آیت 112
 

ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الذِّلَّۃُ اَیۡنَ مَا ثُقِفُوۡۤا اِلَّا بِحَبۡلٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ حَبۡلٍ مِّنَ النَّاسِ وَ بَآءُوۡ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الۡمَسۡکَنَۃُ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ کَانُوۡا یَکۡفُرُوۡنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ یَقۡتُلُوۡنَ الۡاَنۡۢبِیَآءَ بِغَیۡرِ حَقٍّ ؕ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوۡا وَّ کَانُوۡا یَعۡتَدُوۡنَ﴿۱۱۲﴾٭

۱۱۲۔یہ جہاں بھی ہوں گے ذلت و خواری سے دوچار ہوں گے ، مگر یہ کہ اللہ کی پناہ سے اور لوگوں کی پناہ سے متمسک ہو جائیں اور یہ اللہ کے غضب میں مبتلا رہیں گے اور ان پر محتاجی مسلط کر دی گئی ہے، یہ سب اس وجہ سے ہوا کہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے اور انبیاء کو ناحق قتل کرتے تھے۔ ان (جرائم کے ارتکاب) کا سبب یہ ہے کہ وہ نافرمانی اور زیادتی کرتے تھے۔

(؎ حضرت حذیفہ کی تحریک پر عہد عثمانی میں امت کو ایک قرائت پر متحد کر کے ایک رہنما نسخہ تیار کیا گیا تو اس میں یہاں خلاف قاعدہ واو کے بعد الف نہیں ہے۔چونکہ قاعدۃً و بآء وا ہونا چاہیے۔ اس قسم کی املائی خلاف قاعدہ اور بھی ہیں۔ مثلاً سورہ نمل آیت ۲۱ میں لاَذْبَحَنَّہ کی جگہ لَااَذْبَحَنَّہ ہے اور سورہ آل عمران آیت ۱۵۸ میں لَاِلَی اللّٰہ کی بجائے لَاِالَی اللّٰہ ہے۔ اس قسم کی دیگر مثالیں بھی ہیں۔ لیکن امت نے ان خلاف قاعدہ املاء کی بھی تصحیح اس خوف کی وجہ سے نہیں کی کہ بعد میں لوگ تصحیح کے نام سے قرآن میں تبدیلی نہ لائیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امت قرآن نے قرآن کے تحفظ کے لیے کس قدر احتیاط سے کام لیا ہے۔)

تفسیر آیات

۱۔ ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الذِّلَّۃُ: سلسلہ کلام اہل کتاب کے بارے میں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے حق میں یہ ذلت و خواری قانون جزیہ وغیرہ نافذ ہونے کی وجہ سے ہو اور اسلامی شریعت کی روسے یہ لوگ ذلیل ٹھہریں، جب تک وہ اسلامی قوانین کی بالادستی قبول نہ کریں یا مسلمانوں کی امان میں پناہ نہ لیں۔

ممکن ہے کہ اللہ ان کی تقدیر کی پیشگوئی فرما رہا ہو کہ یہ لوگ ہمیشہ ذلت و خواری سے دوچار رہیں گے۔

۲۔ اَیۡنَ مَا ثُقِفُوۡۤا: وہ جہاں کہیں بھی ہوں گے۔ مشرق میں ہوں یا مغرب میں، ذلت و خواری ان کا مقدر ہو گا۔ یہ ذلت و مسکنت صاحب المیزان کے نزدیک تشریعی ہے کہ ان کو قانونی بالا دستی نصیب نہ ہو گی اور ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں ان کی ذلت و خواری کی پیشگوئی ہو۔

۳۔اِلَّا بِحَبۡلٍ مِّنَ اللّٰہِ: ان کو اگر ذلت و خواری سے نجات ملے گی تو بِحَبۡلٍ مِّنَ اللّٰہِ سے ملے گی۔ حبل رسی کو کہتے ہیں جو عہد من اللہ کے معنوں میں ہیں۔ یعنی اللہ کے قانون سے عدم بغاوت سے عبارت ہے۔ وَ حَبۡلٍ مِّنَ النَّاسِ مؤمنوں سے امن کا معاہدہ ہو جائے تو ان کو امن و سکون ملے سکے گا اور اگر انہیں کہیں امن و سکون نصیب ہو گا تودوسروں کی مہربانی و حمایت سے ہو گا۔ یعنی کبھی اللہ کے قانون کی پناہ میں اور کبھی دوسرے لوگوں کے رحم و کرم کے سہارے سکھ اور چین نصیب ہو سکے گا۔

اس آیت میں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اس میں بعض گناہوں کو دیگر جرائم کے ارتکاب کے سبب اور زینے کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔

۴۔ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ کَانُوۡا یَکۡفُرُوۡنَ : یہ ذلت و خواری ان کے کفر اور انبیاء کے ناحق قتل کی وجہ سے ان کو نصیب ہوئی۔

۵۔ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوۡا: کفر و قتل کے پیچھے جو سبب کارفرما تھا وہ ان کی معصیت ہے۔ خلاصہ یہ ہے: یہ لوگ ذلت و خواری، غضب الٰہی اور فقر و مسکینی سے دوچار ہوئے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ وہ اللہ کی آیات کا انکار اور انبیاء کو ناحق قتل کرتے تھے۔

ان کے کفر و قتل کا سبب و ہ معصیت اور زیادتی ہے جسے انہوں نے اپنارکھا تھا۔

اہم نکات

۱۔ چھوٹے گناہوں کو اہمیت نہ دیتے ہوئے ان کے مکرر ارتکاب سے بڑے جرائم کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔

۲۔ ایمان و عمل صالح باعث عزت، جب کہ کفر و عصیان باعث ذلت ہے۔

۳۔ ذلت اور زبوں حالی سے نجات کا واحد راستہ خالق و مخلوق دونوں سے مثبت ومستحکم روابط برقرار رکھنا ہے۔


آیت 112