لَنۡ یَّضُرُّوۡکُمۡ اِلَّاۤ اَذًی ؕ وَ اِنۡ یُّقَاتِلُوۡکُمۡ یُوَلُّوۡکُمُ الۡاَدۡبَارَ ۟ ثُمَّ لَا یُنۡصَرُوۡنَ﴿۱۱۱﴾

۱۱۱۔ یہ لوگ ایذا رسانی کے سوا تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور اگر تمہارے ساتھ لڑائی کی نوبت آئی تو یہ تمہیں پیٹھ دکھا کر بھاگ جائیں گے، پھر انہیں کہیں سے مدد نہیں ملے گی۔

111۔ اگر مسلمان خیر امت کے منصب پر فائز رہنے کی شرط یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تحریک سے وابستہ رہیں تو اس صورت میں تین بشارتیں موجود ہیں: اول یہ کہ دشمن انہیں قابل ذکر ضرر نہیں پہنچا سکیں گے۔ دوم یہ کہ اگر دشمن میدان جنگ میں مسلمانوں کا مقابلہ کریں تو انہیں شکست ہو گی۔ سوم یہ کہ دشمن بے یار و مددگار رہیں گے اور ان کا کوئی حمایتی نہ ہو گا۔ سیاق آیت سے مفہوم ہوتا ہے کہ یہاں دشمن سے مراد اہل کتاب ہیں۔

ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الذِّلَّۃُ اَیۡنَ مَا ثُقِفُوۡۤا اِلَّا بِحَبۡلٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ حَبۡلٍ مِّنَ النَّاسِ وَ بَآءُوۡ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الۡمَسۡکَنَۃُ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ کَانُوۡا یَکۡفُرُوۡنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ یَقۡتُلُوۡنَ الۡاَنۡۢبِیَآءَ بِغَیۡرِ حَقٍّ ؕ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوۡا وَّ کَانُوۡا یَعۡتَدُوۡنَ﴿۱۱۲﴾٭

۱۱۲۔یہ جہاں بھی ہوں گے ذلت و خواری سے دوچار ہوں گے ، مگر یہ کہ اللہ کی پناہ سے اور لوگوں کی پناہ سے متمسک ہو جائیں اور یہ اللہ کے غضب میں مبتلا رہیں گے اور ان پر محتاجی مسلط کر دی گئی ہے، یہ سب اس وجہ سے ہوا کہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے اور انبیاء کو ناحق قتل کرتے تھے۔ ان (جرائم کے ارتکاب) کا سبب یہ ہے کہ وہ نافرمانی اور زیادتی کرتے تھے۔

112۔ سلسلہ کلام اہل کتاب کے بارے میں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے حق میں یہ ذلت و خواری قانون جزیہ وغیرہ نافذ ہونے کی وجہ سے ہو اور اسلامی شریعت کی روسے یہ لوگ ذلیل ٹھہریں، جب تک وہ اسلامی قوانین کی بالادستی قبول نہ کریں یا مسلمانوں کی امان میں پناہ نہ لیں۔ ممکن ہے کہ اللہ ان کی تقدیر کی پیشگوئی فرما رہا ہو کہ یہ لوگ ہمیشہ ذلت و خواری سے دو چار رہیں گے اور اگر انہیں کہیں امن و سکون نصیب ہو گا تو دوسروں کی مہربانی و حمایت سے ہو گا۔ یعنی کبھی اللہ کے قانون کی پناہ میں اور کبھی دوسرے لوگوں کے رحم و کرم کے سہارے سکھ اور چین نصیب ہو سکے گا۔

لَیۡسُوۡا سَوَآءً ؕ مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ اُمَّۃٌ قَآئِمَۃٌ یَّتۡلُوۡنَ اٰیٰتِ اللّٰہِ اٰنَآءَ الَّیۡلِ وَ ہُمۡ یَسۡجُدُوۡنَ﴿۱۱۳﴾

۱۱۳۔ سب برابر نہیں ہیں، اہل کتاب میں کچھ (لوگ) ایسے بھی ہیں جو (حکم خدا پر) قائم ہیں، رات کے وقت آیات خدا کی تلاوت کرتے ہیں اور سر بسجود ہوتے ہیں۔

یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ یُسَارِعُوۡنَ فِی الۡخَیۡرٰتِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ﴿۱۱۴﴾

۱۱۴۔وہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے، نیک کاموں کا حکم دیتے، برائیوں سے روکتے اور بھلائی کے کاموں میں جلدی کرتے ہیں اور یہی صالح لوگوں میں سے ہیں۔

وَ مَا یَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَلَنۡ یُّکۡفَرُوۡہُ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالۡمُتَّقِیۡنَ﴿۱۱۵﴾

۱۱۵۔ اور یہ لوگ نیکی کا جو بھی کام انجام دیں گے اس کی ناقدری نہ ہو گی اور اللہ تقویٰ والوں کو خوب جانتا ہے۔

113 تا115۔ ان آیات میں ایک ممکنہ غلط فہمی کا ازالہ ہے کہ اہل کتاب اور خاص کر یہودیوں کی سیاہ کاریاں دیکھ کر مسلمانوں کے ذہن میں ایک نسلی منافرت اور قومی عصبیت پیدا نہ ہو جائے۔ اس لیے انہیں بتایا گیا کہ تمام اہل کتاب کو یکساں نہ سمجھو اور ان سے نسلی اور قبائلی بنیادوں پر تعصب نہ برتو، کیونکہ ان میں اہل ایمان، صالح اور متقی لوگ بھی ہیں۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَنۡ تُغۡنِیَ عَنۡہُمۡ اَمۡوَالُہُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُہُمۡ مِّنَ اللّٰہِ شَیۡـًٔا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۱۱۶﴾

۱۱۶۔ جنہوں نے کفر اختیار کیا ہے اللہ کے مقابلے میں ان کے اموال اور اولاد بلاشبہ کسی کام نہ آئیں گے اور یہ لوگ جہنمی ہیں، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

مَثَلُ مَا یُنۡفِقُوۡنَ فِیۡ ہٰذِہِ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا کَمَثَلِ رِیۡحٍ فِیۡہَا صِرٌّ اَصَابَتۡ حَرۡثَ قَوۡمٍ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ فَاَہۡلَکَتۡہُ ؕ وَ مَا ظَلَمَہُمُ اللّٰہُ وَ لٰکِنۡ اَنۡفُسَہُمۡ یَظۡلِمُوۡنَ﴿۱۱۷﴾

۱۱۷۔ وہ اس دنیاوی زندگی میں جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس ہوا کی سی ہے جس میں تیز سردی ہو اور وہ ان لوگوں کی کھیتی پر چلے جنہوں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور اسے تباہ کر دے اور اللہ نے ان پر کچھ بھی ظلم نہیں کیا بلکہ یہ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔

116۔ 117۔ان آیات میں دشمنوں کے مالی اور انسانی وسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کے اقتصادی حربوں کے انجام کا ذکر ہے کہ وہ مال و زر کے ذریعے بھی اپنے برے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے اور تخریب کاری پر انہوں نے جتنی دولت صرف کی ہو گی وہ سب رائیگاں جائے گی۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا بِطَانَۃً مِّنۡ دُوۡنِکُمۡ لَا یَاۡلُوۡنَکُمۡ خَبَالًا ؕ وَدُّوۡا مَا عَنِتُّمۡ ۚ قَدۡ بَدَتِ الۡبَغۡضَآءُ مِنۡ اَفۡوَاہِہِمۡ ۚۖ وَ مَا تُخۡفِیۡ صُدُوۡرُہُمۡ اَکۡبَرُ ؕ قَدۡ بَیَّنَّا لَکُمُ الۡاٰیٰتِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ﴿۱۱۸﴾

۱۱۸۔ اے ایمان والو! اپنوں کے سوا دوسروں کو اپنا رازدار نہ بناؤ یہ لوگ تمہارے خلاف شر پھیلانے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے، جس بات سے تمہیں کوئی تکلیف پہنچے وہی انہیں بہت پسند ہے، کبھی تو (ان کے دل کے کینہ و ) بغض کا اظہار ان کے منہ سے بھی ہوتا ہے، لیکن جو (بغض و کینہ) ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے وہ کہیں زیادہ ہے، بتحقیق ہم نے آیات کو واضح کر کے تمہارے لیے بیان کیا ہے۔ اگر تم عقل رکھتے ہو۔

118۔ اسلامی سلطنت کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری اندرونی اور داخلی معاملات کی رازداری ہے۔ کسی دشمن کو مملکت کے امور میں راز دار بنانا مکمل طور پر ممنوع ہے۔ قرآن نے مسلمانوں کو متنبہ کیا ہے کہ دشمن کے عزائم برے ہوتے ہیں اور تمہارے بارے میں وہ ہمیشہ تاک میں رہتے ہیں کہ تمہاری کوئی کمزوری ان کے علم میں آ جائے تو وہ اسے اپنے حق میں اور تمہارے خلاف استعمال کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے۔ قرآن کا یہ حکم ایک ابدی دستور، ایک لازوال نظام کا اہم ستون اور اس جامع نظام حیات کی ایک بنیادی دفعہ ہے جو ناقابل ترمیم و تنسیخ ہے۔ لیکن صد افسوس کہ اس کے باوجود مسلمانوں نے اسلامی دستور کی اس اہم شق پر عمل نہ کیا اور بہت جلد دشمنوں کو کاروبار حکومت میں دخل اندازی کا موقع فراہم کر دیا۔ قرطبی اپنے زمانے کی حالت زار پر نالاں ہیں، لیکن تفسیر منار میں یہ بھی لکھ دیا ہے : ”حضرت عمر کے زمانے ہی میں رومیوں کو منشی بنا کر بہت سے معاملات کا انچارج بنا دیا گیا تھا۔ سلطنتِ عثمانی کے زوال میں اس مسئلے کو سب سے زیادہ دخل رہا کہ اس کے اکثر سفیر غیر مسلم تھے۔“ (المنار 4:84)

ہٰۤاَنۡتُمۡ اُولَآءِ تُحِبُّوۡنَہُمۡ وَ لَا یُحِبُّوۡنَکُمۡ وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡکِتٰبِ کُلِّہٖ ۚ وَ اِذَا لَقُوۡکُمۡ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا ۚ٭ۖ وَ اِذَا خَلَوۡا عَضُّوۡا عَلَیۡکُمُ الۡاَنَامِلَ مِنَ الۡغَیۡظِ ؕ قُلۡ مُوۡتُوۡا بِغَیۡظِکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ﴿۱۱۹﴾

۱۱۹۔ تم لوگ تو اس طرح کے ہو کہ ان سے محبت رکھتے ہو جب کہ وہ تم سے محبت نہیں رکھتے حالانکہ تم پوری (آسمانی) کتاب کو مانتے ہو (مگر تمہاری کتاب کو نہیں مانتے) اور جب وہ تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم ایمان لے آئے ہیں اور جب خلوت میں جاتے ہیں تو تم پر غصے کے مارے انگلیاں کاٹ لیتے ہیں، ان سے کہدیجئے: تم اپنے غصے میں جل مرو، یقینا اللہ سینوں کے راز خوب جانتا ہے۔

119۔ اس آیت میں اہل کتاب کی معاندانہ روش کی ایک پیشگوئی ہے اور مسلمانوں کو تنبیہ بھی کہ تم ان سے محبت کیوں رکھتے ہو۔ اصولاً مسلمانوں کو اہل کتاب سے زیادہ متنفر ہونا چاہیے کیونکہ مسلمان اہل کتاب کے عقائد کا احترام کرتے ہیں، ان کے نبی اور ان کی کتاب کی تصدیق کرتے ہیں لیکن اہل کتاب مسلمانوں کے اعتقادات کا احترام نہیں کرتے، اس کے باوجود مسلمان اہل کتاب سے محبت رکھتے ہیں جب کہ وہ مسلمانوں سے نہ صرف محبت نہیں رکھتے بلکہ ان کے سینے مسلمانوں کے خلاف غیض و غضب سے پر ہوتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ ہمارے معاصر اہل کتاب مسلمانوں کو شدت پسند اور بنیاد پرست ہونے کے طعنے دیتے ہیں۔

اِنۡ تَمۡسَسۡکُمۡ حَسَنَۃٌ تَسُؤۡہُمۡ ۫ وَ اِنۡ تُصِبۡکُمۡ سَیِّئَۃٌ یَّفۡرَحُوۡا بِہَا ؕ وَ اِنۡ تَصۡبِرُوۡا وَ تَتَّقُوۡا لَا یَضُرُّکُمۡ کَیۡدُہُمۡ شَیۡـًٔا ؕ اِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ مُحِیۡطٌ﴿۱۲۰﴾٪

۱۲۰۔اگر تمہیں آسودگی میسر آتی ہے تو (وہ) انہیں بری لگتی ہے اور اگر تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ اس پر خوش ہوتے ہیں اور اگر تم صبر کرو اور تقوی اختیار کرو تو ان کی فریب کاری تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی، بے شک اللہ ان کے تمام اعمال پر احاطہ رکھتا ہے۔

120۔ دشمن کی باطنی خباثت کی نشاندہی ہو رہی ہے اور ساتھ ہی ایک بشارت بھی ہے کہ وہ مسلمانوں کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ البتہ اس کی دو شرائط ہیں: صبر و استقامت اور تقویٰ۔ آج کے مسلمان اپنی عظمت رفتہ کو واپس لینا چاہیں تو قرآن نے اس کا طریقہ کار بتا دیا ہے کہ وہ صبر اور تقویٰ اختیار کریں۔ نہایت تلخ تجربات سے ثابت ہو چکا ہے کہ دشمن کس قدر عیار ہے۔ اس کی طاقت کے مقابلے میں اگر مسلمان طاقت نہیں رکھتے تو ان کی عیاری کا مقابلہ صبر، اسلامی تعلیمات کی پابندی اور تقویٰ ہی کے ذریعے ہو سکتا ہے۔