تفسیر قرآن سورہ ‎الأنفال‎ آیات 24 - 26

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَجِیۡبُوۡا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوۡلِ اِذَا دَعَاکُمۡ لِمَا یُحۡیِیۡکُمۡ ۚ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ یَحُوۡلُ بَیۡنَ الۡمَرۡءِ وَ قَلۡبِہٖ وَ اَنَّہٗۤ اِلَیۡہِ تُحۡشَرُوۡنَ﴿۲۴﴾
گفتگو ہورہی تھی اللہ انسان کے اور اس کے ارادوں کے درمیان حائل ہوتا ہے اس سلسلے میں پہلے بھی کچھ مطالب بیان ہوئے کہ اس سے نظریہ جبر ثابت نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ اس سلسلے میں انسان کے اور انسان کے قلب کے درمیان حائل ہونے میں پہل نہیں کرتا بلکہ اس کے اہلیت اور استحقاق کے مطابق اس سے اس کے سعادتیں سلب کرتا ہے یا اگر وہ کسے برے ماحول میں مبتلا ہے تو وہ جو کام کرنے کو جارہا ہے اس کی طینت ٹھیک ہے اندر خباثت نہیں ہے لیکن برے ماحول میں مبتلا ہے اور کسی برے کام کو کرنے جارہا ہے اللہ تعالیٰ جو اس کی اہلیت اور اس کے استحقاق کے بنا پر اس کے اس کے اور اس کے برے عمل کے درمیان حائل ہو جاتا ہے وہ سرزد ہونے نہیں دیتا اور اس کے برعکس دوسرے آدمی بہت اچھے ماحول میں ہے عالم دین ہے مولوی ہے اور روحانیین کے درمیان زندگی کرتا ہے اندر خباثت ہے اور اچھے عمل کرنے کو جارہا ہوتا ہے لیکن وہ اس کے اہل نہیں ہے یہ سعادت جو ہے اس کو نہیں مل سکتی وہ حائل ہوتا ہے اس قسم کے بیسیوں مثالیں ہم ہر روز دیکھتے ہیں کہ ایک شخص ایک کار نیک کرنے کو
جاتا ہے مثلاً ایک شخص مسجد بنانے کو جاتا ہے دوسرا آدمی اسی مسجد میں ایک مجلس رکھتا ہے مسجد بنانے والا جو ہے وہ کیا کرتا ہے وہ تو ہے عمل تو بہت اچھا عمل ہے اس سے جو ہے وہ ثواب کمانا چاہتا ہے مسجد بنا کر لیکن وہ مسجد بنانے کے راستے میں ایک مومن کی اہانت کرتا ہے کہ یہ کام کیوں خراب کیا تم نے یا یہ کیوں کیا وہ کیوں کیا ایک مومن کی اہانت کرتا ہے مسجد بنانے کے راستے میں، اسلامی تعلیمات کے مطابق مومن کی حرمت کعبے کی حرمت سے بھی زیادہ عزیز ہے مومن اور کعبہ یہ دونوں ایک ساتھ جو ہے وہ تصادم ہوجائے کہ ایک شخص کعبہ کی حرمت بچا سکتا ہے یا مومن کی حرمت بچا سکتا ہے ان دونوں میں سے ایک کی حرمت بچا سکتا ہے دونوں کی نہیں بچا سکتا ہے کس کو ترجیح دے۔ مومن کی حرمت کو ترجیح دے اس لئے مومن کی حرمت کعبے کی حرمت سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے یہ مومن مسجد بنانے کو جاتا ہے اور مسجد کے راستے میں بنانے کے راستے میں ایک مومن کی اہانت کرتا ہے
جی یہ توفیق سلب ہوگئی مسجد بنا رہا ہے اور اس سے توفیق مسجد بنانے کا ثواب کی سلب ہوگیا اس سے بہت بڑا گنا ہ جو نیکی کیا اس سے محروم اسی طرح اور کارہائے خیر کرتے ہیں لوگ اور کار خیر کرنے کو جاتے ہیں اور پھر گناہ لات کرکے پھر واپس آ جاتے ہیں اپنے اوپر بہت دیکھا ہے روز مرہ دیکھتے ہیں اور بعض لوگوں کو ہم قابل رحم سمجھتے ہیں یار تو کارخیر کرنے کو گیا تھا اور گناہ جو ہے کسی کی غیبت کرکے کسی کے اوپر بہتان لگا کر واپس آگیا جی کیا ہوا اس شخص کے ساتھ یہ کیوں ہوا کہ یہ ثواب کرنے گیا تھا گناہ لیکر کرکے واپس آنے کی نوبت کیوں آگئی اَنَّ اللّٰہَ یَحُوۡلُ بَیۡنَ الۡمَرۡءِ وَ قَلۡبِہٖ جی کہ اس کے قلب کی حالت جو ہے ایسی نہیں تھی کہ اس سے یہ عمل سرزد ہوجائے یہ سعادت اس کو مل جائے اس کا قلب ایسا نہیں تھا اس وجہ سے اللہ یَحُوۡلُ اللہ حائل ہو جاتا ہے نہیں کرنے دیتا کام اس سے اور اس کے برعکس ایک شخص برے ماحول میں ہوتا ہے لیکن اس کی قلبی حالت ٹھیک ہے اس کی طینت ٹھیک ہے اس نے لبیک کہ رکھا ہے پہلے لیکن برے ماحول میں آنے کی وجہ سے اس سے ایک عمل سرزد ہونے والا تھا یَحُوۡلُ، حضرت علی عليه‌السلام کا ایک فرمان مشہور ہے ارتدت اللہ بفسخ العزائم نیتوں کے ارادوں کو توڑنے سے اللہ کو پہچانا جی وہی اللہ آپ کے ارادوں کو توڑ دیتا ہے آپ ایک کام کرنا چاہتے ہیں وہ آپ نہیں کر پاتے بعد میں پتہ چلتا ہے اللہ اچھا ہوا یہ کام نہیں کر سکا میں، اگر ہو جاتا تو برا نتیجہ میں نے اٹھانا تھا اس کام سے آپ کو اللہ تعالیٰ ہم کو اپنی زندگی میں اس قسم کی بہت سے واقعات پیش آئے ایک غلط کام کونے کو جا رہے تھے لیکن وہ کام ہوتا نہیں بعد میں سمجھ میں آتا ہے نہیں ہوا اچھا ہوا یا اگر ہو جاتا تو اس کا نتیجہ برا ہونا تھا جی اس چیز کو اپنے ذہن میں رکھے کہ کوئی کارخیر کرتے ہوئے یہ دیکھ لے کہ آپ اس کارخیر کے لائق مستحق ٹھہر جائے جی یہ بڑی بات ہوتی ہے میں کل بھی بتایا آپ کو کہ یہ آیت ایک حساب سے خوش خبری رکھتی ہے اپنے اندر اور ایک حساب سے ایک خطرے کی گھنٹی بھی ہے جی ان لوگوں کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے جو سمجھتا ہے کہ ہم بہت کام کررہے ہیں اچھا کام کررہے ہیں اور ٹھیک کام کررہے ہیں لیکن اندر سے اس کے ارادے اور اس کے نیت اور اس کی طینت جو ہے اس کے عزائم درست نہیں ہے کام کررہے ہیں ماحول میں رہنے کی وجہ سے آدمی جو ہے اس لائق نہیں ہے اس کے دل میں وہ قربت وہ عشق الہی خداوند عالم کے ساتھ وہ لگاؤ نہیں رکھتا، محرکات اور ہوتے ہیں جی وہ کارخیر کرنے کو جاتا ہے کار خیر اس سے سرزد نہیں ہوتا جی بالآخر انجام بخیر نہیں ہوتا اس شخص کا جی اس کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے یہ آیت جو اپنے آپ کو بہت نیک سمجھتا ہے۔ جی اپنے آپ کو بہت نیک سمجھنا بہت خطرے کی بات ہے ٹھیک ہے اور دوسری طرف اپنے آپ کو بہت ہی برا سمجھے اور مایوس کر دے اللہ کی رحمت سے یہ بھی بری بات ہے جی نہ اپنے آپ کو بہت نیک سمجھے نہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہو کیا خوف و رجاء، خوف اور امید کے درمیان میں ٹھیک خوف آپ کو کیا کرتا ہے خوف آپ کو گناہ سے بچاتا ہے امید آپ کو عمل کی دعوت دیتی ہے جی خطرے سے بچاؤ اور اللہ کی رحمت کی امید طرف لپکو دوڑو کے درمیان میں انسان کو زندگی کرنا ہوتا ہے یہ ہے طریقہ زندگی اور سلیقہ زندگی اور سلیقہ بندگی یہ ہے خوف و رجاء کے درمیان میں ہے نہ اپنے عمل کو بہت پسند کرو کہ ہم بہت اچھے لوگ ہوتے ہیں بہت اچھا کام کررہے ہیں کیا کررہے ہیں کوئی نہیں پتہ آپ کا انجام کیا ہوتا ہے آپ کے اندر اصل محرک کیا ہے جی خدا تو آپ کے ساتھ اس کے مطابق رویہ اختیار کرتا ہے۔
اس کے بعد اگلی آیت ہے اتَّقُوۡا بچو فِتۡنَۃً اس فتنے سے لَّا تُصِیۡبَنَّ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡکُمۡ خَآصَّۃً تم میں سے جس نے اس ظلم کا ارتکاب کیا ہے صرف اس کو نہیں لے گا یہ فتنہ باقی سب کو لے گا یعنی جس سے فتنے کی لپیٹ میں اس کا فتنے کا ارتکاب کرنے والا خود نہیں آتا بلکہ اور لوگ بھی اس کے لپیٹ میں آتے ہیں ایسے فتنوں سے بچو جی اس آیت میں انسان کو جہاں انفرادی ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہاں اجتماعی مسئولیت کی طرف اشارہ ہے حدیث میں ہے کلکم راع وکلکم مسئول عنہ رعیتہ جہاں تم اپنے آپ کو بچاؤ گے وہاں دوسروں کو بھی اپنے شر سے بچانا ہے اپنے آپ کو بھی بچانا ہے اور اپنے معاشرے کو بھی اپنے شر سے بچانا ہے جی مسئول عن رعیتہ اپنی رعیت کے بارے میں آپ سے سوال ہوگا ایک ماحول ایسا ہے جس میں انسان صرف اپنے آپ کو بچا سکتا ہے اس میں ارشاد فرمایا لَا یَضُرُّکُمۡ مَّنۡ ضَلَّ اِذَا اہۡتَدَیۡتُمۡ کوئی اور گمراہ ہو جاتا ہے تو تم کو کوئی ضرر نہیں ہے اگر تم ہدایت کے اوپر ہو جی اگر تم خود ہدایت یافتہ ہو دوسرا گمراہ ہو جاتا ہے تو اس کے قبر میں آپ نہیں جانا اس کا سوال آپ کے اوپر نہیں آئے گا لا تذر وازرۃ وزر ی اخری اس کا خود جوابدہ ہے اپنے اعمال کے آپ خود جوابدہ ہے انفرادی مسئلہ ہے انفرادی صورت میں لَا یَضُرُّکُمۡ مَّنۡ ضَلَّ اِذَا اہۡتَدَیۡتُمۡ اگر آپ خود ہدایت کے اوپر ہے تو دوسروں کی گمراہی آپ کو ضرر نہیں پہنچا سکتی ٹھیک ہر ایک اپنے عمل کا جوابدہ ہے ایک مرحلہ ایسا آتا ہے، دوسرا مرحلہ ایسا آتا ہے آپ کبھی ایسا عمل کر جاتے ہیں جس میں آپ پورے معاشرے میں گند پھیلاتے ہیں پورا معاشرہ آپ کے اس عمل کے گرفت میں آ جاتا ہے اس سے بچو جہاں تم کو اپنی ذات کیلئے تقوی اختیار کرنا ہے بچنا ہے وہاں اپنے معاشرے کو بھی اپنے شر سے بچاؤ اس کی مثالیں ہے سب سے سر فہرست دوسروں کو شر سے بچانے کے سلسلے میں جو اجتماعی فساد اور فتنے کے مرتکب ہوتے ہیں وہ بہت سے لوگ ہوتے ہیں ان میں سر فہرست حکمراں ہوتے ہیں حکمراں جو فتنہ اختیار کرتے ہیں اس میں صرف وہی مبتلا نہیں ہوتا بلکہ پورا ملک پوری قوم پوری ملت جو ہے وہ اس کے اوپر مبتلا ہوتی ہے ہمارے معاصر دنیا میں اس پوری امت مسلمہ جرم میں بری طرح مرتکب ہے اور ایک سیاہ ترین تاریخ لکھی جارہی ہے اس فتنے کی مرتکب ہے امت مسلمہ کے حکمراں اپنے عوام کی طرف رجوع کرنے کی جگہ دیگر مفادات لیتے ہیں اپنی ذاتی اور پھر امت کے سارے مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہیں اور اس وقت عالم اسلام عسکری اعتبار سے سیاسی اعتبار سے اور ثقافتی اعتبار سے اور ہر ہر اعتبار سے ایک شکست خوردہ اور پست ماندہ حالت میں ہے امت مسئلہ ۔ یہ سب جو ہے وہ مسلم حکمرانوں کی وجہ سے ہیں اس فتنے کی وجہ سے ہیں جس کے یہ لوگ مرتکب ہوگئے اور پوری امت مسلمہ جو ہے اس کا نتیجہ بھگت رہی ہے جو سب کیلئے واضح ہے یہ صورت حال اور ایک سیاہ ترین تاریخ لکھی جارہی ہے
دوسری چیز اہل علم ہے علماء ہے علماء اگر اپنی ذمہ داری کے اوپر عمل نہیں کرتے ہیں تو نہ صرف وہ خود گمراہ ہو جاتا ہے ایک امت کو لے کر ڈوبتے ہیں یہ علماء۔ علماء اگر کلمہ حق نہیں کہتے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں اور ایک واہمے کی پیچھے جاتے ہیں اگرچہ ان کا یہ ایک واہمہ ہوتا ہے ایمان باللہ کے خلاف ہے لیکن وہ کلمہ حق نہیں کہتے وہی امر بالمعروف نہی از منکر کے بارے میں آئندہ مفصل گفتگو کرین گے امر بالمعروف نہی از المنکر نہیں کرتے اور امر بالمعروف اور نہی از المنکر نہ کرنے کی وجہ سے ایک باشعور معاشرہ وجود میں نہیں آتا ایک بے ثقافت ایک بے کلچرل ایک قوم وجود میں آتا ہے جس کے پاس خوبی خرابی حق ناحق میں اصلاً تمییز کی صلاحیت نہیں ہے تربیت نہیں ملی
حرف حق کہا نہیں گیا فتنہ عام ہو جاتا ہے بد عملی عام ہوجاتی ہے بدکرداری عام ہوجاتی ہے ہم لوگ اس کے ذمہ دار ہوتے ہیں علماء کیوں حرف حق نہیں کہا سب سے پہلے حکمراں اور اس کے بعد علماء ہوسکتا ہے علماء پہلے ہو ان کی بد عملی بد کرداری کے اثرات جو ہے وہ دینی تربیت سے زیادہ مربوط ہوتے ہیں۔ حتی امر بالمعروف نہی از منکر کے سلسلے میں ایک حدیث ہے مسلمہ حدیث ہے جس میں ارشاد فرمایا کہ امر بالمعروف نہی از منکر کو اگر کوئی قوم ترک کرے اور پھر اس پر ظالم حکمراں مسلط ہوجائے پھر وہ قوم اس ظالم حکمراں سے نجات حاصل کرنے کیلئے دعائیں کرے ان کی دعا قبول نہ ہو۔
دیکھا آپ نے امر بالمعروف نہی از منکر کا سیاست سے ربط ہے پوری ملی مسائل کے ساتھ اس کا ربط ہے قومی شعور کے ساتھ اس کا ربط ہے امر بالمعروف نہی از منکر کے ساتھ لوگ ظلم کو نہیں سمجھے گے ظلم کس کو کہتے ہیں؟ جی ظالم کو ٹھیک ٹھاک موقع ملے گا جن معاشروں میں اس چیز کی بینش ہے شعور ہے وہاں وہ حکمرانوں کو ظلم کرنے نہیں دیتے وہاں ظلم ہوتا ہے معمولی سا ظلم ہوتا ہے گھر جانا پڑتا ہے ہمارے اس تاریک معاشرے میں جتنے بھی جی بھر کرکے ظلم کرتے ہیں اس کو کیا کسی کو بھی آج تک گھر جانا نہیں پڑا ظلم کے نتیجے میں جی لہذا یہ ذمہ داری جو ہے وہ علما کے اوپر عائد ہوتی ہے کہ وہ حرف حق کہ دے اگر وہ حرف حق چھپاتے ہیں اہل علم تو قوم جو ہے وہ اس فتنے میں مبتلا ہوجاتے ہیں اسی طرح ہر شخص کے اوپر جہاں اپنے آپ کو بچانا واجب ہے وہاں دوسروں کو بھی اپنے شر سے بچانا واجب ہے کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ اس سلسلے میں کہ اس فتنے سے بچو جس میں سب مبتلا ہو جائیں گے جس کے لپیٹ میں سب لوگ آجائیں گے دیگر موضوعات ہیں اس سلسلے میں ہم نے ایک دو مثال میں بات ختم کردی ہے آگے ایک آیت ہے اس میں ارشاد ہوتا ہے وَ اذۡکُرُوۡۤا اِذۡ اَنۡتُمۡ قَلِیۡلٌ مُّسۡتَضۡعَفُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ تَخَافُوۡنَ اَنۡ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰىکُمۡ وَ اَیَّدَکُمۡ بِنَصۡرِہٖ وَ رَزَقَکُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ یہ آیت مربوط ہے صدر اسلام کے مسلمانوں کے ساتھ جب وہ مکے کی زندگی کررہے تھے تو مکے میں ان کیلئے امن و سکون حاصل نہیں تھا اس سلسلے میں ارشاد فرمایا وَ اذۡکُرُوۡۤا وہ وقت یاد کرو جب تم تھوڑے تھے اِذۡ اَنۡتُمۡ قَلِیۡلٌ تھوڑے تھے مٹھی بھر تمہاری جماعت تھی مُّسۡتَضۡعَفُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ زمین میں تم کو کمزور سمجھا جاتا تھا تَخَافُوۡنَ تمہیں خوف لگا رہتا تھا ہمیشہ اَنۡ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ کہ لوگ تمہیں اٹھا کرکے نہ لی جائے خَطف دانہ اچکنے کو کہتے ہے پرندہ دانہ اچکتا ہے ٹھاکر کے لے جانا۔ کئی تم کو گم نہ کر دے ناپید نہ کر دے۔ اس وقت کو یاد کرو اب تم کس حالت میں ہو فَاٰوٰىکُمۡ اللہ نے تمہیں پناہ دے دی وَ اَیَّدَکُمۡ بِنَصۡرِہٖ اللہ نے اپنی نصرت سے تم کو تقویت پہنچائی اب تم طاقتور ہو وَ رَزَقَکُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ کل پیٹ بھر کے کھانا کو نہیں ملتا تھا اور آج تم کو پاکیزہ روزی عنایت فرمائی ہے لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ شاید کہ تم شکر کرو جی یہ مکی زندگی سے مربوط اور مدنی زندگی دونوں سے مربوط آیت ہے صدر اسلام کے مسلمانوں کو ان کے دو مختلف حالتوں کے بارے میں تذکر دے رہی ہے یہ آیت کہ ایک وقت تم کو مکی زندگی میں خوف و خطرہ اور عدم سکون کی زندگی تھی اور آج امن و سکون میں زندگی کررہے ہیں اور کل کو فقر و تنگدستی کی زندگی تھی اور آج آسودگی کی زندگی ہے نسبتاً حضرت زہرا علیہا السلام کے خطبے میں اس قسم کی تفصیلی بات ملتی ہے وہ خطبہ قابل مطالعہ ہے حضرت زہرا علیہا السلام کا خطبہ خطبہ فدک کے نام سے بہت مشہور معروف خطبہ ہے اس میں حضرت زہرا نے فرمایا کل تم سانپوں کے ساتھ پتھروں کے بیچ میں سوتے تھے ہنزلک پانی پیتے تھے میرے باپ کی وجہ آج تم آسودہ ہو بہت عجیب خطبہ ہے فکر انگیز خطبہ ہے تقریباً اسی آیت کی تشریح ہے وہ خطبہ فَاٰوٰىکُمۡ تم کو اللہ تعالیٰ نے پناہ دی جی مدینے میں پناہندہ ہوگئے اور وہاں پر ان کو پناہ مل گئی امن کی زندگی مل گئی اور دشمن کے تابدار حملے ہوتے رہے اس میں اللہ نے فتح و نصرت عنایت فرمائی ابھی اس وقت کے مسلمانوں کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے یہ آیت اس وقت کے مسلمانوں کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے یہ آیت کہ مسلمان جو ہے وہ کل اس میں تھے قوت میں تھے مسلمان اس دنیا میں اس روئے زمین کے سپر پاور تھے جی آج اس کا الٹ ہے آج جناب عالی مسلمانوں کو یہ خوف لگا رہتا ہے کہ وہ استعمار جو ہے وہ ہم پر حملہ نہ کر دیں اور اس سے بچنے کیلئے اپنے ملک اپنے ملک کے خیرات کو داو پر لگاتے ہیں جی اور بسا اوقات جو ہے وہ ننگ و عار باتیں بھی قبول کر لیتے ہیں جی الٹ ہے اس لئے کہ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ شاید تم شکر یا میں بتایا کرتا ہوں یہ لفظ لَعَل وہاں آتا ہے اس کے بعد جو ذکر ہوتا ہے وہ اللہ کو مطلوب ہوتا ہے لَعَل کے بعد جو بھی لفظ آتا ہے تَشۡکُرُوۡنَ شکر جو ہے اللہ تعالیٰ کیلئے پسندیدہ چیز ہے جب بھی لَعَل آیا لَعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ، لَعَلَّکُمۡ تَتَفَکَّرُوۡنَ، لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ یہ اللہ کیلئے پسندیدہ چیز ہوتی ہے تاکہ تم شکر کرو لان شکرتم لازیدنکم اگر شکر کرو تو تمہارے لئے اللہ تعالیٰ مزید عنایت فرمائے گا جی پناہ دینے میں ایدکم بنصرہ تقویت دینے میں رزقکم من طیبات میں مزید عنایت فرمائے گا اور اگر شکر نہ کرو تو یہ نعمتیں بھی تم سے چھین جائیں گی۔