تفسیر قرآن سورہ ‎الأنفال‎ آیات 7 - 11

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

وَ اِذۡ یَعِدُکُمُ اللّٰہُ اِحۡدَی الطَّآئِفَتَیۡنِ اَنَّہَا لَکُمۡ
وہ وقت کو یاد کرو کہ جب اللہ نے دو گروہوں میں سے ایک کے بارے میں وعدہ کیا کہ تمہارے ہاتھ لگے گا۔ وعدہ الہی ہے خدا پنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا اور اس پر جو ایمان میں پختگی ہے ان کو تو یقین آگیا ہے وَ تَوَدُّوۡنَ اَنَّ غَیۡرَ ذَاتِ الشَّوۡکَۃِ تَکُوۡنُ لَکُمۡ اللہ نے اس کو مصلحتاً مجمل رکھتا تھا اِحۡدَی الطَّآئِفَتَیۡنِ دونوں میں سے ایک تمہارا ہاتھ لگے گا؛ تجارتی قافلہ یا لشکر لیکن تمہارا یہ خیال تھا تَوَدُّوۡنَ تم چاہتے تھے اَنَّ غَیۡرَ ذَاتِ الشَّوۡکَۃِ تَکُوۡنُ لَکُمۡ یہ جو ہاتھ لگے گا وہ غیر مسلح گروہ ہے یعنی تجارتی قافلہ تم یہ چاہتے۔
انسان عاقبت بین نہیں ہوتا محسوس پرست ہوتا ہے سہل پرست ہوتا ہے لہذا یہ قدرتی بات ہے کہ تجارتی قافلہ اور جنگی لشکر میں سے تجارتی قافلہ قابل ترجیح ہے وَ یُرِیۡدُ اللّٰہُ اَنۡ یُّحِقَّ الۡحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ اس طرف تم تو چاہتے ہیں تھے کہ غیر مسلح گروہ تمہارے ہاتھ لگے یعنی تجارتی قافلہ تمہارے ہاتھ لگے اللہ تعالیٰ اس کے مقابلے میں چاہتا تھا کہ حق کو ثبات ملے۔ حق ثبات کو کہتے ہیں ثابت چیز کو کہتے ہیں حق الشئی اذا ثبت ایک چیز جو امر واقع ہے اس کو حق اور حقیقت کہتے ہیں۔ حق کے مقابلے میں باطل ہوتا ہے جس کا کوئی امر واقع نہیں ہے کوئی وجود نہیں ہے وہ باطل ہے اور جس کو وجود اور ثبات ہے اس کو حق کہتے ہیں۔ آپ کی بات اگر کسی امر واقع کے مطابق ہوتی ہے تو پھر آپ کی بات کو سچ کہتے ہیں اور اگر واقع کے مطابق نہیں ہے جھوٹ کہتے ہیں۔ سچ اور جھوٹ کا تعلق واقع سے ہے واقع کے ساتھ مطابق ہونے نہ ہونے سے ہے جبکہ حق اور باطل کا تعلق خود واقع سے ہے امر واقع کو کہتے ہیں امر واقع میں جو چیز موجود ہے۔
دین اسلام کے لئے ایک فیصلہ کن مرحلہ تھا اور دین اسلام کے وجود اور عدم کا مسئلہ تھا یہ معرکہ بدر جو ہے یہ فیصلہ تھا کہ مشرکین اور مسلمانوں میں سے کس نے زندہ رہنا ہے اور کن نے مٹنا ہے، ایک فیصلہ کن مرحلہ تھا لہذا اس فیصلہ کن مرحلہ میں مسلمانوں کو اور اسلام کو حق ہے اور حقیقت ہے اس کے مقابلے میں مشرکین ایک واہمہ کے پیچھے ہوتے وہ بت پرستی واہمہ ہے غیر حقیقی چیز ہے باطل مذہب ہے جس کا کوئی، واقع میں جس کا کوئی وجود نہیں۔ ان دونوں میں سے حق کو ثبات ملنا ہے یا باطل کو، فیصلہ کن مرحلہ تھا۔ ظاہر ہے ثبات اور وجود حق کو ملتا ہے امر واقع، واقع کی قیمت ہوتی ہے واہمہ کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ مشرکین کے پاس جو مذہب تھا وہ سوائے واہمہ کے اور کچھ نہ تھا وَ یُرِیۡدُ اللّٰہُ اللہ تعالیٰ چاہتا تھا اَنۡ یُّحِقَّ الۡحَقَّ جس کو حقیقت اور ثبات حاصل ہے وہ ثابت ہوجائے بِکَلِمٰتِہٖ اپنی کلمات سے۔ کلمہ قرآن مجید میں بہت سی جگہوں پر استعمال ہوتا ہے، کلمہ اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے، فیصلہ۔ کلمہ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے صادر ہوتا ہے کلمہ کن ہو جا بِکَلِمٰتِہٖ اور یہ کلمات فیصلہ خدا یہ تشریعی فیصلہ کے لئے بھی صادق آتا ہے اور تکوینی فیصلہ کے لئے بھی صادق آتا ہے بِکَلِمٰتِہٖ دونوں میں کلمہ استعمال ہوتا ہے۔ تشریعیات میں تو کلمہ کے ذریعے، الفاظ کے ذریعے، عبارت کے ذریعے وحی کے ذریعے یہ قرآن ہے الفاظ اور عبارت سے مربوط ہے یہ کلمات الہی ہے اللہ تعالیٰ کے احکام ہیں حلال و حرام ہیں اس کا فیصلہ ہے۔ تکوینیات میں کلمہ کن ایک تعبیر ہے صرف۔ والا صرف اللہ تعالیٰ کا ارادہ نافذ ہوتا ہے کاف اور نون کی ضرورت نہیں ہوتی ہے تکوینیات میں۔ ارادہ کیا ادھر اللہ تعالیٰ نے اور وہ جس چیز کا ارادہ کیا ہے وہ فورا وجود میں آتا ہے کاف و نون کے خطاب کی ضرورت نہیں ہوتی کوئی مخاطب نہیں ہے جس سے خطاب کرے یہ ایک تعبیر ہے اظہار ارادے کے لئے ہم کو عالم ملکوت کی چیزیں سمجھانے کے لئے ایک تعبیر ہے کن بِکَلِمٰتِہٖ اللہ اپنے فیصلہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا ایک فیصلہ تھا وہ تھا یُرِیۡدُ اوپر ذکر ہو گیا وَ یُرِیۡدُ اللّٰہُ اَنۡ یُّحِقَّ الۡحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ اللہ کے اپنے فیصلہ کے مطابق حق کو ثبات دینا چاہتا تھا وَ یُبۡطِلَ الۡبَاطِلَ اور باطل کو نابود کرنا چاہتا تھا باطل باطل اور باطل کو باطل کرنا تحصیل حاصل نہیں ہے اس لئے کہ لوگ باطل کو حقیقت کا روپ دیتے تھے حقیقت سمجھ کر اپناتے تھے ان کے اوپر ابھی منکشف ہے مثلاً اس وقت ہمارے لئے منکشف ہے اور فتح مکہ کے بعد سب کے لئے منکشف ہوا تھا کہ یہ کچھ بھی نہ تھا سراب تھا باطل کو باطل دکھا نا چاہتا تھا۔ لوگ باطل کو باطل نہیں دیکھ رہے تھے باطل کو حقیقت سمجھ رہے تھے تو اس جنگ کے بعد باطل باطل دکھائی دینا شروع ہوگیا اور حق حق ثابت ہونا شروع ہوگیا وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُجۡرِمُوۡنَ خواہ مجرموں کو کتنا ہی نا گوار گزرے اللہ تعالیٰ باطل کو نیست و نابود کرنا چاہتا تھا۔ اس میں اشارہ یہ ہے کہ تم تو تجارتی قافلہ کی طرف جانا چاہتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ اس لشکر کی طرف جانا چاہتے تھے جو ان کی قوت اور ان کی طاقت کا مرکز ہے اس کو توڑ نا چاہتے تھے چنانچہ یہی ہوا جنگ بدر کے بعد جب بھی لوگوں نے مسلمانوں پر حملہ کیا اور یکے بعد دیگرے وہ شکت کھاتے گئے شکت کھاتے گئے بالآخرہ فتح مکہ اور پھر فتح مکہ کے بعد حنین میں اس میں بھی شکت کھا گئے بالآخرہ باطل جو ہے وہ نابود ہوگیا۔
اِذۡ تَسۡتَغِیۡثُوۡنَ رَبَّکُمۡ فَاسۡتَجَابَ لَکُمۡ اَنِّیۡ مُمِدُّکُمۡ بِاَلۡفٍ مِّنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ مُرۡدِفِیۡنَ وہ وقت بھی یاد کرو اذ کا لفظ اس لئے آتا ہے نا جب جس وقت جن حالات میں تم جس وقت تم اپنے پروردگار سے استغاثہ کر رہے تھے فریاد کر رہے تھے کمک مانگ رہے تھے تو فَاسۡتَجَابَ لَکُمۡ تمہارے رب نے تمہاری دعائیں قبول کی اور تمہاری سن لی اور پھر فرمایا اَنِّیۡ مُمِدُّکُمۡ بِاَلۡفٍ مِّنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ مُرۡدِفِیۡنَ کہ میں کمک بھیجنے والا ہوں یکے بعد دیگرے آنے والے ایک ہزار فرشتوں سے ابھی بعد میں ایک آیت بھی آتی ہے کہ کفر اور اسلام کا جب آمنا سامنا ہوا بدر میں تو دونوں لشکر میں کوئی تناسب نہیں تھا کہ ان لوگوں میں لڑائی کا کیا مطلب ہے یہ لوگ تو صرف خودکشی کے لے آئے ہوتے تھے تو قدرتی بات ہے کہ مسلمانوں میں بہت ہی بے چینی اور اضطراب پھیل گیا تھا۔ اس اضطراب اور بے چینی میں اللہ سے دعائیں کرتے تھے رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بھی دعا ہے اور مشہور ہے کہ اے اللہ، اگر یہ شکت کھا جائے تو روئے زمین میں تیری کوئی عبادت کرنے والا نہیں بچے گا نہیں بچتا تھا نا کیونکہ موت اور حیات کا مسئلہ تھا جنگ بدر۔ اس استغاثہ کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ایک تو فرشتے بھیجے فرشتے۔ اللہ تعالیٰ اگر فرشتے بھیجتے الف ایک ہزار فرشتے بھیجے۔ ایک فرشتہ کافی ہوتا ہے فرشتہ بھی نہ بھیجے آسمان سے ایک بجلی بھیجتے تو کافی ہوتا ہے ان کو بھسم کر کے رکھ دیا اور تباہ کر دیا۔
اللہ تعالیٰ جہاں اپنے دین کی طرف بلانے کے لئے لوگوں کے اوپر جبر نہیں چلاتا وہاں فوق العادہ معجزہ اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کر کے عام معمول کے علل و اسباب سے ہٹ کے الہی طاقت کے ذریعے دین پھیلانا بھی نہیں چاہتا اس کی قیمت نہیں ہوتی، کسی مجاہد کی ضرورت نہیں کسی کی جان فشانی کی ضرورت نہیں کسی امتحان و آزمائش کی ضرورت نہیں اور خود خدا براہ راست کسی پیغمبر کے لئے نہیں کیا تمام پیغمبروں کو لڑنا پڑا اور مجاہدین کی ضرورت پیش آئی ہے تلوار کی ضرورت پیش آئی ہے اسلحہ کی ضرورت دیگر سامان حرب کی ضرورت پیش آئی ہے البتہ یہاں پر جو ارشاد فرمایا پھر فرشتے بھیجے ایک ہزار فرشتے ایک ہزار کی کیا ضرورت ایک ہی کافی ہے۔ یہ فرشتے جو ہیں ان کا نزول اول تو فرمایا ممُرۡدِفِیۡنَ یہ فرشتے آئے تھے ایک ہزار یکے بعد دیگرے، ردف کہتے ہیں سواری کے پیچھے بیٹھنے والے کو یعنی پیچھے آنے والے کو ردف کہتے ہیں ردف لکم تمہارے لئے پیچھے یکے بعد دیگرے بھیجا۔ فرشتے بھیجے ہیں تمہارے لئے یکے بعد دیگرے ایک ہزار تمہاری ان دعاؤں کے نتیجے میں۔ تمہاری دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے ہم نے ایک ہزار فرشتے بھیجے۔
آگے اس کی وضاحت ہے فرشتے جو بھیجے ہیں کس کام کے لئے بھیجے ہیں۔ اگر فرشتوں نے آکر کے طاقت استعمال کرنا ہے تو پھر ایک فرشتہ کافی ہوتا بہت قوی ہوتا ہے یا حتی کہ فرشتے کے بھی ضرورت نہیں فرمایا آگے وَ مَا جَعَلَہُ اللّٰہُ اِلَّا بُشۡرٰی یہ فرشتوں کا بھیجنا اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے صرف صرف وما جعل ما اور الا کے ساتھ ہے صرف کا معنی ملتا ہے ما اور الا سے صرف انحصار۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو بھیجا صرف تم کو بشارت دینے کے لئے ایک بشارت وَ لِتَطۡمَئِنَّ بِہٖ قُلُوۡبُکُمۡ اور دوسری بات یہ ہے کہ تمہارے دلوں میں اطمینان آنے کے لئے تیسری بات وَ مَا النَّصۡرُ اِلَّا مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ کمک نصر اور فتح و نصرت جو ملتی ہے وہ بھی صرف ما اور الا صرف یہاں بھی ترجمہ صرف ہوگا صرف اللہ سے ملتا ہے اور کسی سے نہیں ملتا۔ فتح و نصرت اگر ملتی ہے تو صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے چونکہ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ اللہ تعالیٰ بالادست ہے غالب آنے والا ہے حَکِیۡمٌ حکیم ہے، حقائق کا جاننے والا ہے۔ حکمت کہتے ہیں اس کو ذہن میں رکھو حکمت غلطی کے مقابلے میں آتا ہے ایک شخص حکیم ہے سمجھدار ہے حقائق سمجھتا ہے سوجھ بوجھ رکھنے والے کو حکیم کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ دانا ہے حکیم حکمت والا ہے حقائق کی بینش رکھنے والا ہے اللہ کے سامنے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے حکیم ہے اللہ تعالیٰ۔ اللہ تعالیٰ کی طرح کوئی حکیم نہیں ہو سکتا۔ یہ جو حکمت والوں کو حکیم کہتے ہیں کہ وہ بیماری کو سمجھتے ہیں قدیم جو حکیم کہتے ہیں سوجھ بوجھ رکھنے والا حکیم حکمت۔ احادیث کی طرف رجو ع کیا تو حکمت کا معنی آیا الحکمۃ ھو الفھم سمجھنا سوجھ بوجھ آنا اس کے مقابلے میں خطا ہے یا اس کام پر خطاکار ہے یا حکیم ہے۔
اللہ تعالیٰ کو پتہ ہے کہ تمہارے ساتھ کیا کرنا چاہیے علم ہے اس کو۔ وہ حکیم ذات ہے اور بالادست بھی ہے اس وجہ سے صرف نصرت ملتی ہے تو نصرت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے اور اللہ تعالیٰ نصرت جو دیتا ہے کسی کو براہ راست نہیں دیتا طاقت بشر سے اور علل و اسباب اور قانون سے ماورا اور ما فوق کسی طاقت کے ذریعے نہیں دیتا پھر تو کسی جہاد کی ضرورت نہیں کسی آزمائش کی نوبت نہیں آتی وہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے خلاف ہے۔ پس کیا ہے؟ یہ فرشتے ہم نے بھیجے ہیں طاقت استعمال کرنے کے لئے نہیں بھیجے معنویت کے اعتبار سے یہ لوگ تمہاری مدد کر رہے تھے بشارت دے رہے تھے کہ فتح تمہاری ہے۔ یہ بشارت فرشتے لوگوں کے دماغ میں ڈال رہے تھے بات سمجھو۔ سمجھ بھی گئے بات بہت پریشان سوئے سونے سے بڑی پریشانی تھی اور دعائیں کی اور پھر اس کے بعد زبردست نیند آئی صبح کو اٹھے چاق و چوبند سو کر کے جب اٹھے کو چاق و چوبند اٹھے بارشیں بھی ہوئی پانی بھی ملا پانی نہ تھا پہلے بعد میں بات آتی ہے وَ مَا النَّصۡرُ اوریہ بتانے کے لئے بُشۡرٰی بشارت کے لئے کہ فتح تمہارے لئے وہ فرشتوں نے تمہارے ذہنوں میں بٹھایا دیا وَ لِتَطۡمَئِنَّ بِہٖ قُلُوۡبُکُمۡ اور اس سے تمہارے دلوں میں اطمینان آئے اطمینان بھی فرشتوں کے کمک کی وجہ سے تم کو نفسیاتی طور پر اطمینان آیا اللہ تعالیٰ کی نصرت کے اوپر اطمینان آیا فرشتے آ گئے ہیں۔
نفسیات کو بہت بڑا دخل ہوتا ہے اللہ علل و اسباب سے ہٹ کر نہیں کرتا یہاں بھی اللہ تعالیٰ نفسیات اور علل و اسباب کے ذریعے اللہ کی کمک آتی ہے علل و اسباب کے ذریعے ابھی حال ہی میں ایک واقعہ بتا رہے تھے کہ ایک لڑکے کو پھانسی کی سزا ہوگئی تھی اس نے خواہش ظاہر کی مجھے سر عام پھانسی مت دے دو پیچھے چھپا کر کسی طریقے سے مجھے مار دو تو اس پر ایک تجربہ کیا گیا کہ اس کے ہاتھ سے خون نکالنے اور پھر خون زیادہ بہنے کی وجہ سے یہ ختم ہو جائے اس کی زندگی یہ اس کو سمجھایا کہ تمہاری زندگی تمہارے جسم سے خون نکال کر کے ختم کر رہے ہیں ہم۔ سوی چھادی ایک کھال بھی رکھ دیا اس کے آنکھوں پر پٹی باندھی کوئی خون کا قطرہ نہیں نکالا اور پانی گراتا رہا اور خون بہ رہا ہے اس کو پڑھایا اس کے دل کی حرکت وہ سست ہونا شروع ہوگیا پھر دل کی حرکت بیٹھ گیا اور مر گیا ایک قطرہ خون کا نہیں گرا تھا۔ پڑھایا اس کو تمہارا خون نکالا جا تا ہے نفسیاتی حربے کے ذریعے اس کو قتل کیا قتل ہو جاتا ہے نفسیات بہت قوی ہوتا ہے انسان کا۔ اللہ تعالیٰ بھی اس نفسیات کے ذریعے سے آیا بُشۡرٰی وَ لِتَطۡمَئِنَّ بِہٖ قُلُوۡبُکُمۡ بشارت نفسیات کا مسئلہ ہے اطمینان قبل بھی نفسیات کا مسئلہ ہے وَ مَا النَّصۡرُ اِلَّا مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ کی سوجھ بوجھ اس بات کا سمجھنا بھی نفسیات کا مسئلہ ہے۔ اس لئے فرشتے آئے تھے، تم کو اس طرح کمک کی، خود تم کو قوت دے دی اور پھر فتح دیا اللہ تعالیٰ نے نہ اینکہ تم سے ہٹ کے تمہارے مافوق کوئی طاقت بھیجی اللہ نے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت نہیں ہے اللہ تعالیٰ کا طریقہ کار نہیں ہے خود تمہارے ذریعے تم کو اللہ تعالیٰ نے فتح و نصرت دی ہے مزہ بھی اسی میں آتا ہے نا کہ ہمارے ہاتھ سے فتح و نصرت آجائے فرشتے آئے اور ان لوگوں نے لوگوں کو مارا قتل کیا اور اذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَا اِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ اس میں مزہ نہیں آتا ہے نا کہ آپ اور آپ کے پروردگار جائیں لڑائی کریں۔ ہم ادھر دیکھتے رہیں گے اور پھر فتح ملنے کے بعد ہم اس شہر میں داخل ہوں گے نہیں خود ہمارے ہاتھ سے فتح ہوجائے مزہ بھی اسی میں ہے اِذۡ یُغَشِّیۡکُمُ النُّعَاسَ اَمَنَۃً مِّنۡہُ وہ وقت بھی یاد کرو کہ اَمَنَۃً مِّنۡہُ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امن دینے کے لئے تم پر غنودگی طاری کر رہا تھا یُغَشِّیۡ طاری کر رہا تھا ڈھانپ رہا تھا تمہارے اوپر غنودگی کو وَ یُنَزِّلُ عَلَیۡکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً پہلے خوف تھا پریشانی تھی اضطراب تھا نیند نہیں آتی لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں میں اطمینان ڈال دیا سو گئے آرام سے۔
سونے سے انسان جو ہے وہ تازہ دم اٹھے صبح کو ایک، دیکھو علل و اسباب کے ذریعے اللہ تعالیٰ خود انہیں کے ذریعے اللہ مدد کرتا ہے وَ یُنَزِّلُ عَلَیۡکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً اور تمہارے اوپر آسمان سے پانی نازل کر دیا بارش کے ذریعے وہ بتایا پہلے کہ مسلمان جو ہے وہ اونچی جگہ پر تھے اور مشرکین جو ہے وہ نچلی جگہ پر تھے نشیبی علاقے میں وہاں پانی تھا ان کے لئے مسلمانوں کے پاس پانی نہ تھا وہ پہلے آئے تھے اور قابض ہوگئے تھے پانی کے اوپر اور مسلمانوں کے پاس پانی بھی نہیں تھا پیاس ہے مشکلات ہیں اور ریت ہے۔ ریت میں چلنا پھرنا بھی مشکل ہو جاتا تھا پاوں دھنس جاتا تھا بارش آئی بارش سے مسلمانوں کو پانی ملا، پانی روک روک کر کے انہوں نے پانی جمع کیا نہایا دھویا پانی پیا۔ اور پھر زمین بھی سخت ہوگئی چلنے پھرنے کے لئے آسان ہوگئی وہ نشیب میں پانی چلا گیا وہاں کیچڑ ہوگیا ان کے لئے چلنا پھرنا جو ہے وہ مشکل ہو گیا وہی علل و اسباب۔ انہیں علل و اسباب کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنی مدد فراہم کرتا ہے وَ یُنَزِّلُ عَلَیۡکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّیُطَہِّرَکُمۡ بِہٖ تاکہ تم اس پانی سے اپنے آپ کو پاک کرو یہ دل میں جو وسوسہ ہے اس کو بھی پاک کرو اور باقی جو نجاست اس کے لئے پانی نہیں تھا دھونے کے لئے دونوں باتیں اس میں شامل ہو سکتی ہے، تطہیر، تطہیر من الحدث بھی اور تطہیر من السوسہ بھی وساوس شیطانی سے تم کو پاکیزہ کر نے کے لئے اس بارش کی وجہ سے تازہ دم ہوگیا وسوسہ نکل گئے اضطراب ختم ہوگیا پریشانی ختم ہوگئی شیطان کی نجاست جو وسوسہ سے عبارت ہے وہ تم سے دور کیا جائے وَ لِیَرۡبِطَ عَلٰی قُلُوۡبِکُمۡ تمہارا دل مضبوط کر دیا جائے وَ یُثَبِّتَ بِہِ الۡاَقۡدَامَ تمہارا قدم بھی جمائے جائے تمہارا قدم جمایا جائے، قدم تمہارا جم جائے شیطان کے وسوسے جو ہیں وہ چلے جائے تم سے اور تمہارا دل میں بھی ثبا آ جائے مضبوط ہوجائے ییَرۡبِطَ دل مضبوط ہوجائے یہ سب اس بارش کی وجہ سے تمہارے لئے ہوا یہ ہم حوصلہ آگیا دلوں میں اور ہم پاکیزگی آگئی وسوسے بھی چلے گئے اور نہا دھو کر کے اپنے اپ کو صاف ستھرا بھی کیا پانی کی جو کمی تھی دشمن پانی کے اوپر قابض تھا اس خشک بیاباں میں پانی پر قابض ہونا بنیادی بات ہوتی ہے اور میدان وہی لے جاتا ہے جس کے پاس پانی ہوتا ہے یہ علل و اسباب کی دنیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے ادھر ان لوگوں کے لئے پانی فراہم کیا بارشوں کے ذریعے اس طرح اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی۔ ان شاء اللہ اگلی آیت میں بھی اس سلسلے میں کچھ واقعات بیان ہیں۔