرح کے ہو کہ ان سے محبت رکھتے ہو جب کہ وہ تم سے محبت نہیں رکھتے حالانکہ تم پوری (آسمانی) کتاب کو مانتے ہو (مگر تمہاری کتاب کو نہیں مانتے) اور جب وہ تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم ایمان لے آئے ہیں اور جب خلوت میں جاتے ہیں تو تم پر غصے کے مارے انگلیاں کاٹ لیتے ہیں، ان سے کہدیجئے: تم اپنے غصے میں جل مرو، یقینا اللہ سینوں کے راز خوب جانتا ہے۔

119۔ اس آیت میں اہل کتاب کی معاندانہ روش کی ایک پیشگوئی ہے اور مسلمانوں کو تنبیہ بھی کہ تم ان سے محبت کیوں رکھتے ہو۔ اصولاً مسلمانوں کو اہل کتاب سے زیادہ متنفر ہونا چاہیے کیونکہ مسلمان اہل کتاب کے عقائد کا احترام کرتے ہیں، ان کے نبی اور ان کی کتاب کی تصدیق کرتے ہیں لیکن اہل کتاب مسلمانوں کے اعتقادات کا احترام نہیں کرتے، اس کے باوجود مسلمان اہل کتاب سے محبت رکھتے ہیں جب کہ وہ مسلمانوں سے نہ صرف محبت نہیں رکھتے بلکہ ان کے سینے مسلمانوں کے خلاف غیض و غضب سے پر ہوتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ ہمارے معاصر اہل کتاب مسلمانوں کو شدت پسند اور بنیاد پرست ہونے کے طعنے دیتے ہیں۔