آیت 118
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا بِطَانَۃً مِّنۡ دُوۡنِکُمۡ لَا یَاۡلُوۡنَکُمۡ خَبَالًا ؕ وَدُّوۡا مَا عَنِتُّمۡ ۚ قَدۡ بَدَتِ الۡبَغۡضَآءُ مِنۡ اَفۡوَاہِہِمۡ ۚۖ وَ مَا تُخۡفِیۡ صُدُوۡرُہُمۡ اَکۡبَرُ ؕ قَدۡ بَیَّنَّا لَکُمُ الۡاٰیٰتِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ﴿۱۱۸﴾

۱۱۸۔ اے ایمان والو! اپنوں کے سوا دوسروں کو اپنا رازدار نہ بناؤ یہ لوگ تمہارے خلاف شر پھیلانے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے، جس بات سے تمہیں کوئی تکلیف پہنچے وہی انہیں بہت پسند ہے، کبھی تو (ان کے دل کے کینہ و ) بغض کا اظہار ان کے منہ سے بھی ہوتا ہے، لیکن جو (بغض و کینہ) ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے وہ کہیں زیادہ ہے، بتحقیق ہم نے آیات کو واضح کر کے تمہارے لیے بیان کیا ہے۔ اگر تم عقل رکھتے ہو۔

تشریح کلمات

بِطَانَۃً:

( ب ط ن ) رازدان۔ بطانۃ، الثوب سے استعارہ ہے۔ یعنی اندر پہننے کا کپڑا جو جسم سے متصل ہو۔

یَاۡلُوۡ:

( ا ل و ) کوتاہی کرتا ہے۔ الوت فی الامر کسی کام میں کوتاہی کرنا۔

خَبَال:

( خ ب ل ) خرابی۔ فاسد ہونا۔ دیوانے کواسی لیے خَبَل کہا جاتا ہے کہ اس کی عقل فاسد اور خراب ہو چکی ہوتی ہے۔

عَنِتُّمۡ:

( ع ن ت ) عَنِت ۔ تکلیف پہنچنا۔

تفسیرآیات

لَا تَتَّخِذُوۡا بِطَانَۃً مِّنۡ دُوۡنِکُمۡ: دوسروں کو اپنا رازدار نہ بناؤ۔ اسلامی سلطنت کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری اندرونی اور داخلی معاملات کی رازداری ہے۔ کسی دشمن کو مملکت کے امور میں راز دار بنانا مکمل طور پر ممنوع ہے۔ قرآن نے مسلمانوں کو متنبہ کیا ہے کہ دشمن کے عزائم برے ہوتے ہیں اور تمہارے بارے میں وہ ہمیشہ تاک میں رہتے ہیں کہ تمہاری کوئی کمزوری ان کے علم میں آ جائے تو وہ اسے اپنے حق میں اور تمہارے خلاف استعمال کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے۔ قرآن کا یہ حکم ایک ابدی دستور، ایک لازوال نظام کا اہم ستون اور اس جامع نظام حیات کی ایک بنیادی دفعہ ہے، جو ناقابل ترمیم و تنسیخ ہے۔

لیکن صد افسوس کہ اس کے باوجود مسلمانوں نے اسلامی دستور کی اس اہم شق پر عمل نہ کیا اور بہت جلد دشمنوں کو کاروبار حکومت میں دخل اندازی کا موقع فراہم کر دیا۔ قرطبی اپنے زمانے کی حالت زار پر نالاں ہے۔ حالانکہ دشمنوں کو اسلامی مملکت کا راز دان بنانے کا عمل حضرت عمر کی خلافت کے زمانے سے شروع ہوا تھا۔ جیسا کہ سید رشید رضا تفسیر المنارمیں لکھتے ہیں:

حضرت عمر کے زمانے میں ہی رومیوں کو منشی بنا کر انہیں بہت سے معاملات کا انچارج بنا یا گیا تھا۔

آج کل تو معاملہ برعکس ہے۔ خودمسلمان اپنے راز ہائے مملکت سے اتنے واقف نہیں جتنے ان کے دشمن ہیں۔ اسلامی تخت سلطنت پر متمکن احساس کمتری میں مبتلا لوگ اغیار کو رازداں بنانے میں تامل نہیں کرتے بلکہ اغیار ان کے لیے زیادہ قابل اعتماد ہوتے ہیں۔ عثمانی سلطنت کے زوال میں یہ مسئلہ سب سے زیادہ دخیل رہا تھا، کیونکہ اس وقت اکثر سفیر غیر مسلم تھے۔(تفسیر المنار: ۴۴:۸)

تعجب کا مقام تو یہ ہے کہ بعض مفسرین اس کے جواز میں مندرجہ ذیل آیت پیش کرتے ہیں۔ (تفسیر المنار: ۴۴:۸)

لَا یَنۡہٰىکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یُقَاتِلُوۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ لَمۡ یُخۡرِجُوۡکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ اَنۡ تَبَرُّوۡہُمۡ وَ تُقۡسِطُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ﴿﴾ (۶۰ ممتحنہ: ۸)

جن لوگوں نے دین کے بارے میں تم سے جنگ نہیں کی اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اللہ تمہیں ان کے ساتھ احسان کرنے اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا، اللہ یقینا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

حالانکہ اس آیت کا تعلق غیر مسلم اقلیت کے ساتھ اسلامی سلطنت کے برتاؤ اور عدل و انصاف سے ہے، جب کہ ہماری مورد بحث آیت دشمنوں کو راز دار بنانے اور انہیں امور مملکت میں دخل اندازی کا حق نہ دینے سے متعلق ہے۔

اس کے بعد اغیار کے بارے میں چند ایک اہم نکات کی طرف امت کو متنبہ فرمایا:

۱۔ لَا یَاۡلُوۡنَکُمۡ خَبَالًا: یہ دشمن تمہارے اندر شر اور فساد پھیلانے میں کوئی کوتاہی نہیں کریں گے۔

یعنی تمہاری کسی کمزوری سے فائدہ اٹھانے اور کسی فرصت اور موقع کی تاک میں بیٹھنے میں کوتاہی نہیں کریں گے۔ وہ تمہارے خلاف ہر سازش کے لیے چاک و چوبند رہیں گے۔

۲۔ وَدُّوۡا مَا عَنِتُّمۡ: انہیں وہی باتیں پسند ہیں جن سے تمہیں تکلیف پہنچے۔ لہٰذا وہ ہر اس کام کو بڑی تندہی سے انجام دیں گے جو تمہیں تکلیف دے۔ انسان سوز مظالم کا ارتکاب کر کے لطف اندوز ہونا آج بھی ان کا شیوہ ہے۔

۳۔ قَدۡ بَدَتِ الۡبَغۡضَآءُ مِنۡ اَفۡوَاہِہِمۡ: تم میں اگر فہم و شعور ہے تو ان کی عداوت کا اظہار ان کے منہ سے ہوتا رہتا ہے جو تم کو ہوشیار رکھنے کے لیے کافی ہے۔

۴۔ وَ مَا تُخۡفِیۡ صُدُوۡرُہُمۡ اَکۡبَرُ: ان کی زبان سے مسلمانوں کے بارے میں جس بغض و عداوت کا اظہار ہوتا ہے، وہ اس بغض و عداوت کے مقابلے میں بہت تھوڑی ہے، جو ان کے دلوں میں ہے۔ لہٰذا چاہیے تو یہ تھا کہ ان کی زبان سے جس عداوت کا اظہار ہوتا ہے، اس سے کہیں زیادہ مسلمان ان سے ہوشیار رہیں، لیکن ایسا نہیں ہے۔ اگلی آیت میں کوتاہی کی طرف اشارہ ہے۔

۵۔ قَدۡ بَیَّنَّا لَکُمُ الۡاٰیٰتِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ: اگر تم عقل سے کام لینے والے ہو تو ہم نے تمہیں اپنے خطرناک دشمن سے بچنے کے لیے بروقت آگاہ کیاہے۔

اہم نکات

۱۔ کفار کو دوست اور رازدار بنانا قرآنی نصیحتوں کے خلاف ہے۔

۲۔ اسلامی ریاست میں غیروں کو رازدان بنانے کا آغاز عصر خلفاء میں ہوا۔


آیت 118