آیات 124 - 125
 

اِذۡ تَقُوۡلُ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَلَنۡ یَّکۡفِیَکُمۡ اَنۡ یُّمِدَّکُمۡ رَبُّکُمۡ بِثَلٰثَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ مُنۡزَلِیۡنَ﴿۱۲۴﴾ؕ

۱۲۴۔ جب آپ مومنین سے کہ رہے تھے: کیا تمہارے لیے کافی نہیں ہے کہ تمہارا رب تین ہزار فرشتے نازل فرما کر تمہاری مدد کرے ؟

بَلٰۤی ۙ اِنۡ تَصۡبِرُوۡا وَ تَتَّقُوۡا وَ یَاۡتُوۡکُمۡ مِّنۡ فَوۡرِہِمۡ ہٰذَا یُمۡدِدۡکُمۡ رَبُّکُمۡ بِخَمۡسَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ مُسَوِّمِیۡنَ﴿۱۲۵﴾

۱۲۵۔ہاں اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو دشمن جب بھی تم پر اچانک حملہ کر دے تمہارا رب اسی وقت پانچ ہزار نشان زدہ فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا۔

تشریح کلمات

یُّمِدَّ:

( م د د ) مد۔ مدد کرنا۔ کمک کرنا۔

فَوۡر:

( ف و ر ) جوش مارنا۔ آگ بھڑکنا۔ جلدی اور سرعت۔

مُسَوِّمِیۡنَ:

( س و م ) سَوْم ۔ نشان لگانا۔ مُسَوِّم کی جمع مُسَوِّمِیۡنَ ہے۔ یعنی جن پر نشان لگایا گیا ہو۔

تفسیر آیات

۱۔ اِذۡ تَقُوۡلُ: یہ جنگ بدر کا تذکرہ ہے، جہاں حضور (ص) اپنے مختصر اور بے سر و سامان لشکر کو الٰہی تائید کے ساتھ قوت دے رہے تھے اور فرما رہے تھے: کیا تین ہزار فرشتوں کی امداد تمہاری تقویت قلب، ثابت قدمی اور حوصلہ افزائی کے لیے کافی نہیں ہے؟ یہ اس آیت کے منافی نہیں ہے، جس میں فرمایا:

اِذۡ تَسۡتَغِیۡثُوۡنَ رَبَّکُمۡ فَاسۡتَجَابَ لَکُمۡ اَنِّیۡ مُمِدُّکُمۡ بِاَلۡفٍ مِّنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ مُرۡدِفِیۡنَ﴿﴾ (۸ انفال: ۹)

اللہ نے تمہاری سن لی اور فرمایا: میں یکے بعد دیگرے آنے والے ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا۔

یہاں تین ہزار مُنۡزَلِیۡنَ کا ذکر ہے، جب کہ سورہ انفال کی مذکورہ آیت میں ایک ہزار مُردِفِین کا ذکرہے۔ مُردِفِین یعنی دوسرے فرشتوں کو اپنے پیچھے لانے والے۔ گویا یہ ایک ہزار فرشتے ہراول دستے کے طور پر تھے۔

۲۔ بَلٰۤی ۙ اِنۡ تَصۡبِرُوۡا وَ تَتَّقُوۡا: مزید غیبی تائید کا ذکر مشروط طور پر یوں فرمایا: اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو اور ناگہانی حالت سے دوچار ہو جاؤ۔ یعنی اگر وہ اچانک تم پر حملہ کر دیں اور غیبی امداد کے علاوہ کوئی سبیل نہ ہو تو اللہ پانچ ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد فرما سکتا ہے۔ یہ فرشتے بھی کوئی عام فرشتے نہیں ہوں گے بلکہ خاص نشانیوں والے عظیم المرتبت فرشتے ہوں گے۔

آیت کے اس ٹکڑے سے اس امداد غیبی کی نوعیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کوئی مادی کمک نہ تھی کہ اس پر مادی سوچ کے تحت سوالات اٹھائے جائیں کہ ان فرشتوں کو ہزاروں کی تعدادمیں کس نے دیکھا؟ نیز یہ کہ مقتول مشرکین اور ان کے قاتل مسلمانوں کو سب جانتے تھے کہ کس کو کس نے قتل کیا، پھر فرشتوں نے کن کو مارا ؟ نیز کمک کے لیے ایک فرشتہ کافی تھا جو سب کافروں کو تہ و بالا کر دیتا، ہزاروں کی کیا ضرورت تھی؟ اگر فرشتوں نے جنگ میں شرکت کی ہوتی تو کوئی کافر بچ نہ نکلتا وغیرہ، بلکہ یہ غیبی اور غیرمادی کمک تھی۔ فرشتے بھی غیر مادی موجودات ہیں۔ ان کی کمک مسلمانوں کے فرد فرد کو مل سکتی ہے۔ لہٰذا تعداد ضروری ہے اور ہر فرد کو بھی نہیں بلکہ جن میں روحانی رشتہ موجود ہو انہیں مل سکتی ہے۔ وہ رشتہ اس آیت میں مذکور ہے۔ یعنی صبر و تقویٰ۔ ان دو روحانی شرائط کی موجودگی میں روحانی مخلوقات کی کمک کا اہل بن جانا ممکن ہے۔

۳۔ وَ یَاۡتُوۡکُمۡ مِّنۡ فَوۡرِہِمۡ: تیسری شرط اچانک اور ناگہانی حالت سے دوچار ہونا ہے، کیونکہ ایسے حالات میں انسان تمام مادی ذرائع سے ہٹ کر صرف اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ جیساکہ فرمایا:

وَ اِذَا غَشِیَہُمۡ مَّوۡجٌ کَالظُّلَلِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۔۔۔۔(۳۱ لقمان: ۳۲)

اور جب ان پر (سمندر کی) موج سائبان کی طرح چھا جاتی ہے تو وہ عقیدے کو اسی کے لیے خالص کر کے اللہ کو پکارنے لگتے ہیں۔

ان حالات میں مسلمانوں کے دلوں میں فرشتوں کا نزول ہو سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان روحانی موجودات کے اترنے کے لیے روحانی جائے مستقر درکار ہوتا ہے جو درج بالا شرائط کے تحت فراہم ہو سکتا ہے۔ اس بات کی تائید آنے والی آیت سے ہوتی ہے۔

اہم نکات

۱۔ غیبی امداد کااہل بننے کے لیے اپنے اندر استحقاق پید اکرنا ضروری ہے۔

۲۔ صبر و تقویٰ کے بغیر معنوی و روحانی تکامل ممکن نہیں۔

۳۔ اپنی بساط کے مطابق تیار رہنے کے بعد اگر کوئی بڑی مصیبت اچانک آ پڑے تو اللہ کی نصرت یقینا شامل حال ہوتی ہے۔

۴۔ روحانی تقویت میسر ہو تو مادی کمزوری موجب شکست نہیں ہو سکتی۔


آیات 124 - 125