آیات 130 - 131
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡکُلُوا الرِّبٰۤوا اَضۡعَافًا مُّضٰعَفَۃً ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ﴿۱۳۰﴾ۚ

۱۳۰۔ اے ایمان والو! کئی گنا بڑھا چڑھا کر سود نہ کھایا کرو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔

وَ اتَّقُوا النَّارَ الَّتِیۡۤ اُعِدَّتۡ لِلۡکٰفِرِیۡنَ﴿۱۳۱﴾ۚ

۱۳۱۔ اور اس آگ سے بچو جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ لَا تَاۡکُلُوا الرِّبٰۤوا: یہ آیت بھی سابقہ آیات کے ساتھ مربوط ہے، کیونکہ کلام کا تسلسل جہاد کے بارے میں ہے۔ سابقہ آیات میں جہاد بالسیف کا ذکر ہو رہا تھا۔ چونکہ جہاد بالمال کو بھی جہاد بالسیف کی کامیابی میں بڑا دخل حاصل ہے اور مال ہی کی طمع کی وجہ سے مسلمان احد میں شکست سے دوچار ہو ئے تھے۔ اس لیے زر پرستی اور مال کی طمع جیسے عوامل کی اصلاح ضروری ہے۔

کچھ حضرات اس آیت سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ قرآن نے جس سود کو حرام قرار دیا ہے، اس سے مراد زمانۂ جاہلیت میں رائج سود مرکب، یعنی سود در سود ہے، جب کہ قرض پر سود اور معاملاتی سود حرام نہیں اور احادیث میں سود کی مؤخر الذکر دو اقسام کے بارے میں جو ممانعت آئی ہے وہ کراہت پر مبنی ہے۔ (رشید رضا الربا و المعاملات فی الاسلام ص۵۲۔ کمافی الربا فقهياً و اقتصادياً ص۲۹۔)

اس پر دلیل یہ دیتے ہیں کہ نزول آیت کے وقت لوگ کئی گنا زیادہ سود لیتے تھے۔ جب کہ قرض پر سود اور معاملاتی سود میں کئی گنا کا تصور نہیں ہوتا۔

جواب یہ ہے کہ سنت رسول (ص) میں ہر قسم کے سود کی ممانعت جس تاکید اور شدت سے آئی ہے، اسے صرف مکروہ قرار دینا نہایت ہی ناانصافی ہے۔ اگراس طرح کی ذاتی رائے کا باب کھل جائے تولوگ بہت سے حرام اور واجب احکام کو کراہت اور مستحب پر محمول کر کے شریعت کو مسخ کر دیں گے۔

ثانیاً آیت میں لفظ اَضۡعَافًا ربا کی صفت ہے، سرمائے کی نہیں اور یہ ضعف کی جمع ہے۔ ضعف سے مراد ہے دوگنا اور اضعاف سے مراد ہے کئی گنا، جس کا کم ازکم تین دوگنے (چھ گنا) ہیں۔ پس جب سود چھ گنا ہو جائے تو حرام ہو گا، حالانکہ کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں ہے۔

لہٰذا تسلیم کرنا پڑے گاکہ اس آیت میں اَضۡعَافًا مُّضٰعَفَۃً کا ذکر اس وجہ سے نہیں کہ سود کی حرمت صرف کئی گنا ہونے سے مشروط ہے، بلکہ ایک امر واقع اور حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ سود کو سرمائے کے ساتھ ملا دیاجائے تو اکثر و بیشتر کئی گنا ہوجاتا ہے۔

۲۔ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ: کامیابی کا راز بھی تقویٰ میں مضمر ہے۔ یعنی ربا کھانے سے اپنے آپ کو بچاؤ۔ کامیابی اسی میں ہے۔

۳۔ وَ اتَّقُوا النَّارَ الَّتِیۡۤ: جو آتش کافروں کے لیے آمادہ اور تیار کی گئی ہے۔ سود خوار اسی آگ میں جائے گا۔ لہٰذا تم اس آگ سے اپنے آپ کو بچاؤ۔ چونکہ سود کھانا خدا اور رسولؐ کے ساتھ جنگ ہے۔ ایسے لوگ کافروں کے ساتھ ہوں گے۔

بظاہر سود کے بارے میں یہ آیت، پہلی آیت ہے۔ سود کے بارے میں تفصیل ملاحظہ ہو سورہ بقرہ آیت ۲۷۵۔

اہم نکات

۱۔ سود خوری ایسی معصیت ہے جو ایمان اور تقویٰ کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیتی ہے: لَا تَاۡکُلُوا ۔۔ اُعِدَّتۡ لِلۡکٰفِرِیۡنَ ۔

۲۔ تقویٰ کا لازمی نتیجہ دنیا و آخرت کی کامیابی ہے: وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ۔

۳۔ سود خور کے لیے وہی عذاب ہے جو کفار کے لیے ہے: وَ اتَّقُوا ۔۔۔ لِلۡکٰفِرِیۡنَ ۔


آیات 130 - 131