تقیہ


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا بِطَانَۃً مِّنۡ دُوۡنِکُمۡ لَا یَاۡلُوۡنَکُمۡ خَبَالًا ؕ وَدُّوۡا مَا عَنِتُّمۡ ۚ قَدۡ بَدَتِ الۡبَغۡضَآءُ مِنۡ اَفۡوَاہِہِمۡ ۚۖ وَ مَا تُخۡفِیۡ صُدُوۡرُہُمۡ اَکۡبَرُ ؕ قَدۡ بَیَّنَّا لَکُمُ الۡاٰیٰتِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ﴿۱۱۸﴾

۱۱۸۔ اے ایمان والو! اپنوں کے سوا دوسروں کو اپنا رازدار نہ بناؤ یہ لوگ تمہارے خلاف شر پھیلانے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے، جس بات سے تمہیں کوئی تکلیف پہنچے وہی انہیں بہت پسند ہے، کبھی تو (ان کے دل کے کینہ و ) بغض کا اظہار ان کے منہ سے بھی ہوتا ہے، لیکن جو (بغض و کینہ) ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے وہ کہیں زیادہ ہے، بتحقیق ہم نے آیات کو واضح کر کے تمہارے لیے بیان کیا ہے۔ اگر تم عقل رکھتے ہو۔

118۔ اسلامی سلطنت کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری اندرونی اور داخلی معاملات کی رازداری ہے۔ کسی دشمن کو مملکت کے امور میں راز دار بنانا مکمل طور پر ممنوع ہے۔ قرآن نے مسلمانوں کو متنبہ کیا ہے کہ دشمن کے عزائم برے ہوتے ہیں اور تمہارے بارے میں وہ ہمیشہ تاک میں رہتے ہیں کہ تمہاری کوئی کمزوری ان کے علم میں آ جائے تو وہ اسے اپنے حق میں اور تمہارے خلاف استعمال کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے۔ قرآن کا یہ حکم ایک ابدی دستور، ایک لازوال نظام کا اہم ستون اور اس جامع نظام حیات کی ایک بنیادی دفعہ ہے جو ناقابل ترمیم و تنسیخ ہے۔ لیکن صد افسوس کہ اس کے باوجود مسلمانوں نے اسلامی دستور کی اس اہم شق پر عمل نہ کیا اور بہت جلد دشمنوں کو کاروبار حکومت میں دخل اندازی کا موقع فراہم کر دیا۔ قرطبی اپنے زمانے کی حالت زار پر نالاں ہیں، لیکن تفسیر منار میں یہ بھی لکھ دیا ہے : ”حضرت عمر کے زمانے ہی میں رومیوں کو منشی بنا کر بہت سے معاملات کا انچارج بنا دیا گیا تھا۔ سلطنتِ عثمانی کے زوال میں اس مسئلے کو سب سے زیادہ دخل رہا کہ اس کے اکثر سفیر غیر مسلم تھے۔“ (المنار 4:84)

وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤۡمِنٌ ٭ۖ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ یَکۡتُمُ اِیۡمَانَہٗۤ اَتَقۡتُلُوۡنَ رَجُلًا اَنۡ یَّقُوۡلَ رَبِّیَ اللّٰہُ وَ قَدۡ جَآءَکُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ وَ اِنۡ یَّکُ کَاذِبًا فَعَلَیۡہِ کَذِبُہٗ ۚ وَ اِنۡ یَّکُ صَادِقًا یُّصِبۡکُمۡ بَعۡضُ الَّذِیۡ یَعِدُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِیۡ مَنۡ ہُوَ مُسۡرِفٌ کَذَّابٌ﴿۲۸﴾

۲۸۔ اور آل فرعون میں سے ایک مومن جو اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا کہنے لگا: کیا تم ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے میرا رب اللہ ہے اور تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس واضح دلائل لے کر آیا ہے؟ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کا جھوٹ خود اس کے خلاف جائے گا اور اگر وہ سچا ہے تو جس (عذاب) کا وہ تم سے وعدہ کر رہا ہے اس میں سے کچھ تو تم پر واقع ہو ہی جائے گا، اللہ یقینا تجاوز کرنے والے جھوٹے کو ہدایت نہیں دیتا۔

28۔ جابروں اور تنگ نظروں سے خطرہ لاحق ہونے کی صورت میں حق کا چھپانا جابروں کے لیے باعث ننگ و عارہے، حق چھپانے والے کے لیے نہیں۔ جیسا کہ نظریہ خلق قرآن کے بارے میں بنی عباس کے تنگ نظر جابروں کے سامنے علماء کو اپنا نظریہ چھپانا پڑا تھا۔ چنانچہ مومن آل فرعون اپنی تقریر میں حق کو برملا ظاہر نہیں کرتے، بلکہ بظاہر تردد کا اظہار کرتے ہیں کہ اگر موسیٰ علیہ السلام جھوٹے ہیں تو ان کے جھوٹ کی سزا ضرور ملے گی، تمہیں جلدی کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر وہ سچے ہیں تو وہ جس عذاب سے ڈرا رہے ہیں، اس میں سے کچھ تو وقوع پذیر ہو گا۔

یٰقَوۡمِ لَکُمُ الۡمُلۡکُ الۡیَوۡمَ ظٰہِرِیۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ۫ فَمَنۡ یَّنۡصُرُنَا مِنۡۢ بَاۡسِ اللّٰہِ اِنۡ جَآءَنَا ؕ قَالَ فِرۡعَوۡنُ مَاۤ اُرِیۡکُمۡ اِلَّا مَاۤ اَرٰی وَ مَاۤ اَہۡدِیۡکُمۡ اِلَّا سَبِیۡلَ الرَّشَادِ﴿۲۹﴾

۲۹۔ اے میری قوم! آج تمہاری بادشاہت ہے اور ملک میں تم غالب ہو پس اگر ہم پر اللہ کا عذاب آگیا تو ہماری کون مدد کرے گا؟ فرعون نے کہا: میں تمہیں صرف وہی رائے دوں گا جسے میں صائب سمجھتا ہوں اور میں اسی راستے کی طرف تمہاری رہنمائی کرتا ہوں جو درست ہے۔

29۔ آل فرعون کا یہ مومن اپنے ایمان کا کھل کر اظہار نہیں کر رہے ہیں، بلکہ فرعون کا خیر خواہ ظاہر کر کے کہتے ہیں: فَمَنۡ یَّنۡصُرُنَا مِنۡۢ بَاۡسِ اللّٰہِ اِنۡ جَآءَنَا اگر ہم پر اللہ کا عذاب آ گیا تو ہماری کون مدد کرے گا۔ لیکن اقتدار کے نشے میں بد مست لوگ کبھی اپنے فردا کے بارے میں نہیں سوچتے، نہ ہی کسی ناصح کی نصیحت پر توجہ دیتے ہیں۔ کیونکہ جابر اپنے جبر ہی کو صائب سمجھتا ہے۔