آیت 103
 

وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا ۪ وَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ کُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِہٖۤ اِخۡوَانًا ۚ وَ کُنۡتُمۡ عَلٰی شَفَا حُفۡرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنۡقَذَکُمۡ مِّنۡہَا ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمۡ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ﴿۱۰۳﴾

۱۰۳۔ اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو اور تم اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈالی اور اس کی نعمت سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ گئے تھے کہ اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا، اس طرح اللہ اپنی آیات کھول کر تمہارے لیے بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو۔

تشریح کلمات

اعۡتَصِمُوۡا:

( ع ص م ) الاعتصام ۔ کسی چیز کو پکڑ کر مضبوطی سے تھام لینا۔

حَبۡلِ:

رسی۔ ملا دینا۔ہر وہ چیز جس سے دوسری چیز تک پہنچا جائے۔ (مفردات)

تفسیر آیات

اللہ کی رسی سے مراد اس کی کتاب اور اس کے رسول (ص) ہیں۔ بعض احادیث کے علاوہ سابقہ آیت (۱۰۱) اس بات کی دلیل ہے جس میں فرمایا: تُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتُ اللّٰہِ وَ فِیۡکُمۡ رَسُوۡلُہٗ ۔۔۔ تمہیں اللہ کی آیات سنائی جا رہی ہیں اور تمہارے درمیان اللہ کا رسول بھی موجود ہے۔

اس کے بعد ارشاد فرمایا:

وَ مَنۡ یَّعۡتَصِمۡ بِاللّٰہِ فَقَدۡ ہُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ۔

اور جو اللہ سے متمسک ہو جائے، وہ ضرور راہ راست پا لے گا۔

اس سے معلوم ہوا کہ اللہ سے متمسک ہونے سے مراد اس کی کتاب اور اس کے رسول (ص)سے متمسک ہونا ہے۔ اللہ سے متمسک ہونے کا حکم دینے کی بجائے اللہ کی رسی سے متمسک ہونے کا حکم دیا گیا، جس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی رسی اس کی کتاب اور اس کے ر سول (ص) ہیں۔ اس سلسلے میں دوسرے اقوال میں تضاد نہیں ہے اور سب قابل جمع ہیں۔

وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا۔ گویا اللہ کی طرف سے خطرے کااعلان ہو رہا ہے اور لگتاہے کہ کوئی سیلا ب آنے والا ہے اور غرق آب ہونے کا خطرہ ہے یا کوئی طوفان آنے والا ہے، جس سے اس امت کی کشتی کا شیرازہ بکھرنے والا ہے یا کوئی آندھی آنے والی ہے، جو اس انجمن کو منتشر کر دے گی یا کوئی آفت آنے والی ہے، جو اس باعظمت امت کو قعر مذلت میں گرا دے گی۔ لہٰذا بچنا ہے تو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو۔

وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا: اس جملے سے مذکورہ خطرے کی نوعیت کا پتہ چلتا ہے کہ یہ کس قسم کا سیلاب، کس قدر خطرناک طوفان اور کتنی مہلک آندھی ہے کہ اگر یہ امت اس خطرے سے دوچار ہو جاتی ہے اور حَبْل اللہ سے متمسک بھی نہیں ہوتی تو اس کا شیرازہ کس طرح بکھر سکتا ہے اور اس کی عظمت کس طرح مذلت میں بدل سکتی ہے۔

خطرہ یہ ہے کہ امت مسلمہ قرآن و ر سول (ص)کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے دستور حیات کو چھوڑ کر جزئیات اور فروعات میں منہمک نہ ہوجائے۔ دین سے زیادہ مسلک عزیز نہ ہو جائے۔ ایمان پر قومی عصبیت غالب نہ آ جائے۔ قرآن پر نسلی و لسانی رجحانات کا غلبہ نہ ہوجائے اور سنت رسول (ص) پر گروہی مفادات غالب نہ آ جائیںــ۔ اس آنے والے خطرے کے پیش نظر قرآن متعدد مقامات پر اس امت کو تنبیہ کرتا ہے:

وَ لَا تَنَازَعُوۡا فَتَفۡشَلُوۡا وَ تَذۡہَبَ رِیۡحُکُمۡ ۔۔۔۔ (۸ انفال: ۴۶)

آپس میں نزاع نہ کرو ورنہ ناکام رہو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔

ii۔ اِنَّ الَّذِیۡنَ فَرَّقُوۡا دِیۡنَہُمۡ وَ کَانُوۡا شِیَعًا لَّسۡتَ مِنۡہُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ ؕ اِنَّمَاۤ اَمۡرُہُمۡ اِلَی اللّٰہِ ۔۔۔۔ (۶ انعام: ۱۵۹)

جنہوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور گروہوں میں بٹ گئے بے شک آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کا معاملہ یقینا اللہ کے حوالے ہے۔

Iii۔ وَ اَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیۡ مُسۡتَقِیۡمًا فَاتَّبِعُوۡہُ ۚ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمۡ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ ۔۔۔۔ (۶ انعام: ۱۵۳)

اور یہی میرا سیدھا راستہ ہے اسی پر چلو اور مختلف راستوں پر نہ چلو ورنہ یہ تمہیں اللہ کے راستے سے ہٹا کر پراگندہ کر دیں گے۔۔۔۔

Iv۔ وَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ تَفَرَّقُوۡا وَ اخۡتَلَفُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡبَیِّنٰتُ ۔۔۔ (۳ آل عمران: ۱۰۵)

اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو واضح دلائل آجانے کے بعد بٹ گئے اور اختلاف کا شکار ہوئے۔۔۔۔

فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَ یُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی ٭ لَا انۡفِصَامَ لَہَا ۔۔۔۔ (۲ بقرہ: ۲۵۶)

پس جو طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے بتحقیق اس نے نہ ٹوٹنے والا مضبوط سہارا تھام لیا۔

وَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ ۔ اس امت کے حال کو ماضی سے مربوط کر کے یہ سمجھایا جا رہا ہے کہ تم اللہ کے اس احسان کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی۔ پس اس کی نعمت سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔ ایک قیمتی تجربہ ہے کہ اللہ کی مضبوط رسی کو تھامنے سے پہلے آگ کے گڑھے کے کنارے کھڑے تھے اور کفر و گمراہی اور دشمنی کے شعلوں کی لپیٹ میں تھے۔ اسلام کے زیر سایہ آنے کے بعد، امن و محبت اور سکون و اطمینان کی فضا اور اسلامی اخوت و برادری کے پرکیف ماحول میں تمہاری یہ سرگزشت تمہارے سامنے ہے۔ اسی کی روشنی میں اپنے مستقبل کا حال بھی متعین کرو اور خبردار رہو کہ کہیں لا علمی کی وجہ سے آگ کے گڑھے کے کنارے کی طرف دوبارہ پلٹ نہ جاؤ۔

احادیث

امام زین العابدین علیہ السلام سے منقول ہے کہ حَبْل اللہ سے مراد قرآن ہے۔(المیزان ۳: ۳۷۸)

تفسیر عیاشی میں مذکورہے کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:

آلُ مْحَمَّدٍ ُھْم حَبْلُ اللہِ الَّذِیْ اَمَرَ بِالْاِعْتِصَامِ بِہِ ۔ (بحار الانوار ۲۴: ۸۵۔ تفسیر العیاشی ۱: ۱۰۴ (چند الفاظ کے اختلاف کے ساتھ))

آل محمدؐ ہی وہ حَبْل اللہ ہیں جن سے متمسک ہونے کا حکم قرآن میں آیا ہے۔

حضرت امام جعفر صادق (ع) سے ابان بن تغلب اور ابو حفص الصائغ روایت کرتے ہیں کہ آپ (ع) نے فرمایا:

نَحْنُ حَبْلُ اللہِ ۔ (شواہد التنزیل ۱: ۱۶۹۔ تفسیر ثعلبی بنقل الصراط المستقیم ۱: ۲۸۶)

حبل اللہ ہم ہیں۔

ابن جبیر نے اپنی کتاب نخب میں عبدی سے روایت کی ہے اور محمد بن علی عنیری نے بھی اپنی سند سے روایت کی ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ (ص) سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا تو آپ (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:

ہَذَا حَبْلُ اللّٰہِ فَاعْتَصِمُوْا بِہِ ۔ (الصراط المستقیم ۱: ۲۸۶۔ المناقب لابن شہر آشوب ۳: ۷۶)

یہ حبل اللہ ہیں ان سے متمسک رہو۔

ان دونوں روایتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے، کیونکہ حدیث ثقلین سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن و اہل البیت (ع) دونوں حَبْل اللہ ہیں اور یہ اس بات کے بھی منافی نہیں ہے کہ قرآن اور سنت رسول (ص) حَبْل اللہ ہیں۔ کیونکہ اہل بیت رسول (ص) ہی سنت رسول (ص)کے محافظ، امت رسول (ص) کے امام اور جانشین رسول (ص) ہیں۔

حدیث ثقلین

عن ابی سعید الخدری ، قال رسول اللہ: اِنِّیْ تَاِرِکٌ فِیْکُمُ الثَّقَلَیْنِ کَتَابَ ﷲِ عَزَّ وَ َجَّل حَبْلٌ مَمْدُوْدٌ مَا بَیْنَ السَمَائِ وَ اْلَارَضِ وَ عِتْرَتْیِ اَھْلَ بَیْتِیْ ۔

ابو سعید خدری راوی ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں: ایک اللہ کی کتاب جو ایک لمبی رسی ہے آسمان اور زمین کے درمیان، دوسری میری عترت، میرے اہل بیت ہیں۔

یہ حدیث رسول اکرم (ص) سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔ چنانچہ اس حدیث کو ۳۵ اصحاب نے رسول اللہ (ص) سے نقل کیا ہے۔ فریقین کے محدثین، مفسرین، مورخین اور سیرت نگاروں کی ایک بڑی جماعت نے اپنی کتب میں اس حدیث کو ثابت کیا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو عبقات الانوار اور ملحقات احقاق الحق۔

واضح رہے کہ قرآن و رسول (ص) اور اہل بیت رسول (ص) حَبْل اللہ کی تشکیل کے لیے ارکان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ مجموعی طور پریہ سب حَبْل اللہ ہیں۔

اہم نکات

۱۔ اسلام کو سب سے زیادہ خطرہ فرقہ پرستی سے لاحق ہے۔

۲۔ قرآن مسلمانوں کو مسلک پرستی، گروہی مفادات اور نسلی تعصبات کو چھوڑ کر قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں دستور حیات اپنانے کی دعوت دیتا ہے۔


آیت 103