آیت 104
 

وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ﴿۱۰۴﴾

۱۰۴۔اور تم میں ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو نیکی کی دعوت اور بھلائی کا حکم دے اور برائیوں سے روکے اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔

تفسیر آیات

وَلۡتَکُنۡ کا جملہ امر اور حکم ہے، جس کے تحت واجب ہے کہ معاشرے میں ایک گروہ ایسا ہو جو امر بمعروف اور نہی از منکر (خوبیوں کو عام اور برائیوں کو دور) کرے۔

معاشرے میں انسانی و اخلاقی اقدار کو زندہ رکھنا اور ان اقدار کا دفاع کرنا، ضمیر کو زندہ رکھنا اور اس میں احساس و شعور بیدار رکھنا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل اور اسلامی معاشرے کو مختلف آلودگیوں سے پاک اور صاف رکھنے کے لیے امر بمعروف اور نہی از منکر ایک فلٹر ہے، جس سے یہ صحت مند معاشرہ ہمیشہ پاک اور صاف رہتا ہے۔

اسلام اپنے معاشرے میں ایک نظام دعوت قائم کر کے بیدار، باشعور اور ہمہ وقت مستعد معاشرہ تشکیل دینے کا اہتمام کرتا ہے، جس میں کسی ظالم کو ظلم، کسی خونخوار کو استحصال اور کسی استعماری طاقت کو سازش کرنے کا موقع ہی میسر نہ آئے۔

وہ معاشرہ کبھی آسودہ حال نہیں ہوسکتا، جس میں ظالم کو ظلم سے روکنے کے لیے کوئی طاقت، جرائم کے سیلاب کو روکنے کے لیے ایک بند اور وحشیانہ خواہشات کو قابو کرنے کے لیے کوئی لگام نہ ہو۔

یہ ایک عظیم ذمہ داری اور ایک مشکل عمل ہے، کیونکہ اس کے لیے معاشرے کے مختلف عنا صر سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ ظالم کو عدل و انصاف پسند نہیں ہوتا، مجرم کو پاکیزگی نفس اچھی نہیں لگتی اور متکبر کو تواضع راس نہیں آتی۔ خواہشات اور مفادات کے ایک لشکر جرارسے مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔

الامر بالمعروف و النھی عن المنکر: قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ امر بالمعروف ا ور نہی عن المنکر کسی مفاد پرستی اور دیگر دنیاوی عوامل کی وجہ سے نہیں، بلکہ آپس کی محبت، اخوت اور ہمدردی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ عمل نفرت اور نخوت سے نہیں، بلکہ محبت اور ہمدردی سے انجام پاتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتُ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ ۘ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ۔۔۔۔ (۹ توبہ: ۷۱)

اور مومن مرد اورمومنہ عورتیں ایک دوسرے کے بہی خواہ ہیں، وہ نیک کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔

قوت جاذبہ اور قوت دافعہ کے بغیر کسی نظام اور انتظام میں توازن قائم نہیں رہ سکتا۔ امر بمعروف اور نہی از منکر اسلامی معاشرے میں صحت مند توازن برقرار رکھنے کے لیے قوت جاذبہ اور قوت دافعہ ہے۔ یہ معاشرہ معروف کو جذب اور منکر کو دفع کرتا ہے۔

اس فریضے کی اہمیت

کوئی بھی نظام اور قانون خواہ کتنا ہی جامع اور مفید کیوں نہ ہو، اس وقت تک نتیجہ خیز نہیں ہوتا، جب تک وہ عملی نفاذ کی صورت اختیار نہ کرے۔ چنانچہ دنیا کے تمام نظام ہائے اجتماعی کو قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ضرورت ہوتی ہے اور انہی اداروں سے قانون اور نظام قائم رہتا ہے۔

درج ذیل احادیث میں امر بمعروف اور نہی از منکر کی اسی اہمیت کو بیان فرمایا گیا ہے:

حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے روایت ہے:

وَ مَا اَعْمَالُ الْبِرِّ کُلُّھَا وَ الْجِہَادُ فِی سَبِیْلِ اللہِ عِنْدَ الْاَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّھْیِ عَنْ الْمُنْکَرِ اِلَّا کَنَفْثَۃِ فِی بَحْرٍ لُجِّیٍّ ۔ (وسائل الشیعۃ ۱۶: ۱۳۴۔ باب وجوب الامر والنھی ۔۔۔)

تمام نیک اعمال اور جہاد فی سبیل اللہ، امر بمعروف اور نہی از منکر کے مقابلے میں ایک ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے مقابلے میں ایک چھوٹے سے قطرے کی مانند ہیں۔

ایک اور روایت میں آپ (ع) کا ارشاد ہے:ٍ

غَایَۃُ الدِّیْنِ الْاَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّھْیُ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ اِقَامَۃُ الْحُدُودِ ۔ (مستدرک الوسائل ۱۲: ۱۸۵ باب وجوبھما و تحریم ترکھما۔۔۔۔ غرر الحکم ص ۳۳۴ الفصل الثانی فی الامر بالمعروف و النھی ۔۔۔)

دین کی غرض و غایت، امر بمعروف اور نہی از منکر اور حدود شریعت کو قائم رکھنا ہے۔

نیز آپ (ع) سے روایت ہے:

قَوَامُ الشَّرِیْعَۃِ اَلْاَمْرُ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّھْیُ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ اِقَامَۃُ الْحُدُوْدِ ۔ (غرر الحکم ص ۳۳۲۔ الفصل الثانی فی الامر بالمعروف و النھی ۔۔۔)

شریعت کی بنیاد امر بمعروف و نہی از منکر اور حدود شریعت کو قائم رکھنا ہے۔

فلاحی مملکت: امر بمعروف اور نہی از منکر (خوبیوں کو عام کرنے اور برائیوں کو دور کرنے) کے ذریعے ایک مہذب قوم وجود میں آ سکتی ہے۔ قوم تہذیب و ثقافت کی مالک ہونے کی صورت میں شعور کی اس منزل پر فائز ہو گی کہ کسی ظالم کو ظلم و استحصال کرنے کا موقع نہیں دیا جائے گا، ورنہ ایک تاریک معاشرے میں ظالم ملک کی ثروت پر دن دھاڑے ڈاکہ ڈالتا ہے اور لوگوں کو پتہ تک نہیں چلتا۔ جیسا کہ ہمارے معاشروں کا حال ہے۔

مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

لَا تَتْرُکُوا الْاَمْرَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّھْیَ عَنِ الْمُنْکَرِ فَیُوَلِّی اللّٰہُ اَمْرَکُمْ شِرَارَکُمْ ثُمَّ تَدْعُونَ فَلاَ یُسْتَجَابُ لَکُمْ ۔ (اصول الکافی ۷: ۵۱ باب صدقات النبی (ص))

امر بمعروف اور نہی از منکر کو ترک نہ کرو، ورنہ اللہ تم پر بدترین لوگوں کو مسلط کر دے گا۔ پھر تم (اس سے نجات کے لیے) دعا کرو گے، تمہاری دعا قبول نہ ہو گی۔

اس سے معلوم ہوا کہ ایک تاریک معاشرہ خود ظالم کو جنم دیتا ہے۔

مملکت کی خوشحالی: ایک باشعور قوم کے وجود میں آنے سے استحصالی اور طبقاتی نظام کو تقویت نہیں ملے گی۔ نتیجتاً اس کی زمینیں آباد ہوں گی، جس سے رزق کی فراوانی ہو گی اور ملک کا دفاعی نظام بھی طاقت ور ہو گا۔ اس سلسلے میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے:

اِنَّ الْاَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّہْیَ عَنِ الْمُنْکَرِ سَبِیْلُ الْاَنْبِیَآئِ وَ مِنْہَاجُ الصُّلَحَآئِ فَرِیضَۃٌ عَظِیمَۃٌ بِھَا تُقَامُ الْفَرَائِضُ وَ تَامَنُ الْمَذَاہِبُ وَ تَحِلُّ الْمَکَاسِبُ وَ تُرَدُّ الْمَظَالِمُ وَ تُعْمَرُ الْاَرْضُ وَ یُنْتَصَفُ مِنَ الْاَعْدَائِ وَ یَسْتَقِیْمُ الْاَمْرُ (اصول الکافی ۵: ۵۵)

امربمعروف و نہی از منکر انبیاء (ع) کا راستہ صالح لوگوں کی روش اور عظیم ذمہ داری ہے جس سے واجبات کی ادائیگی ہوتی ہے، گزرگاہوں میں امن ملتا ہے اور کمائی حلال کی ہو جاتی ہے۔ ظلم کا مداوا ہو جاتا ہے،زمین آباد ہو جاتی ہے، دشمنوں کی طرف سے انصاف مل جاتا ہے اور تمام معاملات درست رہتے ہیں۔

سلامتی کی ضمانت: امر بمعروف و نہی از منکر جن علماء و صلحاء کی ذمہ داری ہوتی ہے، ان میں سے اکثر اس لیے اس فریضے پر عمل نہیں کرتے کہ انہیں لوگوں سے یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ اگر میں حق بات کروں تو میرے مفادات خطرے میں پڑ جائیں گے۔ یہ حضرات اگر مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام کے اس فرمان پر ایمان لائیں تو اس عظیم ذمہ داری سے سرخ روئی کے ساتھ سبکدوش ہو جائیں:

اِنَّ الْاَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّہْیَ عَنِ الْمُنْکَرِ لَا یُقَرِّبَانِ مِنْ اَجَلٍ وَ لَا یَنْقُصَانِ مِنْ رِزْقٍ ۔ (وسائل الشیعۃ ۱۶: ۱۳۴۔ نہج البلاغۃ۔ کلمات قصار: ۳۷۴)

امر بمعروف و نہی از منکر نہ موت کو نزدیک کر تا ہے اور نہ روزی میں کمی لاتا ہے۔

بدترین قوم: ظاہر ہے کہ ایک معاشرے کو تمام تر سعادتوں سے بہرہ مند کرنے والا یہ نظام جس معاشرے میں نہ ہو اور اس تقدیر ساز پروگرام کو معیوب سمجھا جائے تو ایسے معاشرے میں قوم بدتر حالات سے دوچار ہو گی۔ چنانچہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے:

بِئْسَ الْقَوْمُ قَوْمٌ یَعِیبُونَ الْاَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّھْیَ عَنِ الْمُنْکَرِ ۔ (اصول الکافی ۵: ۵۷۔ التہذیب ۶: ۱۷۶۔ وسائل الشیعۃ ۱۶: ۱۱۷)

بد ترین قوم، وہ قوم ہے جو امر بمعروف و نہی از منکر کو معیوب سمجھتی ہو۔

رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:

لَا یَزَالُ النَّاسُ بِخَیْرٍ مَا اَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَ نَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تَعَاوَنُوا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوَی فَاِذَا لَمْ یَفْعَلُوا ذَلِکَ نُزِعَتْ مِنْہُمُ الْبَرَکَاتُ وَ سُلِّطَ بَعْضُہُمْ عَلَی بَعْضٍ وَ لَمْ یَکُنْ لَہُمْ نَاصِرٌ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآئِ ۔ (التہذیب ۶: ۱۸۱۔ مستدرک الوسائل ۱۶: ۱۱۲۳)

جب تک لوگ امر بمعروف اور نہی از منکر، نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرتے رہیں گے، خیر و عافیت میں رہیں گے اور اس بات کو جب وہ ترک کر دیں گے تو ان سے برکتیں سلب کر لی جائیں گی اور وہ ایک دوسرے پر مسلط ہو جائیں گے اور ان کے لیے کوئی مددگار نہ زمین میں ہو گا اور نہ آسمان میں۔

یہ فریضہ کون ادا کرے؟: آیت کا مفہوم یہ ہے کہ تم میں ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو یہ ذمہ داری انجام دے۔ لیکن اس کے لیے ایک خاص صنف متعین نہیں ہے، بلکہ درج ذیل شرائط موجود ہونے کی صورت میں علماء، غیر علماء سب پر واجب ہے:

i۔ معروف اور منکر کو جانتا ہو۔ اگر نہیں جانتا توواجب نہیں ہے۔ البتہ منکر و معروف کا سیکھنا واجب ہے۔

ii۔ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کی صورت میں اثرپذیری کا امکان ہو۔ اگر مخاطب پر کسی قسم کے اثر کا امکان نہیں ہے تو واجب نہیں ہے۔ البتہ برائی سے دل میں کراہت رکھنا، بعض فقہاء احتیاطاً واجب سمجھتے ہیں۔

iii۔ منکر کا ارتکاب کرنے والا خود سے باز نہ آ رہا ہو۔ اگر خود سے باز آنے کے آثار سامنے آ جائیں تو واجب نہیں ہے۔

iv۔ معروف اور منکر خود پر بھی نافذ ہو۔ اگر خود پر کسی وجہ سے نافذ نہ ہو تو واجب نہیں۔ مثلاً اشتباہ کی وجہ سے وہ کسی حرام چیز کو حلال سمجھ رہا ہو یا دوائی کے طور پر ایک حرام چیز کو کھانے پر خود مجبور ہو رہا ہو تو اس سے دوسروں کو منع کرنا واجب نہیں ہے۔

v۔ اس عمل کے انجام دینے کی وجہ سے ناقابل تحمل ضرر نہ پہنچتا ہو۔

واضح رہے کہ امربمعروف و نہی از منکراپنے اہل خانہ کے بارے میں زیادہ تاکید سے واجب ہے۔

عزاداری اور امر بمعروف و نہی از منکر: سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے روضہ اقدس کا زائر، قبر مطہر کی طرف رخ کر کے اپنی زیارت میں سلام کے بعد حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرمان کے مطابق یہ جملے ادا کرتا ہے:

اَشْہَدُ اَنَّکَ قَدْ اَقَمْتَ الصَّلاَۃَ وَ آتَیْتَ الزَّکَاۃَ وَ اَمَرْتَ بِالْمَعْرُوفِ وَ نَہَیْتَ عَنِ الْمُنْکَرِ ۔۔۔(اصول الکافی ۴: ۵۷۰ باب زیارت۔)

میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نماز قائم کی، زکوۃ ادا کی اور امر بمعروف و نہی از منکر فرمایا۔

خود سید الشہداء علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ (ع) کربلا کے راستے میں فرمایا کرتے تھے:

اُرِیْدُ اَنْ آمُرَ بِالْمَعرُوْفِ وَ اَنْھَی عَنِ الْمُنْکَرِ وَ اَسِیْرَ بِسِیْرَۃِ جَدِّیْ وَ اَبِیْ ۔ (بحار الانوار ۴۴: ۳۲۸)

میں امر بمعروف و نہی از منکر کرنا چاہتا ہوں اور اپنے نانا اور پدر بزرگوار کی سیرت پر چلنا چاہتا ہوں۔

اہم نکات

۱۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر، استحکام نظام اور صحت مند معاشرے کی بنیاد ہیں۔

۲۔ بدترین قوم وہ ہے جو امربمعروف اور نہی از منکر سے کراہت کرے۔


آیت 104