آیات 137 - 138
 

قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ سُنَنٌ ۙ فَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَانۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الۡمُکَذِّبِیۡنَ﴿۱۳۷﴾

۱۳۷۔تم سے پہلے مختلف روشیں گزر چکی ہیں پس تم روئے زمین پر چلو پھرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔

ہٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَ ہُدًی وَّ مَوۡعِظَۃٌ لِّلۡمُتَّقِیۡنَ﴿۱۳۸﴾

۱۳۸۔ یہ (عام) لوگوں کے لیے ایک واضح بیان ہے اور اہل تقویٰ کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے۔

تشریح کلمات

سُنَنٌ:

( س ن ن ) سنۃ کی جمع۔ طور طریقے۔ روش۔ مسلک اور آئین وغیرہ۔ اصل میں یہ لفظ سننت الماء ’’میں نے پانی بہایا‘‘ سے ماخوذ ہے۔ کسی چیز کو جاری رکھنا اور یکے بعد دیگرے یعنی تسلسل سے قائم رہنا۔

تفسیرآیات

۱۔ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ: اس آیت میں انسان کو دعوت فکر دی گئی ہے کہ وہ اقوام عالم کی سرگزشت کا مطالعہ کرے اور اس روئے زمین پر پیش آنے والے واقعات کی روشنی میں پوری نسل بنی آدم کی سیرت و کردار پر نظر ڈالے۔ـ اس صورت میں اسے علم ہو گا کہ حق و باطل، ظلم و انصاف اور نور و ظلمت کے درمیان جنگ کوئی نئی بات نہیں ہے، بلکہ پوری تاریخ پر یہ نبرد آزمائی حاکم رہی ہے:

قُلۡ لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ یَّنۡتَہُوۡا یُغۡفَرۡ لَہُمۡ مَّا قَدۡ سَلَفَ ۚ وَ اِنۡ یَّعُوۡدُوۡا فَقَدۡ مَضَتۡ سُنَّتُ الۡاَوَّلِیۡنَ﴿﴾ (۸ انفال: ۳۸)

کفار سے کہدیجیے کہ اگر وہ باز آ جائیں تو جو کچھ پہلے (ان سے سرزد) ہو چکا اسے معاف کر دیا جائے گا اور اگر انہوں نے (پچھلے جرائم کا) اعادہ کیا تو گزشتہ اقوام کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ (ان کے بارے میں بھی) نافذ ہو گا۔

قرآن اقوام عالم کی سرگزشت کا مطالعہ کرنے کے لیے سیر فی الارض، زمین کے مطالعاتی سفر کی دعوت دیتا ہے۔ جابر بادشاہوں، ظالم حکمرانوں اور خونخوار فرعونوں کے باقی ماندہ آثار بتلاتے ہیں کہ کسی زمانے میں ان قصور و محلات میں کچھ لوگ انا ربکم الاعلی کے مدعی تھے اور اپنی ہوسرانی میں بدمست ہو کر انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کیا کرتے تھے اورکسی قسم کی اقدار پر ایمان نہیں رکھتے تھے۔ آج انہی لوگوں کے محلات ویرانوں میں بدل گئے ہیں۔ ان کی ہڈیاں خاک ہو چکی ہیں، جو آنے والی نسلوں کے لیے عبرت بن گئی ہیں۔ انہوں نے چند روزہ عیش و نوش میں اپنی ابدی زندگی کو برباد کیا اور آخرکار اس دنیا کی زندگی بھی ہار بیٹھے۔ آج ان ویرانوں سے ان کی بوسیدہ ہڈیاں آواز دے رہی ہیں کہ دیکھ لو تکذیب کرنے والوں کا کیا انجام ہوا ہے۔

علامہ طباطبائیؒ فرماتے ہیں:

ان آثار سے عبرت حاصل کرنے کامطلب یہ نہیں کہ انہیں محفوظ رکھا جائے اور مزید انکشافات کے لیے کھوج لگایا جائے، کیونکہ یہ تو وہی بت پرستی ہے جو مختلف صورتوں میں نمودار ہوتی رہتی ہے۔

۲۔ ہٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ: ان آیات میں بیان شدہ حقائق کچھ لوگوں کے لیے واضح بیان اور اتمام حجت ہیں اور کچھ لوگوں کے لیے باعث ہدایت و نصیحت ہیں۔ یہ تقسیم بندی اثر قبول کرنے یانہ کرنے کے حوالے سے ہے۔ ایک ہی بات بعض سمجھنے والوں کے لیے باعث نعمت اور کچھ کے لیے باعث عذاب و نقمت بن جاتی ہے۔

اسی لیے فرمایا: یہ بیان ہونے کے لیے ساتھ ہدایت اور موعظہ بھی ہے۔

اہم نکات

۱۔ عبرت آموزی کے لیے سیر و سیاحت اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ عمل ہے: فَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ ۔۔۔۔

۲۔ عروج و زوال اور ہدایت و گمراہی کے کلیے ہر دور میں یکساں رہے ہیں،ـ لہٰذا تاریخ سے درس لینا چاہیے: قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ سُنَنٌ ۙ فَسِیۡرُوۡا ۔۔۔۔

۳۔ تاریخ سے عبرت حاصل کرنے کے لیے تقویٰ کلیدی حیثیت رکھتا ہے: وَ ہُدًی وَّ مَوۡعِظَۃٌ لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ۔


آیات 137 - 138