تفسیر قرآن سورہ ‎الأنفال‎ آیات 72 - 75

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

سور ہ انفال آیت 72
اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ ہَاجَرُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ الَّذِیۡنَ اٰوَوۡا وَّ نَصَرُوۡۤا اُولٰٓئِکَ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ
اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ ہَاجَرُوۡا وہ لوگ جو ایمان لے آئے اور ہجرت کی وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اور راہ خدا میں اموال سے اور اپنی جانوں سے جہاد کیا۔ وَ الَّذِیۡنَ اٰوَوۡا وَّ نَصَرُوۡۤا اور وہ لوگ جن لوگوں نے پناہ دی اور مدد کی اُولٰٓئِکَ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ
یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ولی ہیں ان کا آپس میں ولایت کا رشتہ قائم ہے۔ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَمۡ یُہَاجِرُوۡا مَا لَکُمۡ مِّنۡ وَّلَایَتِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ حَتّٰی یُہَاجِرُوۡا اس آیہ مبارکہ میں مہاجرین اور انصار کا ذخر ہے اور ابتداء اسلام میں مہاجرین اور انصار کے درمیان میں قائم ایک رشتے کا ذکر ہے اور پھر تمام مسلمانوں کے درمیان میں قائم ایک رشتی ولایت کا ذکر ہے۔ قرآن مجید میں جا بجا لفظ اولیاء، کافرین کو اپنا اولیاء نہ بناؤ کا ذکر آتا ہے۔ عموماً اولیاء کا ترجمہ دوستی سے کیا جاتا ہے کہ کافرین کو دوست نہ بناؤ مثلاً یہاں بھی اُولٰٓئِکَ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُہے ایک ولایت کا تصور ہے اسلام میں اور یہ صرف اسلام میں نہیں ہر معاشرے ایک ولایت کا تصور قائم ہوتا ہے۔ ولایت کے کئی معانی ہوتے ہیں۔ ولایت بمعنی میراث، ارث لینے کو بھی کہتے ہیں ولی الارث ولایت بمعنی ولی الدم جو کسی کے حق میں اولی بالتصرف ہوتے ہیں ولایت بمعنی حکومت و تسلط، ولایت بمعنی محبت ولایت بمعنی نصرت و حمایت، اس آیہ مجیدہ میں سیاق و سباق سے آپ خود سمجھے گے کہ یہاں ولایت سے مراد باہمی نصرت و حمایت کا رشتہ ہے ایک معاشرے اور ایک امت میں قائم حمایت و رشتہ مراد ہے یہ حمایت و رشتہ شروع میں اسلام کا ایک معاشرہ تشکیل پا رہا تھا مدینہ میں اور مدینہ کی طرف مکہ سے مہاجرین ہجرت کر کے آئے ان کو مہاجر کہتے ہیں جو مکہ میں اپنا گھر بار چھوڑ کے آئے ہیں ان کو مہاجر کہے گے اور جن لوگوں نے یعنی مدینہ والوں نے مکے سے ہجرت کر کے آنے والوں کو جگہ دی پناہ دی اور اپنے گھروں میں بٹھایا، اپنے زمینوں کے آمدنیوں میں ان کو حصہ دیا ویؤثرون علی انفسھم ولو کان بھم خصاصہ اور ایثار و قربانی سے کام لیا ان کو انصار کہتے ہیں یہاں پہ مہاجرین اور انصار دونوں کے لیے ایک مقام ہے ایک منزلت ہے اس کا ذخر اگلی آیت میں آتا ہے اس آیہ مجیدہ میں ایک ولایت کا ذکر ہے جو انصار و مہاجرین یا اس زمانے کے اسلامی معاشرے میں جو قائم تھا رشتہ ولایت ارشاد فرمایا جو ایمان لے آئے ہیں اور وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اور جہاد کرنے کے بعد جو راہ خدا میں انفس کے ساتھ جہاد کرتے ہیں وَ الَّذِیۡنَ اٰوَوۡا وَّ نَصَرُوۡۤا اور جن لوگوں نے پناہ دی اور نصرت کی اسلام کی مدد کی ان کے آپس میں اُولٰٓئِکَ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ ایک دوسرے کے اولیاء ہیں ولی ہیں حامی و ناصر ہیں ان کے امن و صلح ایک ہے۔ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ س کے ساتھ صلح ہے اور ایک کے ساتھ جنگ سب کے ساتھ جنگ ہے ولایت کا مطلب یہ ہوتا ہے رشتہ ولایت کا مطب یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی انصار کے ساتھ کوئی کافر کی زیادتی کرتا ہے تو ایسا ہے کہ سب اور پوری امت کے ساتھ جو اس موجود تھے ان سب کے ساتھ زیادتی ہے۔ اور اگر کسی نے کسی کو امن دیا ہے تو وہ سب کی طرف سے امن ہے امن و جنگ اور امن و صلح ایک ہے۔ اس زمانے میں اسلام کا معاشرہ جو تشکیل پایا اس معاشرے میں ایک ولایت قائم ہوگئی یعنی سب میں تمام افراد امت میں، امت میں سے ایک ایک فرد کی ولایت قائم ہو گئی باقی تمام امت کے ساتھ ایک ایک فرد۔ اُولٰٓئِکَ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ حتی شروع میں ولایت در وراثت بھی ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے۔ مہاجرین و انصار ایک دوسرے کے وارث ہو گئے بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا شروع میں وراثت تک یہ دائرہ ولایت وسیع تھا۔ لیکن ولایت بمعنی نصرت حمایت اور صلح و جنگ ایک ہو وہ قائم ہے ابھی بھی اس وقت تک قائم ہے۔ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ایک اور قابل توجہ نکتہ ہے وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا جب اوپر فرمایا جن لوگوں نے ایمان لے آیا اور ہجرت کی اور جہاد کیا ان کے اور انصار کے درمیان جنہوں نے پناہ دی اور دین کی مدد کی رشتہ ہے بعد میں فرمایا وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وہ لوگ جو ایمان تو لے آئے ہیں لیکن وَ لَمۡ یُہَاجِرُوۡا ہجرت نہیں کی ابھی دارالکفر میں رہتے ہیں مَا لَکُمۡ مِّنۡ وَّلَایَتِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ ان کے ساتھ تمہاری کوئی ولایت نہیں ہے تمہارا صلح و جنگ ایک نہیں ہے اگر ان کے ساتھ کوئی زیادتی ہوئی ہے تو کل امت کے زیادتی نہیں چونکہ وہ اس امت مسلمہ کے صحیح ممبر نہیں بنے ایمان لے آئے ہیں لیکن ہجرت کر کے دار الاسلام کی طرف نہیں آئے دارالکفر کو نہیں چھوڑا وہ اس رشتہ ولایت میں منسلک نہیں ہوئے مَا لَکُمۡ مِّنۡ وَّلَایَتِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ یہ لفظ وَلایت اور وِلایت کے بارے میں اہل لغت کے درمیان اختلاف ہے کہتے ہیں کہ وَلایت نصرت و حمایت کو کہتے ہیں محبت کو بھی کہتے ہیں وِلایت اگر بکسر الواو ہے تو حکومت و تسلط کو کہتے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں وَلایت کہے یا وِلایت کہے فرق نہیں ہم اس بحث میں نہیں جاتے ہم نصرت و حمایت کے اس بحث میں جاتے ہیں جو اس آیت کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں ولایت سے مراد نصرت و حمایت ہے۔ صلح و جنگ ایک ہونا ہے وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَمۡ یُہَاجِرُوۡا مَا لَکُمۡ مِّنۡ وَّلَایَتِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اور جن لوگوں نے ہجرت نہیں کی ان کے تمہارے درمیان کوئی ولایت نہیں ہے کوئی رشتہ نہیں ہے ان کا تمہارا امن و صلح و جنگ ایک نہیں ہے۔ وَ اِنِ اسۡتَنۡصَرُوۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ اگر وہ دارالکفر میں ہے کسی نے ان کے ساتھ زیادتی کی ہے وہ تم سے مدد مانگتے ہیں وہ لوگ جنہوں نے ہجرت نہیں کی وہ تم سے مدد مانگتے ہیں فَعَلَیۡکُمُ النَّصۡرُ تم کو مدد کرنی چاہیے ان کی مدد کرنی چاہیے جو دارالکفر میں رہتے ہیں مکہ میں اس وقت اس زمانے میں مکہ اس میں رہنے والے مسلمانوں کی مدد کرنی چاہیے۔ فَعَلَیۡکُمُ النَّصۡرُ اِلَّا عَلٰی قَوۡمٍۭ بَیۡنَکُمۡ وَ بَیۡنَہُمۡ مِّیۡثَاقٌ مگر یہ کہ اس قوم کے خلاف تم مسلمانوں کی مدد نہیں کر سکتے جن کے ساتھ تمہارا عہد و میثاق ہے مثلاً مسلمانوں کے ساتھ مشرکین قبیلہ عہد و میثاق ہے اس قبیلے کے لوگوں میں اور مکے میں جو مسلمان ہے ان کی لڑائی اور جھگڑا ہوتا ہے اور مسلمان امت مسلمہ کے تحت کہتے ہیں میری لڑائی ہوگئی ہے اس قبیلہ کے افراد کے ساتھ تو ادھر سے کہے گے ہمارا ان سے معاہدہ ہے ہم آپ کی مدد نہیں کر سکتے معاہدہ کی پاسداری کرنا ہوتی ہے اور اس شخص کی مدد نہیں کریں گے جو دارالکفر میں ہے چونکہ ان کے ساتھ صلح و جنگ ایک نہیں ہے۔ صلح و جنگ ایک ہونے کی صورت میں وہ امت مسلمہ کا ایک مکمل فرد اور ممبر بننا تھا صلح و جنگ ان دونوں کا ایک نہیں ہے اِلَّا عَلٰی قَوۡمٍۭ بَیۡنَکُمۡ وَ بَیۡنَہُمۡ مِّیۡثَاقٌ ؕوَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ﴿۷۲﴾ یہ بات واضح ہوگئی کہ جن لوگوں نے ہجرت نہیں کی ہے وہ امت مسلمہ کا کامل فرد نہیں ہیں ان کے ساتھ امت کی صلح و جنگ ایک نہیں ہے امام موسی کاظم عليه‌السلام سے سوال کیا ہارون رشید نے کیا بات ہے جب رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارتحال ہوا وصال ہوا تو عباس زندہ تھے ابوطالب زندہ نہ تھے جب عم چچا جب خود موجود ہوتے ہیں تو اولاد کے لیے وہ مانع بنتے ہیں آپ لوگ تو وارث رسول نہیں ہیں ہم لوگ وارث رسول ہیں ہمارا باپ زندہ تھا آپ لوگوں کا باپ زندہ نہیں تھا جب رسالت ماب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا وصال ہوا تو آپ لوگ کیسے کہتے ہیں کہ ہم وارث رسول ہیں؟ فرمایا چچا عباس نے چونکہ ہجرت نہیں فرمائی اس وجہ سے وہ امت مسلمہ کے ساتھ اس رشتہ ولایت میں منسلک نہیں ہے وارث نہیں بن سکتے آپ کہاں سے کہتے ہیں امام نے یہ آیت پڑھ کے سنایا ہارون کو وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَمۡ یُہَاجِرُوۡا مَا لَکُمۡ مِّنۡ وَّلَایَتِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ حَتّٰی یُہَاجِرُوۡا کوئی بھی ولایت نہیں ہے تمہارے اور ان کے درمیان میں آیت پڑھ کے جب سنا دیا تو ہارون نے کہا کسی اور سے بھی یہ بات کی ہے آپ نے تو فرمایا کہ نہیں کسی نے پوچھا بھی نہیں صرف آپ نے پوچھا ہے تو کسی اور سے میں نے یہ بات نہیں کی ہے قابل توجہ بات یہ ہے کہ جب دارالکفر سے ہجرت نہ کرنے کی وجہ سے وہ امت مسلمہ کا مکمل رکن نہ بنتا رشتہ ولایت میں منسلک نہیں ہوتا تو ہجرت کے سلسلے میں بات ہے کہ جب تک ہجرت نہیں کی رکن نہیں بنتا اور رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا فرمان بھی سب کے لیے واضح ہے لا ہجرۃ بعد الفتح فتح کے بعد فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے چونکہ وہ اس وقت مکہ دارالکفر نہیں رہا دار الاسلام ہو گیا ہے دارالکفر سے دارالاسلام کی طرف ہجرت کرنا تھا اب ہجرت کا موضوع ہی منتفی ہوگیا لا ہجرۃ بعد الفتح فتح کے بعد ہجرت کا موضوع ختم اور منتفی ہوا جتا ہے لہذا جن لوگوں نے فتح مکہ سے پہلے ایمان لے آیا اور ہجرت نہیں کی اور امت کا مکمل رکن نہیں بنا لیکن وہ لوگ جن لوگوں نے فتح مکہ تک ایمان بھی نہیں لے آیا ہجرت تو بعد کی بات ہے ایمان بھی نہیں لے آیا وہ امت مسلمہ کا فرد نہیں ہے بعنوان رشتہ ولایت فرد نہیں ہے کلمہ گو ہے مسلمان ہے اور لَا إلَهَ إلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ کہہ دیا تو ان کے اوپر حکم اسلام جاری ہوتا ہے لیکن وہ امت مسلمہ کا کامل فرد نہیں جن لوگوں نے فتح مکہ تک ایمان نہیں لے آیا یہ قابل توجہ نکتہ ہے یہ بات سمجھ میں آنی چاہیے مسلمانوں کو وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ جس طرح کافر بھی اسی طرح ہے ان کے بھی آپس میں صلح و جنگ ایک ہوتی ہے کسی کافر کے اوپر حملہ ہوتا ہے تو دوسرے لوگ ان کی مدد کے لیے آتے ہیں۔ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ ؕ اِلَّا تَفۡعَلُوۡہُ تَکُنۡ فِتۡنَۃٌ فِی الۡاَرۡضِ وَ فَسَادٌ کَبِیۡرٌ ﴿ؕ۷۳﴾
اگر تم نے ایسا نہیں کیا جیسا اس آیت میں اس آیت میں یہی فرمایا اس آیت میں فرمایا امت مسلمہ کا رکن بننے کے لیے ایک ولایت کے رشتے میں داخل ہونے کے لیے ایمان، مہاجرت، جہاد فی سبیل اللہ اور ایواء و نصرت شرط ہے۔ یہاں پر ایک فضیلت یہ ہے کہ انہوں نے ایمان لے آیا اور نصرت کی مہاجرین کی نصرت ان کے لیے فضیلت ہے اور انصار کے لیے نصرت اور ایواء یعنی پناہ دینا مہاجرین کے لیے پناہ دینا یہ ہجرت کے مقابلے میں ان کے لیے فضیلت ہے۔ اور نصرت و مدد کرنا جو ہے وہ جہاد بالمال جہاد بالنفس کے معنوں میں ہے جہاد میں دونوں ایک جیسے ہیں وہ ہجرت کرتے ہیں اور وہ پناہ دیتے ہیں۔ لہذا ان کے آپس میں رشتہ قائم ہے یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ انصار نے کونسی ہجرت کی تھی یہ نہیں کہہ سکتے۔ انصار پناہ دینے والے لوگ ہیں اس لیے وہ لوگ ممبر بن گیا وہ ہجرت کرنے والے ہیں اس لیے وہ ممبر بن گئے۔ جن لوگوں نے یہ دونوں نہیں کی، نہ پناہ دینے والوں میں شامل ہیں اور نہ ہجرت کرنے والوں میں شامل ہیں وہ اس امت مسلمہ کے ساتھ اس رشتہ ولایت میں منسلک نہیں ہے اس کے اوپر اگر عمل نہ کیا اس بات کے اوپر کہ مسلمانوں کے ساتھ صلح و جنگ ایک اور جو لوگ دار کفر میں ہیں مسلمانوں کے ساتھ نہیں آتے ان کے ساتھ رشتہ ولایت نہ ہو اور کافر آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رشتہ ولایت قائم کرے اور آپ مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ رشتہ ولایت قائم نہ کرے کیا ہوگا پھر لَا تَفۡعَلُوۡہُ اگر تم اس دستور کے اوپر عمل نہ کرو گے تَکُنۡ فِتۡنَۃٌ فِی الۡاَرۡضِ وَ فَسَادٌ کَبِیۡرٌ زمین میں ایک فتنہ اٹھے گا اور ایک بہت بڑا فساد پیدا ہوگا۔ جس طرح ہم اپنے معاصر زمانے میں امت مسلمہ کا حال دیکھ رہے ہیں کہ امت مسلمہ کے اسی ایک ولایت کے ساتھ منسلک نہیں آپس میں صلح و جنگ ایک نہیں ہے اور کافر جو ہے آپس میں الکفر ملت واحدہ ان کے آپس میں صلح و جنگ ایک ہیں وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ قائم ہے لیکن مسلمان کے آپس میں یہ ولایت قائم نہیں ہے اس کی وجہ سے ہم خود دیکھ رہے ہیں کہ تَکُنۡ فِتۡنَۃٌ فِی الۡاَرۡضِ وَ فَسَادٌ کَبِیۡرٌ اس فتنہ اور فساد کا اصل منبع تمام مسلمانوں کی صلح و جنگ ایک نہ ہونے کی وجہ سے ہے اور مسلمان اس وقت سپر پاور نہیں ہے تو اس لیے ہے کہ مسلمانوں کی صلح و جنگ ایک نہیں ہے کسی ملک کے ساتھ کفر نبرد آزما ہے دوسرے مسلمان لا تعلق رہتے ہیں صلح و جنگ ایک نہیں ہے۔ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ ہَاجَرُوۡا وَ جٰہَدُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اور وہ لوگ جو ایمان لے آئے اور ہجرت کی وَ جٰہَدُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ راہ خدا میں انہوں نے جہاد کیا وَ الَّذِیۡنَ اٰوَوۡا وَّ نَصَرُوۡۤا اور جن لوگوں نے پناہ دی مدد کیا اسلام کی دین کی اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ حَقًّا یہ ہجرت کرنے والے یہ راہ خدا میں ہجرت کرنے والے لوگ اور مہاجرین کو پناہ دینے والے اور ان کی مدد کرنے والے یعنی مہاجرین و انصار بشرطِ جہاد و ایواء و نصرت اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ حَقًّا یہ حقیقی مومن ہے اسلام حقیقتاً ان کے دلوں میں رچا بسا ہے حقاً کا مطلب یہ ہے حق الشئی اذا ثبت ایمان ان کے دلوں میں ثابت ہے۔ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّ رِزۡقٌ کَرِیۡمٌ ان کے لیے مغفرت ہے اگر ان سے بھول چوک ہوتی ہے کوئی لغزش ہوتی ہے اور ہوتی رہی ہے مغفرت ہے اور رِزۡقٌ کَرِیۡمٌ با عزت رزق ہے۔ لہذا قرآن کے رو سے اس میں کسی کو کلام نہیں ہے انصار و مہاجرین کی ایک فضیلت ہے۔ نہج البلاغہ میں بھی آپ دیکھے ہماری روایات و احادیث میں دیکھے کہ نہج البلاغہ میں مولا فرماتے ہیں کہ مہاجرین اپنی فضیلت لے گئے اور انصار بھی اپنا درجہ لے گیا مسلمانوں میں صف اول کے لوگ ہیں یہ اسلام کی ابتدائی اسلام قبول کرنے کی جو شرافت ہے عزت ہے جہاد کی فضیلت ہے اور ایثار و قربانی کی فضیلت ہے انصار وہ ان لوگوں کو حاصل ہے اس میں کسی کا شک نہیں ہے قرآن میں موجود ہے اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ حَقًّا اگر کوئی شخص اس تعریف سے خارج ہوتا ہے وہ اور چیز ہے اس تعریف کے اندر شامل ہیں ہوتا ہے وہ ہمارے موضوع بحث نہ قرآن کا ہے اور نہ سنت کا نہ اسلام کا لیکن جن لوگوں کے اوپر یہ آیت صادق آتی ہے وہ مُؤۡمِنُوۡنَ حَقًّا مومن حق ہے مثلاً فرض کر لیجیے ایک شخص ہے اس نے ایمان بھی لے آیا ہجرت بھی کی جہاد نہیں کیا ایک کافر کو بھی نہیں مارا وہ یہاں اس آیت سے تخصصاً خارج ہے نہ کہ تخصیصاً خارج ہے تخصیص کر کے نہیں نکالا تخصصاً از خود خارج ہے اس کی بحث اور ہے لیکن جن کے اوپر یہ آیت صادق آتی ہے وہ مُؤۡمِنُوۡنَ حَقًّا یہ حقیقت ایمان کی حقیقت ان لوگوں کے پاس ہے وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡۢ بَعۡدُ وَ ہَاجَرُوۡا وَ جٰہَدُوۡا مَعَکُمۡ اور جن لوگوں نے بعد میں ہجرت کی اس آیت کے نزول کے بعد ہو سکتا ہے اس آیت کے نزول کے بعد ہجرت کی ابھی دارالکفر میں ہے اس وقت جب تک وہ دارالکفر میں ہے ان کے ساتھ رشتہ ولایت قائم نہیں اور جب وہ بعد میں ہجرت کر کے تمہارے پاس آئے اور وَ جٰہَدُوۡا جہاد بھی کرے تمہارے ساتھ لڑائی میں شرکت کرے وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡۢ بَعۡدُ وَ ہَاجَرُوۡا وَ جٰہَدُوۡا مَعَکُمۡ تمہارے ساتھ جہاد کرے فَاُولٰٓئِکَ مِنۡکُمۡ وہ تمہارے امت میں شامل ہو گئے مِنۡکُمۡ یعنی اس کلمہ ولایت میں ورنہ وہ اس کے زبان سے کلمہ جاری ہوتے ہیں مِنۡکُمۡ تو ہو گیا تھا لیکن وہ رشتی ولایت میں منکم میں شامل نہیں تھا۔ وَ اُولُوا الۡاَرۡحَامِ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلٰی بِبَعۡضٍ فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ ؕ اور خونی رشتہ دار جو ہے ہ ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ حقدار ہیں ااس آیت سے وراثت کا مسئلہ خارج ہوتا ہے وَ اُولُوا الۡاَرۡحَامِ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلٰی بِبَعۡضٍ میں یہ وراثت سے مربوط ہے جہاں تک وراثت کا رشتہ ہے وہ اولوا الارحام میں شامل نہیں، یہ آیت ناسخ ہے پہلے حضور نے مواخاۃ کے ذریعے انصار و مہاجرین میں وراثت کی ولایت بھی قائم فرمائی تھی وہ وراثت والی ولایت منسوخ ہو گئی اس آیت سے وَ اُولُوا الۡاَرۡحَامِ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلٰی بِبَعۡضٍ خونی رشتہ دار ایک دوسرے سے وراثت میں زیادہ حقدار ہیں اِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ