وَ اتَّقُوا النَّارَ الَّتِیۡۤ اُعِدَّتۡ لِلۡکٰفِرِیۡنَ﴿۱۳۱﴾ۚ

۱۳۱۔ اور اس آگ سے بچو جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔

وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ﴿۱۳۲﴾ۚ

۱۳۲۔ اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

132۔ اس آیت کی روسے رحمت خدا کے شامل حال ہونے کے لیے اللہ کی اطاعت کے ساتھ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت بھی ضروری ہے اگر صرف قرآن کے ذریعے اللہ کی اطاعت کافی ہوتی تو اطاعت رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا علیحدہ ذکر کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ اسی وجہ سے رسول کی ذمہ داری صرف قرآنی آیات پڑھ کر سنانا نہیں بلکہ قرآن رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تین ذمہ داریوں کا ذکر کرتا ہے۔ اول تلاوت آیات، دوم تزکیہ نفس، سوم تعلیم و تربیت۔ اسی لیے قرآن کے کلی احکام کی تفصیل رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذمے ہے جسے ”سنت“ کہتے ہیں۔

وَ سَارِعُوۡۤا اِلٰی مَغۡفِرَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ جَنَّۃٍ عَرۡضُہَا السَّمٰوٰتُ وَ الۡاَرۡضُ ۙ اُعِدَّتۡ لِلۡمُتَّقِیۡنَ﴿۱۳۳﴾ۙ

۱۳۳۔اور اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جانے میں سبقت لو جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، جو اہل تقویٰ کے لیے آمادہ کی گئی ہے۔

الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ وَ الۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۱۳۴﴾ۚ

۱۳۴۔ (ان متقین کے لیے)جو خواہ آسودگی میں ہوں یا تنگی میں ہر حال میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں سے درگزر کرتے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

134۔135۔ متّقین کے اوصاف کا بیان ہے: ٭ وہ آسودگی میں ہوں یا تنگی میں، بہرحال راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں۔ ٭ غصے سے مغلوب نہیں ہوتے۔ ٭ لوگوں سے درگزر کرتے ہیں۔ ٭ لوگوں پر احسان کرتے ہیں۔ ٭ گناہ سرزد ہونے کی صورت میں دو کام کرتے ہیں: ایک تو استغفار کرتے ہیں اور دوسرا اس گناہ کے نزدیک دوبارہ نہیں جاتے: وَ لَمۡ یُصِرُّوۡا ۔

وَ الَّذِیۡنَ اِذَا فَعَلُوۡا فَاحِشَۃً اَوۡ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسۡتَغۡفَرُوۡا لِذُنُوۡبِہِمۡ ۪ وَ مَنۡ یَّغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ اِلَّا اللّٰہُ ۪۟ وَ لَمۡ یُصِرُّوۡا عَلٰی مَا فَعَلُوۡا وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۳۵﴾

۱۳۵۔اور جن سے کبھی نازیبا حرکت سرزد ہو جائے یا وہ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھیں تو اسی وقت خدا کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں اور اللہ کے سوا گناہوں کا بخشنے والا کون ہے؟ اور وہ جان بوجھ کر اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے ہیں۔

اُولٰٓئِکَ جَزَآؤُہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ جَنّٰتٌ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ وَ نِعۡمَ اَجۡرُ الۡعٰمِلِیۡنَ﴿۱۳۶﴾ؕ

۱۳۶۔ ایسے لوگوں کی جزا ان کے رب کی مغفرت اور وہ باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے اور (نیک) عمل کرنے والوں کے لیے کیا ہی خوب جزا ہے۔

قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ سُنَنٌ ۙ فَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَانۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الۡمُکَذِّبِیۡنَ﴿۱۳۷﴾

۱۳۷۔تم سے پہلے مختلف روشیں گزر چکی ہیں پس تم روئے زمین پر چلو پھرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔

137۔ قرآن اقوام عالم کی سرگزشت کا مطالعہ کرنے کے لیے سِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ زمین کے مطالعاتی سفر کی دعوت دیتا ہے۔جابر بادشاہوں، ظالم حکمرانوں اور خونخوار فرعونوں کے باقی ماندہ آثار بتلاتے ہیں کہ کسی زمانے میں ان قصور و محلات میں کچھ لوگ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى کے مدعی تھے اور اپنی ہوس رانی میں بدمست ہو کر انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کیا کرتے تھے اور کسی قسم کی اقدار پر ایمان نہیں رکھتے تھے۔ آج انہی لوگوں کے محلات ویرانوں میں بدل گئے ہیں۔ ان کی ہڈیاں خاک ہو چکی ہیں، جو آنے والی نسلوں کے لیے عبرت بن گئی ہیں۔ انہوں نے چند روزہ عیش و نوش میں اپنی ابدی زندگی کو برباد کیا اور آخرکار اس دنیا کی زندگی بھی ہار بیٹھے۔ آج ان ویرانوں سے ان کی بوسیدہ ہڈیاں آواز دے رہی ہیں کہ دیکھ لو تکذیب کرنے والوں کا کیا انجام ہوا ہے۔

ہٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَ ہُدًی وَّ مَوۡعِظَۃٌ لِّلۡمُتَّقِیۡنَ﴿۱۳۸﴾

۱۳۸۔ یہ (عام) لوگوں کے لیے ایک واضح بیان ہے اور اہل تقویٰ کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے۔

وَ لَا تَہِنُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَ اَنۡتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ﴿۱۳۹﴾

۱۳۹۔ہمت نہ ہارو اور غم نہ کرو کہ تم ہی غالب رہوگے بشرطیکہ تم مومن ہو۔

139۔ جنگ احد میں مسلمانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور ستر (70 ) اہم افراد شہید ہو گئے اور وہ بھی مسلمانوں کے گھروں کے قریب۔ فطری طور پر اس سے مسلمانوں میں بددلی پھیل گئی اور ان کے دلوں میں حزن و ملال چھا گیا۔ اللہ تعالیٰ ان حوصلہ ہارنے والوں کو حوصلہ دیتے ہوئے فرماتا ہے : ٭ اپنے عزم و ارادے میں سستی کو راہ نہ دو۔ ٭ شکست کا زیادہ احساس کر کے اپنے آپ کو حزن و ملال اور غم و اندوہ میں مبتلا نہ رکھو۔ اگر تم نے اپنے ایمان میں پختگی ثابت رکھی اور اس کے نتیجے میں صبر و تقویٰ کا دامن تھامے رکھا تو تم ہی غالب رہو گے۔ اس آیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کے اعمال و مقدرات میں ایمان کا کتنا گہرا اثر اور دخل ہے۔

اِنۡ یَّمۡسَسۡکُمۡ قَرۡحٌ فَقَدۡ مَسَّ الۡقَوۡمَ قَرۡحٌ مِّثۡلُہٗ ؕ وَ تِلۡکَ الۡاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیۡنَ النَّاسِ ۚ وَ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ یَتَّخِذَ مِنۡکُمۡ شُہَدَآءَ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۱۴۰﴾ۙ

۱۴۰۔ اگر تمہیں کوئی زخم لگا ہے تو تمہارے دشمن کو بھی ویسا ہی زخم لگ چکا ہے اور یہ ہیں وہ ایام جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں اور اس طرح اللہ دیکھنا چاہتا ہے کہ مومن کون ہیں اور چاہتا ہے کہ تم میں سے کچھ کو گواہ کے طور پر لیا جائے،کیونکہ اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا۔

140۔حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کے اٹل اصولوں سے مسلمان بھی مستثنیٰ نہیں ہیں۔ اللہ کا وضع کردہ تکوینی و فطری دستور مکمل غیر جانبدار اور سب کے لیے یکساں ہے۔ ایسا نہیں کہ کافر کی تیز دھار تلوار نہ کاٹے اور مسلمان کی کند تلوار کاٹتی رہے۔ قوانین فطرت میں برابری اور تاریخ کے اصولوں میں یکسانیت کی وجہ سے ہی مسلمان امتحان و آزمائش میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اسی امتحان و آزمائش سے انہیں ارتقاء و تکامل کے لیے مواقع میسر آتے ہیں۔ اگر قانون فطرت سب کے لیے یکساں نہ ہو اور مسلمان اس سے مستثنیٰ ہوں تو پھر امتحان و آزمائش کے ذریعے ارتقاء و تکامل کا حصول ممکن نہیں رہے گا۔