آیت 134
 

الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ وَ الۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۱۳۴﴾ۚ

۱۳۴۔ (ان متقین کے لیے)جو خواہ آسودگی میں ہوں یا تنگی میں ہر حال میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں سے درگزر کرتے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

تشریح کلمات

الۡکٰظِمِیۡنَ :

( ک ظ م ) الکظم ۔ سانس کی نالی۔ کظوم سانس رکنے کے معنوں میں آتا ہے۔ کظم السقاء مشک کو پانی سے بھر کر اس کا منہ باندھ دینا۔ اسی لیے غصے سے بھرا ہوا شخص، اپنے غصے کو قابو میں رکھے تو اسے کاظم الغیظ کہا جاتا ہے۔

الۡغَیۡظَ:

( غ ی ظ ) سے مراد جذبہ انتقام اور غضب سے مراد ارادہ انتقام ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ غیظ نہیں بلکہ کلمہ غضب استعمال ہوتا ہے۔

تفسیرآیات

اس آیہ شریفہ میں اہل تقو یٰ کے چند اوصاف بیان ہوئے ہیں:

i۔ متقی فیاض ہوتا ہے اور دوسروں کا دکھ درد بانٹنا اس کی فطرت میں شامل ہوتا ہے۔

ii۔ وہ ہر قسم کا انفاق کرتا ہے۔ یہاں یہ بیان نہیں ہوا کہ کیا خرچ کرناچاہیے۔ لہٰذا اس میں ہر شے کا انفاق شامل ہے۔ مال، دولت، وقت، محنت، علم اور ہنر وغیرہ دوسروں کی طرف منتقل کرنا بھی انفاق میں شامل ہے۔

iii۔ اہل تقویٰ کی اہم علامت یہ ہے کہ وہ ہر حال میں انفاق کرتے ہیں۔ وہ آسودگی میں ہوں تو مال و دولت کی فراوانی اور عیش و عشرت میں بھی خدا کو نہیں بھولتے اور تنگی و مصیبت کے وقت بھی غافل نہیں رہتے۔ وہ زمانے کے ہر نشیب و فراز میں فیاض اور بیدار رہتے ہیں۔ آسودگی میں انفاق کرنا اگرچہ اپنی جگہ فضیلت رکھتا ہے، لیکن تنگی کی حالت میں بھی انفاق کرنا ایک ایثار اور قربانی کا اعلیٰ جذبہ رکھنے کی علامت ہے:

وَ یُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ ۔۔۔۔ (۷۶ انسان: ۸)

اور اپنی خواہش کے باوجود کھانا کھلاتے ہیں۔۔۔

وَ یُؤۡثِرُوۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ وَ لَوۡ کَانَ بِہِمۡ خَصَاصَۃٌ ۔۔۔۔ (۵۹ حشر: ۹)

وہ اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ وہ خود محتاج ہوں۔۔۔۔

iv۔ وہ غصے سے مغلوب نہیں ہوتے۔ ان کا نفس ان کی عقل کے اختیار میں ہوتا ہے۔ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ اہل تقویٰ وہ ہیں جنہیں غصہ نہیں آتا، بلکہ فرمایا کہ غصے کی حالت میں ضبط و تحمل سے کام لیتے ہیں۔ لہٰذا انسانی طبیعت کے پیش نظر غم و غصے کا نہ ہونا کمال نہیں ہے، بلکہ اسے قابو میں رکھنا کمال ہے۔

v۔ لوگوں کی غلطیوں سے عفو و درگزر کرتے ہیں۔ یعنی غصہ پی لینے کے بعد دل سے بھی معاف کر دیتے ہیں۔

vi۔ آخر میں مقام احسان پر بھی فائز ہوتے ہیں۔ معاف ہی نہیں کرتے بلکہ اس پر مستزاد احسان بھی کرتے ہیں۔ یہ ہیں اسلام کے نزدیک اخلاقی اقدار اور اسلامی انسان کا مقام و معیار۔

احادیث

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی کنیز آپ (ع) کو وضو کرا رہی تھی کہ برتن اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور آپ (ع) کے چہرۂ مبارک پر گرا، جس سے چہرۂ مبارک پر خراش آ گئی۔ آپ (ع) نے غصے کی نگاہ سے دیکھا تو کنیز نے یہ آیت پڑھی: وَ الۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ ۔ آپ (ع) نے فرمایا: میں نے غصہ پی لیا۔ کنیز نے کہا: وَ الۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ ۔ آپ (ع) نے فرمایا: خدا تجھے معاف کرے، میں نے بھی معاف کر دیا۔ کنیز نے کہا: وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ۔ آپ (ع) نے فرمایا: جا! میں نے تجھے آزاد کر دیا۔ (الأمالی للصدوق ص ۲۰۱)

اہم نکات

۱۔ غصے کا نہ آنا کمال نہیں بلکہ اسے قابو میں رکھنا کمال ہے: وَ الۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ ۔۔۔۔

۲۔ احسان کرنے سے انسان اللہ کا محبوب بن جاتاہے: وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ۔

۳۔ متقین کا عفو و درگزر سب لوگوں کے لیے ہوتاہے: وَ الۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ ۔۔۔


آیت 134