تفسیر قرآن سورہ ‎الأنفال‎ آیات 27 - 28

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَخُوۡنُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ وَ تَخُوۡنُوۡۤا اَمٰنٰتِکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۲۷﴾
سورہ انفال آیت ۲۷
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو اور اپنی امانتوں میں بھی خیانت نہ کرو درحالیکہ تم جانتے ہو۔
یعنی جان بوجھ کر خیانت نہ کرو
خیانت، ایک شخص خائن ہوتا ہے یا امین ہوتا ہے۔ خیانت کے مقابلے میں امانت ہے، امانت کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی چیز کسی کے ہاتھ سپرد کر دی جائے تو جس مقصد کے لئے جس ہدف کیلئے وہ چیز اس کے سپرد ہوگئی ہے وہ اسی چیز میں استعمال ہو تو وہ امانت ہو تو امانت ہو گئی، اور دیا کسی مقصد کے لئے تھا اور استعمال کسی اور چیز میں ہو تو وہ خیانت ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خیانت کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جو بھی چیزیں انسان کو عنایت فرمائی ہے ان چیزوں کو انہیں مقاصد میں استعمال کی جائے تو امانت ہے اور ان کے مقاصد سے ہٹ کر دیگر چیزوں میں استعمال کی جائے تو خیانت ہے۔ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ خیانت یہ ہے کہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو شریعت جو نظام جو حلال و حرام اور جو امر و نہی ہمارے لئے بیان فرمائے ہیں ان کے مطابق جو نظام و دستور زندگی ہمارے ہاتھ میں عنایت فرمایا ہے رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے، اس کو اسی طرح انجام دینا امانت ہے اور اس کو ان سے منحرف کرنا اس کی خلاف ورزی کرنا خیانت ہے۔
اللہ تعالیٰ کے ساتھ خیانت میں اللہ تعالیٰ نے جو ہم کو عقل دی ہے اور اس عقل کو استعمال کرنے کے لئے بہت طویل و عریض زمین دی ہے ان ارض اللہ واسعۃ اللہ تعالیٰ کی سر زمین میں بڑی وسعت ہے اللہ نے جو بھی نعمت عنایت فرمائی ہے اس میں نہایت فراوانی ہے انسان نے اگر ناشکرا نہ کرے مثلاً سورج ایک منٹ میں اہل ارض کے لئے سال بھر کی انرجی فراہم کرتا ہے اگر انسان اس کو ذخیرہ کر سکے اسی طرح باقی ساری چیزیں جو ہیں اس میں نعمات میں فراوانی ہے ان نعمتوں کو اپنی ارتقاء کے لئے اپنے استعمال میں لے آتا ہے آنکھ سے وہی کام لیا جائے جو مرضی رب ہے امانت ہوگئی دماغ سے وہی کام لیا جائے جس میں رضائے رب ہے امانت ہوگئی ہاتھ سے وہی کام انجام دیا جائے جس میں اللہ کی خوشنودی ہے امانت ہوگئی، پیروں سے چل کر اسی چیز کی طرف جائے جہاں اللہ تعالیٰ نے خواہش کی ہے ہم سے طلب کیا ہے تو امانت ہوگئی، جس مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہم کو بنایا اوزار دیا ہے وسائل دی نعمتیں عنایت فرمائی ہے ان میں ان چیزوں کا استعمال امانت ہے اور دیگر چیزوں میں استعمال خیانت ہے رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے بھی یہی ہے جو شریعت اور جو احکام جو ہماری دنیا اور آخرت دونوں کے لئے باعث سعادت ہے ان پر عمل کرنا، ان پر عمل کرو تو اللہ کے ساتھ اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اور اپنے آپ کے ساتھ امانت ہے اور اس کے خلاف ورزی کرو تو خیانت ہے یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَخُوۡنُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ وَ تَخُوۡنُوۡۤا اَمٰنٰتِکُمۡ اور پنی امانتوں کی بھی خیانت نہ کرو۔
یہ اللہ کے ساتھ خیانت رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ خیانت حقوق اللہ میں آتی ہے اور یہ حقوق العباد کی نوبت آتی ہے کہ اپنے آپس کی امانتوں میں بھی خیانت نہ کرو آپس کی امانتیں کیا ہے؟ صاف اور سیدھی سی بات تو یہ ہے کہ کوئی آپ کے پاس کوئی مال رکھتا ہے تو اس میں خیانت نہ کرو اس کو واپس نہ کرو دوسری جگہ فرمایا کہ اللہ نے حکم دیا ہے تم امانت کو اس کے اہل کی طرف واپس کرو جیسے اس نے دیا بغیر کم و کاست اور کسی قسم کی تبدیل اور تغیر کے بغیر، تصرف کے بغیر اس کو اسی طرح واپس کردیا امانت ہے اس میں خیانت نہیں کی ہے۔
یہ سب کے لئے واضح ہے کہ امانت کیا ہے اور خیانت کیا ہے ایک اور امانت ہے جس کو سمجھنا اور جس کو ذہن نشین کر لینا ہمارے لئے انتہائی ضروری ہے وَ تَخُوۡنُوۡۤا اَمٰنٰتِکُمۡ کے سلسلے میں، وہ امانت ہے انسانی وقار اور احترام آدمیت کا مسئلہ کہ کسی نے آپ کے کان میں ایک بات کر دی اور کہا یہ بات امانت ہے فاش نہ کرنا ایسا رکھتے ہے کہ آپ سمجھتے ہے امانت ہے ایک راز وہ آپ کو بتاتے ہے جو اس کی شخصیت سے اس کی مفادات سے اس مصلحت سے مربوط ہے ایک بات، وہ اپنا راز اور دل کی بات آپ کے پاس رکھتا ہے یہ امانتاً میں آپ کو بتاتا ہوں اس میں امانت یہ ہے کہ آپ کسی کو نہ بتائے خیانت یہ ہے کہ آپ اس کو فاش کر دے یہ بھی لوگوں کے لئے قابل فہم ہے۔
جو بات قابل فہم نہیں ہے عام لوگوں کے لئے اور خیانتیں کرتے ہیں وہ راز ہے جو کسی کا آپ کو پتہ چلتا ہے کس کے راز کے اوپر آپ واقف ہوتے ہے وہ اس طرح کہ ایک شخص سے کمزوری سرزد ہوجاتی ہے ایک گناہ سرزد ہو جاتا ہے ایک جرم سرزد ہوتا ہے،خرابی سرزد ہوتی ہے یا ایک کمزوری سرزد ہوجاتی ہے اس سے ایک واقعہ پیش آیا تھا اس سے اور اس سے کمزوری سرزد ہوئی تھی وہ بے چارہ آپ کے سامنے شرمندہ ہوا آپ نے دیکھ لیا آپ کو پتہ چلا کہ یہ خامی، خرابی یا یہ لغزش اس آدمی سے سرزد ہو گئی ہے یہ آپ کے پاس امانت ہے یہ اس کی شخصیت سے مربوط ہے اس کے وقار سے مربوط ہے اس کی عزت اور آبرو سے مربوط امانت ہے آپ کے پاس اس کو فاش نہ کرو اس کو فاش کرنا جایز نہیں ہے حرام ہے گناہ کبیرہ ہے البتہ مؤمن کی حرمت کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ ہے یہ جو راز آپ کے پاس کسی کا آیا ہے یہ ایک امانت ہے باقی جو امانت جو ہے لوگ کہتے ہیں یہ بات آپ کے پاس امانت ہے یہ مال آپ کے پاس امانت ہے اس کو آپ امانت سمجھتے ہیں اس کو امانت نہیں سمجھتے ہیں یہ مشکل ہے یہ معاشرہ میں یہ ایک بہت بیماری ہے اس گناہ کو گناہ نہ سمجھنا اور اس جرم کو جرم نہ سمجھنا یہ سب سے بڑی خرابی اور خامی ہے ہمارے معاشرے کی، کسی کی کمزوری آپ کے سامنے آتی ہے اور آپ آرام سے مزے لے لے کر آگے سناتے ہیں یہ آگے سنانا جائز نہیں ہے راز فاش کرنا جائز نہیں ہے حرام ہے گناہ کبیرہ ہے اس کو غیبت کہتے ہیں غیبت ایک خیانت ہے کسی کا راز فاش کرنا خیانت ہے البتہ ایک آدمی جس کی خامی راز نہیں ہے وہ خود سے فاش ہے وہ سب کو پتہ ہے جب وہ خود سے فاش ہے سب کو پتہ ہے تو آپ بھی ذکر کر سکتے ہے وہ راز راز نہیں رہا اس کے وقار کا مسئلہ اس کے آبرو عزت کا مسئلہ نہیں رہا وہ پہلے سے بے آبرو ہو گیا ہے پھر آپ کیا بچائیں گے آپ بھی ذکر کر سکتے ہے و ہ غیبت نہیں ہے وہ حرام نہیں ہے وہ کیوں حرام نہیں ہے دیکھو بات تو ایک ہے پہلی صورت میں وہ راز تھا فاش نہیں ہوا تھا اس کی عزت و آبرو محفوظ اس کو آپ فاش کر رہے ہیں اس لئے حرام ہو گیا دوسری صورت میں و ہ خود سے فاش ہے حرام نہیں ہے دیکھو احترام آدمیت اسلام میں اور شریعت میں اللہ تعالیٰ کو یہ انسان بہت عزیز ہے پیارا ہے اس کا مخلوق ہے اللہ چاہتا ہے کہ انسان با عزت رہے وَ لَقَدۡ کَرَّمۡنَا بَنِیۡۤ اٰدَمَ بنی آدم کو ہم نے عزت و تکریم سے نوازا ہے اس جو بے عزت نہ کرو حرام ہے گناہ کبیرہ ہے جبکہ اس نے واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اس نے جھوٹ نہیں بولا ہے سچ بولا ہے لیکن یہاں جھوٹ اور سچ کا مسئلہ نہیں ہے احترام آدمیت کا مسئلہ ہے راز کا مسلئہ، کسی کی عزت اور وقار کا مسئلہ ہے اس کو ہمارے معاشروں میں گناہ نہیں سمجھا جاتا ہے اور آرام سے اس گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں اور پھر معافی بھی نہیں مانگتے اور وہ لوگ مرحوم ہوجاتے ہیں جس کی غیبت کی ہے جس کی عیب گوئی کی ہے جو اس کے اندر جو نقص موجود ہے وہ راز ہونے کی وجہ سے فاش کرنا جائز نہیں ہے راز نہ ہو تو پھر جائز ہے کوئی مسئلہ نہیں ہے یہ اس کی بات ہے۔ یہاں ہمارے ہاں تو بہتان ہوتا ہے الزام لگاتے ہیں بہتان تراشی ہوتی ہے جو اس نے کیا بھی نہیں ہے وہ بھی اس کے گردن پر ڈالتے ہیں اور پھر مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں یہ غیبت سے مربوط ہے اور غیبت کے بارے میں قرآن کے آیت آ جائے گی اس میں ہم مشروحاً غیبت کے بارے میں ذکر کریں گے یہاں امانت کے سلسلے میں ہے وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ جان بوجھ کر ایسا نہ کرو جان بوجھ کر کیا مطلب کیا آپ کو نہیں پتہ کہ غیبت حرام ہے خیانت حرام ہے شریعت نے اس کی ممانعت کی ہے یہ نہیں پتہ، یہ مراد ہے؟ یا آپ کو نہیں پتہ تھا کہ یہ چیز خیانت ہے آپ نے سمجھا یہ خیانت نہیں ہے پھر آپ نے یہ کام کر دیا جو فی الواقع اور حقیقت میں یہ کام خیانت سمجھا جاتا لیکن اپ نے یہ خیال کیا یہ خیانت نہیں ہے اس میں تو کوئی حرج نہیں ہے تو وہاں قابل عفو و درگزر ہے اگر آپ کو موضوع کا علم نہیں تھا کہ یہ خیانت ہے موضوع کا علم نہیں ہے تو کوئی حج نہیں یہ قابل درگزر ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے در گزر ہے اور اگر آپ کو علم ہے کہ یہ خیانت ہے لیکن آپ کو یہ علم نہیں کہ خیانت حرام ہے یہ قابل درگزر نہیں ہے حکم کا علم نہ ہونا وہ قابل درگزر نہیں ہے موضوع کا علم نہ ہو قابل درگزر ہے مثال دیتا ہوں ایک گلاس میں شربت نام کی کوئی چیز تھی گلاس میں آپ نے پی لیا تو شربت سمجھ کر پی لیا نہیں پتہ تھا یہ شراب ہے تو گناہ نہیں ہے کہ اس کے شراب ہونے کا علم نہیں تھا موضوع کا علم نہیں تھا دوسری صورت یہ ہے کہ شراب ہونے کا علم تھا لیکن شراب پینا حرام ہے کا علم نہیں تھا یہ درگزر نہیں کہ کیوں علم نہیں تھا تم کو شریعت اور احکام کا علم نہ ہونا قابل درگزر نہیں ہے موضوع کا علم نہ ہونا قابل درگزر ہے وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ میں موضوع ہے حکم نہیں ہے کہ تم موضوع کو نہیں سمجھتے تھے کہ اس کی خیانت ہونے کا علم نہیں تھا اس وقت یہ قابل درگزر ہے خیانت ہونے کا علم ہو لیکن خیانت کے حرام ہونے کا علم نہیں تھا یہ قابل درگزر نہیں ہے آگے ایک آیت ہے یہ قابل توجہ آیت ہے۔
وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَاۤ اَمۡوَالُکُمۡ وَ اَوۡلَادُکُمۡ فِتۡنَۃٌ ۙ وَّ اَنَّ اللّٰہَ عِنۡدَہٗۤ اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ
وَ اعۡلَمُوۡۤا! جان لو متوجہ رہو آگاہ رہو یہ دیکھو وَ اعۡلَمُوۡۤا کے ساتھ یعنی قابل توجہ بات ہے تمہاری زندگی سے مربوط بات ہے تمہاری عاقبت سے مربوط بات ہے تمہاری اولاد تمہارے اموال فِتۡنَۃٌ آزمائش اور امتحان ہے امتحان کا ہمیشہ دو پہلو ہے کامیابی اور ناکامی، ایک پہلو نہیں ہوتا اگر یک پہلو ہو تو وہ امتحان نہیں رہتا امتحان لیا جاتا ہے پاس ہوتا ہے تو اجر عظیم ہے وَّ اَنَّ اللّٰہَ عِنۡدَہٗۤ اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ اجر عظیم ملتا ہے کہاں سے؟ اموال اور اولاد سے، اور اگر کامیاب نہیں ہوتا ہے تو یہ اجر عظیم نہیں ملتا ہے اسی امتحان میں، اسی آیت سے آپ ایک بہت وسیع مضمون سمجھ سکتے ہیں کہ اسلام کا قرآن کا مال اور اولاد کے بارے میں موقف کیا ہے ہمیشہ سنا جاتا ہے دنیا کی مذمت اور مال کی مذمت ،اولاد کی مذمت اور بہت سی آیات میں ہیں یَوۡمَ لَا یَنۡفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوۡنَ ﴿ۙ۸۸﴾
اِلَّا مَنۡ اَتَی اللّٰہَ بِقَلۡبٍ سَلِیۡمٍ ﴿ؕ۸۹﴾
قیامت کے دن مال اور اولاد فائدہ نہیں دیں گے قلب سلیم فائدہ دے گا۔ اس قسم کی باتیں سن کر انسان کا خیال ہوتا ہے کہ مال اور اولاد ہر صورت میں مذموم شیئ ہے نہیں ہر صورت میں مذموم چیز نہیں ہے یہ امتحان ہے آزمائش ہے ایک آیت ہے جس میں ارشاد فرمایا کہ حسنات اور سیئات دونوں کے ذریعے تمہارا امتحان کرتا ہے دوسری میں ہے وَ نَبۡلُوۡکُمۡ بِالشَّرِّ وَ الۡخَیۡرِ فِتۡنَۃً۔ ۔۔۔۲۱ انبیاء :۳۵ خیر اور شر دونوں حوالوں سے تمہارا امتحان ہوتا ہے بیماری کے ذریعے فقر و فاقہ کے ذریعے جو شر ہے امتحان ہے ہوتا ہے اور مال و دولت کے ذریعے ، کرسی و اقتدار کے ذریعے بھی امتحان ہوتا ہے جو بظاہر خیر ہے۔ مال اور اولاد خیر ہے اور اس خیر کے ذریعے تمہاری آزمائش اور امتحان ہوتا ہے اب ہم ان دونوں پہلوں پر تھوڑی روشی ڈالیں گے خیر کا پہلو کیا ہے اولاد میں اور شر ک کا پہلو کیا ہے یہ بات میں عموما بیان کیا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو انسان کے لئے جس منزل کا تعین کیا ہے اس تک پہنچنے کے لئے اگر مال اور اولاد کو ذریعہ بنا دیا ہے بہترین ہے یہ مال اور اولاد۔ اور اگر یہ مال اور اولاد ذریعہ نہیں بناتے کسی منزل یا مقصد تک پہنچنے کے لئے، اسی کو خود مقصد بنایا جاتا ہے پھر یہ بد ترین ہے وہی مثال جو میں دیا کرتا ہوں کشتی اور پانی کی مثال کہ پانی اگر کشتی کے نیچے رہتا ہے تو پار ہونے کے لئے بہترین ذریعہ ہے یہی پانی اگر کشتی کے اندر آ جاتا ہے اس کشتی کو غرق کر دیتا ہے مال اور اولاد اگر انسان کے تصرف میں رہے اور انسان اس کے اوپر حاکم رہے تو یہ بہترین ذریعہ ہے اور مال اور اولاد انسان کے وجود کے اندر چلا جائے تو اس کو ڈبو کے چھوڑ دے مال اور اولاد کے اوپر یہ حاکم نہیں رہتا محکوم ہو جاتا ہے یعنی اس کے اندر چلا جاتا ہے اس کے وجود کے اندر بس جاتا ہے مال تو وہ اس کو ڈبو کے چھوڑے گا یہ مال۔
مال قرآنی تصور کے مطابق بہترین ذریعہ کے لئے وہ مشہور آیت ہے مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ ان لوگوں کی مثال جو اپنے اموال راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں اس دانے کی سی ہے اَنۡۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ جس میں سات خوشے اُگ آئے فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ؕ ہر خوشے میں سو دانے ہیں سات سو ہوگئے یعنی ایک دانے کے مقابلے میں ایک نیکی کے مقابلے میں سات سو نیکیاں مَنۡ جَآءَ بِالۡحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشۡرُ اَمۡثَالِہَا جو ایک نیکی لے کر کے آتا ہے اس کو دس گنا زیادہ ثواب ہے وہ عام حالت میں ہے مال میں سات سو گنا ثواب ہے عموماً میں کہا کرتا ہوں مال انسان کے اہم ترین دماغ کے حساس ترین جگے پہ بیٹھا ہوا ہوتا ہے اس مال کا ایثار کرنے والے اور قربانی کرنے والے کی بہت بڑی فضیلت اور بہت بڑا مرتبہ ہے پھر آگے ارشاد فرمایا وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ﴿۲۶۱﴾ خدا اس کو چاہتا دوگنا کر دیتا ہے دوگنا کر دیا تو پھر کیا ہوا؟ چودہ سو ہو گئے یُضٰعِفُ دوگنے کو نہیں کہتے ہے اور کئی گنے کو بھی یُضٰعِفُ کہتے ہے۔ وہ کتنا دوگنا کرتا ہے اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے مال کی بہت فضیلت ہے مولا فرماتے ہیں المرء ینام بالثکل ولا ینام بالسلب بچہ مر جائے بیٹا مر جائے سو جاتا ہے مال چھن جائے نہیں سوتا ایسی حساس جگے بیٹھا ہوتا ہے مال اس لئے اس مال کے انفاق میں اور اس کے ایثار میں بہت بڑی فضیلت ہے مال بہترین چیز ہے مال کی مذمت نہیں ہے اگر مال کو انسان ذریعہ بناتا ہے مال بہترین چیز ہے حدیث میں ہے نعم المال الصالح للعبد الصالح بہترین انسان کے لئے مال بہترین چیز ہے صالح انسان کے لئے مال صالح ہے۔ آگے آتے ہیں ہم اولاد کی طرف، اولاد جو ہے اس کو آپ اگر اولاد کو چاہتے ہیں اپنی اس زندگی کے لئے اس دنیا کے لئے اس کو مقصد بناتے ہیں تو مذمت ہے اور اس کو ذریعہ بناتے ہیں تو اولاد کے بارے میں بہت فضیلت موجود ہے۔ قرآن میں ایک آیت ہے اس آیت میں ارشاد فرمایا کہ والدین کو جنت جانے کا حکم ملے گا وَ مَنۡ صَلَحَ مِنۡ اٰبَآئِہِمۡ وَ اَزۡوَاجِہِمۡ وَ ذُرِّیّٰتِہِمۡ ؕ بھی ہے اور ان کے جو نیک اولاد ہیں البتہ نیک ہونا شرط ہے لیکن باپ کی جگے پر نہیں ہے تو اولاد کو بھی باپ کا درجہ دیا جائے گا قرآن میں موجود ہے آیت ہے باپ کا درجہ اولاد کو نہیں اور بالعکس اولاد کا درجہ بلند ہے اور اس کو جنت جانے کا حکم ملتا ہے اور باپ بھی نیک ہے لیکن بیٹوں کے درجے کے نہیں ہے تو والدین کو بھی بیٹوں کے درجے پر لایا جائے گا یہ ہے وہ جگہ جہاں اولاد آخرت میں بھی فائدہ دیتی ہے ایسا نہیں ہے اولاس صرف دنیا میں آپ کے لئے فائدہ دے ایسے تو ایک شخص دنیا سے چلا جاتا ہے اور اس کے پیچھے اولاد صالح رہ جاتے ہیں اولاد صالح اس کے لئے دعا کرتے ہیں اعمال صالح بجا لاتے ہیں اس کا ایک حصہ والدین کو ملتا ہے صدقہ جاریہ ہے چار چیزیں انسان کے پیچھے ان کا ثواب ملتا رہتا ہے ان میں سے ایک ولد صالح ہے جب وہ اس کیلئے دعا کرتا ہے اس کے لئے اعمال خیر بجا لاتے ہیں اس کا حصہ والدین کو ملتا رہتا ہے یہ اور چیز ہے لیکن یہ جو آیت میں ہے یہ قیامت میں فائدہ دیتے ہیں دونوں یہاں سے چلے گئے والدین دنیا سے چلے جاتے ہیں اور اولاد یہاں پر موجود ہیں ان کے لئے ایک حدیث ہے خمسۃ دعواۃ لا یحجبن عن رب تعالیٰ پانچ دعائیں ہیں جن کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی حجاب اور کوئی پردہ نہیں ہے یعنی قبول ہوتی ہے پہلے امام عادل کی دعا، مظلوم کی دعا دعوۃ الولد الصالح لوالدیہ نیک اولاد کی اپنے والدین کے لئے دعا قبول ہوتی ہے و دعوۃ الوالد الصالح لولدہ بالعکس بھی ہے والدین کی دعا اپنی اولاد کے لئے بھی قبول ہوتی ہے و دعوۃ المؤمن لاخیہ بظہر الغیب جو پیچھے غائب ہے اس مومن بھائی کیلئے آپ دعا کرتے ہیں، لوگوں کے لئے دعا کیا کریں اپنے مؤمن بھائیوں کے حق میں دعا کیا کریں وہ اس کے حق میں قبول ہوتی ہے اس کا آپ کو فائدہ بہت ملتا ہے وہ آپ کے لئے دعا کریں گے تو اس کی بھی دعا قبول ہوگی تو آپ کا فائدہ ہے اس میں یہ تو درست ہے کہ نیک اولاد دنیا میں زندہ رہے اور والدین دنیا سے چلے جائے تو وہ اس کے باقیات الصالحات میں ہے اس کا ثواب ملتا ہے لیکن یہاں آیت کا ارشاد یہ ہے کہ خود قیامت میں بھی فائدہ دیتے ہیں کہ اگر والدین اس درجے کے نہیں ہیں اولاد بلند درجے کے ہیں مثلاً ہمارے بہت بلند درجے کے علماء ہوتے ہیں اور کے والدین انپڑھ ہوا کرتے ہیں اور اس والدین اس درجے کے کم ہیں اور اس عالم دین کا مثلاً ہمارے شیخ انصاری کا کتنا درجہ ہوگا بہت متقی تھے تقویٰ میں انتہائی، اور شیخ مرتضی انصاری کے والدین کا یقیناً وہ درجہ نہیں ہونگے جو شیخ مرتضی انصاری کو درجہ ہے تو ان کے والدین کو بھی شیخ مرتضی انصاری کے درجے پر جنت میں جگہ دے دی جائے گی چونکہ یہ اولاد جن کا درجہ زیادہ ہو اور والدین کا درجہ کم ہو یہ نہیں ہوتا یہ شرط ہے کہ والدین بھی صالح ہو نیک ہو درجہ کم ہے نیک ہے تو اس وقت قیامت کے دن آخرت میں بھی اولاد فائدہ دیتی ہے۔