تفسیر قرآن سورہ ‎الأنفال‎ آیات 33 - 34

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمۡ وَ اَنۡتَ فِیۡہِمۡ ؕ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمۡ وَ ہُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ﴿۳۳﴾
اور اللہ ان پر عذاب نازل نہیں کرے گا جب تک آپ ان کے درمیان موجود ہیں اور نہ ہی اللہ انہیں عذاب دینے والا ہے جب وہ استغفار کر رہے ہوں۔
دو حالتوں میں عذاب نہیں آئے گا یعنی حالت وجود رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حالت استغفار۔ زمین والوں کے لیے اور امت مسلمہ کے لیے یہ ایک خاص احسان ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہ ان کے لیے عذاب سے بچنے کے لیے دو ذریعے میسر ہیں۔ ایک وجود رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دوسرا استغفار۔ یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی موجودگی میں اور استغفار کی حالت میں آگر عذاب نہیں آ سکتا تو پھر کافروں کے اوپر جو کئی طرح سے عذاب آیا ہے تو یہ عذاب کیسے آیا؟ اس کی ایک تفسیر یہ ہے کہ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمۡ وَ اَنۡتَ فِیۡہِمۡ اللہ ان کو عذاب نہیں دے گا جب تک آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے درمیان ہیں۔ ایک مؤقف یہی ہے کہ یہ اہل مکہ کے ساتھ خاص ہے۔ یعنی یہ خطاب صرف اہل مکہ کے لیے ہے کہ جب تک آپ ان مکہ کے باشندوں کے درمیان موجود ہیں تو اس وقت تک عذاب نہیں آئے گا۔ اسی وجہ سے جب تک رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ میں تشریف فرما رہے ان پر کوئی عذاب نازل نہیں ہوا۔ ان مشرکین کے اوپر جو بھی عذاب نازل ہوا ہے وہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مکہ سے نکلنے کے بعد آیا ہے۔ دوسر ی تفسیر یہ کہ یہ خطاب صرف اہل مکہ کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ پوری امت یعنی پورے اہل ارض کے لیے ہے کہ اے اہل ارض والو آپ پر عذاب نازل نہیں ہوگا ان دو حالتوں میں یعنی حالت وجود رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حالت استغفار۔ یہاں پر پوری امت کے لیے عذاب کی بات ہے جیسے سابقہ امتوں پر عذاب آیا یعنی ایسا عذاب جو پوری امت کو مٹا دیتا ہے۔ جیسے قوم نوح کی پوری امت مٹ گئی تھی۔ اسی طرح قوم عاد، قوم ثمود اور قوم لوط وغیرہ۔ ان پر ایسا عذاب آیا تھا کہ پوری امت نیست و نابود ہوگئی تھی۔ اس دوسری تفسیر کے مطابق اس آیت سے بھی یہی مراد ہے یعنی پوری امت نیست و نابود نہیں ہوگی ان دو حالتوں میں یعنی حالت استغفار اور حالت وجود پیغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم۔ چنانچہ نہج البلاغۃ میں حضرت علی عليه‌السلام کا ایک فرمان ہے جس میں آپ عليه‌السلام فرماتے ہیں کہ
کَانَ فِی الْاَرْضِ اَمَانَانِ مِنْ عَذَابِ اللّٰہِ وَ قَد رُفِعَ اَحَدُھُمَا فَدُوْنَکُمُ الآخَرَ
اہل ارض کے لیے عذاب خدا سے دو امان موجود تھیں (رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور استغفار)۔ ان میں سے ایک اٹھا لی گئی ہے اور دوسری تمہاری دسترس میں ہے۔ (نہج البلاغۃ حکمت:88)
اور ہم بھی اسی دوسری تفسیر کو ترجیح دیتے ہیں کہ یہ آیت پورے اہل ارض کے لیے ہے لہٰذا رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس دنیا سے اٹھ جانے کے بعد تمام اہل ارض کے لیے استغفار امان ہے۔
اس استغفار سے یہ مراد نہیں ہے کہ اہل ارض اور امت کے تمام افراد استغفار میں آجائیں تب امان ملے گی ایسی بات نہیں ہے بلکہ جیسے پہلے ان میں صرف ایک رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا وجود ان کے لیے سب کے لیے امان تھا اسی طرح یہاں بھی زمین میں اگر کہیں کچھ افراد استغفار کرنے والے موجود ہوں تو امان کے لیے بس یہی کافی ہے اور عذاب نازل نہیں ہوگا۔ استغفار امان ہے لیکن اس میں سب لوگوں کا شامل ہونا ضروری نہیں ہے۔ جس طرح اہل بیت عليهم‌السلام کے بارے میں روایات ہیں کہ اہل بیت عليهم‌السلام کا وجود اہل ارض کے لیے امان ہے۔ اسی طرح وہ افراد جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں استغفار کرتے ہیں وہ اہل ارض کے لیے امان ہیں۔ جیسا کہ قوم موسیٰ عليه‌السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَ مِنۡ قَوۡمِ مُوۡسٰۤی اُمَّۃٌ یَّہۡدُوۡنَ بِالۡحَقِّ وَ بِہٖ یَعۡدِلُوۡ یعنی موسیٰ عليه‌السلام کی قوم میں سے ایک گروہ ایسا ہے۔۔۔۔۔
اسی طرح اس امت کے بارے میں بھی ہے کہ اگر ایک گروہ حق پر قائم ہو اور صحیح معنوں میں اللہ کی بندگی کرنے والے ہوں تو ایسا گروہ تمام اہل ارض کے لیے امان ہیں۔
وَ مَا لَہُمۡ اَلَّا یُعَذِّبَہُمُ اللّٰہُ وَ ہُمۡ یَصُدُّوۡنَ عَنِ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ وَ مَا کَانُوۡۤا اَوۡلِیَآءَہٗ ؕ اِنۡ اَوۡلِیَآؤُہٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۳۴﴾
اور اللہ ان پر عذاب نازل کیوں نہ کرے جب کہ وہ مسجد الحرام کا راستہ روکتے ہیں حالانکہ وہ اس مسجد کے متولی نہیں ہیں؟ اس کے متولی تو صرف تقویٰ والے ہیں لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے ۔
ان دو آیتوں میں بظاہر ایک تضاد نظر آتا ہے اس سے پہلے کہا کہ اللہ تعالیٰ عذاب نازل نہیں کرے گا حالت وجود پیغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حالت استغفار میں اور دوسری آیت میں فوراً ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کیسے عذاب نازل نہ کرے۔ بظاہر دیکھا جائے تو یہ دو باتیں آپس میں جڑتی نہیں ہے۔ ہم نے جو پہلی آیت میں موقف اختیار کیا ہے کہ رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وجود کی وجہ سے عذاب نہیں آتا ہے یا حالت استغفار میں عذاب نہیں آتا ہے اس سے مراد وہ عذاب ہے جس سے پوری کی پوری امت مٹ جاتی ہے۔ اس موقف کی روشنی سے اس دوسری آیت کی تفسیر آسان ہوجاتی ہے کہ پہلی آیت میں ارشاد فرمایا کہ ساری کی ساری امت کو نابود نہیں کریں گے جب تک استغفار اور وجود پیغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہے۔ لیکن اس دوسری آیت میں پوری امت کی بات نہیں ہورہی بلکہ مسجد الحرام کا راستہ روکنے والوں کی بات ہورہی ہے۔ پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ تو نہیں کہا کہ کسی ایک فرد پر بھی عذاب نہیں آئے گا۔ لہٰذا بدر میں جو عذاب آیا اور مکہ والوں پر قحط کی صورت میں جوبھی عذاب آئے یہ اس کے ساتھ منافی نہیں ہے۔ اس آیت میں فرمایا وَ مَا لَہُمۡ اَلَّا یُعَذِّبَہُمُ اللّٰہُ اس میں یہ خیال نہ کریں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی بھی فرد پر عذاب نازل نہیں ہوگا بلکہ اللہ کیسے عذاب نہ کرے ان لوگوں کو جو مسجد الحرام کا راستہ روکتے ہیں۔ وَ مَا کَانُوۡۤا اَوۡلِیَآءَہٗ حالانکہ وہ مسجد کے متولی نہیں ہیں۔ اِنۡ اَوۡلِیَآؤُہٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ مسجد کی تولیت یعنی متولی بننے کے لیے تقویٰ چاہیے۔ اگر متقی نہیں ہیں تو وہ مسجد الحرام کے متولی نہیں بن سکتے۔ مشرک کیسے خانہ کعبہ کے متولی بن سکتے ہیں۔ اس آیت سے ہم یہ استدلال کرسکتے ہیں کہ کسی مسجد کا یا کسی امام بارگاہ کا یا کسی مدرسے کا متولی وہ شخص بن سکتا ہے جو متقی ہو۔ کم از اس مسجد سے متعلق یا امام بارگاہ یا مدرسے کے امور سے متعلق وہ شخص متقی ہو۔ کہ اس کو جائز ناجائز ، حلال اور حرام یا مسجد کے مال کو ذاتی استعمال میں لانا جائز نہیں ہے۔ اگر متولی اس کا خیال نہیں رکھتے تو اس سے تولیت کا حق چھن جاتا ہے اور وہ متولی نہیں رہتے بلکہ حاکم شرع کا حق بن جاتا ہے۔ شرعی اعتبار سے اگر خیال رکھا جائے تو مسجدوں میں جو جھگڑے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ جو نفاق ہے، عداوت ہے اور غیبت وغیرہ ہیں وہ بھی عبادت کی جگہ لوگ گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ تو یہ متولی نہیں ہوسکتے بلکہ تقویٰ ہونا چاہیے۔
یہ بات درست ہے کہ یہ آیت مسجد الحرام کے بارے میں ہے لیکن پھر بھی ہر تولیت کے لیے تقویٰ شرط ہے۔ اگر وہ تقویٰ نہیں کرتا ہے تو اس سے تولیت کا حق چھن جاتا ہے۔ اِنۡ اَوۡلِیَآؤُہٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ مسجد الحرام کے متولی وہ لوگ ہو سکتے ہیں جو اہل تقویٰ ہیں۔
وَ مَا کَانَ صَلَاتُہُمۡ عِنۡدَ الۡبَیۡتِ اِلَّا مُکَآءً وَّ تَصۡدِیَۃً ؕ فَذُوۡقُوا الۡعَذَابَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَکۡفُرُوۡنَ﴿۳۵﴾
اور خانہ کعبہ کے پاس ان کی نماز سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے سوا کچھ نہ تھی پس اب اپنے کفر کے بدلے عذاب چکھو۔
آپ کو علم ہے کہ مشرکین قیامت ، وحی، رسالت وغیرہ کو نہیں مانتے تو ان کی نماز کیا ہوسکتی ہے بلکہ انھوں نے جس چیز کو نماز کا نام دیا وہ صرف دنیا کے لیے پڑھتے تھے۔ اگر ہم اپنے معاشرے میں دیکھیں تو ٹھیک ہے کہ مومنین بھی کافی ہیں لیکن پھر بھی اکثر لوگ دین کو اپنی دنیا کے حوالے سے قبول کرتے ہیں۔ یعنی اگر اس دین سے ان کو دنیا کے لیے کوئی چیز مل رہی ہے تو وہ دین کو اختیار کر لیتے ہیں۔ لیکن آخرت کا تصور ہمارے لوگوں میں بہت ہی کم ہوتا ہے۔ تو اس کو ایمان نہیں کہتے اور نہ اس عمل کو عمل کہتے ہیں جن کو نقد اجر چاہیے ابھی اسی دنیا کے لیے جس کے لیے وہ کام کرتے ہیں۔ آخرت کے لیے تو وہ کہتے ہیں کہ کون وہاں سے واپس آیا کہ وہاں کیا ہونا اور کیا نہیں ہونا۔ وہ بعد میں دیکھا جائے گا۔ یعنی ان لوگوں کا ایمان نہیں ہے یا ان کا ایمان متزلزل ہے۔ یعنی انکار بھی نہیں ہے اور ایمان بھی نہیں ہے بس عدم انکار تک تسلیم کرنا ہے۔ ورنہ مومن جو بھی قدم اٹھاتا وہ ان پانچ حالتوں کو دیکھ کر پھر قدم اٹھاتا ہے کہ آیا یہ کام واجب ہے، مستحب ہے، حرام ہے، مکروہ یا پھر مباح ہے۔
بہر حال یہ مشرکین بھی نمازیں پڑھتے تھے اور اپنے حساب سے ایک عمل کو انھوں نے نماز کا نام رکھا ہوا تھا۔ لیکن وہ نمازیں اپنی دنیا کے لیے پڑھتے تھے۔ وہ مشرک تھے اور خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک بناتے تھے۔ وہ دوسروں کو شریک بنا کر ان کی پوجا کیا کرتے تھے۔ ان کا آخرت پر تو یقین تھا ہی نہیں اس لیے وہ دنیا کے لیے پوجا کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم کو روزی دینے والے یہی بت ہیں۔ ہماری شادی کا مسئلہ یہی بت حل کریں گے۔ اور بارش وغیرہ بھی بت ہی دیں گے۔ انھوں نے کافی سارے بت بنائے ہوئے تھے اور انہیں کی پرستش کرتے تھے۔ وَ مَا کَانَ صَلَاتُہُمۡ عِنۡدَ الۡبَیۡتِ اِلَّا مُکَآءً وَّ تَصۡدِیَۃً اور خانہ کعبہ کے پاس ان کی نماز سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے سوا کچھ نہ تھی۔
وہ لوگ سیٹیاں اور تالیاں بجا کر عبادت کیا کرتے تھے اور اسی کو انھوں نے نماز کا نام دیا ہوا تھا۔ ان لوگوں کی ایک اپنی شریعت تھی جو ان لوگوں نے اپنی طرف سے بنائی ہوئی تھی، اور جب خانہ کعبہ کے طواف کے لیے دور دراز علاقوں سے لوگ آتے تھے اور ان لوگوں کی شریعت کے مطابق جن کپڑوں سے طواف کیا ہے وہ دوبارہ نہیں پہن سکتے۔ جب کپڑا ایک بار طواف میں استعمال ہوگیا وہ دوبارہ نہیں پہن سکتے۔ کہتے ہیں کہ ان کے پاس دوسرے کپڑے ہوتے ہی نہیں تھے اس لیے اگر وہ کپڑے پہن کر طواف کریں تو دوبارہ کپڑے استعمال نہیں ہو سکتے۔ اس لیے وہ ننگے ہوکر خانہ کعبہ کا طواف کیا کرتے تھے اور یہ ان لوگوں کے لیے کوئی حرج نہیں تھا۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لیے فرمایا فَذُوۡقُوا الۡعَذَابَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَکۡفُرُوۡنَ پس اب اپنے کفر کے بدلے عذاب چکھو۔
یعنی اس قسم کی حرکتوں کو عبادت کہنا یہ کفر کی ایک قسم ہے۔ اپنی طرف سے یہ لوگ چیزوں کو گھڑ لیتے تھے اور اس کو عبادت کا نام دیتے تھے اور عبادت بھی اس بت کے لیے جس کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔ کچھ لوگوں نے یہاں سے یہ استدلال کیا ہے کہ تالی بجانا سنت مشرکین ہے اس لیے تالی بجانا جائز نہیں ہے۔ لیکن ہمارا موقف یہ ہے کہ اگر تالی عبادت کی نیت سے بجائی جائے تو یہ سنت مشرکین ہے اور جائز نہیں ہے نہ یہ کہ مطلق تالی بجانا۔ اور یہ بات بھی آپ لوگوں کے علم میں ہوگی کہ کسی عمل کو اللہ کی طرف نسبت دینا اور وہ اللہ کی طرف سے نہ ہو اس بدعت بھی کہتے ہیں اور کفر بھی کہتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ میں مداخلت ہے۔ کیونکہ کسی چیز کا حلال اور حرام کا تعین اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونا ہے۔ اور کسی کو اختیار نہیں ہے کسی چیز کو حلال کر دے اور کسی چیز کو حرام کر دے یا کسی چیز کو عبادت کا حصہ بنا دے۔ مشرکین بہت سی حرام چیزوں کو حلال سمجھتے تھے اور بہت سی حرام چیزوں کو واجب سمجھتے تھے۔ یہی طواف کے سلسلے میں عبادت کرنا اور بہت سے جانوروں کا استعمال حرام سمجھتے تھے۔ کچھ جانوروں پر نشان لگاتے تھے اور پھر بعد میں اس کو استعمال میں نہیں لاتے تھے۔ یہ سب اپنی طرف گھڑ کر حکم لگا دیتے تھے نہ اس پر کوئی دلیل ہے اور نہ کوئی ثبوت کہ اللہ کی طرف سے ہے بلکہ سب اپنی طرف گھڑ کر پیش کر دیتے تھے۔ یہ اپنی طرف سے حکم لگانا کفر ہے اور اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ میں مداخلت ہے۔ لہذا ان کے بارے میں جو اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ فَذُوۡقُوا الۡعَذَابَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَکۡفُرُوۡنَ اس نماز کی صورت حال بیان کرکے کفر کا ذکر کیا اور عذاب کا ذکر کیا۔ اور اگر آپ اللہ تعالیٰ کی طرف کسی عمل کو نسبت نہیں دیتے بلکہ خود سے کوئی عمل انجام دیتے ہیں۔ تو یہ نہ بدعت ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ میں کوئی مداخلت ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ وہ اس کو دین میں شامل نہیں کررہے۔ مثلاً ہم لوگ مسجد بناتے ہیں یہ مسجد بنانا عبادت کا کام ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت دیتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم بھی ہے جیسے اِنَّمَا یَعۡمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ یعنی مسجدوں کو آباد کرنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔
مسجد بنانا خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہے اور آپ جیسی بھی بنائیں مثلاً آٹھ کونوں والی یا چار کونوں والی اس میں کوئی حرج نہیں آپ بنا سکتے ہیں لیکن اگر آپ یہ کہیں کہ کسی امام یا رسول نے کہا ہے کہ آٹھ کونوں والی ہو تو یہ بدعت ہے اور حرام ہے۔ کیونکہ کسی امام یا رسول نے نہیں کہا ہے کہ اس طرح کی مسجد بناؤ۔ بلکہ اگر چھت نہیں ہے صرف زمین ہموار کی اور مسجد کا نقشہ بنا دیا تو وہ بھی مسجد ہے۔ اس کو بھی نسبت دے سکتے ہیں اللہ اور رسول کی طرف کہ یہ مسجد ہے۔ لہٰذا اس میں فرق ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ میں مداخلت ہورہی ہے یا نہیں ہورہی۔