ابوسفیان سے امان لینے کا فیصلہ


وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّنۡقَلِبۡ عَلٰی عَقِبَیۡہِ فَلَنۡ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیۡئًا ؕ وَ سَیَجۡزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیۡنَ﴿۱۴۴﴾

۱۴۴۔ اور محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تو بس رسول ہی ہیں، ان سے پہلے اور بھی رسول گزر چکے ہیں، بھلا اگر یہ وفات پا جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ اور جو الٹے پاؤں پھر جائے گا وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا، اور اللہ عنقریب شکر گزاروں کو جزا دے گا۔

144۔مسلمانوں کو جنگ احد میں امتحان کے مراحل سے گزارنے کے بعد جو نتائج سامنے آئے ان کا تذکرہ جاری ہے۔ اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو رسول کریم ﷺ کی شہادت کی افواہ سن کر اپنے ایمان کی دلی کیفیت کو فاش کرتے ہوئے مرتد ہو گئے اور کہنے لگے: اگر محمد ﷺ خدا کے رسول ہوتے تو کبھی قتل نہ ہوتے۔ چنانچہ اصحاب صخرہ نے تو ابوسفیان سے امان نامہ حاصل کرنے کے لیے منافقین کے سربراہ عبد اللہ بن ابی سے رابطہ قائم کرنے کا تہیہ بھی کر لیا تھا۔ قرآن نے جنگ سے فرار کرنے والوں کے لیے ہمیشہ وَلَّیۡتُمۡ مُّدۡبِرِیۡنَ (توبة: 25) ”پیٹھ دکھا کر بھاگ کھڑے ہوئے“ کی تعبیر اختیار کی، لیکن اس آیت میں انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ تم الٹے پاؤں پھر گئے کی تعبیر اختیار کی جو مرتد ہونے کے معنوں میں ہے۔ اس طرح قرآن فرار کے لیے ولی مدبرا اور ارتداد کے لیے انۡقَلَبۡ کا لفظ استعمال فرماتا ہے۔ جیسا کہ سید قطب نے لکھا ہے: یہاں ارتداد سے مراد شکست و فرار نہیں، بلکہ دین و عقیدہ سے ارتداد ہے۔ (فی ظلال القرآن :94)