تفسیر قرآن سورہ ‎الأنفال‎ آیت 41

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا غَنِمۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ وَ لِلرَّسُوۡلِ وَ لِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ اِنۡ کُنۡتُمۡ اٰمَنۡتُمۡ بِاللّٰہِ وَ مَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلٰی عَبۡدِنَا یَوۡمَ الۡفُرۡقَانِ یَوۡمَ الۡتَقَی الۡجَمۡعٰنِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۴۱﴾
وَ اعۡلَمُوۡۤاجان لو، اَنَّمَا غَنِمۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍجو غنیمت تم نے حاصل کی ہے مِّنۡ شَیۡءٍجس چیز سے بھی حاصل کی ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ، اس کے رسول اور قریب ترین رشتہ داروں اور یتیموں، مساکین اور مسافروں کے لیے ہے۔ قُرۡبٰیاقرب کی تانیث ہے، یعنی زیادہ قریب، قریب ترین لوگوں کے لیے۔ یہ آیہ خمس ہے، جس میں خمس کے مالی نظام کی قانون سازی کا اعلان ہے۔ پہلے سورہ انفال کی، اسی سورہ کی شروع میں یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَنۡفَالِ ؕ قُلِ الۡاَنۡفَالُ لِلّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ میں بیان کیا کہ یہاں پر تین قسم کے اموال ہیں؛ پہلا انفال، ذکر ہو گیا پہلے انفال کس کو کہتے ہیں، انفال میں جنگلات، وادیاں، پہاڑ کی چوٹیاں، لاوارث اموال اور غنیمت، غنیمت بھی انفال میں شامل ہے۔ آگے چلتے ہیں فیئ کس کو کہتے ہیں۔ فیئ میں غنیمت نہیں ہے، بایں معنی غنیمت کی ہم یہ تعریف کریں گے کہ اسلام کا کفر کے ساتھ جنگ ہوتی ہے، اور جنگ میں کافر کا مال مسلمانوں کے ہاتھ لگتا ہے اس کو غنیمت کہتے ہیں۔ اس کی، غنیمت کی تشریح ابھی ہم کرنے والے ہیں، جنگی غنیمت کو بھی غنیمت کہتے ہیں۔ اگر لڑائی اور جنگ کے بعد ہاتھ میں آجائے، کافر کا مال مسلمانوں کے ہاتھ میں آجائے تو اس کو غنیمت کہتے ہیں۔ اور اگر بغیر لڑائی اور بغیر جنگ کے کافر کے اموال مسلمانوں کے ہاتھ آتا ہے تو اس کو فیئ کہتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن میں صراحت ہے؛ مَاۤ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ، فیئ کا مالک رسالتمآب ہے، رسول اللہ ہے، رسول اللہ اس فیئ کے مال کو خرچ کریں گے، کہاں؟ اس آیت میں ہے مَاۤ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ مِنۡ اَہۡلِ الۡقُرٰی بستیوں کے مال رسول اللہ کی طرف جو پلٹا ہے، افاء، فآء یفیئ پلٹنے کو کہتے ہیں، رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آمدنی ہو گئی ہے۔ افآء کا ہم ترجمہ کریں گے آمدنی، محاورتی ترجمہ، جو آمدنی قرار دیا ہے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کے لیے، مِنۡ اَہۡلِ الۡقُرٰی وہ فَلِلّٰہِ فیئ کا مالک اللہ ہے، وَ لِلرَّسُوۡلِ وَ لِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ اس کی تشریح ہے کہ قربیٰ سے مراد قریبی ترین رشتے دار ہیں۔ کس کے قریبی ترین رشتے دار؟ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے، رسول کا مال جو ہوا۔ اور یتامیٰ، کس کے یتامیٰ؟ رسول کے رشتے داروں کے یتامیٰ، والمساکین وابن السبیل؛ مساکین ہیں رسول اللہ کے رشتے داروں میں سے قریبی ترین، ذوی القربیٰ کے مساکین، ذوی القربیٰ کے یتامیٰ، ذوی القربیٰ کے مسافر، ابن سبیل جو راماندہ ہے۔ فیئکا مصرف یہ ہے۔ اس کو فیئ کہتے ہیں بغیر لڑائی کے ہاتھ لگتا ہے جو مال، وہ رسول اللہ کی ملکیت ہے۔ انفال، فیئ اور خمس تین چیزیں ہو گئی، انفال کا مالک بھی رسول اللہ ہے رسول اللہ کےبعد جو ان کی جگہ پر قائم مقام امام ہیں، رسول اور امام اپنی صوابدید کے مطابق فیئ کو استعمال میں لے آتے ہیں انفال کو بھی۔ انفال کے بارے میں سوال ہوا کہ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَنۡفَالِ انفال کس کا مال ہے؟ انفال میں غنیمت بھی شامل ہے اور دیگر جو جس کا ذکر کیا ابھی جنگلات، وادیاں، پہاڑ کی چوٹیاں اور جس کا کوئی وارث نہیں ہے اس کا وارث امام یا رسول ہوتے ہیں، رسول کے زمانے میں رسول اس کے وارث ہوتے ہیں۔ رسول اپنی صوابدید کے مطابق ان انفال کو اور فیئ کو خرچ کرتے ہیں۔ رہ جاتی ہے غنیمت، جنگی غنیمت کے سلسلے میں فرمایا؛ اس آیت میں فرمایا: اَنَّمَا غَنِمۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ جو بھی تم غنیمت حاصل کرو وہ فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ اس کا پانچوں حصہ اللہ کے لیے، رسول کے لیے، ذی القربیٰ کے لیے، یتامیٰ و مساکین و ابن سبیل کے لیے۔ پانچواں حصہ، باقی چار حصے کا ذکر نہیں ہے اس آیت میں۔ پانچواں حصے کا ذکر ہے کہ پانچواں حصہ کہاں دیا جائے؟ کس کو دیا جائے؟ چار حصے کا ذکر نہیں ہے۔ چار حصے سنت سے، رسول کی سیرت سے معلوم ہے کہ وہ لڑنے والوں میں تقسیم ہوتا ہے،باقی چار حصے، جنگی غنیمت ہے، لڑائی کے بعد ہاتھ آنے والا مال ہے اس لیے لڑنے والوں میں تقسیم ہوگا باقی چار حصے۔ اور ایک حصہ یہ ذوی القربیٰ اور رسالتمآب، ان کا حصہ ہے۔ ادھر آیت میں یہ ارشاد ہے؛ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا غَنِمۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ جس چیز کی بھی غنیمت تم حاصل کرو تو اس کا خمس ادا کرو، غنیمت کس کو کہتے ہیں؟ یہ مادہ غ، ن، م، الغنم، غنیمتاس کے ایک تو لغوی معنی ہوتا ہے اور دوسرا اصطلاحی معنی ہوتا ہے، یعنی شرعی معنی، اصول فقہ میں آپ پڑھتے ہیں حقیقتِ شرعیہ، ایک لفظ اسلامی نظام کے آنے سے پہلے ایک معنی میں استعمال ہوتا تھا اس معنی کو معنی لغوی کہتے ہیں اسی لفظ کو شریعت نے استعمال کیا اپنے جدید معنی میں، چونکہ اسلامی شریعت نے اپنے احکام اور اپنے آداب وغیرہ کے حساب سے انہی الفاظ کو استعمال کرنا ہے جو اسلام کے آنے سے پہلے لوگوں میں رائج ہیں، جدید کوئی اور نئی زبان تو نہیں لائیں گے ساتھ، وہی الفاظ جو لوگوں میں رائج ہیں، انہی الفاظ کو استعمال کریں گے مگر معنی بدل جاتا ہے، لفظ وہی ہے۔
صلاۃ کے بارے میں آپ سنتے ہیں کہ صلاۃ جو ہے وہ لغت میں دعا کے لیے استعمال ہوتا تھا اسلام کے آنے سے پہلے، اور اسلام نے خاص عبادت کے لیے لفظ صلاۃ وہ استعمال کیا، جدید معنی ہو گیا، یہ رکوع اور سجدے پر مشتمل جو عبادت ہے اس کو ہم کہیں گے جدید معنی، اور دعا قدیم لغوی معنی۔ اب ایک لفظ آتا ہے آپ کے سامنے کہ یہ لفظ لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے یا جدید شرعی معنی میں استعمال ہوا ہے؟ آپ کو پتہ نہیں چلتا، نہ پتہ چلے تو کیا کرنا چاہیے؟ اصول فقہ میں اس میں ٹھیک ٹھاک مباحث موجود ہیں، حقیقت شرعیہ ہے یا نہیں ہے۔ بحث اسی سے مربوط ہے، یہاں بھی ہم کو اسی لفظ کے ساتھ واسطہ پڑ رہا ہے، اگر چہ ہم نماز کے بارے میں کہتے ہیں کہ صلاۃ، صلاۃ عبادت کے لیے عبادت کے لیے استعمال ہوتا تھا اسلام کے آنے سے پہلے حضرت ابراہیم عليه‌السلام کی نماز کو صلاۃ کہتے تھے، حضرت ابراہیم عليه‌السلام نے اس لفظ کو نماز کے لیے استعمال کیا۔ بعد میں لغت والوں نے دعا کے لیے استعمال کیا، الٹا ہے، لغت والوں نے دعا کے لیے استعمال کیا، پھر اسلام نے آ کر کے دوبارہ اسی قدیم شرعی معنی میں استعمال کیا۔ پھر بھی لغوی و شرعی ہو جاتا ہے، لغت والوں نے اس کو دعا کے لیے استعمال کیا۔ اب اگر شریعت نے ایک لفظ استعمال کیا ؛ صَلوا کما رَأَیتُمُونِی أُصَلی یہ لفظ صل جو ہے اس میں قرینہ موجود ہے صَلوا کما رَأَیتُمُونِی أُصَلی یہ نماز مراد ہے۔ وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاَتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ یہاں صَلِّ عَلَی ہے، عَلَی کے ساتھ، یہ دعا مراد ہے، قرینہ موجود ہوتا ہے لفظ کے ساتھ، اگر قرینہ نہیں ہے تو آپ کو مشکل پیش آتی ہے، کہ قدیم معنی مراد لے ہم یا جدید معنی مراد لیں۔ اگر آپ کو پتہ چلتا ہے کہ یہ لفظ کس موقع پر استعمال ہوا ہے؟ اس لفظ کی تاریخ آپ کو علم ہو جائے تو پھر آپ کے لیے آسان ہوتا ہے کہ ہاں یہ تو ابھی ابھی اسلام کا قانون آنے ہی والا تھا اس وقت استعمال ہوا ہے، لہٰذا اسلامی، شرعی حقیقت ابھی نہیں بنی، یہ لفظ جدید معنی میں مستقر نہیں ہوا اس لفظ کے کہنے سے جدید معنی سمجھ میں نہیں آتا تھا قرینے کے بغیر، لہٰذا یہاں قرینہ نہیں ہے، ہم قدیم معنی مراد لیں گے۔ اور اگر آپ کو اس لفظ کی تاریخ کا علم ہو گیا کہ یہ لفظ جو ہے اسلامی شریعت کے رواج کے بہت دیر بعد استعمال ہوا ہے یہ حدیث، یا آیت بعد میں نازل ہوئی ہے تو آپ جدید شرعی معنی میں مراد لیں گے، اور اگر یہ پتہ نہیں چلا کہ یہ کس وقت نازل ہوا ہے، یہ کس وقت رسالتمآب نے ارشاد فرمایا ہے، آپ کو تاریخ کا علم نہیں ہے، قرینہ بھی نہیں ہے اس وقت آپ کے لیے مسئلہ پیش آتا ہے، اس وقت علمی زبردست قابلیت کی ضرورت ہوتی ہے، فقہاء فقیہ جو ہے وہ نکال سکتے ہیں، اس لفظ کے معنی لغوی ہے یا شرعی ہے۔۔۔ عام آدمی کے بس میں نہیں ہوتا، اس مرحلے میں لفظ کے معنی کا تعین کرنا کہ اس لفظ سے مراد قدیم لغوی معنیٰ مراد لیا گیا ہے یا جدید معنی مراد لیا گیا ہے؟ بہت علمی مایہ کی ضرورت پیش آتی ہے یہاں، اور قوی فقہاء کر سکتے ہیں۔ ادھر ہم لفظ غَنِمۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ میں آتے ہیں۔ غنمتم کا ایک لغوی معنی ہے اور ایک شرعی معنی ہے۔ لغوی معنی ہے غنَم، غنِم اصل میں تو وہ چوپائے کو کہتے ہیں، الغنم اس کے بعد لغت والوں نے ہر درآمد کے لیے، ہر آمدنی کے لیے، ہر فائدے کے لیے جو منافع ملتا ہے اس کو لفظ استعمال کرنا شروع کر دیا۔ لہٰذا لغت میں غنیمت آمدنی کے لیے، فوائد کے لیے استعمال ہوا ہے، اور خود قرآن میں، قرآن میں جابجا یہ لفظ استعمال ہوا ہے، تَبۡتَغُوۡنَ عَرَضَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۫ فَعِنۡدَ اللّٰہِ مَغَانِمُ کَثِیۡرَۃٌ تم دنیا کے مال تلاش کرتے ہو، اللہ کے پاس بہت غنیمتیں موجود ہیں۔ اللہ کے پاس جو ثواب ہے اجر ہے اس کو بھی غنیمت کہا ہے۔ اسی طرح رہن کے بارے میں ایک حدیث ہے کہ لہ غنمہ و علیہ غرمہ جس کی آمدنی، رہن آپ کے پاس رکھتا ہے، کوئی قرض لے کر کے مال رہن رکھتے ہیں، جانور رکھتے ہیں، اس کا دودھ ہے وہ دودھ آپ حاصل کریں گے، یعنی منافع، یہ غنم یہاں پر منافع میں استعمال ہوا ہے، حدیث میں! منافع میں استعمال ہوا ہے چونکہ اس کے مقابلے میں الغرم آیا ہے، غرم جو ہے نقصان اور گھاٹے کو کہتے ہیں۔
اگر اس کے اوپر کوئی نقصان آیا وہ بھی اس کو بھرنا پڑے گا جس نے رہن لے رکھا ہے، اور اس سے کوئی فائدہ آئے گا اس کا بھی یہ مالک بنتا ہے۔ غنم و غرم دونوں اسی کے لیے ہے۔ غرم کے مقابلے میں غنم آیا ہے۔ فائدہ، آمدنی۔
زکوٰۃ کی تقسیم کے موقع کے اوپر رسالتمآب نے ارشاد فرمایا اللھم اجعل حالنا ماغنم بہر حال اس قسم کے استعمالات بہت زیادہ ہیں۔ خود قرآن نے آٹھ دس جگہوں پر لفظ غنم فائدہ اور درآمد کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ یہ آیت نازل ہوئی ہے جنگ کے موقع پر، لڑائی اور قتال کے موقع پر اس کی شانِ نزول وہ جنگ اور لڑائی ہے۔ جنگ کے موقع پر جب آیت نازل ہوئی ہے تو غنیمت میں جنگی غنیمت یقیناً اس میں شامل ہے۔ لیکن چونکہ جنگ کے مورد میں یہ آیت نازل ہوئی، شان نزول جنگ ہے، لہٰذا صرف جنگی غنیمت، یہ آپ کو معلوم ہے کہ مورد جو ہے وہ مخصِص نہیں بنتا، العبرۃ فی عموم اللفظ لا فی خصوص السبب یہ کلیہ ہے پورے قرآن کے اوپر آپ اس کلیے کو نافذ کرتے ہیں، تمام مفسرین، اجماعی مسئلہ ہے، العبرۃ فی عموم اللفظ لا فی خصوص السبب، سبب نزول جو ہے وہ آیت کے عموم کی تخصیص نہیں کرتا، اگر جنگ کے بارے میں نازل ہوئے لفظ میں عموم ہے۔ یہ نہیں فرمایا وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا غَنِمۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ، فی الحرب، فی القتال یہ نہیں فرمایا، مطلق رکھا ہے، جب مطلق رکھا ہے اگر چہ آیت کا سبب نزول جنگ ہے، لیکن سبب جو ہے وہ مخصص نہیں بنتا، آیت کے اطلاق کے لیے مقید آیت کے عموم کے لیے مخصص نہیں بنتا۔ العبرۃ بعموم الفظ لہٰذا اس کلیے کے تحت جو تمام قرآنی تفسیر اور آیات میں ہم اس کلیے کو سب لوگ نافذ کرتے ہیں اور اگر کوئی بھی آیت کسی سبب نزول تک منحصر ہو جائے تو پھر وہ سبب نزول آیت اس زمانے کے لیے ہے، ہمارے لیے نہیں ہے، ہم اس میں شامل ہی نہیں ہوں گے کیونکہ ہم سبب میں تو نہیں ہے۔ لہٰذا قرآن جو ہے وہ اس کا اثر کا ختم ہو جائے گا، وہ اطلاق نہیں ہو جائے گا تمام مکلفین کے لیے۔ صرف اس زمانے کے معاصر لوگوں پر محدود ہو جائے گا۔ قرآن عند نزول القرآن جو معاصرین ہیں ان تک محدود یقیناً نہیں ہے، اجماعی مسئلہ ہے، مسلمات میں سے ہے قرآن تا قیامِ قیامت کے لوگوں کے لیے ہے، سب کے لیے ہے، ان سب کے لیے ہے تو پھر سبب نزول جو ہے وہ مخصص نہیں بنتا، جب مخصص نہیں بنتا لہٰذا اس میں تمام فوائد جو ہے وہ شامل ہے۔ یہ ابتدائے اسلام ہے ابھی لفظِ غنیمت جنگی غنیمت کے لیے مخصوص ہماری تحقیق یہ ہے مخصوص نہیں ہوا تھا، یہ حقیقتِ شرعیہ بننے سے پہلے کی بات ہے۔ چونکہ یہ آیت جو ہے وہ سورہ انفال جنگ بدر کے موقع کے اوپر نازل ہوئی ہے ابھی اسلامی اصطلاحات جو ہے وہ رائج نہیں ہوئے تھے۔ تازہ تازہ اسلامی شریعت کا نفاذ شروع ہو گیا تھا، مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے، ایک دو سال کے اندر ہمارا یہ خیال ہے کہ یہ حقیقت شرعیہ نہیں ہے۔ غَنَمَ قرآن میں اس آیت میں غَنَمَ مطلق منافع اور مطلق آمدنی کے معنی میں ہم لیں گے۔ اس لیے ہم یہاں پر غَنِمۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ کا ترجمہ اس طرح کریں گے کہ کسی چیز سے بھی کوئی فائدہ آ جائے، جس کسی سے بھی فائدہ آ جائے، اس فائدے کے اوپر خمس دے دو۔ جو بھی آمدنی ہو جائے آپ کی اس آمدنی کے اوپر خمس دے دو، آیت یہ کہتی ہے۔ مَا غَنِمۡتُمۡ جو بھی در آمد ہو گیا، غنیمہ ہو گیا، آمدنی ہوگئی، منافع مل گیا آپ کو، وہ جنگی غنیمت کے حساب سے ہو یا آپ کی اپنی کمائی سے ہو یا اور جس چیز سے بھی ہو، اس سے آپ نے خمس دینا ہے۔ لیکن سنت کے لیے پوری آمدنی پر نہیں ہے۔ حدیثِ نبوی نے کہا؛ پوری آمدنی کے اوپر نہیں ہے، بچت پر ہے۔ یہ سنت کی طرف سے ہے۔ بچت کی تخصیص، و الا پر ہے۔ والا قرآن میں بچت کی تخصیص نہیں ہے۔ قرآن نے کہا؛ آمدنی پر دے دو، حدیث نبوی نے کہا؛ کل آمدنی پر نہیں، آمدنی میں سے جو آپ کے مؤونہ سال، سال بھر کے اخراجات جو ہے وہ پورے ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد جو بچت ہوتی ہے اس بچت میں سے پانچواں حصہ دے دو، چار حصہ خود مالک رکھے گا۔ اس کا مالک جو ہے وہ خود کمانے والا ہے۔ سب کو ہم یہاں پر شامل کرتے ہیں، قرآن کی عمومیت کے حوالے سے۔ کوئی اگر کہیں کہ نہیں جی یہ تو جنگ کے سلسلے میں ہے، آیہ خمس جنگ کے سلسلے میں ہے، تو رسالتمآب کے زمانے کی جنگ پر محدود نہیں ہے۔ ابھی بھی جس قسم کی جنگ جب بھی ہو جاتی ہے اور غنیمت آتی ہے تو اس کے اوپر خمس دے دو، آج کل بھی ہم جنگ میں عمومیت پیدا کرتے ہیں، جنگ میں، صرف جنگ میں جو غنیمت آتی ہے، اس میں، تو ہم کہیں گے اچھا جی، اگر آپ صرف جنگ میں اس کو مخصوص کر دیتے ہیں تو ہم آپ کو بتا دیتے ہیں کہ یہ آیت جنگ میں مخصوص نہیں ہے۔ کیوں؟ اس لیے، شیعہ سنی سب کے نزدیک خمس صرف غنیمتِ جنگی میں نہیں ہے۔ دفینے میں بھی ہے جو خزانہ ملتا ہے اس میں بھی ہے، معدنیات ہیں اس میں بھی ہے، غوطہ زنی سے جو آبی ذخائر ہے، آبی ذخائر، آپ کو ملتا ہے معدنیات ہے، اس میں سب کے نزدیک خمس ہے، تو اس سے پتہ چلا کہ غَنِمۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ صرف حربی غنیمت تک محدود نہیں ہے، آپ کس بنیاد پر کہتے ہیں کہ باقی چیزوں پر بھی خمس ہے؟ ہم بھی اسی بنیاد پر، آپ کہیں گے نا کہ آیت کا اطلاق ہے، اور حدیث نے سنت نے نشاندہی کی ہے یہ غوطہ زنی سے جو مال ملتا ہے، دفینہ سے جو مال ملتا ہے، خزانہ ملتا ہے، معدنیات جو ملتا ہے انسان کو، ان کے اوپر بھی خمس واجب ہے۔ کس نے کہا حدیث نے آیت کی تشریح کی ہے، اس لیے ان چیزوں پر بھی خمس ہے۔ تو ہم کہتے ہیں؛ جَزَاکَ اللّٰہ! ہم بھی یہی کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں تقریباً ائمہ اہلبیت عليهم‌السلام کی طرف سے اجماع ہے کہ بچت پر خمس ہے۔ جیسے دفینے پر خمس ہے، جیسے غوطہ زنی سے جو آبی ذخائر حاصل کرتے ہیں اس پر خمس ہے، معدنیات پر خمس ہے۔ حدیث نے نشاندہی کی ہے۔ ہم کہتے ہیں ہمارے ہاں بھی حدیث نے نشاندہی کی، اجماعِ ائمہ اہلبیت عليهم‌السلام ہے کہ ارباح المکاسب پر بھی خمس ہے، ارباح المکاسِب، یعنی جو انسان کماتا ہے اس کمائی میں سے جو آمدنی ہو جاتی ہے اس میں سے جو بچت ہو جاتی ہے اس بچت کے اوپر خمس ہے۔
باقی ان شاء اللہ اس سلسلے میں گفتگو آئندہ کریں گے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ