آیت 145
 

وَ مَا کَانَ لِنَفۡسٍ اَنۡ تَمُوۡتَ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ کِتٰبًا مُّؤَجَّلًا ؕ وَ مَنۡ یُّرِدۡ ثَوَابَ الدُّنۡیَا نُؤۡتِہٖ مِنۡہَا ۚ وَ مَنۡ یُّرِدۡ ثَوَابَ الۡاٰخِرَۃِ نُؤۡتِہٖ مِنۡہَا ؕ وَ سَنَجۡزِی الشّٰکِرِیۡنَ﴿۱۴۵﴾

۱۴۵۔ اور کوئی جاندار اذن خدا کے بغیر نہیں مر سکتا، اس نے (موت کا) وقت مقرر کر کے لکھ رکھا ہے اور جو (شخص اپنے اعمال کا) صلہ دنیا میں چاہے گا اسے ہم دنیا میں دیں گے اور جو آخرت کے ثواب کا خواہاں ہو گا اسے آخرت میں دیں گے اور ہم عنقریب شکر گزاروں کو اچھا صلہ دیں گے۔

تفسیر آیات

ان لوگوں کے خیالات کی تردید ہو رہی ہے جو کہتے ہیں:

لَوۡ کَانَ لَنَا مِنَ الۡاَمۡرِ شَیۡءٌ مَّا قُتِلۡنَا ہٰہُنَا ۔۔۔۔ (آل عمران: ۱۵۴)

اگر (قیادت میں) ہمارا کچھ دخل ہوتا تو ہم یہاں مارے نہ جاتے۔

لَّوۡ کَانُوۡا عِنۡدَنَا مَا مَاتُوۡا وَ مَا قُتِلُوۡا ۔۔۔۔ (۳ آل عمران :۱۵۶)

اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے اور نہ قتل ہوتے۔

لَوۡ اَطَاعُوۡنَا مَا قُتِلُوۡا ۔۔۔۔ (۳ آل عمران: ۱۶۸)

کاش وہ اگر ہماری بات مانتے تو قتل نہ ہوتے۔

۱۔ وَ مَا کَانَ لِنَفۡسٍ اَنۡ تَمُوۡتَ: اس قسم کے خیالات کا لازمہ یہ ہے کہ موت و حیات اللہ کے ہاتھ میں نہیں بلکہ ان کی اپنی تدابیر سے مربوط ہے۔ اس آیت میں اس خیال کی نفی کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ موت و حیات اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ہر ذی روح کے لیے موت کا دن مقرر ہے۔

۲۔ کِتٰبًا مُّؤَجَّلًا: یعنی اللہ نے ہر زندہ کے لیے ایک عمر کا تعین کیا ہے، اس سے نہ کم ہو گی نہ زیادہ۔

یہاں میدان جنگ سے بھاگنے والوں کو تنبیہ کرنا بھی مقصود ہے کہ جنگ سے فرار کے ذریعے تم اپنی موت کو ٹال نہیں سکتے، لہٰذا موت کے خوف سے فرار اختیار کرنا اس عقیدے کے منافی ہے کہ موت و حیات اللہ کے ہاتھ میں ہے نیز وہ راہ خدا میں قتل ہونے سے بچ کر صرف دنیا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور آخرت کی حیات ابدی کا عقیدہ نہیں رکھتے۔

۳۔ وَ مَنۡ یُّرِدۡ ثَوَابَ الدُّنۡیَا: جو صرف دنیا کے مفادات کا خواہشمند ہے، اسے ہم دنیا دے دیتے ہیں یعنی غنیمت، لیکن اس کو آخرت میں کچھ بھی نہیں ملے گا۔

۴۔ وَ مَنۡ یُّرِدۡ ثَوَابَ الۡاٰخِرَۃِ: جو جہاد سے آخرت کا خواہاں ہے، اسے آخرت کے ساتھ دنیا بھی مل جاتی ہے۔

اہم نکات

۱۔ جنگ سے فرار کرنے سے موت نہیں ٹل سکتی۔

۲۔ جنگ سے فرار کمزور عقیدہ ٔمعاد اور دنیا پرستی کی دلیل ہے۔


آیت 145