تفسیر قرآن سورہ ‎الأنفال‎ آیات 62 - 64

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

وَإِنْ يُرِيدُوا أَنْ يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللَّهُ ۚ هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ
اس سے سابقہ آیت میں یہ گفتگو ہورہی تھی وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا اگر یہ لوگ مصالحت کو اور امن و آشتی کو ترجیح دے تو آپ بھی ترجیح دے وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ اللہ پر بھروسہ رکھو إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ وہ خوب سننے والا خوف جاننے والا ہے۔
اس پر ہم گفتگو کررہے تھے کہ مخالفین اسلام دشمنان اسلام خصوصاً مستشرقین کا یہ تابڑ توڑ حملہ ہے کہ اسلام تلوار کی طاقت اور زور سے پھیلا ہے۔ ہم یہ گفتگو کررہے تھے کہ اسلام اگر طاقت اور تلوار کے زور پر پھیلا ہے تو دنیا میں یہ طریقہ ہے طبیعی قدرتی طریقہ ہے کہ جو چیز جس چیز کے اوپر تکیہ کرتی ہے اس چیز کے مفقود کرنے سے وہ چیز بھی مفقود ہوجاتی ہے اگر اسلام کے پاس منطق نہیں ہے قوت کے ذریعے پھیلا ہے جب تک قوت ہے اس وقت تک وہ چیز رائج رہے گی اور جب قوت ختم ہوجاتی ہے وہ چیز ختم ہوجاتی ہے اسلام کے ساتھ بھی یہی چیز ہونا چائیے تھا کہ جب تک قوت ہے طاقت ہے مسلمان دنیا میں سپر پاور میں تھے اس وقت تک اسلام، اسلام رہا ہے اور جب مسلمان سپر پاور نہیں رہے اسلام جو ہے ختم ہوگیا اس کا کوئی نام و نشان نہیں ہے یا اگر ہے ہیں تو پھر تھوڑا بہت اس طرح ہونا چائیے، اسلام اگر طاقت کے ذریعے پھیلا ہے طاقت کے ساتھ اگر پھیلا ہے تو اسلام طاقت میں تھے تین صدیوں تک، تین صدیوں تک اسلام طاقت میں تھے، تین صدیوں کے بعد اسلام جو ہے وہ مختلف چھوڑے چھوٹے ملکوں میں اسلامی ریاست بٹ گئی، اسلامی ریاست طاقت میں بعنوان مسلمانوں کے لئے سپر پاور کی حیثیت میں نہیں رہے، تاتاریوں کا حملہ اس نے مسلمانوں کو پاش پاش کردیا، اور پھر مغل کا حملہ پھر اس کے بعد صلیبی جنگیں ہوگئی پھر اس کے بعد استعمار نے آکر کے عالم اسلام کو تتر بتر کردیا چھوٹے چھوٹی حکومتوں میں تقسیم کردیا اور اسلام کا ا س وقت بٹوارہ ہے اسلام کسی طاقت میں نہیں ہے طاقت میں ہو تم لوگ، طاقت اس وقت ہے تمہارے پاس، ہم نے اگر اسلام پھیلانے میں طاقت صرف کیا اور اسلام پھیل گیا تو تم بھی وہی طاقت استعمال کررہے ہو کہ سمٹ جائے کیوں نہیں سمٹا اسلام؟ہم نے اسلام طاقت کے ذریعے نہیں پھیلایا، اسلام منطق اور دلیل و برہان و معقولیت کے بنیاد پر ایک جامع نظام تعلیم اور نظام حیات کے بنیاد پر پھیلا ہے وہ ابھی جب ہم طاقت میں ہے تو بھی وہ منطق برقرار ہے ہم طاقت میں نہیں تھے تو بھی وہ منطق برقرار ہے وہ دلیل برقرار ہے وہ برہان وہ نظام حیات ایک جامع نظام حیات اس وقت اسلام پیش کررہا ہے اپنی منطق کی قوت کے ساتھ اسی آب و تاب کے ساتھ کو ئی فرق نہیں آیا، دلیل یہ ہے کہ ہم نے منطق استعمال کیا اسلام کو پھیلایا اور آج بھی اسلام پھیل رہا ہے اسی منطق کی بنیاد پر، ہماری منطق تمہارے ڈالروں کا ٹھیک ٹھاک مقابلہ کررہا ہے، ہم نے منطق استعمال کیا تم نے ڈالر، ہم نے دلیل اور برہان استعمال کیا اور تم نے سازش، تم نے اپنی دماغی صلاحیتیں ساری لگا دی اس منطق کو لوگوں کے دماغ سے نکالنے کے اوپر، نہیں نکل سکا بلکہ تمام برہ اعظموں میں اس وقت اسلام جو ہے وہ رو بترقی ہے پھیل رہا ہے لوگ اسلام کی طرف آ رہے ہیں اور یہ دلیل ہے اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اسلام ایک منطق ہے اور ایک نظام حیات ہے ایک انتہائی معقولیت پر مبنی قیام قیامت کے لوگوں کے لئے ایک جامع نظام حیات ہے اسی اعتبار سے لوگ اس کو قبول کرتے ہیں۔
آگے صلح و مصالحت کے سلسلے میں ارشاد فرمایا وَإِنْ يُرِيدُوا أَنْ يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللَّهُ اگر ہو آپ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں تو آپ کے لئے اللہ کافی ہے، سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ مصالحت کرنا جو دشمن کی ایک چال ہے، ایک سازش ہے اور وہ اس طرح اپنے لئے وقت لینا چاہتا ہے فرصت لینا چاہتا ہے وہ اس سے فائدہ اٹھائے گا لہذا مصالحت نہیں کرنا چائیے اس خدشے کو دور کرنے کے لئے ارشاد فرمایا کہ اگر وہ مصالحت کی آڑ میں آپ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں تو فَإِنَّ حَسْبَكَ اللَّهُ آپ کے لئے اللہ کافی ہے، اللہ کے ہوتے ہوئے آپ کو کسی خدعا کسی فریب کسی مکر اور کسی سازش کے شکار ہونے کی فکر لاحق نہیں ہونا چائیے، اللہ آپ کے اوپر نظر رکھتا ہے انت بعین اللہ اللہ کی نگاہ میں ہے آپ، یہ ممکن نہیں ہے کہ دشمن کی کوئی سازش کوئی چال اور دشمن کا کوئی مکر و فریب جو ہے وہ کارگر ثابت ہو اور اللہ تعالیٰ جو ہے معاذاللہ وہ آپ کے لئے کوئی کام نہ کر سکے، ایسا نہیں ہوسکتا، اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہے تو اللہ کافی ہوتا ہے یہ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللَّهُ جب راہ خدا میں ہم لوگ بھی قدم اٹھاتے ہیں تو ہمارے لئے بھی خدا کافی ہوتا تھا لیکن ہم اس ایمان میں نہیں ہوتے، عموما ہم لوگ کیا کہتے ہیں، ہم لوگ کہتے ہیں کہ آپ کے پاس مال ہے دولت ہے اثر رسوخ ہے اقتدار ہے قوم قبیلہ ہے، ہمارے پاس تو اللہ ہی اللہ ہے جی اللہ ہی اللہ ہے اللہ کا ہونا آپ کے لئے بہت ہی ناچیز اور ناتواں اور ایک عاجز سی چیز ہے ہمارا تو کچھ بھی نہیں ہے، کیونکہ اللہ ہی اللہ ہے، نہیں جس کے پاس اللہ ہوتا ہے اس کے پاس سب کچھ ہوتا ہے حَسْبَكَ اللَّهُ ہاں جی اگر تمہارے پاس اللہ ہے، ہمارے پاس تو اللہ ہی اللہ ہے یعنی ہمارے پاس کرسی بھی نہیں ہے اگر تمہارے پاس اللہ ہے تو تمہارے لئے اللہ ہی کافی ہوتا ہے فَإِنَّ حَسْبَكَ اللَّهُ اللہ کافی ہے کسی کی ضرورت نہیں ہے اگر اللہ آپ کے ساتھ ہے هُوَ الَّذِي اس کے بعد جب کہا اللہ کافی ہے کسی اور کی ضرورت نہیں ہے، غیراللہ کی ضرورت نہیں ہے، ساتھ فورا ارشاد فرمایا، ساتھ فورا ارشاد فرمایا هُوَ الَّذِي اللہ وہ ہے جس نے أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ اس نے آپ کی تائید فرمائی اپنی نصرت سے وَبِالْمُؤْمِنِينَ اور مومنین کی قوت سے مومنین کے ذریعے سے، باء صلہ، ذریعہ، سبب، باء سببیہ، بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ اوپر کہ دیا آپ فکر نہ کرے، خوف نہ کرے اللہ کافی ہے، اللہ کافی ہے کا مطلب یہ ہوتا ہے کسی غیراللہ کی ضرورت نہیں ہے ساتھ ساتھ فرمایا کہ اس اللہ آپ کو مومنین سے مدد کی ہے، مومنین کے ذریعے مدد کی ہے اس سے بات واضح ہوگئی کہ اللہ کافی ہے کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ جب کسی کی مدد کرتا ہے تو بغیر کسی اسباب و علل کے براہ راست مدد کرتا ہے، قوت غیبی اور فوق فطرت کے ذریعے اور بغیر کسی سبب و علت وغیرہ کے اللہ مدد کرتا ہے، لڑائی ہوتی ہے تو اللہ کے مدد کا مطلب یہ ہوتی ہے کہ کافر جو ہے فٹا فٹ خود مرتے چلے جاتے ہیں جی نہیں فرشتے نازل ہوگئے، فرشتے بھی نازل ہوگئے پہلے ذکر ہوگیا، مومنوں کے اندر تقویت کے لئے نازل ہوگئے وہ بھی علت و سبب کے ذریعے اللہ تعالیٰ مدد کرتا ہے جی مومنین کے ذریعے مدد، لہذا اگر آپ کہ دے کہ اللہ تعالیٰ اگر کسی مدد کرتا ہے تو کسی مومن کو بھیجتا ہے، آپ کی مدد کرتا ہے آپ کی حاجت روائی کرتا ہے آپ دعا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں، اے اللہ میری یہ پریشانی دور کر دو، اے اللہ میرے لئے کوئی مدد دے دو تو کیا جبرئیل کی بھی ضرورت نہیں اللہ کو یا بغیر کسی جبرئیل کے بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کے جیب میں پیسہ پیدا کردیا ایسا ہوتا ہے، نہیں ہوتا وہ اپنے بندوں میں سے کسی بندے کو بھیجتا ہے جی بندے کو بھیجتا ہے وہ بندہ آپ کی مدد کرتا ہے، آپ کی دعا قبول ہوگئی، اللہ تعالیٰ نے مدد کی آپ کی، اللہ کی مدد ہے یہ جی کونسی چیز اللہ کی مدد ہے، یہ جو بندہ خود االلہ کا بندہ اپنی جیب سے کمائی سے پیسہ نکال کرکے آپ کو دے رہے ہیں آپ بیمار ہے آپ کے علاج کے لئے پیسہ نہیں تھا دعا کی دعا قبول ہوگئی اور اس بندے نے اپنی کمائی سے آپ کی مدد کی یہ اللہ کی مدد ہے یا اس بندے کی مدد ہے بندے کی بھی مدد ہے لیکن یہ اللہ کی طرف سے ہیں یہ اللہ کی مدد ہے اپنے بندے کے ذریعے سے اس کو نہ بھولے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور ہم اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں، یہ بندہ جس نے میری مدد کی ہے یہ کوئی اور نہیں بھیج سکتا تھا، تجھ ہی سے مدد مانگے، تیرا ہی بندہ آ سکتا ہے میری مدد کے لئے کوئی اور جو ہے ایسا نہیں ہے کہ جو میری دعا قبول کرے اور وہ کسی کو میری مدد کے لئے بھیجے، کوئی نہیں تیرے علاوہ ٹھیک، جی لہذا یہ اس میں تصور نہیں آتا آخر ناقابل فہم ہے لوگ جو کہتے ہیں منافات ہے، توحید کے منافات نہیں ہے، توحید کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بغیر کسی علت و سبب کے براہ راست مدد کرتا ہے اللہ تعالیٰ ایسا نہیں ہے وہ پورے بندوں کے ذریعے مدد کرتا ہے بندے جو ہے وہ وسیلہ اور ذریعہ ہوا کرتے ہیں جی اس میں أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ اللہ نے اپنی مدد کے ذریعے وَبِالْمُؤْمِنِينَ اور مومنین کے ذریعے آپ کی تائید کی ہے، اس آیت کے شان نزول کے سلسلے میں روایات میں ارشاد ہوا کہ حافظ ابو نعیم راوی ہے الغدیر کا حوالہ ہے کہ یہ آیت علی بن ابی طالب عليهما‌السلام کی شا ن میں نازل ہوئی، آیت کی تعبیر ہمیشہ عام ہوا کرتی ہے تعبیر آیت کا سیاق کلام اللہ تعالیٰ کے کلام کا سیاق و سباق ہمیشہ عمومیت ہوتی ہے اس عمومیت کے اندر تطبیقات میں بات کرتے ہیں ہمیشہ تعبیر عام ہوتی ہے فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ ابناء میں بڑی گنجائش رکھی، نِسَاءَنَا میں بھی بڑی گنجائش رکھی ہے، انفسنا میں بھی بڑی گنجائش رکھی ہے۔ تطبیق ایک یا دو ہستیوں کے اوپر ہوئی ہے اور کسی کے اوپر تطبیق نہیں ہوئی، اسی طرح بِالْمُؤْمِنِينَ مومنین سے آپ کی مدد کی ہے اس کی تطبیق میں سب سے پہلے اس تطبیق میں علی ابن ابی طالب عليهما‌السلام پر ہوتی ہے، یہ اگر علی کی تلوار نہ ہوتی تو اسلام کو پھلنے اور پھولنے کا وہ موقع نہ ملتا جو علی کی تلوار اور علی کی شجاعت اور علی کی جہاد سے موقع ملا ہے، توحید کے منافی وہ نصرت اور وہ مدد ہے توحید کے منافی جو اللہ تعالیٰ کے اوپر منتہی نہ ہوتی ہو، اللہ کے مقابلے میں ہو وہ شرک ہے، تفسیر روح المعانی میں لکھا ہے کہ کچھ لوگ ہمارے علاقے میں ہوتے ہیں کہ جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ سے مانگتے ہیں تو یا تو مدد ملتی نہیں ہے یا دیر سے ملتی ہے اپنے آپ اولیاء اللہ سے مانگتے ہیں تو فٹافٹ مدد مل جاتی ہے یہ شرک ہے جی اللہ کے مقابلے میں لاتے ہیں جی اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں لاتے ہیں یہ شرک ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کے زیل میں لاتے ہیں تو وہ بہت سی چیزیں اللہ تعالیٰ کی زیل میں آتے ہیں فرشتے آتے ہیں فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا جی اور مومنین آتے ہیں دیگر ان کے بندے ہوتے ہیں ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے مخلوقات کی مدد کرتے ہیں دیگر زرائع، وسائل و اسباب بہت ہوتے ہیں درمیان میں جی وہ اللہ کے مقابلے میں نہیں ہے اللہ تعالیٰ کے زیل میں، زیل میں ہے اور توحید کے منافی نہیں ہوتا وہ بالآخرہ منتہی ہوتا ہے سلسلہ جا پہنچتا ہے توحید اور اللہ تعالیٰ تک، یہ شرک نہیں ہے یہ آیت دلیل ہے أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ
وَ اَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِہِمۡ ؕ لَوۡ اَنۡفَقۡتَ مَا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا مَّاۤ اَلَّفۡتَ بَیۡنَ قُلُوۡبِہِمۡ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ اَلَّفَ بَیۡنَہُمۡ ؕ اِنَّہٗ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ
اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے دلوں میں الفت پیدا کی اسلام کے آنے سے پہلے باہمی لڑائی میں جنگ و جدال میں اوس و خزرج کی لڑائی ہوتی تھی اسلام نے آ کر کے ان کو ایک محبت اور الفت کی فضا میں رکھ دیا کل کا بہت بڑا دشمن جو ہے آج ایک دوسرے کی جگری دوست بن گئے کل کے رشتہ دار جو ہے وہ قریبی رشتہ دار اسلام اور توحید اور ایمان باللہ کی بنیاد کے اوپر وہ ایک دوسرے کے باپ بیٹے کے دشمن، بھائی بھائی کا دشمن بن گئے، ایسی دوستی پیدا کردی کہ اس دوستی کے آڑے میں رشتہ داری بھی نہیں آسکتی، رشتہ دار بھی دشمن بن گئے سب، ایک توحید پرچم تلے انصاف کو اللہ تعالی نے جمع کیا یہ دشمنی ختم کر دینا یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نصرت ہے ایک تائید ہے وَ اَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِہِمۡ ؕ لَوۡ اَنۡفَقۡتَ مَا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا مَّاۤ اَلَّفۡتَ بَیۡنَ قُلُوۡبِہِمۡ اور اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم درمیان میں نہ ہوتا اور آپ خود سے یہ کام کرتے اللہ سے ہٹ کر دیکھونا یہ ہے توحیدکے منافی یہ ہے لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا اور زمین کی ساری دولت خرچ کرتے آپ اللہ سے ہٹ کے اللہ کے مقابلے میں اللہ کی تائید کے بغیر وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ان کے دلوں میں الفت پید ا نہیں کرسکتے تھے، یہ اللہ ہے جس نے ان کے دلوں میں الفت پیدا کرکے آپ کو تقویت عنایت فرمائی ہے جی یہ توحید کے منافی نہیں ہے کہ لوگوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے نصرت عنایت فرمائی ہے لوگوں میں الفت پیدا کرکے اللہ تعالیٰ نے نصرت پیدا کیا ہے، نصرت دیا ہے عنایت فرمائی ہے۔
اگلی آیت میں فرمایا يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللَّهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ دوبارہ تکرار ہے اے نبی آپ کے لئے اللہ کافی ہے و اور من ان لوگوں کے لئے بھی اللہ کافی ہے جو مومنین میں سے آپ کا اتباع کرتے ہیں، ایک ترجمہ یہ ہے جو مومنین میں سے آپ کا اتباع کرتے ہیں ان کے لئے بھی اللہ کافی ہے اور خود آپ کے لئے بھی اللہ کافی ہے۔
دوسرا ترجمہ یہ ہے اے نبی آپ کے لئے اللہ کافی ہے اور وہ مومنین کافی ہے جو آپ کی پیروی کرتے ہیں، پیروی کی شرط ہے، جی اگر وہ آپ کی پیروی کرتے ہیں وہ بھی اللہ کے ساتھ آپ کے لئے کافی ہے،
کہتے ہیں کہ نہیں پہلا ترجمہ صحیح ہے دوسرا ترجمہ توحید کے منافی ہے دوسرا ترجمہ توحید کے منافی کس طرح؟یہ کہنا کہ آپ کے لئے اللہ کافی ہے اور مومنین میں سے جن لوگوں نے آپ کی پیروی کی ہے وہ بھی آپ کے لئے کافی ہے یہ تو اللہ کافی ہے اور مومنین بھی کافی ہے یہ تو پھر اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں آ گئے، یہ توحید کے منافی ہے یہ ترجمہ یا یہ مطلب لینا آیت کا بلکہ پہلا مطلب صحیح ہے کہ آپ کے لئے اور آپ کی پیروی کرنے والے مومنین کے لئے اللہ کافی ہے۔
ہمارا موقف یہ ہے کہ دوسرا ترجمہ بھی توحید کے منافی نہیں ہے چونکہ پہلی آیت میں فرمایا حَسْبَكَ اللَّهُ ۚ هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ اس میں ہم نے بتایا کہ یہ اللہ کی تائید زیل میں ہے مومنین کی تائید اللہ کی طرف سے ہیں اور لہذا خدا کے مقابلے میں ہو تو پھر شرک بنتا ہے، شریک نہیں ہے زیل میں ہے اللہ تعالیٰ کے جیسے فرشتوں کے بارے میں ہے وَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا اور خدا بھی مدبر فرشتے مدبر، دو مدبر دو رب دو خالق ہوگئے جی نہیں فرشتے اللہ کے کارندے ہوتے ہیں ذیل میں آتے ہیں اللہ تعالیٰ لَا يَعْصُونَ مَا امر اللہ نافرمانی نہیں کرتے، یہاں بھی ہوسکتا ہے کہ ہم یہ بات کرے اللہ بھی کافی ہے اور جن لوگوں نے آپ کی پیروی کی ہے، آپ کی پیروی اللہ کی پیروی ہے آپ کا اتباع اللہ کا اتباع ہے جب وہ اطاعت کرتے ہیں آپ کی اللہ کی اطاعت کرتے ہیں اللہ کے فرمان کے تحت لڑتے ہیں تو یہ بھی آپ کے لئے کافی ہے یہ اللہ کی تائید کے زیل میں آتا ہے مقابلے میں نہیں آتا توحید کے منافی نہیں ہے یہ دوسرا ترجمہ بھی۔
والسلام علیکم