آیات 132 - 133
 

وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ﴿۱۳۲﴾ۚ

۱۳۲۔ اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

وَ سَارِعُوۡۤا اِلٰی مَغۡفِرَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ جَنَّۃٍ عَرۡضُہَا السَّمٰوٰتُ وَ الۡاَرۡضُ ۙ اُعِدَّتۡ لِلۡمُتَّقِیۡنَ﴿۱۳۳﴾ۙ

۱۳۳۔اور اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جانے میں سبقت لو جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، جو اہل تقویٰ کے لیے آمادہ کی گئی ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ: پہلی آیت میں ان لوگوں کے لیے تنبیہ ہے جو تمام مسائل کا حل صرف قرآن میں تلاش کرتے ہیں اور سنت کو یا توقبول ہی نہیں کرتے یا اپنی خواہشات کے مطابق اس کی توجیہ و تاویل کرتے ہیں۔ جیساکہ ربا کے بارے میں کچھ حضرات نے رسول اللہ (ص) کے تاکیدی حکم میں بھی توجیہ و تاویل سے کام لیا۔ اس آیت کی رو سے رحمت خدا کے شامل حال ہونے کے لیے اللہ کی اطاعت کے ساتھ رسول (ص) کی اطاعت بھی ضروری ہے۔ اگراللہ کی اطاعت ہی کافی ہوتی تو اطاعت رسول (ص) کو علیحدہ بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول(ص) کی ذمہ داری صرف آیات کا پڑھ کر سنانا ہی نہیں، بلکہ قرآن کی رو سے رسول (ص) کی تین ذمہ داریاں ہیں: i۔ تلاوت آیات ii۔ تزکیہ نفوس اورiii۔ تعلیم و تربیت:

یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ۔۔ (۶۲ جمعہ: ۲)

انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاکیزہ کرتا اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔

تعلیم کتاب سے مراد لفظی تشریح و تفسیر نہیں ہے بلکہ قرآن کے کلی احکام کی تفصیل اور مجمل احکام کی وضاحت ہے۔ جیسے اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ میں نماز کی تفصیل اور اٰتُوا الزَّکٰوۃَ میں زکوٰۃ کی تفصیل، لَا تَاۡکُلُوا الرِّبٰۤوا میں حرمت ربا کی تفصیل و توضیح وغیرہــ۔ اسی طرح رسول (ص) کی اطاعت سے ہی اللہ کی اطاعت ہو سکتی ہے۔ رسول (ص) کی اطاعت، اللہ کی اطاعت سے ہٹ کر کوئی دوسری چیز نہیں ہے۔ چنانچہ فرمایا:

مَنۡ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدۡ اَطَاعَ اللّٰہَ ۔۔۔(۴ نساء: ۸۰)

جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔

۲۔ وَ سَارِعُوۡۤا: دوسری آیت میں فرمایا: رب کی بخشش اور عفو کی طرف جانے میں سبقت لو۔ مغفرت اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ بندہ اس کی طرف جانے میں سبقت کیسے لے سکتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ یہاں مغفرت سے مراد سبب مغفرت ہے۔ چنانچہ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

سَارِعُوْا اِلَی اَدَاِء اْلفَرَائِضِ ۔ (بحار الانوار ۶۷: ۲۷۰۔ باب الطاعۃ)

فرائض کی ادائیگی کی طرف سبقت لو۔

۳۔ وَ جَنَّۃٍ عَرۡضُہَا: جنت کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابرہے۔ کیونکہ انسانی ذہن فقط زمین اور آسمان کی وسعت و عظمت سے مانوس ہے اور اس کے نزدیک ان کے علاوہ اور کوئی چیز اتنی وسعت و عظمت نہیں رکھتی۔ اس لیے یہ جنت کی بے پایانی اور ہمارے تصورات سے بالاتر وسیع و عظیم ہونے کی طرف اشارہ ہے۔

اہم نکات

۱۔ نیک اعمال میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش تقویٰ کی علامت ہے: سَارِعُوۡۤا ۔۔۔ لِلۡمُتَّقِیۡنَ ۔


آیات 132 - 133