تفسیر قرآن سورہ ‎الأنفال‎ آیت 41

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ
خمس کے سلسلے میں معنائے غنیمت کے بارے میں ہم نے گفتگو کی غَنِمَ آمدنی کو اور فائدہ کو کہتے ہیں لغت میں فائدہ کو کہتے ہیں جنگی غنیمت میں بعد میں استعمال ہونے لگا۔ لہذا عصر رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اوائل میں اگر غنیمت کا لفظ استعمال ہوا ہے ہم لغوی معنی مراد لیں گے اواخر میں استعمال ہوا ہے یا بعد الرسول ہم غنیمت سے جنگی غنیمت مراد لیں گے۔ یہ آیت چونکہ جنگ بدر سے مربوط ہے اوائل سے مربوط ہے لہذا مکی زندگی میں کوئی جنگ تھی نہیں مدنی زندگی میں جنگ شروع ہوگئی دوسرے سال سے، لہذا ہم غنیمت سے مراد مطلق آمدنی اور فوائد اور منافع لیں گے۔ اگر ہم یہ قبول بھی کریں آیت میں اگر جنگ کا ذکر نہیں ہوا۔
وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ ما اور شئی جو ہے وہ مطلق ہے جنگی غنیمت سے مربوط نہیں ہے آیت پہلے عرض کیا کہ آیت کا شان نزول جنگ ہے لہذا شان نزول سے آیت کی تخصیص نہیں ہوتی العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب سبب نزول مخصص نہیں بنتا۔ یہ قرآن کا کلیہ لیکن اگر ہم قبول بھی کر لیتے ہیں کہ اس آیت میں غنیمت جنگی کے علاوہ کسی اور چیز کے اوپر خمس ثابت نہیں ہوتا، فرض کر لیتے ہیں۔ تو ہم یہ موقف اختیار کریں گے کہ اگر اس آیت خمس سے آمدنی پر جنگی غنیمت کے علاوہ کسی اور چیز پر خمس نہیں آتا ثابت نہیں ہوتا۔ اس آیت سے اگر ثابت ہوا تو یہ ہوگا کہ جنگی غنیمت پر خمس ہے ثابت ہوتا ہے۔ اگر ہم جنگی غنیمت تک منحصر کر دیں اس آیت تو اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ جنگی غنیمت پر خمس ہے، بس! اس کے علاوہ دیگر چیزوں پر خمس ہے یا نہیں ہے سے مربوط نہیں ہے یہ آیت صرف جنگی غنیمت سے مربوط ہے جنگی غنیمت پر خمس ثابت ہو جاتا ہے اس آیت کے ذریعے۔ غیر جنگی باقی جنگ کے علاوہ جنگی غنیمت کے علاوہ چیزوں پر خمس ثابت ہوتا ہے نہیں ہوتا ہے آیت اس کے ساتھ متعارض نہیں ہے اگر ہم جنگی غنیمت کے ساتھ مخصوص کرتے ہیں تو اگرچہ واقعاً بھی ایسا نہیں ہے کہ خمس صرف جنگی غنیمت پر ہو۔
تمام مسلمانوں کے نزدیک جنگی غنائم کے علاوہ باقی چیزوں پر بھی خمس ہے مثلاً معدنیات پر خمس ہے رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا قضی رسول اللہ فی رکاض الخمس معدنیات پر رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فیصلہ کیا کہ اس پر خمس ہے آپ سے پوچھا گیا کہ رکاض کیا چیز ہے تو آپ نے فرمایا الذھب و الفضہ الذی خلقہ اللہ فی الارض سونا و چاندی جو زمین سے نکالا جاتا ہے اس طرح کے معدنیات، اس پر خمس ہے۔ یعنی شیعہ سنی دونوں کے نزدیک خمس ہے۔ زمین سے جو دفینے ملتے ہیں، اس پر بھی خمس ہے، دفینوں کے بارے میں حدیث رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی فیہ و فی الرکاض خمس دفینہ میں اور رکاض میں خمس ہے۔ آبی دولت پر بھی خمس ہے جو غوطہ زنی کے ذریعے یا دوسرے ذرائع سے جو آبی دولت جو ہے موتی وغیرہ نکالی جاتی ہے اس پر بھی بالاتفاق خمس ہے۔ یہ ہمارے ہاں بھی ثابت ہے اور اہل سنت کے ہاں بھی ثابت ہے صحاح میں اس کے بارے میں روایات موجود ہیں۔ یہاں سے ثابت ہوگیا کہ خمس صرف جنگی غنیمت میں نہیں ہے خمس جنگی غنیمت کے علاوہ چیزوں پر عائد ہوتا ہے یہ معدنیات میں اور دفینہ اور آبی دولت کے اوپر خمس ہوتا قرآن سے ثابت اگر نہیں ہے سنت رسول سے ثابت ہے کہ ان چیزوں پر بھی خمس ہے اگر ہم آپ کے ساتھ فرض کر لیتے ہیں کہ اس آیت سے منافع کے اوپر کمائی کے اوپر خمس نہیں ہے، ثابت نہیں ہوتا ہے اس آیت کے ذریعے ثابت نہیں ہوتا ہے تو اس سے یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ جنگی غنیمت کے علاوہ چیزوں پر خمس نہیں ہے ایک بات۔
دوسری بات ہمارے لئے مصدر تشریع منابع شریعت قرآن و سنت ہے بنیادی صرف قرآن نہیں صرف سنت نہیں قرآن اور سنت دونوں ہمارے فقہی منابع ہے اس آیت کی توضیح کی تشریح کی وضاحت کی سنت نے۔ چنانچہ قرآن کا سمجھنا جو ہے وہ سنت پر موقوف ہے اگر سنت کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو آپ قرآن سے کلیات اخذ کر سکتے ہیں جزئیات اور عمل کرنے کے لئے جزئیات درکار ہوتی ہے قرآن نے کہا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ نماز قائم کرو اور سنت سے آپ اخذ کریں گے صلو کما رایتمونی اصلی جزئیات حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے لینا ہے زکواۃ دے دو کہا ہے کتنی اور کس چیز پر زکواۃ دینا ہے؟ قرآن نے کلی حکم بیان کیا جزئیات جو ہے عمل کرنے کے لے سنت کی طرف رجوع کرنا ہے آیت نے کہہ دیا وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ جو چیز غنیمت ہے اس میں سے پانچواں حصہ اللہ اور رسول اور ذوی القربی کو دے دو۔ ہم نے پوچھا سنت سے یہ کیا چیز ہے؟ سنت نے تشریح کی سنت نبوی سے ہم نے سمجھ لیا کہ خمس جو ہے وہ کن کن چیزوں پر واجب ہے غنیمت کا مطلب کیا ہے سنت رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو ہم لوگ فقہ جعفری میں سنت رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہم بیشتر اخذ کرتے ہیں آئمہ اہل بیت عليهم‌السلام کے ذریعے اخذ کرتے ہیں سنت رسول کا طریقہ۔
ہمارا آئمہ اہل بیت عليهم‌السلام ہیں اہل بیت جو ارشاد فرماتے ہیں اس کو ہم سنت رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے طور پر لیتے ہیں یہ اہل بیت عليهم‌السلام نے کہا حَدِيثِي حَدِيثُ أَبِي وَ حَدِيثُ أَبِي حَدِيثُ جَدِّي وَ حَدِيثُ جَدِّي وَ حَدِيثُ رَسُولِ اَللَّهِ نحن نکتنذ الاحادیث کما تکتنذون الذھب و الفضہ آئمہ نے فرمایا ہم احادیث رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس طرح ذخیرہ کر کے رکھتے ہیں جس طرح تم سونا اور چاندی کو ذخیرہ کر کے رکھتے ہو۔ آئمہ عليهم‌السلام جب بھی ارشاد فرماتے ہیں، حدیث نبوی سنت رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بیان فرماتے ہیں جیسا کہ خود رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو بھی ارشاد فرماتے ہیں وحی سے ارشاد فرماتے ہیں بالکل اسی طرح آئمہ جو بھی ارشاد فرماتے ہیں سنت رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ارشاد فرماتے ہیں۔ لہذا آئمہ عليهم‌السلام کی طرف سے اتفاق ہے کہ ارباح مکاسب پر خمس ہے ربح یعنی فائدہ درآمد ارباح مکاسب پر خمس ہے۔
یہاں پہ ہمارے علماء نے خمس کے سلسلے میں بہت سے مباحث اور احادیث تاریخ شواہد بیان فرمایا ہے اس پر ہم بعد میں مختصر سی روشنی ڈالیں گے یہاں ہم خمس اور زکواۃ کے سلسلے میں ایک مختصر سی گفتگو کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔ کہ مالی نظام میں عدالت قائم کرنے کے لئے تقسیم دولت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اگر عادلانہ نظام ہے کسی معاشرے میں تو وہ عدل و انصاف کہاں ملے گا؟ تقسیم میں ملے گا، تقسیم دولت بنیادی چیز ہے انتہائی بنیادی چیز ہے۔ اگر کسی کے ہاں تقسیم دولت وہ صحیح نہیں ہے وہ عادلانہ نہیں ہے اگر کسی نظام میں تقسیم دولت صحیح ہے وہ عادلانہ ہے۔ عدل اور عدم عدل کا دار و مدار تقسیم پر ہے۔ یہاں مثلاً آپ کو اگر کوئی چیز ملتی ہے کہ یہ پیسہ طالب علموں کو دے دو۔ تو عادلانہ تقسیم ہوا یا نہ ہوا وہ تقسیم کے اوپر منبی ہے کہ تقسیم کس طرح ہوا اگر تقسیم میں عدل و انصاف قائم کیا تو اس نے عادلانہ تقسیم کیا نہیں تو نہیں۔ یہاں ہر مالی نظام میں تقسیم کے عادلانہ ہونے کے لئے سب سے پہلے تقسیم کے عادلانہ ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اس نظام کا نظریہ کیا ہے مال و دولت کے بارے میں۔ مال و دولت کی تقسیم کے بارے میں پہلے نظریہ قائم ہوتا ہے اور پھر اس نظریہ کی بناء پر تقسیم ہوتی ہے فرق کرنا ضروری ہوتا ہے نظریہ ہے مجرد معیل کا امیری و غریبی وغیرہ کا رکھنا ہے یا نہیں رکھنا ہے نظریہ کیا ہے آپ کا موقف کیا ہے آپ کا۔ وہ موقف عادلانہ ہے تقسیم عادلانہ ہوجائے گا اگر موقف عادلانہ نہیں ہے تو پھر موقف ہم نے یہ بنایا مثلاً اتنی عمر کے ہے تو اس کو زیادہ ملے گا یا نہیں ہے تو اس کو نہیں ملے گا یہ موقف غلط لہذا تقسیم بھی غلط ہوجائے گا تقسیم کا عادلانہ ہونا موقف کے اوپر ہے۔
یہاں پر ہم تین موقف آپ کے سامنے رکھتے ہیں ایک کمینسٹوں کا موقف اور ایک سوشلزم کا موقف اور ایک سرمایہ دارانہ نظام کا موقف یہ تین موقف ہے اور چوتھا موقف اسلام کا تقسیم دولت کے بارے میں اب کوئی اس موقف کے مطابق تقسیم کرتا ہے نہیں کرتا ہے یہ اور بات ہے یعنی وہ نظام نافذ ہے یا نہیں اور بات ہے موقف ہم پیش کرتے ہیں۔ یہاں معاشرے میں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں ہر معاشرے میں پہلے وہ لوگ جو اپنی ضرورت سے زیادہ کما سکتے ہیں اس کے پاس عملی اور فکری طاقت وافر ہے اور تجربہ شناسائی رکھتا ہے اس کی بنا پر وہ اپنی ضرورت سے زیادہ کماتا ہے، ایک۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو اپنی ضرورت کے مطابق کما سکتا ہے نہ کم نہ زیادہ۔ تیسرا گروہ وہ ہے جو اپنی ضرورت سے کم کما سکتا ہے کسی وجہ سے نادانی کی وجہ سے ناتوانی کی وجہ سے رکاوٹوں کی وجہ سے وہ اپنی ضرورت کے برابر کمائی نہیں کر سکتے ہیں۔ اب بیت المال نے مال تقسیم کرنا ہے لوگوں کے درمیان میں پھر مختلف نظام ہاے حیات سامنے آتا ہے اس میں سب سے پہلا جو نظریہ آتا ہے وہ کمیونسٹ کا نظریہ آتا ہے۔ کمیونسٹ کا نظریہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنی وسعت کے مطابق محنت کرے جتنا محنت کر سکتا ہے محنت کرے اور بیت المال سے ہر شخص کو اس کی ضرورت کے مطابق حصہ ملے۔ اس کی استطاعت کے مطابق محنت کرے ضرورت کے مطابق پیشہ لیں لیں یہ ایک موقف ہے یہاں پر محنت اور ضرورت بنیا د ہے تقسیم دولت کے لئے۔
سوشلزم کا موقف یہ ہے کہ ہر شخص اپنی طاقت کے مطابق کام کرے اور کام کے مطابق حصہ لیں ضرورت کو دخل نہیں ہے یہاں اپنی طاقت کے مطابق کام کرے اور کام کے مطابق حصہ لیں ضرورت زیادہ ہو کم ہو اس کے ساتھ سرو کار نہیں ہے یہ دیکھا جائے گا کہ کتنا کام کیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں نہ ضرورت کو کوئی دخل ہے نہ محنت کو کوئی دخل ہے دونوں چیزوں کو دخل نہیں ہے۔ پھر تقسیم دولت کے لئے کیا ہوگا؟ تقسیم دولت کے لئے یہ تیسرا گروہ وہ کیا کرے پہلے گروہ نے تو اپنی ضرورت سے زیادہ کما لیا دوسرے گروہ نے بھی اپنی ضرورت کے مطابق کما لیا تیسرے گروہ کے لئے سرمایہ داری نظام میں کیا سسٹم ہے کیا قانون ہے؟ تیسرے گروہ کو سرمایہ داری نظام میں وہ طلب و رسد کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے کوئی نظریہ نہیں ہے نہ محنت کے مطابق ملنا ہے اس کو اور نہ ضرورت کے مطابق ملنا ہے پھر کتنا ملنا ہے جتنا بازار میں اس کی طلب ہے اتنا ملنا ہے طلب و رسد کے رحم پر جب چھوڑ دیا جاتا ہے تو جس قدر ضرورت مند زیادہ کام تھوڑا وہ مزدوری کم ملے گی اور ضرورت مند کم کام زیادہ ہو تو مزدوری زیادہ ملے گی لہذا یہ طلب و رسد کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور ہمیشہ طلب و رسد میں توازن ضرورت مند کی طرف زیادہ رجحان رہتا ہے ضرورت مند لوگ زیادہ ہوجاتے ہیں محتاج لوگ زیادہ ہوجاتے ہیں کام تھوڑے ہوتے ہیں لہذا غریب لوگوں کے لئے اپنی محنت کے مطابق حصہ نہیں ملتا یعنی یہاں محنت کو دار و مدار نہیں ہے بازار میں اس محنت کی کیا قیمت ہے؟ لہذا ہم دیکھتے ہیں بعض علاقوں میں آج کل محنت کو دو سو دیا جاتا ہے بعض علاقوں میں سو روپیہ دیا جاتا ہے بعض علاقوں میں صرف کھانا کھانے کے لے کام کیا جاتا ہے کھانا کھاو ایک دن کا دو ٹائم کایا ایک ٹائم کا کھانا اور اور دن بھر کام کرو۔ وہاں پر چونکہ غریب زیادہ ہوتے ہیں اور کام تھوڑے ہوتے ہیں لہذا ان کو صرف کھانے کے اوپر سارا دن کام کرنا ہوتا ہے کوئی قیمت نہیں۔ بعض علاقوں میں جہاں پر کوئی قیمت ہی نہیں مثلاً بے چارے لوگوں سے کام لیا جاتا ہے ان کو کچھ نہیں دیا جاتا صفر تک چلا جاتا ہے کوئی اصول نہیں ہے یہاں پر سرمایہ داری نظام میں۔ سرمایہ داری نظام میں مضبوط موقف نہیں ہے تقسیم دولت کے لئے حالات کے اوپر چھوڑ دیا جاتا ہے حالات کے رحم و کرم کے اوپر چھوڑ دیا جاتا ہے کبھی کچھ ملتا ہے محنت کو ضرورت مند یا تیسرے گروہ فقیر و مسکین کو اور کبھی کچھ نہیں ملتا۔
اسلام کیا کہتا ہے؟ اسلام کو کوئی موقف ہے تقسیم دولت کے سلسلے میں اسلام میں موقف ہے یہاں۔ اسلام تقسیم دولت کے سلسلے میں تین چیزوں کو بیک وقت معیار بناتے ہیں محنت، ضرورت اور ملکیت۔ محنت کے مطابق کہ اس کو پیسہ دیا جاتا ہے اور ضرورت کے مطابق تیسرے گروہ کو پہلے گروہ سے اٹھا کر کے دیا جاتا ہے خمس اور زکواۃ ہے اسلامی مالی نظام ہے۔
پہلے گروہ کے پاس ضرورت سے زیادہ پیسہ ہے تیسرے گروہ کے پاس ضرورت کا بھی پیسہ نہیں ہے تو پہلے گروہ سے تیسرے گروہ کو بر بناء ضرورت کو ہم فقراء محتاج کہتے ہیں مساکین کہتے ہیں بر بناء ضرورت اس کو پیسہ ملتا ہے بر بناء محنت بھی اس کو پیسہ ملتا ہے بر بناء ملکیت بھی اس کو دولت ملتی ہے مالک ہے وراثتاً مالک بنتے ہیں ھبہ سے مالک بنتا ہے البتہ ایک بات آپ کو یاد رکھے اسلام میں مالک بننے کا ایک ہی ذریعہ ہے صرف لا ملکیت سے ملکیت کی طرف منتقل ہونے کا ایک واحد ذریعہ ہے مثلاً اپ مالک بنتے ہیں وراثتاً آپ لا ملکیت سے مالک نہیں بنے آپ کسی مالک سے مالک کی طرف منتقل ہو گیا خرید و فروخت سے مالک کی طرف منتقل ہوتا ہے ھبہ مین مالک سے مالک کی طرف منتقل ہوتا ہے ہم کہتے ہیں کہ وہ تو ملک سے مالک کی طرف منتقل ہوا لا ملکیت سے ملکیت کی طرف ایک مال جو کسی کی ملکیت میں نہیں ہے وہ آپ کا مال کب ہوتا ہے؟ محنت سے ہوتا ہے ایک زمین وہ غیر آباد ہے وہ زمین آپ اس پر محنت کرتے ہیں اور وہ زمین آپ کی ہوجاتی ہے حدیث ہے کہ زمین اس کی ہوجاتی ہے جو اس کو آباد کرے اسی طرح ہر چیز میں مالک ہونے کے لئے ملکیت کے لئے محنت بنیاد ہے۔ البتہ محنت کے ذریعے انسان مالک بنتا ہے اپنے ضرورت سے زیادہ کا بھی مالک بنتا ہے لیکن وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ ان کے اموال میں جو اپنی ضرورت سے زیادہ مال کماتے ہیں ان کے اوپر جو ہے لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ حق معلوم ہوتا ہے سائل اور محروم کے لئے طبقہ اول سے اٹھا کر کے طبقہ سوم کو دیا جاتا ہے۔ لہذا اسلام میں توزیع و تقسیم دولت کے لئے معیار تین چیزیں ہیں؛ دولت، ضرورت اور ملکیت اور موقوف ہے محنت کے اوپر محنت سے انسان مالک بنتا ہے محنت نہ ہو بغیر محنت کے کوئی چیز ہاتھ آ جاتی ہے اس کا وہ مالک نہیں بنتا ہے۔ فقہاء کہتے ہیں کہ حیازت سے بھی مالک بنتا ہے حیازت بھی ایک قسم کی محنت ہے تحجیر سے بھی مالک بنتا ہے یعنی پتھر سے نشانی لگا تے ہیں کہ زمین پر قبضہ کر لیا۔