تفسیر قرآن سورہ ‎الأنفال‎ آیات 45 - 46

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ
اے اہل ایمان جب کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہوجائے تو ثابت قدم رہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔
جنگی حکمت عملی کا ذکر ہے جنگ میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے اور کسی لشکر کی فتح اور شکست کا دارو مدار اس لشکر کی نفسیات پر ہے وہ لشکر کس نفسیات کے مالک ہیں اگر کسی کے پاس اسلحہ اور ساز و سامان کی فراوانی ہے تو اس کے استعمال کا بھی انحصار استعمال کرنے والوں کی نفسیات پر ہے۔ اس آیت کریمہ مین فرمایا کہ جب کسی جماعت سے کسی گروہ سے کسی لشکر سے تمہارا مقابلہ ہوجائے تو فَاثۡبُتُوۡا ثابت قدم کا ثبات ایک ایسی چیز ہے نفسیاتی مسئلہ ہے قدم کا ثبات جو ہے اس کا انحصار اس جنگ کے محرکات کے اوپر ہے کہ یہ جنگ کس مقصد کے لئے لڑی جارہی ہے اور اس جنگ کے مقاصد اور اغراض کیا ہے اور اس جنگ کی منزل کیا ہے یہاں پر اگر جنگ میں جو سربراہ ہے کمانڈر ہے وہ کہے ثابت قدم رہو تو اس کا اتنا اثر نہ ہو لیکن اللہ تعالیٰ جو اس کائنات کا مالک ہے وہ مسلمانوں سے کہے کہ ثابت قدم رہو تو اس سے قدم میں ثبات ان لوگوں کے لیے یقینی ہے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو فتح و نصرت کی نوید ہے اس پر یقین رکھتے ہیں اور اللہ کے رسول کی رسالت پر بھی یقین رکھتے ہیں اس صورت میں اس آیت سے اس حکم سے فَاثۡبُتُوۡا کے حکم سے یوم ثبات قدم آتا ہے آگے فرمایا وَ اذۡکُرُوا اللّٰہَ کَثِیۡرًا
فَاثۡبُتُوۡا کے بعد ارشاد فرمایا کہ کثرت سے اللہ کو یاد کرو اس جملے میں بتایا کہ ثبات قدم تم کو کہاں سے مل سکتا ہے انسان اندر نفسیاتی اعتبار سے طاقت کہاں سے آسکتی ہے اس طاقت کے سر چشمے کو ہمیشہ اپنے ذہنوں میں تازہ رکھو کہ تمہارا تکیہ اللہ پر ہے جو اصل طاقت کا سر چشمہ ہے اللہ کی یاد اگر کسی کے ذہن مین تازہ ہے زندہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مجاہد کا تکیہ طاقت کے اصل سرچشمہ پر ہے اس مجاہد کا رابطہ طاقت کے اصل سرچشمہ کے ساتھ ہے اگر کسی مجاہد کا اصل طاقت کا سرچشمہ جو ہے اس کے ساتھ اگر رابطہ ہو جاتا ہے تو اس وقت ثبات قدم یقینی ہے ضروری ہے اس کی ایمان کے ساتھ ذکر خدا قرآن مین جا بجا ذکر ہے اللہ کو کثرت سے یاد کرو کثرت سے یاد کرو کسی اور عبادت کے لئے یہ نہیں فرمایا نماز پڑھو کثرت سے نماز پڑھو روزہ رکھو کثرت سے روزہ رکھو حتیٰ جہاد کے بارے میں نہیں فرمایا کہ کثرت سے جہاد کرو نہی از منکر جو تمام نیکیوں کا سرچشمہ ہے اس کے بارے میں بھی نہیں فرمایا کثرت سے نہی از منکر کرو ایک ذکر خدا کے بارے میں فرمایا کی کثرت سے ذکر خدا کرو اس لئے ذکر خدا کثرت سے انسان کر سکتا ہے لڑائی کے وقت بھی کر سکتا ہے تلوار اٹھاتے ہوئے بھی کر سکتا ہے دشمن کی طرف حملہ کرتے ہوئے بھی کر سکتا ہے میدان جنگ میں جاتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر کر سکتا ہے لیٹے ہوئے بھی کر سکتا ہے وعلیٰ جُنُوبِھِم پہلوؤں کے اوپر بھی اور بستر کے اوپر بھی اللہ کا ذکر کر سکتا ہے، انسان کسی کام میں مشغول ہے اس کے اعضاء و جوارح کسی کام میں مشغول ہو سکتے ہیں لیکن عین اس وقت ہاتھ کام کر رہا ہوتا ہے دل ذکر خدا میں مصروف ہوسکتا ہے۔ ذکر خد آپ کا وقت نہیں لیتا ہر وقت ذکر خدا ہوسکتا ہے ذکر آپ کے روح اور جان سے مربوط چیز ہے جان اور روح کا اللہ کی طرف متوجہ رہنا ہر قدم کے اٹھانے سے پہلے اٹھاتے ہوئے اور اٹھانے کے بعد اگر اللہ کو سامنے رکھا تو پھر انسان کے لئے کوئی مسئلہ پیش نہیں آتا ایک تو اطمینان، اطمینان قلب آتا ہے دوسری کامیابی مل جاتی ہے تیسری چیز جو اصل کامیابی ہے وہ رضایت رب ہے۔ میدان جنگ میں ذکر اللہ کو بہت بڑا دخل حاصل ہے فتح و نصرت میں بھی دخل حاصل ہے اللہ کو اگر انسان یاد کرے پھر لڑائی کرے تو پھر انسان اپنے اللہ تعالیٰ کی یاد دل میں زندہ ہونے کی صورت میں اپنی ذات سے انسان غافل ہو جاتا ہے جو انسان اپنی ذات سے غافل ہو جاتا ہے ترس نکل جاتا ہے اور جب ترس نکل جاتا ہے تو یہ سب سے بہادر مجاہد بن جاتا ہے۔ میدان جنگ میں جو اصل مسئلہ ہے ترس ہے خوف ہے جان جانے کا خوف ہوتا ہے۔ راہ خدا کے مجاہد کے لیے یہاں پر کوئی ترس اور خوف نہیں ہوا کرتا صحیح مجاہد کے لئے جو حقیقی معنوں کا مجاہد ہے اس کے لئے ترس اور خوف نہیں ہوا کرتا اس کو دو کامیابیوں میں سے ایک کامیابی ہر صورت میں ملنا ہوتا ہے۔ اِحْدَى الْحُسْنَیَیْنِؕ دو کامیابیوں میں سے ایک فتح یا شہادت، اگر دنیا میں اس کو فتح و نصرت ملتی ہے اللہ تعالیٰ کی رضایت اور اسلام کا نشوونما اور اسلام کی پھیلنے اور پھولنے میں اور اگلی آنے والی نسلوں تک اصلاحی پیغام کے پہنچانے میں یہ صاحب شریک ہوتا ہے یہ بڑی بات ہے یہ بڑی کامیابی ہوتی ہے کہ سلسلہ رسالت اور اسلام کو آگے چلانے میں اس مجاہد کا ہاتھ ہوتا ہے اور اگر شہید ہو جاتا ہے تو پھر ابدی زندگی جو ہے اس کی سنور جاتی ہے۔ دونوں کامیابی نہایت عظیم کامیابی ہے اس کے لئے ناکامی کا تصور نہیں ہے جب ناکامی کا تصور نہیں ہوگا خوف کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے جب خوف نہیں ہوگا یہ سب سے بڑا مجاہد اور سب سے بڑا راہ خدا میں لڑنے والا ہو جائے گا ذکر خدا کی صورت میں۔ ذکر خدا کا مطلب یہ ہے کی تلوار اٹھاؤ اللہ کے لیے مارو تو اللہ کے لیے کافر کی گردن کٹ جائے تو نہ اس لئے کہ اس کے ساتھ ذاتی دشمنی ہے خدا کو یاد رکھو یعنی مجاہد کا ہر عمل ہر جنبش اللہ کے لئے ہو اس کی بہترین مثال علی ابن ابی طالب عليه‌السلام ہی پیش کر سکتے ہیں کافر کو لتاڑا قتل کرنے کے لیے کافر کو تلوار نکالی اس نے آپ کے منہ پر تھوکا تھوکنے کی وجہ سے آپ نے دیکھا کی اگر میں اس وقت اس کو قتل کروں کہ اس میرے ساتھ جسارت کی میری ذات کے ساتھ جسارت کی ہے اس جسارت کے بدلے میں تھوڑا سا انسان غصے میں آ جائے غصے میں آنے کی وجہ سے تلوار تیز چلے اور اس کی گردن کٹ جائے تو یہ لِللّٰہ نہیں ہوگا یہ تو ذاتی ہوگیا ذکر خدا کا بہترین نمونہ پیش کیا سینے سے آپ اتر گئے اس کو قتل نہیں کیا اور جب غصہ ٹھنڈا ہوگیا اور واپس جا کر کے برائے خدا قتل کیا یہ ہے وَ اذۡکُرُوا اللّٰہَ کا بہترین نمونہ بہترین مثال اللہ کو کیسے یاد کیا جاتا ہے اللہ کو کَثِیۡرًا یہاں پر جو مولا عليه‌السلام نے ذکر کیا ہے وہ کثیر ہے تعداد کے حساب سے نہیں اس کی نوعیت اعتبار سے تمام اذکار کے اوپر یہ ایک ذکر بھاری ہےوَ اذۡکُرُوا اللّٰہَ کَثِیۡرًا لَّعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ بتایا کرتا ہوں لفظ لَّعَلَّ جب بھی آتا ہے اس کے بعد بعد آنے والا مطلب جو ہے وہ اللہ تعالی کے لیے پسندیدہ چیز ہے اس لیے لَّعَلَّ کا ترجمہ کرتے ہیں تاکہ غرض اور غایت ہو جو اللہ کو پسند ہے وہ حاصل ہو۔ اللہ کا ذکر کرو۔ لَّعَلَّ کا لفظی اور لغوی ترجمہ شاید ہوتا ہے یہاں شاید کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا قرآن میں اللہ تعالی جب لفظ لَّعَلَّ استعمال فرماتا ہے تو اللہ کے لئے شاید ماید نہیں ہوتا ہے۔
لَّعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ
اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تم کامیابی حاصل کر سکو کامیابی جنگ میں لڑائی میں فتح و نصرت کے حصول میں آپ کہہ سکتے ہیں اور اپنے اللہ کی رضایت اور خوشنودی کے حصول میں۔ فلاح دنیا بھی لے سکتے ہیں فلاح آخرت بھی لے سکتے ہیں یہ ذکر خدا میں مضمر ہے آگے فرمایا جنگ سے مربوط ہےوَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ لَا تَنَازَعُوۡا خدا کی اطاعت اور رسول کی اطاعت تو ہر جگہ واجب ہے ہر لمحہ واجب ہے ہر قدم پر واجب ہے لیکن جنگ میں خصوصی طور پر اطاعت جس کو آجکل ڈسپلن کہتے جاتا ہے تنظیم فوج کی جان اور روح تنظیم اطاعت جو ہے وہ فوج کی اہم ترین چیز ہے اسی لئے آپ دیکھتے ہیں افواج میں اطاعت کے علاوہ سوچنے کی اجازت نہیں ہوتی، مت سوچو۔ باقی جگہوں پر جب کوئی بات کرتا ہے کوئی حکم دیتا ہے تو دیکھا جاتا ہے کہ بات کیسی صحیح ہے غلط ہے سوچتے ہیں فوج میں اس بات کی اجازت نہیں ہوتی ہے سوچنے کی اجازت نہیں ہوتی بس اطاعت عام افواج کی بات ہے عام دنیا جو رائج ہے اس میں اطاعت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے، حربی قوانین میں۔ لیکن یہ اطاعت اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو اللہ کی اطاعت ہو اور اس کے رسول کی اطاعت ہو تو یہ پھر انتہائی بنیادی بات ہوتی ہے فرمایا وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ثبات قدم اور ذکر خدا کے بعد اللہ اور رسول کی اطاعت ضروری ہے۔ وَ لَا تَنَازَعُوۡا اور آپ میں نزاع نہ کرو فَتَفۡشَلُوۡا
ار اگر تم نے آپس میں نزاع کیا تو ناکام رہو گے وَ تَذۡہَبَ رِیۡحُکُمۡ تمہاری ہوا اکھڑ جائی گی وَ اصۡبِرُوۡا اگر بات سمجھ میں نہیں آتی ہے، یہ اللہ نے کیسے حکم دیا رسول نے کیسے حکم دیا تو صبر کرو اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ یہاں جنگی حکمت عملی میں فتح و شکست کا دارو مدار اطاعت پر ہے اگر حربی قوانین میں اطاعت کو اگر وہ اہمیت حاصل نہ ہوتا تو اس وقت دنیا جھگڑا نہیں کر سکتا دنیا کا کوئی لشکر میدان کارزار میں قدم نہیں رکھ سکتا لڑنا تو دور کی بات ہے قدم آگے بڑھا نہیں سکتا یہاں پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کی آپس میں نزاع نہ کرو نزاع کی گنجائش کب آتی ہے نزاع کی گنجائش اس صورت میں آتی ہے ایک ہوتا ہے اختلاف اور دوسرا اس اختلاف کے نتیجے میں جھگڑا۔ اختلاف رائے متعدد ہونا ایک رائے نہ ہونا اس کو اختلاف کہیں گے کہ آپ کا موقف یہ ہے کے مدینے میں رہ کر لڑنا چاہیے دوسروں کا موقف یہ تھا کہ باہر جا کر کے دشمن کے پاس جا کر کے لڑنا چاہئے۔ اس میں دو رائے ہے دو موقف ہے اختلاف کہہ سکتے ہیں آپ بعد میں جھگڑا بھی ہو جاتا ہے اس بات پر جھگڑا بھی ہو جاتا ہے اور پھر کچھ لوگ کہتے ہیں اگر آپ ہماری بات نہیں مانتے ہیں پھر ہم آپ کے ساتھ نہیں لڑیں گے جھگڑا ہوگیا نہیں لڑے وہ واپس چلے گئے یہاں پر اختلاف کی گنجائش ہے رائے دے سکتے ہو اختلاف کر سکتے ہو لیکن نزاع نہ کرو جھگڑا نہ کرو اس لیے کہ اس سے پہلے حکم آیا ہے کہ اطاعت کرو اختلاف کی گنجائش نہیں ہے اپنی رائے دے دو یہاں رائے دے دو حکم نہیں ہے مفہوم بھی نہیں ہے لیکن یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ رائے دے دو تو یہ نزاع نہیں ہے منہی عنہ میں نہیں آتا رائے دے سکتے ہیں اپنا نظریہ پیش کرسکتے ہیں، لیکن نزاع نہیں کر سکتے۔ اطاعت واجب ہے ہیں اللہ کی اطاعت کرو رسول کی اطاعت کرو وَ لَا تَنَازَعُوۡا نزاع نہ کرو نزاع کس صورت میں آتی ہے؟ اس صورت میں آتی ہے جب منزل مختلف ہے غرض مختلف ہے اہداف مختلف ہے مقصد مختلف ہے اس وقت نزع آتا ہے آپ فرض کر لیں کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر کہتے ہیں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر عليهم‌السلام ایک جگہ جمع ہو جائیں کسی کام کے لئے اور سب مل کر کوئی کام کرنا چاہتے ہیں سب نبی ہے اللہ کے نبی ہیں سب کے سب معصوم ان میں اختلاف آ سکتا ہے جھگڑا ہو سکتا ہے ممکن نہیں ہے جھگڑا ہونا انبیاء اگر جمع ہو جائیں ایک لاکھ سال وہ آپس میں بیٹھ کے مختلف اور مشکل حالات کا مقابلہ کریں کبھی بھی جھگڑا نہیں ہوگا ان میں انبیاء میں اختلاف بھی نہیں ہو سکتا فرض کر لیتے ہیں اگر ایک نبی وحی الہی کے بغیر ذاتی رائے دے سکتا ہے نزاع نہیں کر سکتا جھگڑا نہیں کر سکتا اس لیے کہ سب کی منزل ایک ہے سب کا مقصد ایک ہے سب کا ہدف ایک ہے جب ہدف ایک ہو منزل ایک ہو پھر اس میں دوسری چیز جھگڑے کے لئے یہ ہے کی منزل ایک ہے مقصد بھی ایک ہے لیکن آپ کا خیال یہ ہے کہ کہ ہم منزل جو ہے اس صورت میں حاصل نہیں کر سکیں گے دوسرے کا خیال یہ ہے کہ اس صورت میں منزل حاصل کر سکیں گے اختلاف نظر ہوگیا وہ آپ کی بات نہیں مانتے تھے اور آپ ان کی بات نہیں مانتے اس اختلاف نظر کے نتیجے میں منزل ایک ہونے کے باوجود وجود جھگڑا ہوگا منزل ایک ہے مقصد ایک ہے دونوں اپنے مقصد اور منزل کے لئے مخلص بھی ہے کوئی ذاتی غرض نہیں ہے اپنے مقصد کے لئے دونوں مخلص سو فیصد مخلص اور پھر بھی جھگڑا ہے کیوں جھگڑا ہے؟ کیونکہ وہ آپ کی بات نہیں مانتا ان کو آپ کی بات پر ایمان نہیں آتا آپ کے موقف کے اوپر ایمان نہیں آتا ان کا نظریہ یہ ہے کہ ہم ناکام ہو جائیں گے اگر ہم آپ کی بات مانتے ہیں تو لہذا وہ آپ کی بات نہیں مان سکتے اور دوسرا بھی اسی طرح۔ یہاں اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت میں یہ بات نہیں ہے جو انسانوں کے درمیان میں ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف میں آ سکتا ہے اللہ اور رسول کی اطاعت کے مقابلے میں آپ اپنا اجتہاد پیش کریں جیسا کہ بہت سے اوقات میں ہوا کرتا تھا لوگ اپنا اجتہاد پیش کرتے تھے یا رسول اللہ یہ کیسے کیا؟یہاں گنجائش نہیں ہے اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا رَسُوۡلَہٗ کے بعد نزاع کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے آپس میں اگر ہم ایک دوسرے کے ساتھ نزاع کر سکتے ہیں لیکن اللہ اور رسول کے حکم آنے کے بعد نزاع کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے نزاع کیا جھگڑا کیا ناکام رہو گے فَتَفۡشَلُوۡا وَ تَذۡہَبَ رِیۡحُکُمۡ تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی دشمن کے مقابلے میں تمہاری حیثیت ختم ہو جائے گی اور نزاع کی صورت میں اپنی جو طاقت ہے، وہ طاقت اپنے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ نزاع ہر امت کے لئے ہر قوم کے لئے ہر قبیلے کے لئے ہر نظام اور ہر سسٹم کے لئے سب سے بدترین چیز نزاع ہے۔ نزاع کی صورت میں جیسے کی جنگ احد میں جیتی ہوئی جنگ ہار گئے لوگ، کس وجہ سے اطاعت نہ ہونے کی وجہ سے اطاعت نہیں کی تیر اندازوں نے، تیر اندازوں سے کہا تھا اگر ہم دشمنوں کو بھگا کر مکہ تک بھی لے جائیں تم نے اپنی جگہ نہیں چھوڑنی ہے اور اگر ہم بھاگ کر مدینہ تک بھی پہنچ جائیں تب بھی تم نے جگہ نہیں چھوڑنی ہے یعنی آخری حد کے منفی صورتحال کو فرض کر کے حکم فرمایا تھا کہ حالت کچھ بھی ہو جائے تم نے اس جگہ کو نہیں چھوڑنی انہوں نے وہ جگہ چھوڑ دی اور اس اطاعت نہ ہونے کی وجہ سے جیتی ہوئی جنگ مسلمان ہار گئے تھے لہذا اطاعت حربی قوانین میں بنیادی چیز ہے آگے فرمایا کہ کسی اطاعت کے لیے بات نکتے کا سمجھ میں آنا ضروری نہیں ہے نہیں سمجھ میں آتا ہے تو بھی وہ صبر کرو اور ثابت قدمی کے ساتھ ثابت قدم رہو اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ۔