آیت 144
 

وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّنۡقَلِبۡ عَلٰی عَقِبَیۡہِ فَلَنۡ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیۡئًا ؕ وَ سَیَجۡزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیۡنَ﴿۱۴۴﴾

۱۴۴۔ اور محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تو بس رسول ہی ہیں، ان سے پہلے اور بھی رسول گزر چکے ہیں، بھلا اگر یہ وفات پا جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ اور جو الٹے پاؤں پھر جائے گا وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا، اور اللہ عنقریب شکر گزاروں کو جزا دے گا۔

تشریح کلمات

مُحَمَّدٌ:

( ح م د ) یہ مبارک اسم قرآن مجید میں پہلی مرتبہ آیا ہے۔ مفردات میں راغب اصفہانی لکھتے ہیں: یقال فلان محمد اذا کثرت خصالہ المحمودۃ ۔ محمد صرف اسے کہ سکتے ہیں جو شخص بکثرت قابل ستائش خصائل رکھتا ہو۔ یہ نام عربوں میں رائج نہ تھا اور پہلی بار یہ نام رسول مقبول (ص) سے مخصوص کیا گیا۔

تفسیرآیات

۱۔ وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ: مسلمانوں کو جنگ احد میں امتحان کے مراحل سے گزارنے کے بعد جو نتائج سامنے آئے ،ان کا تذکرہ جاری ہے۔ سابقہ آیت میں فرمایا: احد کی شکست کے ذریعے اللہ یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ مومن کون ہے اور منافق کون؟ اس آیت میں ان لوگوں کاذکر ہے جو رسول کریم (ص) کی شہادت کی افواہ سن کر اپنے ایمان کی دلی کیفیت کو فاش کرتے ہوئے مرتد ہوگئے اور کہنے لگے: اگر محمد (ص) خدا کے رسول ہوتے تو کبھی قتل نہ ہوتے۔ چنانچہ اصحاب صخرہ نے تو ابوسفیان سے امان نامہ حاصل کرنے کے لیے منافقین کے سربراہ عبد اللہ بن ابی سے رابطہ قائم کرنے کا تہیہ بھی کر لیا تھا۔

۲۔ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ: قابل توجہ بات یہ ہے کہ کچھ مسلمان دوسری جنگوں، مثلا حنین اور خیبر میں بھی میدان جنگ سے فرار ہو گئے تھے۔ وہاں ایک مقام پر قرآن نے جنگ سے بھاگنے والوں کے بارے میں کہا:

ثُمَّ وَلَّیۡتُمۡ مُّدۡبِرِیۡنَ (۹ توبہ: ۲۵)

پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے۔

یعنی جنگ سے بھاگنے کا ذکر تو کیا مگر اس فرار کو اسلام سے انحراف اور ارتداد قرارنہیں دیا۔ لیکن احد کی جنگ سے بھاگ جانے والوں کے بارے میں فرمایا: انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ تم الٹے پاؤں پھر گئے، یعنی مرتد ہو گئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ انۡقَلَبۡتُمۡ سے مراد ’’فرار‘‘ نہیں بلکہ ’’ارتداد‘‘ ہے۔

انقلب ، ینقلب ، منقلب ہونا، الٹے پاؤں پھر جانا، یعنی مرتد ہونا۔ جیسا کہ تحویل قبلہ کے بارے میں فرمایا:

عَلَيْہَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَّتَّبِــعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ يَّنْقَلِبُ عَلٰي عَقِبَيْہِ ۔۔ (۲ بقرہ: ۱۴۳)

تاکہ ہم رسول کی اتباع کرنے والوں کو الٹا پھر جانے والوں سے پہچان لیں۔

جن لوگوں نے انقلب کو فرار کا ہم معنی قرار دیا ہے، انہوں نے سیاق و سباق اور نظائر قرآن سے نہایت ناانصافی کی ہے۔ قرآن مجید کے نظائر سے یہ بات واضح ہے کہ قرآن فرار کے لیے وَلّٰی مُدبرا اور ارتداد کو بیان کرنے کے لیے اِنْقَلَب کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تُطِیۡعُوا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یَرُدُّوۡکُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ فَتَنۡقَلِبُوۡا خٰسِرِیۡنَ﴿﴾ (۳ آل عمران : ۱۴۹)

اے ایمان والو! اگر تم نے کفار کی اطاعت کی تو وہ تمہیں الٹا پھیر دیں گے پھر تم (مرتد ہو کر) بڑے خسارے میں پڑ جاؤ گے۔

البتہ اکثر مفسرین نے انصافاً یہ لکھا ہے کہ یہاں یَّنۡقَلِبۡ عَلٰی عَقِبَیۡہِ سے شکست و فرار نہیں بلکہ دین و عقیدے سے ارتداد مراد ہے۔ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ یعنی ارتددتم عن دینکم و ارتددتم کفاراًعن دینکم ۔ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ سے مراد دین سے مرتد ہونا اور کفر اختیار کرنا ہے۔ ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر، تفسیر قرطبی، تفسیر طبری، فی ظلال القرآن وغیرہ وغیرہ۔

۳۔ فَلَنۡ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیۡئًا: مرتد ہونے سے اللہ نہیں، خود مرتد ہونے والے ضرر اٹھاتے ہیں اور ابدی عذاب میں اپنے آپ کو مبتلا کرتے ہیں۔

۴۔ وَ سَیَجۡزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیۡنَ: سے معلوم ہوتا ہے کہ مرتد ہونے والوں کے مقابلے میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو نعمت ایمان پر شاکر اور ثابت قدم رہے۔ البتہ یہ لوگ تھوڑے تھے:

وَ قَلِیۡلٌ مِّنۡ عِبَادِیَ الشَّکُوۡرُ ۔ (۳۴ سبا: ۱۳)

اور میرے بندوں میں شکر کرنے والے کم ہیں۔

بعدی کا مسئلہ: تمام انبیاء (ع) کے لیے ایک مسئلہ درپیش رہا ہے۔ وہ مسئلہ انبیاء (ع) کے بعد کا ہے کہ نبی (ع) کی آنکھ بند ہونے کے بعد اس کی امت میں انحراف شروع ہوتا رہا۔ حضرت موسیٰ (ع) تو ابھی دنیا سے گئے بھی نہیں تھے، صرف چالیس دنوں کے لیے غائب ہوئے، امت کی اکثریت نے دین کے اصول سے انحراف کر کے گوسالہ پرستی شروع کر دی: بِئۡسَمَا خَلَفۡتُمُوۡنِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِیۡ ۔۔۔۔ (۷ اعراف: ۱۵۰۔ تم نے میرے بعد بہت بری جانشینی کی۔) چنانچہ سورہ مریم آیات ۵۸۔ ۵۹ میں فرمایا کہ یہ بات تمام انبیاء (ع) کو اپنے بعد کے لیے درپیش رہی ہے:

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ مِنۡ ذُرِّیَّۃِ اٰدَمَ ٭ وَ مِمَّنۡ حَمَلۡنَا مَعَ نُوۡحٍ ۫ وَّ مِنۡ ذُرِّیَّۃِ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اِسۡرَآءِیۡلَ ۫ وَ مِمَّنۡ ہَدَیۡنَا وَ اجۡتَبَیۡنَا ؕ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُ الرَّحۡمٰنِ خَرُّوۡا سُجَّدًا وَّ بُکِیًّا ﴿ٛ﴾فَخَلَفَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ خَلۡفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَ اتَّبَعُوا الشَّہَوٰتِ فَسَوۡفَ یَلۡقَوۡنَ غَیًّا ﴿﴾

مندرجہ بالا آیات میں تمام انبیاء علیہم السلام کا اجمالی ذکر آیا ہے، چونکہ انبیاء (ع) تین سلسلوں میں آئے ہیں۔ حضرت آدم، حضرت نوح اور حضرت ابراہیم علیہم السلام۔ ان کے ساتھ دیگر برگزیدہ ہستیوں کا بھی ذکر آیا، جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے۔ اس جامع ذکر کے بعد فرمایا: فَخَلَفَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ خَلۡفٌ ۔ (۷ اعراف: ۱۶۹) پھر ان کے بعد ایسے ناخلف ان کے جانشین ہوئے، جنہوں نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشات کی پیروی کی۔ عملاً یہ روش ہمیشہ رہی ہے اور امت محمدی (ص) بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے:

سُنَّۃَ اللّٰہِ فِی الَّذِیۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلُ ۚ وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا﴿﴾ (۳۳ احزاب: ۶۲)

جو پہلے گزر چکے ہیں ان کے لیے بھی اللہ کا یہی دستور رہا ہے اور اللہ کے دستور میں آپ کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔

چنانچہ متعدد احادیث میں بھی آیا ہے کہ جو کچھ گزشتہ امتوں میں پیش آیا ہے وہ اس امت میں بھی پیش آئے گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے: لَتَرْکَبُنَّ سُنَنَ مَنْ کَانَِ قَبْلَکُمْ حَذو النَّعْلِ بالِنَّعْلِ ۔۔۔۔ (کنز العمال حدیث ۲۲۰۵۷۔ تفسیر العیاشی ۱: ۳۰۳) تم سابقہ امتوں کی روش پر قدم بہ قدم چلو گے۔

رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے بعد کے لیے فکرمند تھے۔ اس بات کا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے متعدد مقامات پر متعدد تعبیروں میں اظہار فرمایا ہے۔ ذیل میں ہم اس کا اجمالی ذکر کرتے ہیں:

۱۔ لا تَرْجِعُوا بَعدِیْ کُفَاراً ۔ (الکافی ۷: ۲۷۳)

میرے بعد کافر ہو کر پلٹ نہ جاؤ۔

اس حدیث کو بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے اپنی اپنی صحاح میں نقل کیا ہے۔

۲۔ طبقاتی تفاوت: رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صراحت سے فرمایا کہ تم میرے بعد ترجیحاتی سلوک کا مشاہدہ کرو گے:

سَتَرَوْنَ بَعْدِیْ اِثْرَۃً فَاصْبِرُوْا حَتَّی تَلْقُوْنِیْ ۔

میرے بعد تم ترجیحاتی سلوک کا مشاہدہ کرو گے۔ صبر کرو مجھ سے ملنے تک۔

دوسرے الفاظ میں حضرت ابوذرؓ سے فرمایا:

کَیْفَ اَنْتَ وَ اَئِمَّۃٌ مِنْ بَعْدِیْ لَیَسْتَاْثِرُوْنَ بِہَذَا الْفَیْئِ ۔

تمہارا اس وقت کیا حال ہو گا جب اس مال میں ترجیحی سلوک ہو گا۔

ملاحظہ ہو سنن ابی داؤد باب الخوارج، کنز العمال باب الخمس، صحیح بخاری باب قول النبی اصبر حتی تلقونی، سنن الترمذی باب ما جاء فی الاثرۃ ، سنن نسائی، صحیح مسلم باب الامر بالصبر۔

۳۔ حدیث حوض: قیامت کے دن رسول اللہ (ص) کے چند معاصر حوض کوثر سے ہٹا دیے جائیں گے تو رسول اللہ (ص) فرمائیں گے: یہ میرے ساتھی ہیں تو ان سے کہا جائے گا:

اِنَّکَ لَا تَدْرِیْ مَا اَحْدَثُواْ بَعْدَکَ ۔

آپ کو کیا معلوم کہ آپ کے بعد ان لوگوں نے کیا تبدیلیاں کی ہیں۔

ملاحظہ ہو صحیح بخاری باب اثبات حوض النبی۔ باب الحوض۔ صحیح مسلم ابواب القیامۃ۔ سنن ابن ماجہ۔

امام مالک نے موطا میں ایک حدیث نقل کی ہے جس میں خطاب کر کے صراحت کے ساتھ فرمایا:

وَلَکِنْ لَا اَدْرِیْ مَا تُحْدِثُوْنَ بَعْدِیْ ۔

مجھے کیا معلوم کہ تم میرے بعد کیا تبدیلیاں لانے والے ہو۔

ملاحظہ ہو موطا امام مالک، کتاب الجھاد۔

۴۔ اس کے علاوہ دیگر مقامات میں حضور (ص) نے متعدد واقعات کی طرف اشارہ فرمایا۔ مثلاً:

سَتَکُوْنَ بَعْدِی ہَنَاتٌ وَ ہَنَاتُ ۔ (سنن نسائی باب من فارق الجماعۃ۔ نیز ہنات ای شرور و فساد (السندی)

میرے بعد برائیاں اور فسادات رونما ہوں گے۔

۵۔ سَیَلِیْ اَمُوْرَکُمْ بَعْدِیْ رِجَالٌ یُطْفِؤنَ السُنَّۃَ ۔ (سنن ابن ماجہ باب لا طاعۃ فی معصیۃ اللہ۔)

میرے بعد چند ایسے لوگ بھی تمہارے حاکم بن جائیں گے جو سنت کو پامال کریں گے۔

یَکُوْنُ بَعْدِیْ اَئِمَّۃٌ لَا یَہْتَدُوْنَ بُھِدَایَ وَلاَ یَسْتَنُّوْنَ بِسُنَّتِیْ ۔ (صحیح مسلم باب ملازمۃ جماعۃ المسلمین)

میرے بعد کچھ سربراہ ایسے بھی ہوں گے، جو میری ہدایت کے راستے پر نہیں چلیں گے اور میری سنت کو نہیں اپنائیں گے۔

آخر میں اس روایت پر بحث ختم کرتے ہیں جسے ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اِس آیت کے ذیل میں ذکر کیا ہے:

قال ابو القاسم الطبرانی عن ابن عباس: ان علّیاً کان یقول فی حیاۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ (و آلہ) و سلم اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ و اللہ لا ننقلب علی اعقابنا بعد اذ ہدانا اللہ لئن مات او قتل لا قاتلن علی ما قاتل علیہ حتی اموت و اللہ انی لاخوہ و ولیہ و ابن عمہ و وارثہ فمن احق بہ منی ۔

ابو القاسم طبرانی نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ علی (علیہ السلام) رسول اللہ صلی اللہ علیہ (و آلہ) و سلم کی زندگی میں فرمایا کرتے تھے: اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ۔ یعنی اگر رسول وفات پا جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے۔ قسم بخدا ہم الٹے پاؤں نہیں پھر جائیں گے۔ اگر رسول ؐوفات پا جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو ہم مرنے تک اس بات پر لڑتے رہیں گے، جس بات پر رسول اللہ لڑتے رہے۔ قسم بخدا میں رسول ؐکا بھائی اور ولی، ابن عم اور ان کا وارث ہوں۔ مجھ سے زیادہ سزاوار کون ہے۔

اہم نکات

۱۔ انفرادی مصائب سے دوچار ہونا حق یا باطل پرہونے کی دلیل نہیں ہے بلکہ اہل حق کو مصائب اور اہل باطل کو ناز و نعمت کے ذریعے آزمائش میں ڈالا جاتا ہے۔

۲۔ رسول (ص) کے وصال کے بعد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات میں تبدیلیاں لائی گئیں۔

۳۔ جنگ احد میں شہادت رسول (ص)کی خبر سن کر بہت سے لوگ مرتد ہو گئے: انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ ۔۔۔۔

۴۔ کچھ لوگ ثابت قدم رہے جن کی تعداد کم تھی۔


آیت 144