وَ لِیُمَحِّصَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ یَمۡحَقَ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۱۴۱﴾

۱۴۱۔نیز اللہ ایمان والوں کو چھانٹنا اور کافروں کو نابود کرنا چاہتا ہے۔

اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تَدۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَعۡلَمِ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ جٰہَدُوۡا مِنۡکُمۡ وَ یَعۡلَمَ الصّٰبِرِیۡنَ﴿۱۴۲﴾

۱۴۲۔ کیا تم (لوگ) یہ سمجھتے ہو کہ جنت میں یونہی چلے جاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے جہاد کرنے والے اور صبر کرنے والے کون ہیں؟

142۔اس آیت میں اس غلط فہمی کا ازالہ ہے جس میں عصر رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مسلمان بھی اسی طرح مبتلا تھے جس طرح آج بھی کچھ لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ اسلامی یا ایمانی جماعت میں شامل ہونا کافی ہے، صبر و جہاد یعنی عمل کے ذریعے استحقاق پیدا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

وَ لَقَدۡ کُنۡتُمۡ تَمَنَّوۡنَ الۡمَوۡتَ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَلۡقَوۡہُ ۪ فَقَدۡ رَاَیۡتُمُوۡہُ وَ اَنۡتُمۡ تَنۡظُرُوۡنَ﴿۱۴۳﴾٪

۱۴۳۔ اور موت کے سامنے آنے سے قبل تو تم مرنے کی تمنا کر رہے تھے، سو اب وہ تمہارے سامنے ہے جسے تم دیکھ رہے ہو۔

وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّنۡقَلِبۡ عَلٰی عَقِبَیۡہِ فَلَنۡ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیۡئًا ؕ وَ سَیَجۡزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیۡنَ﴿۱۴۴﴾

۱۴۴۔ اور محمد (صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم) تو بس رسول ہی ہیں، ان سے پہلے اور بھی رسول گزر چکے ہیں، بھلا اگر یہ وفات پا جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ اور جو الٹے پاؤں پھر جائے گا وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا، اور اللہ عنقریب شکر گزاروں کو جزا دے گا۔

144۔مسلمانوں کو جنگ احد میں امتحان کے مراحل سے گزارنے کے بعد جو نتائج سامنے آئے ان کا تذکرہ جاری ہے۔ اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شہادت کی افواہ سن کر اپنے ایمان کی دلی کیفیت کو فاش کرتے ہوئے مرتد ہو گئے اور کہنے لگے: اگر محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے رسول ہوتے تو کبھی قتل نہ ہوتے۔ چنانچہ اصحاب صخرہ نے تو ابوسفیان سے امان نامہ حاصل کرنے کے لیے منافقین کے سربراہ عبد اللہ بن ابی سے رابطہ قائم کرنے کا تہیہ بھی کر لیا تھا۔ قرآن نے جنگ سے فرار کرنے والوں کے لیے ہمیشہ وَلَّیۡتُمۡ مُّدۡبِرِیۡنَ (توبة: 25) ”پیٹھ دکھا کر بھاگ کھڑے ہوئے“ کی تعبیر اختیار کی، لیکن اس آیت میں انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ تم الٹے پاؤں پھر گئے کی تعبیر اختیار کی جو مرتد ہونے کے معنوں میں ہے۔ اس طرح قرآن فرار کے لیے ولی مدبرا اور ارتداد کے لیے انۡقَلَبۡ کا لفظ استعمال فرماتا ہے۔ جیسا کہ سید قطب نے لکھا ہے: یہاں ارتداد سے مراد شکست و فرار نہیں، بلکہ دین و عقیدہ سے ارتداد ہے۔ (فی ظلال القرآن :94)

وَ مَا کَانَ لِنَفۡسٍ اَنۡ تَمُوۡتَ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ کِتٰبًا مُّؤَجَّلًا ؕ وَ مَنۡ یُّرِدۡ ثَوَابَ الدُّنۡیَا نُؤۡتِہٖ مِنۡہَا ۚ وَ مَنۡ یُّرِدۡ ثَوَابَ الۡاٰخِرَۃِ نُؤۡتِہٖ مِنۡہَا ؕ وَ سَنَجۡزِی الشّٰکِرِیۡنَ﴿۱۴۵﴾

۱۴۵۔ اور کوئی جاندار اذن خدا کے بغیر نہیں مر سکتا، اس نے (موت کا) وقت مقرر کر کے لکھ رکھا ہے اور جو (شخص اپنے اعمال کا) صلہ دنیا میں چاہے گا اسے ہم دنیا میں دیں گے اور جو آخرت کے ثواب کا خواہاں ہو گا اسے آخرت میں دیں گے اور ہم عنقریب شکر گزاروں کو اچھا صلہ دیں گے۔

145۔ یہاں میدان جنگ سے بھاگنے والوں کو تنبیہ کرنا بھی مقصود ہے کہ جنگ سے فرار کے ذریعے تم اپنی موت کو ٹال نہیں سکتے۔ لہٰذا موت کے خوف سے فرار اختیار کرنا اس عقیدے کے منافی ہے کہ موت و حیات اللہ کے ہاتھ میں ہے نیز وہ راہ خدا میں قتل ہونے سے بچ کر صرف دنیا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور آخرت کی حیات ابدی کا عقیدہ نہیں رکھتے۔

وَ کَاَیِّنۡ مِّنۡ نَّبِیٍّ قٰتَلَ ۙ مَعَہٗ رِبِّیُّوۡنَ کَثِیۡرٌ ۚ فَمَا وَہَنُوۡا لِمَاۤ اَصَابَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ مَا ضَعُفُوۡا وَ مَا اسۡتَکَانُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیۡنَ﴿۱۴۶﴾

۱۴۶۔ اور کتنے ہی ایسے نبی گزرے ہیں جن کی ہمراہی میں بہت سے اللہ والوں نے جنگ لڑی لیکن اللہ کی راہ میں آنے والی مصیبتوں کی وجہ سے نہ وہ بددل ہوئے نہ انہوں نے کمزوری دکھائی اور نہ وہ خوار ہوئے اور اللہ تو صابروں کو دوست رکھتا ہے۔

146۔ اس آیت میں دیگر اقوام کی سیرت و کردار کی روشنی میں نصیحت بھی ہے اور ملامت و عتاب بھی کہ انبیاء کے ساتھ بہت سے لڑنے والے ایسے تھے جو مصائب میں نہ بد دل ہوئے، نہ کمزوری دکھائی اور وہ خوار و رسوا بھی نہیں ہوئے۔ یعنی وہ تمہاری طرح نہیں تھے۔ کیونکہ تم نے جنگ میں کمزوری دکھائی اور بددل ہو کر ہمت ہار دی جس کے نتیجے میں تم رسوا ہو گئے۔

وَ مَا کَانَ قَوۡلَہُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوۡا رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَا وَ اِسۡرَافَنَا فِیۡۤ اَمۡرِنَا وَ ثَبِّتۡ اَقۡدَامَنَا وَ انۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۱۴۷﴾

۱۴۷۔ اور ان کی دعا صرف یہ تھی: ہمارے رب!ہمارے گناہوں سے اور ان زیادتیوں سے درگزر فرما جو ہم نے اپنے معاملات میں کی ہیں اور ہمیں ثابت قدم رکھ اور کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔

147۔ مومن میدان چھوڑنے کی بجائے صبر و استقامت کے لیے اللہ سے دعا کرتے ہیں اور جنگ میں فرار کی بجائے اللہ کی بارگاہ میں رجوع کرتے ہیں۔ چونکہ جنگ میں فرار اختیار کرنا ایک لحاظ سے اللہ سے فرار ہے۔ اسی لیے جنگ سے فرار سات بڑے گناہوں میں سے ہے۔

فَاٰتٰىہُمُ اللّٰہُ ثَوَابَ الدُّنۡیَا وَ حُسۡنَ ثَوَابِ الۡاٰخِرَۃِ ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۱۴۸﴾٪

۱۴۸۔چنانچہ اللہ نے انہیں دنیا کا ثواب بھی دیا اور آخرت کا بہتر ثواب بھی عطا کیا اور اللہ نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تُطِیۡعُوا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یَرُدُّوۡکُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ فَتَنۡقَلِبُوۡا خٰسِرِیۡنَ﴿۱۴۹﴾

۱۴۹۔اے ایمان والو! اگر تم نے کافروں کی اطاعت کی تو وہ تمہیں الٹا پھیر دیں گے پھر تم بڑے خسارے میں پڑ جاؤ گے۔

149۔ ابوسفیان اور کچھ دیگر منافقوں نے جنگ احد کی شکست کے وقت کہا تھا: ان محمدا قد قتل فارجعوا الی عشائرکم ”محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مارے گئے۔ پس اپنے قبیلوں کی طرف رجوع کرو“۔ جنگ احد کے بعد بھی کفار مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے میں مصروف ہو گئے تھے۔ وہ مسلمانوں کو بدظن کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ قرآن اس قسم کی سازشوں کو بر وقت بے نقاب کرتا ہے تاکہ مسلمان کفار کے برے عزائم سے آگاہ رہیں۔

بَلِ اللّٰہُ مَوۡلٰىکُمۡ ۚ وَ ہُوَ خَیۡرُ النّٰصِرِیۡنَ﴿۱۵۰﴾

۱۵۰۔در اصل اللہ ہی تمہارا کارساز ہے اور وہی بہترین مددگار ہے۔