آیت 143
 

وَ لَقَدۡ کُنۡتُمۡ تَمَنَّوۡنَ الۡمَوۡتَ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَلۡقَوۡہُ ۪ فَقَدۡ رَاَیۡتُمُوۡہُ وَ اَنۡتُمۡ تَنۡظُرُوۡنَ﴿۱۴۳﴾٪

۱۴۳۔ اور موت کے سامنے آنے سے قبل تو تم مرنے کی تمنا کر رہے تھے، سو اب وہ تمہارے سامنے ہے جسے تم دیکھ رہے ہو۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَقَدۡ کُنۡتُمۡ تَمَنَّوۡنَ الۡمَوۡتَ: گزشتہ آیت میں آزمائش و امتحان کا ذکر ہوا۔ اب اس آیت میں یہ فلسفہ بیان ہو رہا ہے کہ امتحان کیوں لیا جاتاہے۔ یہ اس لیے کہ جنگ سے پہلے جو لوگ زبانی دعویٰ کرتے ہوئے شہادت کی تمنا کرتے ہیں، عملی میدا ن میں وہ اسی قدر پیچھے ہوتے ہیں، بلکہ جنگ کے میدان سے فرار اختیار کرتے ہیں۔ چنانچہ جو لوگ بعد میں حاضر نہیں تھے، وہ جنگ بدر کے بعد شہادت کی تمنا کرتے تھے لیکن یہی لوگ جنگ احد میں فرار کی راہ اختیار کر گئے۔ اگر امتحان نہ ہوتا تو فرار اور جہاد کرنے والوں میں امتیاز کیسے ہوتا اور ثواب و عقاب کا استحقاق کیسے پیدا ہوتا۔

اہم نکات

۱۔ شوق شہادت کے دعوؤں کی حقیقت تب عیاں ہوتی ہے جب موت سامنے آ جائے۔

۲۔ اگر آزمائش نہ ہو تی تو فرار کرنے اور ثابت قدم رہنے والوں میں امتیاز قائم نہ ہوتا۔


آیت 143