تفسیر قرآن سورہ ‎الأنفال‎ آیات 1 - 4

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَنۡفَالِ
انفال کے بارے میں کل گفتگو ہو رہی تھی۔ حکومت کی ملکیت ہے۔ اسلامی ریاست کی ملکیت کو انفال کہتے ہیں۔ تین چیزیں ہیں انفال، غنیمت فئی۔ غنیمت بھی حکومت کی ملکیت ہے لیکن حکومت کے لئے غنیمت کی تقسیم کے لئے قانون آگیا وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا غَنِمۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ میں۔ فئی اور انفال میں فرق کیا ہے؟ یہ تھوڑا سا توجہ طلب نکتہ ہے۔ فئی اور انفال دونوں اسلامی ریاست کی ملکیت ہیں یا فئی اور انفال میں کوئی فرق ہے؟ انفال کے بارے میں واضح یہ اسلامی ریاست کی ملکیت ہے۔ اسلامی ریاست کا جو سربراہ ہے رسول اور امام دونوں شامل ہوتے ہیں۔ امام اس کے لئے جائز التصرف ہے کہ انفال میں کیا کیا چیزیں ہیں؟ فئی وَ مَاۤ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ جس کو اللہ نے اپنے رسول کی آمدنی بنایا اس میں ایک نظریہ یہ ہے جس کو ہم بھی اختیار کرتے ہیں اس نظریہ کو کہ فئی ریاست کی ملکیت نہیں ہے رسول کی ذاتی آمدنی ہے نہ بعنوان امام نہ بعنوان اسلامی ریاست کے سربراہ کی جیسے انفال لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوۡلِ انفال جو ہے اللہ کے لئے اور رسول کے لئے۔ رسول بعنوان ولی امر بعنوان امام اور سربراہ ریاست جو ہے وہ مالک ہے۔ ذاتی مالک نہیں لیکن فئی محمد رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذاتی ملکیت میں ہے اَفَآءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ کہا ہے جس کے اوپر لڑائی نہیں بغیر لڑائی اور بغیر جنگ کے ہاتھ آیا ہے لوگ چھوڑ کر کے چلے گئے ہیں یا مصالحت ہوگئی جیسے خیبر کے جو املاک ہیں وہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذاتی ملکیت ہے۔ ان دونوں میں یہ فرق ذہن نشیں کر لیں اس پر دلائل ہیں کہ یہ ذاتی ملکیت کیوں ہے کس طرح ہے؟ اس پر دلیل کیا ہے؟ اس پر ایک دلیل صرف ذکر کرتا ہوں کہ فئی رسول اللہ کی ذاتی ملکیت ہے اس پر دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ کو حکم ہوتا ہے کہ اس فئی میں سے ذوی القربی کو دے دو اپنے رشتہ داروں کو دے دو رسول کے اپنے رشتہ داروں کو دے تو اگر یہ اسلامی ریاست کی ملکیت ہوتی تو پھر وہ اس میں رسول کی رشتہ دار پھر غیر رشتہ دار سب برابر ہوتے فرق نہیں ہوتا۔ رسول کے لئے یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اسلامی ریاست کی ملکیت میں سے اپنے رشتہ داروں کو ترجیح دے دے۔ رسول کی اپنی ذاتی ملکیت ہے اَفَآءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ اپنے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے اللہ نے آمدنی بنائی ہے رسول کی ذاتی ملکیت ہے نہ بعنوان سربراہ اسلامی ریاست۔ ذاتی ملکیت ہونے کی وجہ سے اپنے رشتہ داروں کے لئے دینے کا حکم ہوا ہے ذوی القربی کے لئے۔ اگلی آیت میں فرمایا اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ مومن کی تعریف ہے یہاں مومن کی تعریف میں پانچ چیزوں کا ذکر ہوا ہے کہ پانچ چیزیں ہیں حقیقی مومن کے اندر یہ پانچ چیزیں اگر ہوں تو وہ حقیقی مومن ہے اگلی ایت میں ارشاد ہوتا ہے کہ یہی لوگ حقیقی مومن ہے۔ ان میں سے خاصیت، خصوصیت علامت یہ ہے کہ اول تو مومن کس کو کہتے ہیںاِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ایمان کسی چیز کے باور کرنے کو کہتے اسلام عدم انکار کو کہتے ہیں۔ انکار نہیں کرتے ہیں جی ہاں کرتے ہیں اس کو، اس میں اسلام ہوگیا اس کا جان و مال محفوظ ہوگیا مسلمانوں کے دائرے میں داخل ہو گیا اس کے اوپر اس سے زیادہ دنیاوی زندگی کے قوانین جو مسلمانوں کے اوپر لاگو ہوتا اس شخص پر بھی لوگو ہوتا ہے جس نے کلمہ پڑھ لیا شہادتیں کا اقرار کر لیا لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ وہ مسلمان ہوگیا اس کا مال محفوظ اس کی جان محفوظ اس کے ساتھ مناکحہ جائز ہے مواریث یعنی وراثت ملتی ہے لیتا ہے اس قسم کے جو قوانین ہیں اسلامی جو دنیاوی زندگی کے لئے ضروری ہیں وہ لاگو ہوتا ہے اس کے اوپر، مسلمان عدم انکار۔ اس کے بعد مرحلہ آتا ہے ایمان کا قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا یہ عرب صحرا نشیں کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئیں قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا آپ کہہ دیجئیے کہ ایمان ابھی نہیں لائے۔ وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا کہو اسلام لے آئے ہیں۔ اسلام کا کبھی اسلام اور ایمان ایک معنی میں استعمال ہوتا ہے یہ بھی آپ کو بتاتے رہے ہیں ہم، اور کبھی ایمان اور اسلام مقابلے میں آتا ہے تو پھر اسلام عدم انکار کو کہتے ہیں اور ایمان دل میں یقین کر لینے کو کہتے ہیں۔
ایمان کے سلسلے میں بہت سے احادیث ہیں کہ ایمان کی علامتیں کیا ہیں یہاں پانچ علامتوں کا ذکر ہیں احادیث میں بھی بہت اس کے اوپر توجہ دی گئی ہے ایک حدیث ہے قابل توجہ حدیث ہے الإيمانُ على‏ أربَعةِ أرْكانٍ : التَّوكُّلُ علَى اللَّهِ اس میں بھی توکل کا ذکر ہے اس میں بھی توکل کا ذکر ہے۔ ایمان کے چار ارکان ہیں پہلا رکن اللہ پر بھروسہ کرنا والتَّفْويضُ إلَى اللَّهِ دوسرا رکن اپنے معاملات کو اللہ کے سپرد کرنا خود اپنے ہاتھ میں مت لو، اللہ کے سپرد کرتے ہیں یا اپنے ہاتھ میں لیتے ہو۔ عموما آپ طالب علموں کو میں بتایا کرتا ہوں معاملات کو اپنے ہاتھ میں مت لو اللہ پر چھوڑو کب ہم ہاتھ میں لیتے ہیں؟ جب آپ کسی مسئلہ میں آپ کو کسی سے رو برو کرنا ہوتا ہے اس میں اپنے اندر کمزوری سی محسوس کرتے ہیں آپ اس کمزوری کو چھپانے کے لئے آپ معاملے کو اپنے ہاتھ میں لے کر جھوٹ بولتے ہیں کہ اس کو میں خود ٹھیک کر لوں گا۔ جھوٹ بولنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے کہا تھا کہ جھوٹ نہ بولو آپ کہتے ہیں کہ نہیں جھوٹ نہ بولو آپ نہیں چلا سکتے ہیں میں خود ٹھیک چلاؤں گا جھوٹ بول کر یہ ہے کہ اللہ کے اپنے حوالے نہیں کیا، اپنے معاملے کو آپ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا جھوٹ بولنے کا مطلب یہ ہے مثال کے طور پر ایک چیز والتَّفْويضُ إلَى اللَّهِ توکل کی بات ہم آگے کریں گے کہ اللہ پر بھروسہ کرنا معاملات کے سلسلے میں۔ تیسری بات ہے والتَّسْليمُ لأمرِ اللَّهِ اللہ نے جو امر کیا ہے نہی کیا ہے حکم کیا ہے اس کو مان لینا حلال و حرام دیکھنا جائز و نا جائز دیکھنا ہر قدم پر پانچ احکام سے خالی نہیں ہے یا واجب ہے یا حرام ہے یا مستحب یا مکرو یا مباح۔ حکم سے خالی نہیں کوئی بھی قدم جو آپ کو اٹھتا ہے اس میں تسلیم لأمرِ اللَّهِ والرِّضا بِقَضاءِ اللَّهِ آپ کوشش ایک کرتے ہیں وہ کوشش ناکام رہتا ہے راضی رہو اللہ کا فیصلہ ہے کوشش کر کے ہاں۔ کوشش نہ کرو تو اور بات کوشش کرنے کے بعد اگر نتیجہ نہیں ملتا یا کوئی حادثہ پیش آتا ہے کوئی واقعہ پیش آتا ہے کوئی مصیبت آتی ہے اللہ کا فیصلہ ہے اس کے اوپر راضی رہو یہ ہے ایمان۔ دوسری حدیث میں فرمایا: ایمان کی حد کو آپ نہیں پہنچ سکتے ایمان کے درجے پر فائز نہیں ہو سکتے جب تک اپ اپنے بعد ترین انسان سے برائے خدا محبت نہیں رکھتے اور قریب ترین انسان سے برائے خدا بغض نہیں رکھتے، عداوت نہیں رکھتے کیونکہ اپ کا قریب ترین انسان وہ بے دین ہے بغض رکھتے ہیں اور بعید ترین انسان دیانت دار ہے اور بڑا باعمل مومن ہے اس کے ساتھ اپ محبت رکھتے ہیں ہے ایمان۔ دوسری حدیث میں أوثَقُ عُرَى الإيمانِ ایمان کی سب سے مضبوط ترین رسی کیا ہے؟ الحبُّ لِلهِ والبُغضُ لِلهِ یا الحبُّ في اللهِ والبُغضُ في اللهِ اللہ کے بارے میں کسی سے محبت کرو اللہ کے بارے میں کسی سے عداوت کرو برائے خدا ہو آپ کی محبت اور آپ کی عداوت، برائے خدا ہو یہ ہے ایمان۔ محبت برائے خدا اور عداوت برائے خد ایہ ایمان کی مضبوط ترین رسی ہے أوثَقُ عُرَى الإيمانِ ایمان کی مضبوط ترین رسی ہے محبت رکھو برائے خدا اور عداوت رکھو برائے خدا۔ ہم علی سے محبت رکھتے ہیں برائے خدا، ابو طالب کے صرف علی نہیں ہے اور بھی اولاد ہے ان سے بھی ہم محبت رکھتے ہیں لیکن علی سے زیادہ کیوں محبت رکھتے ہیں؟ برائے خدا۔ عقیل بھی ابو طالب کا فرزند ہے عقیل، ہم عقیل عقیل نہیں کرتے علی علی کرتے ہیں۔ دونوں اس کی اولاد ہیں ابو طالب کی اولاد ہے کیوں عقیل عقیل نہیں کرتے اور علی علی کیوں کرتے ہیں؟ برائے خدا، کہ وہ عاشق اللہ تھے علی۔ اللہ کے عاشق تھے اور ہم ابو جہل سے عداوت رکھتے ہیں ابولہب سے عداوت رکھتے ہیں وہ بھی ہاشمی تھا۔ وہ بھی ہاشمی، ابولہب ہاشمی، بنی ہاشم کا فرد ہے، رسو ل اللہ کا چچا ہے۔ ابو طالب سے ہم محبت رکھتے ہیں کہ حامی رسول ہے ابولہب سے عداوت رکھتے ہیں کہ وہ دشمن رسول ہے الحبُّ لِلهِ والبُغضُ لِلهِ کرتے ہیں نا! آپ اپنی تاریخ میں اپنی زندگی میں اپنے بود وباش میں رہن سہن میں اپنے قرب و جوار میں دوست یا رجو اپ کے ساتھ بیٹھتے ہیں اس میں بھی یہی کرو نا۔ جیسے آپ ابو طالب اور ابولہب میں الحبُّ لِلهِ والبُغضُ لِلهِ رکھے ہیں اسی طرح آپ کی زندگی کے ہر موڑ میں الحبُّ لِلهِ والبُغضُ لِلهِ
تیسری حدیث میں فرمایا هَلِ الدِّينُ إِلَّا الْحُبُّ دین ہی محبت سے عبارت ہے۔ أَ لاَ تَرَى إِلَى قَوْلِهِ: إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ کہہ دیجئیے اگر تم مجھ سے محبت کرتے ہو تو میری اطاعت کرو یعنی رسول کی۔ اللہ تم سے محبت کرے گا۔ دین محبت سے عبارت ہے۔ الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ پہلی صفت مومن کی ہے کہ جب اللہ کا ذکر ہو تو ان کے دل کانپ جاتے ہیں کانپتے ہیں ان کے دل اللہ کے ذکر سے یاد سے کانپ جاتے ہیں خوف کھاتے ہیں اللہ کے ذکر سے خوف کھاتے ہیں کیا مطلب ؟ اللہ کوئی خوف ناک چیز ہے وہ تو ارحم الراحمین ہے خدا کو یاد کرنے سے خدا ذہن میں آنے سے خوف کیوں ہوتا ہے؟ حدیث میں اس کی تشریح کی ہے ذکر خدا خدا کو یاد کرنے کا مطلب ایک حدیث ہے اس میں فرمایا کہ خدا کو یاد کرنے کا مطلب ذکر خدا کا مطلب وہ سُبْحَانَ اللهِ، والْحَمْدُ للهِ، ولا إلهَ إلًّا اللهُ، والله أكبرُ نہیں ہے اگرچہ یہ بھی ذکر خدا میں شامل ہے لیکن صرف یہی نہیں ہے بلکہ ذکر اللہ سے مراد یہ ہے کہ کوئی حلال و حرام کو موقع آئے تو اللہ کو یاد کرو حدیث میں ہے لَا أعْنِی سُبْحَانَ اللهِ، والْحَمْدُ للهِ، ولا إلهَ إلًّا اللهُ، والله أكبرُ مراد نہیں لیتا ہوں وَاِنْ کَانَ مِنْہُ اگرچہ یہ بھی ذکر خدا میں شامل ہے وَلَكَ ذِكْرُ اللّٰهِ عِنْدَ مَا أَحَلَّ حَرَّمَ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ ان کے دل کانپتے ہیں وہاں جب کوئی حرام شراب سامنے آتا ہے ایک شرابی محفل میں انسان کو بیٹھنے موقع ملتا ہے شراب پینے کا انسان کو موقع ملتا ہے اس وقت وَجِلَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ کانپ جائے خوف خدا سے نہ اینکہ اللہ یاد آنے سے کانپنا شروع کر دے اللہ کوئی خوفناک چیز نہیں اللہ ارحم الراحمین ہے حلال اور حرام کے موقع پر کانپے۔ حدیث نبوی ہے اس میں ارشاد فرمایا سَيِّدُ الأَعْمَالِ إِنْصَافُ النَّاسِ مِنْ نَفْسِكَ مُوَاسَاةُ الأَخَ فِي اللَّه، وذِكْرُ اللَّه عَزَّ وَ جَلَّ فِي كُلِّ حَالٍ اعمال میں سے سب سے بڑا عمل جو ہے وہ اللہ إِنْصَافُ النَّاسِ مِنْ نَفْسِكَ لوگوں کو اپنے سے انصاف دینا ہے۔ دو آدمیوں کے آپس میں نزاع ہے اس میں انصاف دینا ہے نہیں نہیں آپ کا اور کسی کے درمیان جھگڑا ہے اپنی ذات کے ساتھ کسی وہاں انصاف دے دو نا اگر حق آپ کے ساتھ نہیں ہے حق آپ کے مقابل کے ساتھ ہے تو اس کے حق میں فیصلہ دینے کو کہتے ہیں إِنْصَافُ النَّاسِ مِنْ نَفْسِكَ اپنے مقابلے میں جب انصاف آتا ہے تو پھر انصاف کرو نا دوسرے کو دے دو انصاف یہ ایمان ہے مُوَاسَاةُ الأَخَ فِي اللَّه اور لوگوں کی کمک کرنا مدد کرنا۔ یہ بات بھی ہمیشہ کہا کرتا ہوں ہمارے آئمہ عليهم‌السلام کی سیرت میں دو باتیں حلال و حرام بیان کرنا اور غریب پروری اس میں بھی فرمایا سَيِّدُ الأَعْمَالِ غریب پروری وہ حدیث میں ہے اس کے اوپر انشاءاللہ کسی موقع پر تفصیلاً بات کریں گے غریب پروری کے بارے میں وذِكْرُ اللَّه عَزَّ وَ جَلَّ فِي كُلِّ حَالٍ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہو۔ ذکر اللہ خدا کو یاد کرو مثلاً قرآن میں نہیں کہا نماز پڑھو کثیراً روزہ رکھو کثیراً جہاد کرو کثیراً نہیں کہا۔ کسی کے لئے لفظ کثیر استعمال نہیں کیا اس لئے کہ ہو نہیں سکتا کہ انسان ہر وقت نماز پڑھے ہر وقت روزہ رکھے ہر وقت جہاد کرے لیکن ذکر خدا ہوسکتا ہے اس لئے کثیراً واحد چیز ہے جس کے لئے لفظ کثیراً استعمال ہوا ہے قرآن میں وہ ذکر اللہ ہے۔ ذکر اللہ کثیراً ہو سکتا ہے۔ آپ چل رہے ہیں ذکر اللہ۔ آپ سوتے ہیں اور اپنے پہلو بدلتے ہیں نیند میں تھوڑی سی دو منٹ کے لئے جاگ آتی ہے پہلو بدلتے ہیں سبحان اللہ کہہ کے پہلو بدلو الحمد للہ جس نے مجھے اس نیند جیسی نعمت عنایت کی ہے پہلو بدلو ہر حال میں آپ اللہ کا ذکر کر سکتے ہیں۔ ذکر خدا آپ کی کسی عمل کے منافی نہیں ہے رکاوٹ نہیں ہے حتی اس میں ذکر خدا میں سے ایک ذکر ہے اَفْضَلُ الذِّکْر لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ سب سے بہترین ذکر ہے اس کو ذکر خفی بھی کہتے ہیں ذکر خفی اس لئے اگر اپ عادت ڈالے بہت بری بات ہے ذکر خفی۔ خفی اس لئے کہتے ہیں کہ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کا ذکر آپ ورد کرتے ہیں تو آپ کا لب نہیں ہلتا، لب نہیں ہلتا، کسی کو بھی پتہ نہیں چلتا کہ آپ ذکر پڑھ رہے ہیں سُبْحانَ اللّه، اللّهُ أكْبَر تو لب ہلتا ہے لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ لب نہیں ہلتا آواز سے بھی نہیں کہہ رہے ہیں آپ آہستہ کہہ رہے ہیں لب بھی نہیں ہلتا کسی کو پتہ نہیں چلتا اَفْضَلُ الذِّکْر لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ اور یہ ذکر خفی بھی ہے اس میں ریا کاری کا شائبہ بھی نہیں ہوتا کیونکہ کسی کو پتہ نہیں چلتا۔ آگے فرمایا وَ اِذَا تُلِیَتۡ عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُہٗ زَادَتۡہُمۡ اِیۡمَانًا اور جب اللہ تعالیٰ کی آیا ت کی تلاوت ہوتی ہیں تو اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ آیات کی تلاوت سے ایمان میں اضافہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان میں قوت و ضعف ہوتا ہے۔ ضعیف الایمان قوی الایمان اور ایمان کے درجات درجات ہوتے ہیں جس کا جتنا ایمان قوی ہوگا اس کا اللہ کے ساتھ نافرمانی کمزور ہو جائیگی۔ نافرمانی نہیں ہوگی شرم کرے گا حیا کرے گا اللہ تعالیٰ کے سامنے بیٹھ کر گناہ کرے خلاف ورزی کرے نافرمانی کرے حیا کرے گا اگر ایمان قوی ہے اور اگر ایمان کامل ہے یعنی اپنے اعلی درجے پر جائز ہے ایمان یقین کامل یہاں فائز ہو جاتا ہے کہ اس پر فائز ہونے والا کہے گا یا کہتا ہے فرمایا لَوْ كُشِفَ‏الْغِطَاءُ مَا ازْدَدْتُ يَقِيناً اگر یہ پردہ ہٹ جائے تو پھر بھی میرے یقین میں اضافہ نہیں ہوگا، اضافہ کی گنجائش نہیں ہے آخری مرحلہ پر جائز ہے پردہ ہٹ جائے پھر بھی ایمان میں اضافہ کے لئے گنجائش نہیں ہے اسی لئے فرمایا وَ اَبْیَنُ مِمَّا تَرَی الْعُیُوْنُ جن چیزوں کو آنکھیں دیتی ہیں اس سے بھی اس کی ذات واضح ہے علی کے لئے۔ جب ایمان کے اس منزل کے اوپر فائز ہوتا ہے پھر عصمت آتی ہے معصوم ہو جاتا ہے یقین کے آخری مرحلہ پر جب فائز ہوتا ہے یہاں یہ کہنے کو ملتا ہے کہ لَوْ كُشِفَ‏الْغِطَاءُ مَا ازْدَدْتُ يَقِيناً پھر عصمت اس کا لازمہ ہے۔ معصوم کے لیے گناہ کرنا ممکن نہیں ہوتا ممکنات میں سے ہوتا ہے کر سکتا ہے گناہ لیکن گناہ صادر ہوتا ہے نہیں ہے مانع کیا ہے؟ یقین ایمان مانع ہے لہذا حدیث میں ہے کہ کلام اللہ میں جہاں بھی یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا، یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کا لقب یا خطاب آیا ہے جہاں کہیں بھی اس میں فرد اکمل جو علی ابن ابی طالب ہے، بہت سے احادیث ہیں شیعہ سنی دونوں مصادر میں صرف شیعہ مصادر میں نہیں ہے متفقہ مصادر میں موجو د ہے کہ جہاں بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فرمایا ہے فرد کامل حضرت علی کی ذات ہے کیوں فرد کامل ہے؟ اس لئے کہ ان کا ایمان اعلی درجے پر فائز ہے یہ کلی ہوتا ہے الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وہ لوگ جو ایمان لے آئے ہیں یہ درجہ بدرجہ صادق آتا ہے ہم پر در درجہ صادق، کسی پر پانچ درجہ کسی پر دس، سو فیصد جس پر صادق آئے وہ پہلے اس کا مصداق بنے گا لہذا یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کا سب سے پہلا مصداق علی پھر اس کے بعد دوسرا کوئی ہو سکتا ہے زَادَتۡہُمۡ اِیۡمَانًا وَّ عَلٰی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ وہ اپنے رب کے اوپر توکل رکھتے ہیں عَلٰی رَبِّہِمۡ اپنے مالک کے اوپر اللہ تعالیٰ اس کا رب ہے مالک ہے اس کر اوپر بھروسہ رکھتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ پتہ نہیں جی ہم تعلیم حاصل کر رہے ہیں ہمارا مستقبل کیا بنے گا اور آگے کیا ہوگا کیا نہیں ہوگا؟ پریشانی لاحق ہوتی ہے اس طرح پریشانی کا اظہار کرتے ہیں لوگ گویا کہ اس کو کوئی رکھوالا نہیں ہے کوئی رب نہیں ہے کوئی مالک نہیں بے سر پرست ہے بے آسرا ہے کوئی نہیں ہے اس طرح بات کرتے ہیں وَّ عَلٰی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ اللہ پر بھروسہ رکھو اس پر حسن ظن رکھو اللہ پر۔ اللہ اپنے بندے کے حسن ظن کے ساتھ ساتھ چلتا ہے آپ اللہ کے ساتھ کیا حسن ظن رکھتے ہیں؟ یا د رکھو ان باتوں کو کہ اللہ پر حسن ظن رکھو اس سلسلے میں ایک واقعہ بھی سازندہ ہے آپ لوگوں کے لئے اور ناظرین کے لئے سناتے ہیں کہ حضرت آیۃ اللہ العظمی بروجردی ہمارے بڑے فقیہ مقدس اور صاحب تقوی فقہا میں سے گزرے ہیں وہ حوزہ علمیہ کہتے ہیں کہ ہم اسلامی یونیورسٹی فقہی یونیورسٹی کو حوزہ علمیہ کہتے ہیں۔ دو فقہی یونیورسٹی ہے ہماری ایک قم ہے اور ایک نجف ہے فقہ جعفریہ کے فقہی یونیورسٹی۔ حوزہ علمیہ کے وہ سربراہ بھی تھے مجتہد تھے سب دنیا کے تمام شیعہ ان کی تقلید کرتے تھے۔ حوزہ علمیہ قم، قم یونیورسٹی کے طلباء اساتذہ کو تنخواہ دینے کے لئے طلباء کو وظیفہ ملتا ہے وظائف اور اساتذہ کو تنخواہیں ملتی ہے تو آیت اللہ کے پاس کوئی پیسہ نہیں تھا پیسہ ختم ہو گیا۔ یہ بات سب کے علم میں آگئی کہ آیت اللہ کے پاس پیسہ نہیں ہے۔ سب کے علم میں آگئی تو اساتیذ قم نے ایک بڑے خطیب کو لکھا کہ آیت اللہ کے پاس پیسہ نہیں ہے آپ تہران جا کر کے لوگوں میں چندہ کرو اور شیخ محمد تقی فلسفی کو لکھا۔ شیخ محمد تقی فلسفی نے دیکھا کہ بہت سے علماء ہیں ان کا ٰیہ خط ہے تو بہتر ہے کہ میں خود آیت اللہ کی خدمت میں جاؤں خود ان کی اجازت سے میں لوگوں کے پاس چندہ کیلئے جاؤں تو آیت اللہ بروجردی کے پاس وہ آتے ہیں اور آغا سے عرض کرتے ہیں: پتہ چلا ہے کہ آپ کو مالی مشکلات ہے کچھ لوگوں کے تجویز کی ہے کہ میں چندہ کے لئے جاؤں تہران تاجروں کے پاس تو اجازت لینے آیا ہوں اپ نے فرمایا: من بہ خدا حسن ظن دارم اللہ پر بھروسہ ہے تم لوگوں کے پاس مت جاو۔ شیخ تقی فلسفی لکھتے ہیں اپنی حیات میں لکھے ہیں: میں وہاں سے تھوڑی دیر میں ایک آدمی داخل ہوگیا اور بہت کچھ پیشہ دیا آیت اللہ کو بڑا پیسہ آگیا۔ خدا پر حسن ظن رکھو توکل رکھو بھروسہ رکھو لیکن آپ اللہ پر جب بھروسہ رکھتے ہیں توکل رکھتے ہیں تو پھر دوسرے لمحے میں آپ کی مدد نہیں ہوگی آخر تک آپ کو جانا پڑتا ہے۔ اس شخص کے آنے سے پہلے شیخ تقی فلسفی کے آنے سے پہلے وہ آدمی نہیں آیا پیسہ دینے والا اس کو آیت اللہ کے اس کہنے کے بعد کہ من بہ خدا حسن ظن دارم مجھے اللہ کے اوپر بھروسہ ہے حسن ظن ہے اس کہنے کے بعد وہ بندہ داخل ہوتا ہے یعنی اللہ اس کو اس وقت بھیجتا ہے جب یہ اپنے امتحان کے آخری مرحلہ میں قدم رکھتے ہیں۔ اس قسم کے علماء کی حیات کا مطالعہ کرو یہ ہے اللہ تعالیٰ کے اوپر حسن ظن رکھنے کا مطلب ہوتا ہے توکل اللہ پر توکل رکھو حسن ظن رکھو۔ آگے فرمایا: الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ تیسری علامت وہ ہے کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں۔ نما ز کے اوپر بات کرتے رہے آگے انشاء اللہ تشریحاً بات کریں گے وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ جو ہم روزی ان کو دیتے ہیں رَزَقۡنٰہُمۡ جو ہم ان کے اوپر عنایت کرتے ہیں اس عنایت کو یُنۡفِقُوۡنَ آگے کرتے ہیں جو کچھ ہم ان پر عنایت کرتے ہیں اس عنایت کو آگے چلاتے ہیں انفاق نکالنے کو کہتے ہیں نا نفقہ سرنگ کو کہتے ہیں وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ رزق کس کو کہتے ہیں؟ عطیہ عطاء کو کہتے ہیں عنایت کو کہتے ہیں بخشش کو کہتے ہیں رزق۔ یہ روزی کھانے پینے کی چیز رزق میں شامل ہے صرف کھانے پینے کی چیز کو رزق نہیں کہتے عطاء عطیہ کو رزق کہتے ہیں وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ جو کچھ ہم نے عنایت کیا ہے آپ کو، ان کو ان مومنین کو یُنۡفِقُوۡنَ آگے نکالتے ہیں، نفقہ نکالنے کو کہتے ہیں۔ آپ کو علم عنایت کی ہے اس علم کو آگے کرتے ہیں یہ طالب علم آئے ہوے ہیں، ان کے لئے اپنے علم کو آگے کرو اپنے سینے میں نہ رکھو ان کو تربیت دے دواُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ حَقًّا یہ ہیں حقیقی مومن لَہُمۡ دَرَجٰتٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ان کے لئے ان کے رب کے پاس درجات ہیں یعنی اللہ کی خوشنودی کے درجات ہیں یا بہشت میں درجات ہیں جنت میں اللہ تعالیٰ ان کو بہت سے درجے دیں گے مَغۡفِرَۃٌ جتنا عمل صحیح ہوتا ہے اتنی ان کی مغفرت زیادہ ہوتی ہے۔ آپ کے علم میں ہے نا ایک شخص کافر ہے مشرک ہے بہت گناہ ہے ایمان لے آیا ایمان کی وجہ سے وہ بخشا جاتا ہے اور یہاں مومن آگے چل کر کے عمل صالح بجا لاتا ہے ان کا گناہ بخشا جاتا ہے مغفرت کے لئے بھی اہل ہونا ہوتا ہے اپنے اندر صلاحیت پیدا کرنا ہوتی ہے ارتکاب گناہ کرتے جاو اور مغفرت کی امید رکھتے جاو ایسا طریقہ صحیح نہیں ہے۔ گناہ کرنے کے بعد نیک عمل کرو یا توبہ کرو یا کم از کم اس گناہ کو برا سمجھو۔ برا سمجھ لیا کافی ہے پھر بھی گناہ مٹ جاتا ہے وَّ رِزۡقٌ کَرِیۡمٌ با عزت روزی ہے۔ یہاں دنیا کی روزی کی طرح نہیں ہے آپ کو لڑائی جھگڑا کرنا پڑتا ہے کس سے اور کس سے وہاں رِزۡقٌ کَرِیۡمٌ با عزت اور احترام کے ساتھ رزق یعنی وہی عنایت اور بخششیں ملے گیں۔