تفسیر قرآن سورہ ‎الأنفال‎ آیات 12 - 15

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

اِذۡ یُوۡحِیۡ رَبُّکَ اِلَی الۡمَلٰٓئِکَۃِ اَنِّیۡ مَعَکُمۡ فَثَبِّتُوا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ؕ سَاُلۡقِیۡ فِیۡ قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوا الرُّعۡبَ فَاضۡرِبُوۡا فَوۡقَ الۡاَعۡنَاقِ وَ اضۡرِبُوۡا مِنۡہُمۡ کُلَّ بَنَانٍ
جنگ بدر کے سلسلے میں ان آیات کا نزول ہیں ارشاد فرمایا: وہ وقت یاد کرو جب آپ کا رب فرشتوں کی طرف وحی فرما رہا تھا وحی کا مضمون یہ تھا اَنِّیۡ مَعَکُمۡ فرشتوں جاو میں تمہارے ساتھ ہوں فرشتوں کے لئے بھی اللہ تعالیٰ اپنی معیت کا یقین دلاتا ہے اَنِّیۡ مَعَکُمۡ یہاں یہ معیت جو ہے اس مشن کے بارے میں اس مقصد کے بارے میں ہے اللہ تعالیٰ ہمیشہ فرشتوں کے ساتھ ہے لیکن یہاں پر مَعَکُمۡ میں یہ بتانا مقصود ہے اَنِّیۡ مَعَکُمۡ میں تمہارے ساتھ ہوں جس مقصد کے لئے تم کو بھیجا جا رہا ہے اس میں اگلا جو جملہ ہے آیت کا فَثَبِّتُوا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا اہل ایمان کو ثابت قدم رکھو۔ اس ثابت قدمی میں میں تمہارے ساتھ ہوں فرشتے خود تو مخلوق ہے عبد خدا ہے محتاج بہ خدا ہے ذاتی طور پر وہ کچھ نہیں رکھتے جب تک اللہ تعالیٰ کی معیت نہ ہو اللہ تعالیٰ کی تائید بھی خود فرشتوں کو حاصل نہ ہو وہ از خود تو کچھ نہیں کر سکتے اَنِّیۡ مَعَکُمۡ میری طرف سے جو تائید اور حمایت حاصل ہے اس کے تحت فَثَبِّتُوا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ایمان والوں کو ثابت قدم رکھو۔ ثابت قدم رکھنے کے لئے فرشتے نازل ہوئے تھے ایمان والوں کے اوپر اپنی توجہ جو ہے وہ فرشتے مامور تھے صرف کرنے پر خود سے براہ راست کوئی کام انجام نہیں دے رہے تھے پہلے بھی بتایا آپ کو فَثَبِّتُوا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ؕ سَاُلۡقِیۡ ادھر سے فرشتوں تم اہل ایمان کو ثابت قدم رکھو اب فرشتوں نے اہل ایمان کو ثابت کرنے کے لئے کیا کیا؟ کیا طریقہ تھا؟ وہ ہمارے سامنے نہیں ہے نہ ہم سمجھ سکتے تھے اس دنیا کو اس عالم کو کہ فرشتے جو ہے وہ کیا کرتے ہیں اجمالاً ہمارے پاس علم ہے کہ فرشتے کیا کرتے ہیں اور شیطان کیا کرتے ہیں۔ شیطان وسوسہ ڈالتا ہے دلوں میں اور فرشتے اس وسوسے کو ختم کر کے اطمینان دلاتا ہے۔ جو بات شیطان کی قدرت میں ہے اسے بہتر فرشتوں کی قدرت میں ہے لہذا فرشتوں کا یہ کام انہوں نے مومنین کے دلوں میں ثبات ڈالا ثابت قدمی ڈالی یہ قابل پریشانی کی بات نہیں ہے فَثَبِّتُوا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا جاو مومنین کو ثابت قدم رکھو، مضبوط بناو مومنوں کے قدم کو ایک طرف سَاُلۡقِیۡ فِیۡ قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوا الرُّعۡبَ ادھر کافروں کے دلوں میں خوف میں خود براہ راست ڈالوں گا وہاں فرشتے اتارنے کی یا فرشتوں کے ذریعے ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ادھر ثابت قدمی کے لئے فرشتے بھیجے اور ادھر ان کے کافروں کے دلوں میں رعب ڈالنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا سسَاُلۡقِیۡ میں خود ڈالوں گا کافروں کے دلوں میں رعب، خوف اور وحشت جو ہے ان کے دلوں میں میں خود ڈالوں گا۔
یہ بھی قابل توجہ نکتہ ہے کہ ادھر مومنین کو ثابت قدم رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ فرشتے بھیج رہے ہیں اور کافروں کو خوف ذدہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ براہ راست قدم اٹھا رہا ہے اس میں نکتہ یہ ہو سکتا ہے کہ یہ مہربانی ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہ وہ فرشتوں جس طرح وحی نازل کرنے کے لئے فرشتے بھیجتے ہیں براہ راست وحی جو ہے وہ کم انبیاء عليهم‌السلام کے لئے ہوتا ہے کیونکہ وہ قابل تحمل نہیں ہوتے اور مومنین کے لئے تسلی دینے کے لے اطمینان دلانے کے لئے اور اسباب و علل کے تحت فتح و نصرت عنایت کرنے کے لئے فرشتے بھیجے جبکہ کافروں کے لئے اس قسم کی مہربانیوں کی ضرورت نہیں تھی براہ راست رعب ڈال دیا لہذا فرشتے بھیجنا مہربانی ہے علل و اسباب استعمال کر کے مسلمانوں کے اپنے ہاتھوں سے فتح حاصل کرنا جو ہے وہ مقصود تھا اللہ تعالیٰ کا اس کے لئے فرشتے بھیجے اور کافر کی طرف کوئی ایسی بات نہیں تھی ان کے دلوں میں براہ راست رعب ڈال دیا سَاُلۡقِیۡ فِیۡ قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوا الرُّعۡبَ فَاضۡرِبُوۡا فَوۡقَ الۡاَعۡنَاقِ وَ اضۡرِبُوۡا مِنۡہُمۡ کُلَّ بَنَانٍ یہ ضرب لگاؤ ضرب لگاؤ ان کے گردوں کے اوپر اور پوروں کے تمام پوروں کے اوپر ہاتھ کے پورے ہو یا پاوں کے پورے ہو انگلیوں کو کاٹ ڈالو اور گردنوں کے اوپر مارو یہ ففَاضۡرِبُوۡا مارو ضرب لگاؤ یہ حکم فرشتوں کے لئے ہے یا مومنین کے لئے۔ سلسلہ کلام خطاب کا سلسلہ فرشتوں کے ساتھ چل رہا ہے۔
اگر ہم اس کو خطاب سمجھے فرشتوں کے ساتھ تو فحوی کلام سیاق کلام سے کہ براہ راست فرشتوں سے کام نہیں لے رہا تھا اللہ تعالیٰ مومنین سے خود یہ کام لے رہا تھا فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے مومنین کو کام پہ لگانے کے لئے بھیجا تھا صحیح فتح و نصرت کے حصول کے لئے خود مومنین کے ہاتھ سے ہوجائے حاصل۔ اس سیاق و سباق کے تحت یہ ففَاضۡرِبُوۡا اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے ہاتھوں کو ان کے گردن یعنی ان کی سوچ اور فکر کو بے کار بنا دو ففَاضۡرِبُوۡا کا ہم یہ معنی تاویل کریں گے اگر ہم اس سیاق لو لیتے ہیں ففَاضۡرِبُوۡا بے کار کرو اس لئے کہ اسلحہ اٹھانے کے لئے ہاتھ اور چلنے کے لئے پاوں درکار ہوتا ہے خصوصاً لڑائی میں حرب میں ادھر فرمایا ان دونوں کو اپنے کام سے بے کار کر دو یعنی ہاتھ لرزے جیسے پورے نہیں ہے اور پاوں میں لرزش آجائے ثابت قدمی نہ رہے کہ وہ پھسل جائے۔ ان دونوں کے اور اعناق، گردنوں کے اوپر ضرب لگاؤ کہ ذہن بھی پریشان ہوجائے فکر بھی پریشان ہوجائے فرشتے یہ کام کرے کیونکہ فرشتوں نے براہ راست جو ہے تلوار اٹھا کے کسی کو مارا نہیں ہے۔
جنگ بدر جب ختم ہوگئی تو بعد میں پتہ چلا آدھے سے زیادہ یا ایک تھائی، ایک تھائی یا آدھے سے زیادہ حضرت علی عليه‌السلام نے قتل کیا کفار کو۔ باقی تمام مسلمانوں نے یا دو تہائی یا آدھا باقی تمام مسلمانوں نے قتل کیا کس نے کس کو قتل کیا معلوم تھا فلانی نے فلانی کو قتل کیا فلانی نے فلانی کو قتل کیا اپنے رشتہ داروں کو قتل کرتے تھے اپنے بھائی بند کو قتل کرتے تھے۔ مہاجرین کے لئے بہت زیادہ یہ معرکہ جو ہے وہ صبر آزما تھا ؛ دوسری طرف جو ان کے رشتہ دار تھے قریبی ترین رشتہ دار تھے اور اس طرف جو ہے وہ مہاجرین آپس میں اپنے رشتہ داروں سے لڑ رہے تھے تو پتہ چل رہا تھا کس نے کس کو قتل کیا سب معلوم ہے لہذا فرشتوں نے نہ کسی کی گردن پر کوئی تلوار ماری ہے نہ کسی کا پورا کاٹا ہے۔ اگر یہ خطاب ہم سمجھیں گے فرشتوں سے ہیں تو پھر یہ ہے ان کو بد دل کر دو ان کو مرعوب کر دو۔ یہ وہ ہو جائے گا لیکن یہ سَاُلۡقِیۡ فِیۡ قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوا الرُّعۡبَ کے ساتھ مناسبت نہیں ہے کہ وہاں کا رعب ڈالنا اللہ تعالیٰ کا براہ راست اور ادھر کہہ دے فرشتوں سے کہ ان کے یہ کاٹو لہذا یہ خطاب ہم سمجھیں گے کہ مومنین سے ہے کہ ہم نے تمہاری مدد کے لئے فرشتوں کو نازل کیا ہے فرشتوں کے لئے یہ حکم دیا ہے کہ تم کو ثابت قدم رکھو اور میں کافروں کے دلوں میں خوف ڈال رہا ہوں پس تم اے مومنو مارو ان کے گردنوں کے اوپر اور پوروں کے اوپر یہ خطاب مومنوں کے لئے ہی ہو سکتا ہے۔
ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ شَآقُّوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ۚ وَ مَنۡ یُّشَاقِقِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَاِنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ یہ سزا یہ ذلت اور یہ شکست یہ خواری مشرکین کے لئے کیوں ہوا؟ وہ اس لئے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے اللہ اور رسول کے ساتھ مخالفت کی ہے اس وجہ سے وہ اس ذلت اور خواری کے لئے مستحق ٹھہرے پھر اس کے بعد ایک کلیہ یہ صرف ان کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ایک کلی حکم ہے وَ مَنۡ یُّشَاقِقِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ جو بھی کفار قریش کے ساتھ اس مشرکین کے ساتھ کوئی مخصوص حکم نہیں ہے جو بھی اللہ اور رسول کے ساتھ مخالفت کرے گا فَاِنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ اللہ کا عذاب بہت شدید ہوگا مخالفت کرنے والوں کے ساتھ، خدا اور رسول کے ساتھ لڑائی کرنے والوں کے ساتھ جنگ کرنے والوں کے ساتھ اور خدا اور رسول کے ساتھ جنگ کرنے کا میدان بہت وسیع ہے مثلاً یہ جو سود خور ہے۔ سود خوروں سے بھی کہا ہے کہ یہ اللہ اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ جنگ ہے۔ سود کھا نا اللہ اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ جنگ ہے اور دیگر بھی بہت سارے مواقع ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ نافرمانی کرنا اور رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نافرمانی کرنے کو خدا اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ جنگ قرار دیا ہے ان سب کے لئے عذاب شدید کی نوید ہے۔
ذٰلِکُمۡ فَذُوۡقُوۡہُ وَ اَنَّ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابَ النَّارِ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا لَقِیۡتُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا زَحۡفًا فَلَا تُوَلُّوۡہُمُ الۡاَدۡبَارَ ایمان والوں کے لئے ایک سنگین حکم آ رہا ہے بہت سنگین حکم وہ سنگین حکم یہ ہے کہ اے ایمان والو! میدان جنگ میں کافروں سے تمہارا سامنا ہوجائے ل لَقِیۡتُمُ تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا۔ جنگ سے فرار کرنا تمام حربی قوانین میں ساری دنیا کے جو حربی قوانین ہیں ان سب میں جنگ سے فرار بہت بڑا جرم ہے صرف اسلام میں نہیں ہے تمام قوموں میں عربی قوانین میں سخت ترین جرم جو ہے وہ جنگ سے فرار اختیار کرنا پیٹھ پھیرنا دشمن کو پیٹھ دکھا کر کے بھا گ جانا جان بچانا اپنی۔ اول تو تمام دنیا میں یہ قانون موجود ہے لیکن اسلامی تصور کائنات کے تحت اسلامی عقائد و نظریات کے تحت یہ بہت بڑا جرم ہوتا ہے اس لئے کہ اسلام نے یہ تصور یہ عقیدہ دیا ہے کہ اسلامی جنگ لڑنے والوں کے لئے اِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ دو کامیابیوں میں سے ایک کامیابی اسلامی مجاہد کو مل جاتی ہے یا شہادت یا فتح و نصرت لہذا یہاں جنگ میں ناکامی کا تصور نہیں ہے۔ دنیا کے جو حربی قوانین ٹھیک ہے اس میں کامیابی اور ناکامی کا تصور ہوتا ہے فتح و شکت کا تصور ہوتا ہے وہاں پر وہاں کشور کشائی ہوتی ہے کوئی بھی ذریعہ ہو یہاں ایسا نہیں ہے یہاں اِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ ہے دو کامیابی میں سے ایک کامیابی کا حصول یقینی ہے لہذا یہاں کوئی شکت کا تصور نہیں ہے۔ کامیابی ہی کامیابی ہے۔ اما الشھادۃ و اما الفتح یا شہادت کامیابی یا فتح و نصرت کامیابی۔ کامیابی یقینی ہونے کے ساتھ ساتھ فرار کیا معنی رکھتا ہے؟ فرار کا معنی یہ ہے کہ فرار کرنے والا اس کامیابی کو نہیں مانتا اگر وہ اس کامیابی کو مانتا تو کوئی بھی عاقل کامیابی کو چھوڑ کر ناکامی کی طرف نہیں بھاگتا ناکامی کو چھوڑ کر کامیابی کی طرف بھاگتا ہے یہ الٹا نہیں بھاگتا یہ شخص الٹا بھاگ رہا ہے لہذا اس کے ایمان میں نقص ہے۔
اے ایمان والو فرار نہ کرو بھاگو نہیں تمہارے ایمان میں نقص آئے گا ایمان ثابت نہیں ہوگا ایک چیز۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ایک شخص جنگ سے بھاگتا ہے جنگ سے بھاگنے کا مطلب یہ نہیں کہ ایک شخص اس نے خود جرم کیا اور یہ جرم خود اسی شخص تک محدود رہا ایسا نہیں ہے کہ اس شخص تک محدود رہا ہے یہ جرم یہ اسلامی لشکر کو شکت سے دوچار کرتا ہے یہ بھاگنے والا دوسرے لوگ بھی بد دل ہوتے ہیں کہ بھاگنے والے کو دیکھ کر انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کوئی واقعہ ایسا ہوا ہے کہ اس میں سب لوگ جو ہیں شکت ہونے والا ہے ہم بھی بھاگے۔ اس کو دیکھ کر اسلامی لشکر میں شکت آسکتی ہے لہذا یہ ایک ایسا جرم ہے اور اسلامی لشکر میں شکت کا مطلب اسلامی ریاست کی شکت ہے لہذا ایک آدمی کا بھاگنا وہ معمولی جرم نہیں ہے اس لئے ہمیں ریاست کے ساتھ اس کا جرم مربوط ہو جاتا ہے اسی لئے احادیث میں ہے شیعہ سنی مصادر میں ہے الموبقات سبعۃ سات مہلک، موبق مہلک، سات مہلک گناہوں میں سے جس پر وعدہ عذاب ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے وعدہ عذاب، سات گناہ بڑے ہیں وہ سات گناہ کونسے ہیں؟ اس میں تھوڑہ بہت احادیث میں اختلاف ہے لیکن اس میں اختلاف نہیں ہے شیعہ سنی تمام مصادر میں موجد ہے، الموبقات سبعہ سات مہلک گناہ ان میں اس کو شمار کرتے ہیں الفرار من لزحم ہم آپ کو اس سلسلے میں ایک حدیث پڑھ کر سناتے ہیں جو ہمارے لئے تقریباً سازندہ ہے حدیث، فرمایا: سات موبقات میں سے سب سے پہلا موبق الکفر بااللہ ہے سب سے بڑا گناہ کفر ہے اس کے بعد قتل النفس ہے عمداً کسی نفس کا قتل کرنا اس میں بحث ہے زبردست ہم یہاں پر یہ بحث نہیں کر سکتے قتل نفس موبقات میں سے ہے عمداً کسی نفس کا قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے خصوصاً القتل غیلۃ دھوکے میں کسی کو قتل کرنا اس پر مشہور احادیث ہیں شیعہ سنی دونوں مصادر میں متفقہ حدیث ہے القتل غیلۃ دھوکہ میں قتل کرنا وہ باقی جو مقابلہ میں قتل کیا جاتا ہے اس سے زیادہ جرم ہے۔
خلفاء راشدین کے دور میں ایک آدمی کا قتل غیلۃ آیا تھا تو فرمایا تھا اگر مسلمان کسی کافر کو قتل کرتا ہے تو کافر کے بدلے میں مسلمان قتل نہیں ہوتا قصاص نہیں ہوتا دیت دینی پڑتی ہے لیکن اگر القتل غیلۃ ہے دھوکہ میں قتل کیا گیا ہے تو پھر کافر کے بدلے میں مسلمان بھی مارا جائے گا یہاں تک قتل بہت بڑا گناہ ہے وعقو ق الوالدین والدین کا عاق یہ بھی گناہ ہے وأکل الربا سود خوری گناہ کبیرہ ہے وأکل مال الیتیم ظلما مال یتیم کا ظلماً کھانا مطلقاً کھا نہیں کہ اس کی اجرت میں یتیم کا مال کھائے اس کا کام کیا ہے اجرت لے لے اور کھائے ظلماً والفرار من الزحف جنگ سے بھاگنا ہے یہ والتعرب بعد الہجرۃ تمدن میں اسلامی تمدن میں آنے کے بعد پھر تو ہش کی طرف جانا اس میں بھی لمبی بات ہے۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے کہا کہ ّأکل مال الیتیم بد تر گناہ ہے یا نماز کا ترک کر نا بدتر گناہ ہے؟ فرمایا: نماز کا ترک کرنا بد تر گناہ ہے۔ عرض کیا پھر اپ نے نماز کا ترک السبع الموبقات میں سات مہلک گناہوں میں ترک صلواہ کا ذکر نہیں فرمایا۔ فرمایا: میں شے شروع میں کیا کہا تھا؟ شروع میں نے آپ نے کہا تھا الکفر باللہ ترک الصلواۃ الکفر باللہ ہے۔
یہ قابل توجہ ہے بغیر کسی عذر کے یہ بھی ہے حدیث میں بغیر کسی عذر کے کوئی شخص نماز ترک کرتا ہے یا نماز نہیں پڑھتا ہے چھوڑتا ہے نماز سرے سے نمازی نہیں ہے، ایک شخص، وہ کافر ہے۔ ہم تو کافر نہیں کہتے تارک الصلواۃ کہتے ہیں اس میں کفر کہا ہے دیگر حدیث میں بھی ہے کہ کفر اور اسلام کے درمیان میں نماز کا فاصلہ ہے جس کے پاس نماز ہے وہ مومن ہے اور جس کے پاس نماز نہیں ہے وہ کافر ہے ہم بے نمازی کو کافر نہیں کہتے ان احادیث میں کافر کہا ہے بات کیا ہے؟ بات یہ ہے قابل توجہ بات یہ ہے دنیا میں ہم جو بھی کلمہ گو ہے کلمہ گو ہے لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ اس کو ہم کلمہ گو کہتے ہیں اس کو ہم مسلمان مانتے ہیں۔ آگے ہم ایمان کے لئے اسلام کے بعد جو مومن بننا ہوتا ہے ایمان کے لئے ہم دیگر شرائط کے قائل ہیں اس کے علاوہ کلمہ گو کو ہم مسلمان تسلیم کرتے ہیں وہ قتل نفس کرتا ہے تو بھی مسلمان وہ عقوق والدین ہے تو بھی مسلمان، وہ ربا خوار ہے تو بھی مسلمان یہ سبع موبقات کے مرتکب کو ہم کافر تو نہیں کہتے ہیں مسلمان کہتے ہیں۔ اسی طرح نماز چھوڑنے والے کو بھی ہم مسلمان کہتے ہیں اس دنیا میں دنیاوی زندگی میں مسلمان ہے معاملات میں مسلمان ہے مناکحہ میں مسلمان ہے میراث لینے میں مسلمان ہے یہ دنیا میں قوانین ہوتے ہیں اس میں ان کو ہم مسلمان کہتے ہیں جو کافر ہے یا مسلمان ہے معاملہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کس قسم کا معاملہ کرے گا ان لوگوں کے ساتھ یہ اس کا ذکر ہے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تارک الصلواۃ جو بالکل نماز نہیں پڑھتا اس کے ساتھ کیا معاملہ کرے گا اس کے ساتھ وہی معاملہ کرے گا جو کافروں کے ساتھ کرتا ہے اس لئے اس حدیث میں فرمایا کہ میں نے تو شروع میں جو الکفر باللہ کہا اس میں ترک الصلواۃ آ جاتا ہے اور دوسری حدیث میں ہے کہ ایمان اور کفر کے درمیان میں جو فاصلہ ہے وہ نماز کا فاصلہ ہے جو نماز پڑھتا ہے وہ مومن ہے قیامت کے دن اس کو مومن والا نماز کا پابند آدمی، نماز پڑھنے والا جو ہے وہ مومن والا معاملہ ہوگا۔ مومن والا معاملہ ہوگا وہ بہت گناہ لے کر جاتا ہے تو وہ اس کی معافی ہو جائے گی اس کی شفاعت ہوجائے گی مومن والا معاملہ ہوجائے گا اور نماز لے کر نہیں جاتا خالی ہاتھ جاتا نماز سے خالی ہاتھ ہے اس کے ساتھ مومنوں والا معاملہ نہیں ہوگا۔ مطلب یہ ہے کہ ایسے شخص سے قیامت کے دن مومنوں والا معاملہ نہیں ہوگا۔