آیات 140 - 141
 

اِنۡ یَّمۡسَسۡکُمۡ قَرۡحٌ فَقَدۡ مَسَّ الۡقَوۡمَ قَرۡحٌ مِّثۡلُہٗ ؕ وَ تِلۡکَ الۡاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیۡنَ النَّاسِ ۚ وَ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ یَتَّخِذَ مِنۡکُمۡ شُہَدَآءَ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۱۴۰﴾ۙ

۱۴۰۔ اگر تمہیں کوئی زخم لگا ہے تو تمہارے دشمن کو بھی ویسا ہی زخم لگ چکا ہے اور یہ ہیں وہ ایام جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں اور اس طرح اللہ دیکھنا چاہتا ہے کہ مومن کون ہیں اور چاہتا ہے کہ تم میں سے کچھ کو گواہ کے طور پر لیا جائے،کیونکہ اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا۔

وَ لِیُمَحِّصَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ یَمۡحَقَ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۱۴۱﴾

۱۴۱۔نیز اللہ ایمان والوں کو چھانٹنا اور کافروں کو نابود کرنا چاہتا ہے۔

تشریح کلمات

قَرۡحٌ:

( ق ر ح ) کسی خارجی اثر سے لگنے والا زخم۔

نُدَاوِلُ:

( د و ل ) دَاوَلَ گردش دینا۔

یُمَحِّصَ:

( م ح ص ) کسی چیز کو کھوٹ اور عیب سے پاک کرنا۔

تفسیر آیات

اِنۡ یَّمۡسَسۡکُمۡ قَرۡحٌ: مسلمانوں کے اذہان سے احساس شکست کو دور کرنے اور انہیں حوصلہ دینے کا نہایت مناسب طریقہ اس دشمن کے کردار کو سامنے رکھنا ہے، جس کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانی پڑی ہو۔ چنانچہ آیت میں یہی فرمایا: تمہیں احد کی شکست سے بد دل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ اگرچہ احد میں تمہیں زخم لگے ہیں لیکن اس سے پہلے تمہارے دشمن کو بھی ایسے ہی زخم لگ چکے ہیں۔ جب وہ ہمت ہارے بغیر دوبارہ تمہارے مقابلے کے لیے نکل آئے ہیں تو تمہیں بھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ فلسفہ فتح و شکست کو سمجھنے کے لیے درج ذیل نکات قابل توجہ ہیں:

۱۔ وَ تِلۡکَ الۡاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا: سنت الٰہی ہمیشہ یہ رہی ہے کہ حالات کبھی ایک طرح کے نہیں رہتے۔ یہ ایام ہمیشہ گردش میں رہتے ہیں۔ آج اگر مشرکین کو تم پر وقتی غلبہ حاصل ہوا ہے تو یہ خیال نہ کرنا کہ ہمیشہ ایسے ہی ہو گا۔ فتح و شکست، دکھ سکھ، تکلیف و آسودگی اور خوشی و غم دائمی نہیں، بلکہ یہ سب وقتی اور زوال پذیر ہیں۔ کیونکہ نظام کائنات ان سب پر حاکم ہے۔ یہ تمام چیزیں قانون الٰہی کے تابع ہیں اور سنت الٰہی یہ ہے کہ فتح و شکست علل و اسباب کے ساتھ مربوط ہو۔ سابقہ آیت میں قرآن نے مسلمانوں کو بتا دیا تھا کہ ان علل و اسباب میں سے اہم سبب ایمان ہے، جس کے نتیجے میں صبر و تقویٰ وجود میں آتے ہیں اور غلبہ و اقتدار حاصل ہوتا ہے۔ لہٰذا بد دلی اور حزن و ملال کی بجائے اپنی صفوں میں اتفاق و اتحا د پیدا کرو، ثابت قدم رہو اور عزم و ارادے میں پختگی پیدا کرو:

وَ اَعِدُّوۡا لَہُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّۃٍ ۔۔۔ (۸ انفال: ۶۰)

اور ان (کفار) کے مقابلے کے لیے تم سے جہاں تک ہو سکے طاقت مہیا کرو۔۔۔۔

چنانچہ جنگ احد میں پہلے تو مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوا اور مشرکین کا علم تک سرنگوں ہو گیا، جسے اٹھانے کے لیے جب کوئی مرد جرأت نہ کر سکا تو ایک عورت نے اٹھایا۔ بعد میں جب مسلمانوں نے مال دنیا کی طمع میں حکم رسول (ص) کی خلاف ورزی کی تو انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسرے لفظوں میں قرآن ایک اہم نکتے طرف کی مسلمانوں کی توجہ مبذول کرا رہا ہے کہ جنگ بدر کی فتح و نصرت سے یہ نہ سمجھو کہ چونکہ ہم حق پر ہیں، لہٰذا قانون علل و اسباب سے ہٹ کر ہمیشہ فتح و نصرت ہمیں حاصل ہوتی رہے گی۔ ہر قدم پر ہمارے لیے معجزہ رونما ہو گا اور قانون فطرت کی دفعات ہم پر لاگو نہیں ہوں گی۔ جیسا کہ آج کے مسلمان بھی اکثر یہی سوال اٹھاتے ہیں کہ ہم حق پر ہونے کے باوجود بہت سی اقوام عالم سے پیچھے کیوں ہیں؟

حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کے اٹل اصولوں سے مسلمان بھی مستثنیٰ نہیں ہیں۔ اللہ کا وضع کردہ تکوینی و فطری دستور مکمل غیر جانبدار اور سب کے لیے یکساں ہے۔ ایسا نہیں کہ کافر کی تیز دھار تلوار نہ کاٹے اور مسلمان کی کند تلوار کاٹتی رہے۔ قوانین فطرت میں برابری اور تاریخ کے اصولوں میں یکسانیت کی وجہ سے ہی مسلمان امتحان و آزمائش میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اسی امتحان و آزمائش سے انہیں ارتقا و تکامل کے لیے مواقع میسر آتے ہیں۔ اگر قانون فطرت سب کے لیے یکساں نہ ہو اور مسلمان اس سے مستثنیٰ ہوں تو پھر امتحان و آزمائش کے ذریعے ارتقا و تکامل کا حصول ممکن نہیں رہے گا۔ چنانچہ دوسری جگہ اس مطلب کو واضح الفاظ میں بیان فرمایا ہے:

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ عَلَی الۡقِتَالِ ؕ اِنۡ یَّکُنۡ مِّنۡکُمۡ عِشۡرُوۡنَ صٰبِرُوۡنَ یَغۡلِبُوۡا مِائَتَیۡنِ ۔۔ (۸ انفال: ۶۵)

اے نبی! مومنوں کو جنگ کی ترغیب دیں، اگرتم میں بیس صابر (جنگجو) ہوں تو وہ دو سو (کافروں) پر غالب آ جائیں گے۔

اس آیت میں ثابت قدمی کی صورت میں دس گنا زیادہ افراد پر فتح و نصرت کی نوید سنائی گئی ہے۔

لیکن ثابت قدمی میں کمزوری واقع ہونے کی صورت میں یہ تناسب کم ہو کر صرف دوگنا تک محدود ہو جاتا ہے۔ چنانچہ فرمایا:

اَلۡـٰٔنَ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنۡکُمۡ وَ عَلِمَ اَنَّ فِیۡکُمۡ ضَعۡفًا ؕ فَاِنۡ یَّکُنۡ مِّنۡکُمۡ مِّائَۃٌ صَابِرَۃٌ یَّغۡلِبُوۡا مِائَتَیۡنِ ۔۔ (۸انفال: ۶۶)

اب اللہ نے تم لوگوں سے ہلکا کر دیا ہے اور اللہ کو علم ہے کہ اب تم میں کمزوری آگئی ہے، لہٰذا اب اگر تم میں سو صابر افراد ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے۔

اسی قانون فطرت اور سنت الٰہی کی عام دفعات کے تحت کامیابی اور فتح کے امکانات دس گنا سے گھٹ کر دو گنا تک آ گئے۔

۲۔ وَ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا: اللہ دیکھنا چاہتا ہے کہ مومن کون ہے اور منافق کون ہے؟ اللہ تعالیٰ زمانے کے نشیب و فراز کو لوگوں کے درمیان گردش دیتا ہے۔ کبھی فتح و نصرت سے نواز کر اور کبھی شکست سے دوچار کر کے لوگوں کو آزمائش میں ڈالتا ہے تاکہ لوگ میدان عمل میں اتر کر اپنے ایمان کی سچائی ثابت کریں۔ کیونکہ ایمان کے ثبوت کی بہترین دلیل عمل ہے اور بہترین عمل یہ ہے کہ میدان جنگ میں ثابت قدم رہا جائے۔ لہٰذا ایمان اور نفاق میں امتیاز پیدا کرنے کے لیے میدان جنگ ہی بہترین کسوٹی ہے۔

۳۔ وَ یَتَّخِذَ مِنۡکُمۡ شُہَدَآءَ: اللہ چاہتا ہے کہ تم میں سے کچھ کو گواہ بنا ئے کہ کس نے رسول خدا (ص) کے حکم کی نافرمانی کی ہے اور کس نے راہ خدا میں قربانی دی ہے۔ اللہ کی عدالت میں شہادت دینے کے عظیم منصب پر تمام لوگ فائز نہیں ہو سکتے، اسی لیے مِنْكُمْ تم میں سے کچھ، کے لفظ استعمال فرمائے۔ اس منصب پر فائز ہونے والوں کو امت وسط فرمایا ہے۔

۴۔ وَ لِیُمَحِّصَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا: اللہ تعالیٰ مومنوں کو چھانٹ کر انہیں ہر قسم کے کھوٹ اور عیب سے پاک کرنا چاہتا ہے۔ جس طرح سونے کو آگ میں ڈال کر اس کا میل کچیل صاف کیا جاتا ہے۔

اس آیت کی رو سے جنگ کے نتیجے میں مسلمانوں کے چار گروہ سامنے آئے: مومن۔ منافق۔ گواہ اور قابل اصلاح مومن۔

۵۔ وَ یَمۡحَقَ الۡکٰفِرِیۡنَ: اس طرح کی آزمائش سے گزرنے کے بعد ہی مسلمان اس قابل ہوں گے کہ وہ کفار کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکیں اور ان کے سارے عزائم خاک میں ملا سکیں۔ کفار کی نابودی سے مراد ان کے برے عزائم کی نابودی ہے۔ کیونکہ وہ مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹاناچاہتے تھے۔

اہم نکات

۱۔ ظاہری فتح و شکست اللہ کے تکوینی قوانین کے تابع ہے۔ لہٰذا ضروری نہیں کہ ظاہری طور پر ہمیشہ مسلمان ہی فتحیاب رہیں۔

۲۔ ظاہری شکست سے بد دل ہونا ایمان کی کمزوری کی علامت ہے: اِنۡ یَّمۡسَسۡکُمۡ قَرۡحٌ ۔۔۔ وَ تِلۡکَ الۡاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیۡنَ النَّاسِ ۔


آیات 140 - 141