تفسیر قرآن سورہ ‎الأنفال‎ آیت 24

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَجِیۡبُوۡا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوۡلِ اِذَا دَعَاکُمۡ لِمَا یُحۡیِیۡکُمۡ ﴿۲۴﴾
اے اہل ایمان اللہ اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو لبیک کہو,جب وہ تمہیں حیات آفرین باتوں کی طرف بلائے۔
اللہ اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے جو بھی دعوت ہوگی اس پر لبیک کہنا اسۡتَجِیۡبُوۡا لِلّٰہِ اس پر لبیک کہنا واجب ہے اور ایک رائے کے مطابق واجب واجب فوری ہے، تاخیر بھی نہیں کرسکتے اسۡتَجِیۡبُوۡا لبیک کہو فورا حاضر ہو جاؤ۔ چنانچہ رسالت مآب کی طرف سے جب بھی کسی شخص کیلئے دعوت ہو جائے یعنی پکارے رسول اللہ کسی کو پکارتے ہیں تو اس کے اوپر واجب ہے وہ فورا حاضر ہو جائے لبیک کہنا واجب فوری ہے۔ حتی اگر نماز کی حالت میں ہے پھر بھی نماز چھوڑ کر رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آواز پر لبیک کہنا واجب ہے، رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں بہت سے اصحاب کے ساتھ یہ واقعہ پیش بھی آیا۔ حضرت ابی ابن کعب کے ساتھ واقعہ پیش آیا، ابی ابن کعب کو رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بلایا ابی ابن کعب کو جانتے ہیں آپ استاد قرآن ہے، انصار کے ایک شخصیت۔ بلایا تو ابی دیر سے آیا فرمایا کیوں دیر لگائی؟ عرض کیا یا رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں نماز پڑھ رہا تھا، فرمایا یہ آیت نہیں پڑھی تم نے نماز چھوڑ کر آنا ہوتا ہے جب میں بلاتا ہوں، جی صحاح میں یہ روایت موجود ہے اور یہ روایت بھی صحیح ہے کہ بعض لوگوں نے کھانا بھی ترک نہیں کیا ادھر رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں کہ نماز کی حالت میں ہو پھر بھی رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آواز پر لبیک کہنا واجب ہے اور واجب واجب فوری ہے اسۡتَجِیۡبُوۡا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوۡلِ اللہ اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت پر فوری استجابت واجب ہے۔ آگے ہیں اِذَا دَعَاکُمۡ لِمَا یُحۡیِیۡکُمۡ جب وہ رسول تم کو پکارے بلائیں حیات آفرین باتوں کی طرف لِمَا یُحۡیِیۡکُمۡ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف جو پیغام لیکر آئے ہیں وہ حیات بخش پیغام ہے خود رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا وجود حیات بخش وجود ہیں اس دنیا کیلئے جئتکم بخیر دنیا والآخرہ فرمایا میں تمہارے پاس خیر دنیا و آخرت لیکر آیا ہوں اس دنیا کیلئے بھی حیات بخش حیات آفرین ہے عاقبت کیلئے بھی اور ابدی زندگی دینے والے رسول ہے لِمَا یُحۡیِیۡکُمۡ رسول کی آواز پر لبیک کہنا ایک حیات ہے اور ایک زندگی ہے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب بھی ہم کو بلاتے ہیں لِمَا یُحۡیِیۡکُمۡ حیات آفرین چیزوں کی طرف بلاتے ہیں لہذا حیات کی طرف لبیک کہنا امت کے اوپر واجب ہے یہاں یہ جو ارشاد فرمایا لِمَا یُحۡیِیۡکُمۡ جو تم کو حیات دے زندگی کی طرف جب رسول بلاتے ہیں تو لبیک کہنا عقلاً بھی واجب ہے اور ہر عاقل انسان کے اوپر واجب ہے البتہ اس میں ہوسکتا ہے وہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حیات آفرین قرار نہ دے نہ مانیں رسول نہ مانیں دوسری بات ہے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو دعوت دیتے ہیں وہ دعوت رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو پکار کرتے ہیں اللہ تعالٰی کی طرف سے پکارتے ہیں ہم کو اس پکار میں حیات ہے حیات آفرین نہیں، رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حیات لیکر آئے ہیں زندگی لیکر آئے ہیں۔
زندگی حیات کس کو کہتے ہیں ؟ حیات اور مردے میں فرق یہ ہوتا ہے کہ حیات جس کے پاس زندگی ہے وہ اس کے آثار ہوتے ہیں حیات کے آثار ہوتے ہیں اور اس آثار سے اس زندگی ہے جو سمجھ میں آتی ہے ایک چیز زندہ ہے یا اس کے اندر حیات نہیں ہے حیات کے آثار میں سے ایک چیز یہ ہے کہ حیات اپنے زندہ رہنے کے چیزوں کی طرف رجحان رکھتی ہے حیات کی یہ طبیعت ہے مزاج ہے کہ اس کیلئے جو ضروری چیزیں ہے اس کی طرف ہے جو اس کو اپنا لیتی ہے حیات اور جو اس کیلئے مضر ہے ا س سے بچتی ہے حیات کا یہ کام ہے یعنی کسی چیز کے اندر اگر زندگی ہے یہ پودا ہے پودا بھی حیات نباتی ہے تو پودا جو ہے وہ اپنے لئے مفید چیزوں کو اپنا لیتا ہے جو مضر چیزیں ہے اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہے پودا بھی،اگر دھوپ نہیں پڑتی ہے تو دھوپ کی طرف وہ پودا جھک جاتا ہے چونکہ دھوپ اس کیلئے حیات آفرین ہے اس کے اندر حیات ہونے کی علامت ہے اور اگر اس کے اندر حیات نہیں ہے تو وہ اپنے مضر اور مفید چیزوں میں تمییز نہیں کر سکتا حیات اپنے لئے راستہ خود بناتا ہے جس کے پاس حیات نہیں ہے وہ لہروں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے جہاں بھی لہریں لے جائے وہیں چل پڑتا ہے۔ حیات والا اپنا راستہ خود بناتا ہے یہ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو ہم کو جو دستور حیات دیا ہے اس میں ہمارے اندر زندگی کرنے کا سلیقہ آگیا زندہ رہنے کا سلیقہ اس زندگی کیلئے بھی، دنیاوی زندگی کیلئے زندہ رہنے کا سلیقہ دیا ہے اسلام نے اور آخرت کیلئے زندہ رہنے کیلئے کن کن چیزوں کی ضرورت ہے وہ بھی دے دیا ہے دنیا میں بھی سربلند کیا ہے اس نظام حیات نے، ہر ہر حرف ہر جملہ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے منہ سے جب نکلتا ہے یا قرآن کریم یا سنت ہے دونوں کا ہر ہر لفظ ہر ہر جملہ ایک زندہ خلیے کی طرح ہے ایک سیل کی طرح ہے جس سے ایک موجود زندہ وجود ، شکل اختیار کرتا ہے رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرامین سے اور رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے جو شریعت آئی ہے اس میں حیات آفرین ہے، سورہ والعصر میں بیان کیا کرتا ہوں انسان والعصر ان الانسان لفی خسر انسان گھاٹے میں ہے، گھاٹے میں کس طرح ہے یہ انسان کی زندگی بیان کیا کرتا ہوں اس کائنات میں سب سے زیادہ انسان کیلئے اپنی عزیز چیز جو ہے وہ زندگی ہے۔ اپنی زندگی سے خود سے زیادہ اہم چیز اس کائنات میں اس کیلئے نہیں ہے اور جو اس کیلئے کائنات میں اہم چیز ہے وہ کیا ہے وہ اس کی زندگی ہے وہ زندگی زمانے کے زد میں ہے اور ہر آن اس کی زندگی کا ایک لمحہ ختم ہو رہا ہے یہ حدیث میں ہے نَفَسُ المَرْء خُطَاهُ إلى أَجَلِه انسان کا سانس اس کی اجل کی طرف اٹھنے والا قدم ہے ہر سانس اس میں اپنے ایک اجل کی طرف، موت کی طرف جو ہے وہ ایک قدم نزدیک ہو جاتا ہے لفی خسر خسارے میں ہیں گھاٹے میں ہے انسان گھاٹے میں ہر آن اپنی زندگی اپنی ہاتھ سے دے رہا ہوتا ہے انسان لیکن انسان کو احساس ضیاع نہیں ہوتا مفت میں دیتا اور اس کے عوض میں کچھ نہیں لیتا انسان اپنی زندگی کو دینے کے بعد, دینا پڑتا ہے لفی خسر چارہ نہیں ہے انسان زمانے کے زد میں ہے زمانے ہے انسان غیر زمانی نہیں ہے زمانے سے ماوراء نہیں ہے زمانے سے مافوق نہیں ہے زمانے کے زد میں ہے اس لئے قسم کھائی والعصر عصر کے ساتھ قسم کھائی قسم ہے زمانے کی یہ انسان گھاٹے میں ہے خسارے میں ہے اس لئے اس کی زندگی جارہی ہے اپنے ہاتھ سے اور اگر وہ سمجھ داری کام نہیں لیتا، زندہ رہنے کا سلیقہ نہیں سیکھتا ایک شخص تو وہ گھاٹے میں ہوتا ہے کیسے گھاٹے میں ہوتا ہے اس لئے وہ زندگی جب دیتا ہے اس کے عوض میں کچھ بھی لیں کوئی بھی دنیا میں سب سے زیادہ قیمتی چیز تصور کرے زندگی کے علاوہ، وہ زندگی کے مقابلے میں خسارہ ہے یہ زندگی دے کرکے ایک ایک لمحے کے مقابلے میں اربوں ڈالر لے لیں آپ دنیا لے لیں دنیا وما فیھا لے لیں زندگی دے کر وہ زندگی کی قیمت نہیں ادا کرسکتے لفی خسر پھر بھی وہ گھاٹے میں ہے الاالذین آمنوا وعملواالصالحات سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لے آتے ہیں اور عمل صالح کرتے ہیں رسول کی آواز ہر لبیک کہتے ہیں وہ لوگ گھاٹے میں نہیں ہے وہ کیوں گھاٹے میں نہیں ہے ان کی زندگی نہیں جاتی ان کی عمر کم نہیں ہوتی، جی ان کی بھی عمر کم ہوتی ہے ان کی بھی زندگی جاتی ہے لیکن ان لوگوں نے جو ایمان و عمل صالح والے ہیں ان لوگوں نے مفت میں نہیں دیا یہ زندگی مفت میں نہیں دی یہ زندگی دی ہے اس نے اور اس زندگی کے عوض میں رسول کے لما یحییکم کی آواز پر لبیک کہ کر بہتر زندگی خریدی ہے۔ وہ خسارے میں نہیں ہے وہ خسارے میں نہیں ہے نہیں ہے بڑے فائدے میں ہے یہ پر آشوب زندگی دے کر یہ بے قیمت زندگی دے کر یہ موقت زندگی دے کر اس نے ابدی زندگی لے لی زبردست فائدے کا سودا کیا اس نے، حدیث میں ہے نا المومن کیس مومن ہوشیار ہوتا ہے خسارے کا سودا نہیں کرتا جی لہذا مومن جب رسول اللہ کی آواز پر لبیک کہتا ہے وہ اپنی زندگی کی قیمت وصول کرتا ہے لِمَا یُحۡیِیۡکُمۡ جی رسول کی دعوت میں رسول کی آواز میں تمہاری زندگی ہے تمہارے لئے حیات ہے رسول کی دعوت حیات آفرین ہے لہذا استجیبوا فوری لبیک کہو جی ٹھیک نماز بھی حیات آفرین ہے لیکن نماز کس نے دی ہے تم کو؟ نماز کس نے سکھائی ہے ؟اس نماز دینے والے کے آواز پر لبیک کہو فوری لبیک کہو۔
وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ یَحُوۡلُ بَیۡنَ الۡمَرۡءِ وَ قَلۡبِہٖ اور یہ بھی یاد رکھو کہ اللہ انسان اور اس کے دل کے درمیان میں حائل ہو سکتا ہے یَحُوۡلُ بَیۡنَ الۡمَرۡءِ وَ قَلۡبِہٖ کیا مطلب ہے اس کا کہ انسان اور اس کے قلب کے درمیان میں اللہ آجاتا ہے جی اور اس کے ارادے انسان اور اس کے ارادے کے درمیان اللہ آ جاتا ہے انسان اور اس کے شعور کے درمیان میں اللہ تعالٰی آ جاتا ہے اور اس کے قلب میں جو ارادہ ہے قلب میں مرکز ارادہ، قلب کے بارے میں بیان کیا کرتا ہوں قلب سے مراد مرکز ارادہ ہے قلب سے مراد وہ فزیکلی قلب نہیں ہے قلب سے مراد مرکز مراد لیا جاتا ہے ہمیشہ، قلب لشکر کہتے ہیں لشکر کا جو مرکز ہے، ایک محاورہ ہے یَحُوۡلُ بَیۡنَ الۡمَرۡءِ وَ قَلۡبِہٖ اللہ انسان کے دل اور اس کے درمیان میں اللہ حائل ہو جاتا ہے انسان کے ارادے کے درمیان میں انسان کے شعور کے درمیان میں اللہ تعالٰی آ جاتا ہے کیا مطلب ہے اس کا اللہ جو ہے وہ اس کے درمیان میں آ جاتا ہے ؟
کچھ لوگوں نے یہاں پر ایک کلامی مذہب ہے آپ کے علم میں ہے ہم سادہ لفظوں میں کہتے ہیں ایک کلامی مذہب ہے علم کلام میں کچھ مذاہب ہوتے ہیں اور فقہ میں مذاہب اور ہے کلام کے مذاہب اور ہے، کلام یعنی عقائد میں جو نظریات ہوتے ہیں عقائدی مباحث کو کلام کہتے ہیں عملی مباحث کو علم فقہ کہتے ہیں تو عقائدی مذاہب جو ہے اس کو کلامی مذہب کہتے ہیں تو کلامی مذاہب میں سے ایک مذہب یہ ہے کہ انسان کے افعال اپنے اختیار میں نہیں۔ اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے یہ ان کا نظریہ ہے۔ ایک دوسرا نظریہ ہے نہیں انسان کے افعال خود اس کے اپنے اختیار سے ہے اللہ تعالٰی کا ارادہ یہ ہے کہ انسان خودمختارانہ کام کرے جو لوگ اس نظریہ جبر کے قائل ہے وہ اس قسم کے آیات سے استدلال کرتے ہیں پہلے بھی میں بتاتا رہا ہوں اس سلسلے میں بحث ہوئی ہے کہ نظریہ جبر کے اوپر جو آیات ہے وہ دلالت نہیں کرتی خدا کی طرف سے جبر نہیں ہوتا، قرآن میں ہے متعدد آیات موجود ہے جس میں صراحت موجود ہے اللہ جبر نہیں کرتا وَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ اللہ چاہتا سب کی ہدایت کرتا جبر پر نہیں ہے ہدایت ہدایت اللہ کے جبر کی وجہ سے نہیں ملتی کسی کو پھر یحول بین المرء وقلبہ کا کیا مطلب ہے اللہ انسان کے ارادے کے درمیان میں آجاتا ہے انسان ارادہ کرتا ہے وہ پھر ہوتا نہیں ہے۔ جی ایک ارادہ انسان کرتاہے پھر نہیں ہوتا یا ایک انسان ایک ہی سلسلے میں لگا ہوا ہے لیکن اللہ تعالٰی درمیان میں اس کو پھیر دیتاہےایمان کی طرف جی ایک شخص ایمان لانا چاہ رہا ہوتا ہے آگے آ رہا ہوتا ہے اللہ پھیر دیتا ہے کفر کی طرف۔ جی یہ تو اچھا نہیں ہوا یہ تو جبر ہوگیا یحول اللہ حائل ہوتا ہے اس کے ارادے کے درمیان وہ ایمان لانا چاہتا ہے اللہ تعالٰی ایمان کی طرف نہیں آنے دیتا ایک شخص جو ہے وہ فسق و فجور میں ہے اللہ تعالٰی اس کو فسق و فجور سے بچا لیتا ہے یہ تو جبر ہوا؟ جی نہیں یہ جبر نہیں ہے پھر کیا ہے یہ بالکل اسی طرح ہے جس میں اللہ تعالٰی نے فرمایا اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے، جب اللہ کسی ہدایت دیتا ہے یَحُوۡلُ بَیۡنَ الۡمَرۡءِ وَ قَلۡبِہٖ اور جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اللہ جس کو گمراہ کرنا چاہتا ہے یَحُوۡلُ بَیۡنَ الۡمَرۡءِ وَ قَلۡبِہٖ جی دونوں جگہ ٹھیک اس لئے کہتے ہیں کہ یہ آیت جو ہے مومن کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے خطرناک مرحلے میں ہوتا ہے خبردار اپنے ایمان اور اپنے اخلاص وغیرہ کے اوپر بھروسہ نہ رکھو کہ اللہ تمہاری نیتوں کو جانچتا ہے سمجھتا ہے تمہارے اصل کو صدق کو تم کس قابل انسان ہو وہ تم سے یہ توفیق سلب کر لیتا ہے یہ ایمان سلب کر لیتا ہے اللہ تعالٰی ا س قابل نہیں ہے کہ مومن کی صفوں میں رہے سلب کر لیتا ہے بہت سے لوگ ہوتے ہیں کہ عاقبت بخیر کی دعا کرتے ہیں نا اللھم اجعل عواقب امورنا خیرا عاقبت کی فکر کرنی چائیے مومن کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے جی یَحُوۡلُ بَیۡنَ الۡمَرۡءِ وَ قَلۡبِہٖ ناز نہ کرو اپنے ایمان پر ناز نہ کرو اپنے عمل پر، ٹھیک ہے تمہاری نیتوں اور تم کس چیز کے اہل ہو اس کو اللہ تعالٰی جانتا ہے آخر میں جب مرنے لگتا ہے اس وقت اس سے ایمان سلب ہو جاتا ہے کافر مرتا ہے جی بہت ایسا ہوا ہے کیوں کافر مرتا ہے اس لئے دنیا میں جو کچھ کرتا رہا یہ اللہ تعالٰی کے ساتھ اخلاص کی بنیاد پر نہیں کرتا رہا یہ اس قابل نہیں تھا کہ مومن مرے جی یحول خدا بیج میں آ جاتا ہے کافر مرتا ہے اس قابل نہیں تھا جو کچھ کیا مومنانہ نہیں کیا، ایک غلط فہمی میں گزارا اپنے آپ کو، اللہ کی طرف بلانے والوں کی اہانت کرتا تھا، منہ چڑھاتا تھا جب وہ عاقبت کی طرف بلاتا تھا کیا کرتا تھا اور اپنے ایک زعم میں رہتا تھا کہ میں بہت کچھ ہوں یہ ہوں وہ ہوں جی نہیں تھا اہل ایمان ایک غلط فہمی میں، خطرے کی گھنٹی ہے مدعین ایمان کیلئے اور جو لوگ گناہ میں ہوتے ہیں کثافت کاری میں ہوتے ہیں ان کیلئے نوید ہے خوش خبری ہے یہ آیت۔ جی کہ ٹھیک ہے کسی وجہ کسی وجہ سے پھنس گیا کسی گند میں غلاظت میں پھسا ہوا ہے بندہ لیکن اندر سے ٹھیک ہے جی کسی وقت ایک موڑ ایسا آئے گا کہ وہ ادھر آئے گا ایک کہانی سناتے ہیں آپ کو حدیث ہے زبردست حدیث ہے اور یہ بہت ہمارے لئے اہمیت کے حامل حدیث ہے یہ ابوبصیر راوی ہے امام جعفر صادق عليه‌السلام کے بہترین شاگردوں میں سے ہیں علماء میں سے ہے وہ ناقل ہے کہ میرا ایک ساتھی تھا کوفے میں وہ ملوث ہوگیا حکومت کے دربار میں پہنچ گیا اور پھر شراب و کباب کا دربار لگاتا تھا اور گند میں چلا گیا بہت سمجھایا اس کو نہیں سمجھ سکا ایک مرتبہ میں حج پہ جارہا تھا خدا حافظی کیلئے آیا اور کہا مولا کے پاس جا رہے ہیں وہ صاحب کا لفظ استعمال کرتے ہیں اپنے صاحب سے کہو مولا سے کہو میں صاحب کا ترجمہ مولا سے کررہا ہوں حدیث میں ، قل لصاحبک اپنے صاحب سے کہو مولا سے کہو کہ مجھے اس گند سے بچا دے اچھا ٹھیک ہے وہ امام جعفر صادق کی خدمت میں پہنچتے ہیں اور پھر اس کا پیغام پہنچا دیتے ہیں امام نے فرمایا اس سے کہو تو اس گند کو چھوڑو میں تمہاری نجات کی ضمانت دیتا ہوں واپس آتا ہے ابو بصیر حج سے واپس آتا ہے لوگ ملنے کیلئے آتے ہیں لوگ آ گئے ملنے کیلئے یہ صاحب بھی آ گئے اٹھنے لگا تو ابوبصیر نے کہا بیٹھو کام ہے آپ کے ساتھ، جب خلوت ہوئی تو کہا میں نے تمہارا پیغام پہنچایا تو تمہارے لئے یہ جواب دیا ہے مولا نے کہ تم اس گند کو چھوڑو میں تمہاری نجات کی ضمانت دیتا ہوں، وہ آدمی جناب عالی اٹھا اور کہا مولا نے فرمایا کہ ضمانت دیتا ہوں فرمایا ضمانت دیا ہے وہ چھوڑ اس گند کو وہ جاتا ہے اور اس گند کو چھوڑ دیتا ہے ہفتے بعد ابو بصیر اس کی عیادت کیلئے جاتا ہے پوچھنے کیلئے بلایا اس نے، دیکھا وہ اپنے گھر کے دیوار کے پیچھے بیٹھا ہوا ہے عریان تن کے اوپر کپڑے بھی نہیں یہ کیا ہوا کہا یہ سب شبہ کا مال تھا سب میں نے نکال دیا اور میرے پاس اب پہننے کیلئے کپڑے بھی نہیں،ابو بصیر نے دوستوں سے لاکر کچھ اس کو پہنا دیا ہفتے بعد پھر پیغام بھیجا گیا کہ مریض تھا مریض تھا عیادت کرتا رہا پھر ایک دن وہ حالت نزع میں آگیا یہ شخص حالت میں نزع میں آگیا اور پھر بیہوش ہونے بعد ہوش میں آگیا اور پھر دیکھا کہ میں اس کے سرھانے پر ہوں تو کہا ابو بصیر قَد وَفى صاحِبُكَ مولا نے میرے ساتھ وعدہ پورا کیا یعنی اس کو نجات کی ضمانت یہاں مرنے سے پہلے دیدی ایک بعد ہمیشہ کیا کرتا ہوں کہ انسان جب مرتا ہے مرنے سے پہلے اس کا رزلٹ اس کا نتیجہ جو ہے سنا کرکے بھیجا جاتا ہے یہاں سے جی مرنے سے مرنے سے پہلے اس کو بتا دیا جاتا ہے یہ کہا جانا ہے کیا ہے وہ کس چیز کا اہل ہے ٹھیک ہے لہذا اس کو بتایا اس نے کہا قَد وَفانی صاحِبُكَ آپ کے مولا نے میرے ساتھ وعدہ پورا کیا دوسرے سال جب ابو بصیر مولا کی خدمت میں پہنچتے ہے تو دروازے کے اندر قدم رکھتے ہی سلام کے بعد مولا نے وعلیکم السلام ابو بصیر میں نے تمہارے ساتھی کے ساتھ وعدہ پورا کیا ہے کہا کہ وہ تو خود بتا کر گئے۔ جی یہ ہے ان اللہ یحول بین المرء وقلبہ دیکھو یہ شخص جو ہے کس قدر کثافت میں ملوث تھا اور اللہ تعالٰی اس کے ارادے اور یہ گند ہے جو کثافت ہے غلاظت ہے اس کے درمیان میں آیا کیونکہ طینت اس کی پاک تھی کسی ماحول میں پھنس گیا تھا اللہ نے اس کو بچا لیا لہذا اس آیت میں نوید ہے گناہگاروں کیلئے اور خطرے کی گھنٹی ہے ایمان داروں کیلئے اور اس میں آپ کیلئے درس ہے انسان خوف و رجا دونوں میں رہنا چائیے خوف اور رجاء دونوں کے درمیان میں رہنا چائیے اس لئے کہ اللہ تعالٰی انسان اور اس کے دل کے درمیان میں حائل ہو جاتا ہے۔