تفسیر قرآن سورہ ‎الأنفال‎ آیت 61

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
سورہ انفال آیت ۶۱
(اے رسول) اگر وہ صلح و آشتی کی طرف مائل ہو جائیں تو آپ بھی مائل ہو جائیے اور اللہ پر بھروسا کیجیے۔ یقیناً وہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔
گزشتہ آیت میں مسلمانوں کو جنگی اور حربی مسلمانوں کو جنگی اور حربی عربی حوالے سے مستعد اور آمادہ رہنے کا حکم دیا گیا، اس کے بعد جب آپ حربی اعتبار سے، جنگی اعتبار سے، ملی اعتبار سے قوی ہے طاقتور ہیں اور اپنے طاقت کو مجتمع کر لینے کے بعد اور بحیثیت ایک قوم مستعد ہونے کے بعد اپنی حفاظت اور اپنی حیثیت اور اپنی آبرو و مال و جان کی حفاظت کرنے کی پوزیشن میں آنے کے بعد اگر مد مقابل کا دشمن تو صلح صفائی کی طرف مائل ہو جائے وَإِنْ جَنَحُوا اگر وہ مائل ہو جائے لِلسَّلْمِ امن و آشتی کے لئے صلح و صفائی کے لیے، فَاجْنَحْ اے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ بھی آمادہ ہوجائے آپ بھی مائل ہو جائیے وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ صلح کرنے کے بعد امن و آشتی میں آنے کے بعد ہو سکتا ہے کہ دشمن کی طرف سے صلح کا پیغام، امن کا پیغام سازش کے تحت ہو، اور یہ صلح و صفائی ایک خطرے کے لیے پیش خیمہ ثابت ہو، اس قسم کے وسوسوں میں نہ آئے وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ اللہ پر بھروسہ رکھیں، کہ صلح کو دشمن ایک سازش کے طور پر استعمال کر سکتا ہے اور دشمن جب صلح کے لئے آمادہ ہو جاتا ہے تو مصالحت کرنا اسلامی اخلاق، اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔ درست ہے کہ دشمن اس صلح کو اپنے حق میں استعمال کر سکتا ہے، اس سے وہ فائدہ اٹھا سکتا ہے لیکن مسلمان بحیثیت مسلمان اس وسوسے میں نہ پڑے کہ صلح کرنے کی صورت میں پھر اس میں دشمن کا فائدہ ہوگا جیسے صلح حدیبیہ میں ایسا ہوا، صلح حدیبیہ میں کیا ہوا؟ کہ مصالحت ہوئی مشرکین کے اور مسلمانوں کے درمیان میں اور مصالحت بھی اس طرح ہوئی کہ اگر مشرکین کا کوئی بندہ مسلمانوں کی طرف آتا ہے تو مسلمان اس کو واپس کرے گا، اور مسلمانوں کا کوئی بندہ مشرکین کی طرف جائے گا تو واپس نہیں کرے گا، بہت سے لوگوں نے کہا کہ کیا آپ خدا کے رسول نہیں ہے؟ اس صلح صفائی کے خلاف تھے لوگ پریشان بھی تھے کہ یہ صلح نہیں ہونا چاہیے، لیکن اس صلح نے کیا، مسلمانوں کو فریق مخالف نے ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کر لیا، امن آگیا اور امن کی فضا قائم ہوگی جزیرہ عرب میں، امن کی فضا قائم ہونے کی وجہ سے لوگ دھڑا دھڑ اسلام کی طرف آنا شروع ہو گئے، اور چنانچہ تھوڑے عرصے کے بعد دس ہزار لشکر کے ساتھ مکہ میں داخل ہو سکے، جب کہ اس سے پہلے مسلمانوں کی تھوڑی سی تعداد تھی، اس صلح کی وجہ سے وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ توکل کس کو کہتے ہیں؟ توکل کہتے ہیں اللہ کو وکیل بنانا، اللہ پر اپنا معاملات کو چھوڑ دینا نا۔ جیسے آپ کسی کو وکیل بناتے ہیں تو آپ اپنا معاملہ جس کام کے لیے اس کو وکیل بنایا ہے سارا معاملہ جو ہے وہ اس پر چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ بھی اللہ کے اوپر سارا معاملہ چھوڑ دیں، توکل اس کو کہتے ہیں، لیکن تو کل کا مطلب اسباب علل سے بے نیاز ہونا نہیں ہے لیکن اسباب و علل ظاہری کو سب کچھ نہ سمجھنا توکل نہیں، اسباب و علل کو اعتناء میں نہ لانا توکل نہیں ہے، اسباب و علل کو آپ استعمال کریں گے پھر اس کے بعد نتیجہ دینا اللہ کے ہاتھ میں ہے اللہ پر بھروسہ کریں گے اس لیے جن اسباب اور علل کے اوپر آپ نے بھروسہ کیا ہو سکتا ہے کہ وہ کل کے کل اسباب و علل نہ ہو، کسی کام کے اس کے تمام اسباب و علل مکمل ہو تو کام وجود میں آتا ہے نا، اس کے تمام علل و اسباب وجود میں آجائے مکمل ہو جائے پھر وجود میں آ جاتا ہے، ہم آپ کو بتاتے رہتے ہیں الشیء ما لَم یَجِب لَم یُوجَد جب تک چیز واجب الوجود نہیں ہوتی وجود میں نہیں آتا، یعنی اس کا مطلب کیا؟ اس کے تمام علل و اسباب جب مکمل ہو کر کے اس کے علت تامہ ہوکر کے وجود میں آتی ہے تو پھر معلول کا وجود میں آنا واجب ہے ضروری ہے، معلول کا وجود میں آنا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اس کی علت جو ہے پوری علت، علت تامہ تمام علل و اسباب، مکمل علل و اسباب وجود میں نہ آئے پھر وہ معلول وجود میں آتا ہے، علت اور اسباب جس کو آپ نے استعمال کیا کسی کام کے لیے ہو سکتا ہے وہ کل کی کل اسباب و علل نہ ہو، علت علت تامہ نہیں ہے ابھی ناقص ہے اس میں ارادہ خدا شامل نہیں ہے وہ چیز وجود میں نہیں آتی بھروسہ کرو اللہ کے اوپر کہ اللہ ہی اس کام کے علل و اسباب کی تکمیل کر سکتا ہے جب اللہ اس کام کے علل و اسباب کے تکمیل کرے گا وہ کام وجود میں آئے گا اللہ پر بھروسہ کرو کام ہونا وہاں سے ہے، علل و اسباب کی تکمیل اللہ کی طرف سے ہوتی ہے، جب تک علل و اسباب کی تکمیل نہیں ہوگی اس کام نے وجود میں نہیں آنا لہذا پریشان نہ ہو ادھر، میں نے یہ کام کیا کوشش کیا وغیرہ وغیرہ کیا اور کام ہوا نہیں دیکھو کون سی علت رہ گئی ہیں من جملہ اللہ کا ارادہ جو ہے اس کی علت تامہ بنانے میں دخیل ہے، لہذا جب تک اللہ کا ارادہ نہیں ہے آپ کے علل و اسباب جو آپ نے فراہم کیا ہے وہ کافی نہیں ہے۔ اگر آپ کوئی بھی علل و اسباب فراہم نہیں کرتے ہیں تو پھر اللہ کا ارادہ نہیں آتا ہے سرے سے، ٹھیک ہے، آپ کوئی قدم نہیں اٹھاتے کوئی کام نہیں کرتے کوئی علت و سبب پیدا نہیں کرتے کہ خدا تکمیل کرے، تکمیل خدا کرتا ہے پورا کام خدا نہیں کرے گا، آپ کو اپنا حساب سے جو علل و اسباب ہے اس کو انجام دینا ہوتا ہے پھر اس کے بعد تکمیل اللہ کے ہاتھ میں ہے، یہ ہے تو کل اس کو ذہن میں رکھے، تَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ اسباب و علل کو اعتنا میں نہ لانا نہیں ہے بلکہ اسباب و علل ظاہری پر انحصار نہ کرنا توکل ہے، جی اگر آپ انحصار کرتے ہیں علل و اسبابِ ظاہری پر پھر آپ توکل نہیں کر رہے اللہ پر بھروسہ نہیں ہے آپ کا پریشان ہو رہے ہیں، مبتلا ہو رہے ہیں، نیند آپ کی حرام ہوتی ہے کیا کیا ہوتے ہیں کہ یہ کام ہوگا نہیں ہوگا کیا کیا ہوگا کیا نہیں ہوگا اور اللہ کے اوپر بھروسہ نہ ہونے کی وجہ سے پریشانی ہوتی ہیں، اس نکتہ کو کوئی سمجھے گا توکل کسے کہتے ہیں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔
ابھی اس کے علل و اسباب جو ہے اس کی تکمیل نہیں ہوئی پھر آپ دعائے کریں گے یَا مُسَبِّبَ الاَسبَاب اے اسباب کا پیدا کرنے والا میرے کام کا علل و اسباب کی تکمیل ابھی تک نہیں ہوئی اس کی تکمیل فرما یہ ہے بھروسہ کل اللہ کے اوپر ٹھیک ہے اور وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ صلح کرو اور اپنے معاشرے کو امن و آشتی کی فضا دے دو پھر اس کے بعد دشمن کیا کرے گا وہ کیا کرے گا اللہ پر بھروسہ کرو اور جھگڑا نہ کرو بدگمانی نہ کرو کہ آپ رسول خدا ہے نہیں ہے یہ کیا ہو گیا،وہ ہوگیا نہ کرو، اللہ پر بھروسہ کرو ایک بات۔
دوسری بات یہاں پر جو جس کی وضاحت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اس آیت مجیدہ نے فرمایا وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ اگر وہ یعنی آپ کا دشمن مائل ہو جائے صلح کیلئے تو آپ بھی صلح کے لیے مائل ہو جائیے، اس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ اگر وہ لڑنا نہیں چاہتے ہیں تو پھر آپ نہ لڑیئے ٹھیک یہ قرآن کریم کا اور اسلام کا پیغام صلح ہے،پیغام امن ہے اسلام جنگ نہیں چاہتا، جنگ اچھی چیز نہیں ہوتی بہت بری مکروہ ترین چیز ہے جنگ،جی اسلام کے نزدیک بھی جنگ اچھی چیز نہیں ہے،مکروہ چیز ہے،امن چاہتا ہے اسلام، اسلام دین سلام ہے، اسلام کا نام اسلام ہے۔ امن، تسلیم یا اسلام کا شعار سلام ہے، سلام علیکم صبح شام جب ملتے ہیں مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں۔ اسلام کی ثقافت اسلام کا کلچر جو ہے وہ امن کا پیغام سے بھرا ہوا ہوتا ہے صبح شام، امن و سلام سلامتی ہی سلامتی۔ اسلام کی تمام تعلیمات وہ امن کے پیغام پر مشتمل ہے امن کے پیغام پر مشتمل ہے اسلام کی تمام تعلیمات کسی تعلیم میں بھی نا امنی کا شائبہ نہیں دیکھیں گے مثال کے طور پر کہ اگر آپ کو کسی ہاتھ سے آپ کو خراش آتی ہے، خراش اس کی بھی دیت ہوتی ہے۔ اس کو آپ کو دیت دینا پڑتا ہے، جی خراش آئے خراش ہے دوست آپ کا گزر رہا تھا آپ میں کوئی چیز لے کر کے اور وہ آپ کے ہاتھ کو لگی آپ کے ہاتھ کو خراش آئی قصد بھی نہیں تھا پھر بھی اس کو دیت دینا پڑتا ہے خراش کی بھی دیت، احترام انسانیت ہے، احترام آدمیت پر مشتمل ہے اسلام، اسلام کے تمام تعلیمات ایک مثال پیش کر رہا ہوں کہ خراش، خراش کی دیت ہوتی ہے تمام اسلامی تعلیمات امن پر مشتمل ہے تعلیمات اسلامی کی کسی گوشے میں نا امنی کسی کے ساتھ زیادتی اور ظلم نہیں ہے، امن ہی امن ہے اسلام کی تعلیمات میں۔
ایک آیت ہے يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً ایک تفسیر یہ ہے سلم سے مراد امن ہے مفسرین نے السِّلْمِ کا معنی اسلام کیا ہے ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً اسلام میں داخل ہو جاؤ، معنی کیا ہے۔ ماہرین لغت نے السِّلْمِ کا معنی اسلام نہیں لیا، ہمیشہ امن و آشتی امن و سلامتی وغیرہ مراد لیا ہے بہر حال ایک تفسیر یہ ہے يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً امن میں آ جاؤ، امن و آشتی میں آ جاؤ امن و امان سکون کی زندگی گزارو۔
یہاں کچھ حضرات کا یہ کہنا ہے کہ یہ آیت وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا کے آیت سورہ توبہ کی اس آیت سے منسوخ ہے یہ اس زمانے کے لیے تھا ہجرت کے بعد جنگ بدر کے بعد کے زمانوں کے لیے صلح حدیبیہ کے جو عصر ہے ان زمانوں کے لئے تھا کہ وہ وَإِنْ جَنَحُوا اگر یہ آپ کے ساتھ لڑنا نہیں چاہتے مکہ والے مشرکین تو آپ ان کے ساتھ نہ لڑو یہ حکم تھا، کچھ لوگوں کا موقف بیان کر رہا ہوں لیکن بعد میں جب اسلام میں استحکام آیا تو یہ موقف بدل گیا یہ منسوخ ہے یہ آیت چنانچہ سورہ توبہ میں یہ آیت نازل ہوئی قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِر، قَاتِلُوا حکم آیا سورہ توبہ میں لڑائی کرو جنگ کرو ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان نہیں لاتے اللہ پر اور یوم آخر پر وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ جس کو اللہ نے حرام کیا ہے اس کو حرام نہیں سمجھتے مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ اللہ نے اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے اس کو وہ حرام نہیں سمجھتے وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ دین حق کے پابندی نہیں کرتے مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ اہل کتاب میں سے جو لوگ اہل کتاب ہے ان میں سے جو لوگ یہ کام نہیں کرتے حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ جب تک وہ ذلیل و خوار ہو کر کے جزیہ نہ دے اس وقت تک ان کے ساتھ لڑائی کرو۔ اس آیت سے،یہ آیت وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا کی آیت منسوخ ہے جی ہم اس چیز کے قائل نہیں ہیں منسوخ ہے یہ سورہ توبہ کی آیت جو ہے وہ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ جو ہے وہ رد ہے، اسی آیت میں رد ہے، کہ وَقَاتِلُوا نہیں ہوتا اگر وہ جزیہ دیتے ہے تو یہ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ میں آتا ہے جی وہ لوگ جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور اللہ کے اور رسول کے حرام کردہ چیزوں کو حرام نہیں سمجھتے دین حق کی پابندی نہیں کرتے وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ اس سے مراد کافر حربی ہے جو لوگ آپ لوگوں کے ساتھ لڑتے ہیں جو مسلمان مثلاً شہر حرام کو قرار دے دے وہ لوگ شہر حرام کو حرام نہیں قرار دیتے تو ایک آیت میں فرمایا فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ یہ اس حالت سے مربوط ہے جب کافر اور مشرک جو ہے وہ مسلمانوں کے ساتھ حالت جنگ میں ہو، حالت جنگ میں ہونے کی صورت میں آیت کو موضوع نہیں بنتا کہ وہ ناسخ و منسوخ بنے، ناسخ منسوخ اس وقت بن سکتا ہے کہ دونوں آیتوں کا موضوع ایک ہو۔ یعنی حالت جنگ حالت امن ہو کافر جو ہے وہ آپ کے ساتھ حالت جنگ میں ہوں یا نہ ہو قَاتِلُوا تو پھر ٹھیک ہے اور یہاں پر ایسا نہیں ہے ادھر وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ میں اگر وہ صلح کے لئے آمادہ ہوجائے تو آپ بھی صلح کے لئے آمادہ ہوجائے اس آیت نے کہا اگر وہ آپ کے ساتھ لڑتے ہیں تو آپ لڑے، کہا تو دونوں کا موضوع الگ ہے جدا ہے یہاں موضوع صلح ہے، ادھر موضوع لڑائی ہے یہ آیت اس آیت کے لئے ناسخ نہیں بن سکتی دونوں کا موضوع الگ ہے یہ اپنی جگہ جو قابل توجہ باتیں ہے اس پر سحر حاصل بحث ہونا چاہیے تھا وہ یہ ہیں کہ اس وقت اسلام کے اوپر ایک الزام ہے مستشرقین کی طرف سے، غیر مسلم عناصر کی طرف سے ایک بہت بڑا الزام عائد ہے کہ اسلام جو ہے وہ تلوار کی زور پر پھیلا ہے جی یہ بہت بڑا الزام ہے وہ اسلام کی جنگوں کا حوالہ دیتے ہیں، یہ ساری جنگیں دیکھو یہ اس لئے ہوئی کہ اسلام پھیل جائے اور اسلام پھیل گیا تلوار کے زور سے طاقت کے ذریعہ سے اسلام پھیل گیا اسلام کے پاس کوئی ایسی منطق نہیں ہے کہ وہ منطق کے زور پر پھیل جائے تلوار کے زور پر اور طاقت کے زور پر اسلام پھیلا ہے یہ الزام بہت عام ہیں اور اس کو بہت اچھا لتے ہیں لوگ،جی اسلام دین امن نہیں ہے دین دہشت گرد ہے وغیرہ خصوصاً آج کل بہت زیادہ اچھال رہے،اس کے جواب میں اس کے اوپر ایک زبردست تحقیق کی بھی ضرورت ہے کہ اسلام کی تلوار اور جنگ کے ذریعہ نہیں پھیلا، اسلام امن و آشتی کا پیغام دیتا ہے ایک آیت ہے قرآن مجید میں اس آیت میں ارشاد فرمایا لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ خدا نہیں روکتا لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ خدا تم کو نہیں روکتا، عَنِ الَّذِينَ ان لوگوں کے بارے میں لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں تم سے لڑائی نہیں کی جنگ نہیں کرتے وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ تم کو اپنے گھروں سے نہیں نکالا ان کے بارے میں لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ اللہ نہیں روکتا کس چیز سے نہیں روکتا أَنْ تَبَرُّوهُمْ ان پر احسان کرنے سے نہیں روکتا، جی وہ کافر جو آپ کے ساتھ نہیں لڑکے آپ کو اپنے گھروں سے نہیں نکالا ان پر احسان کرنے سے نہیں روکتا وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ان کے ساتھ عدل و انصاف کرنے سے نہیں روکتا، عدل و انصاف ٹھیک ہے ایک ہے وہ ہے ایک انسانی مسئلہ ہمیشہ بتاتا ہوں، عدل و انصاف دینا جو ہے وہ ایک انسانی مسئلہ ہے کافر مسلم سب کو دینا ہوتا ہے لیکن یہاں پر قابل توجہ نکتہ ہے أَنْ تَبَرُّوهُمْ ان کے اوپر احسان کرنے سے نہیں روکتا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ خدا انصاف دینے والوں کو دوست رکھتا ہے،تو یہ ہے اسلام کا پیغام، اسلام تلوار کے زور سے نہیں پھیلا ٹھیک اسلام کافروں کے ساتھ جو ہم اسلام کے ساتھ نہیں لڑتے یہ دیکھو یہاں پر یہ آیات شاہد ہے، اسلام لڑنے کا حکم نہیں دیتا۔
متعدد آیات ہیں قرآن مجید میں فَإِنِ اعْتَزَلُوكُمْ فَلَمْ يُقَاتِلُوكُمْ وَأَلْقَوْا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ عَلَيْهِمْ سَبِيلً اگر وہ ہٹ جائے اور تمہارے ساتھ لڑائی نہ کرے وَأَلْقَوْا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ اور امن و سلامتی کا پیغام دے دے تو آپ مسلمانوں کو حق حاصل نہیں ہے ان غیر مسلموں کے اوپر کرو چڑھائی کرو فَإِنْ لَمْ يَعْتَزِلُوكُمْ ہاں اگر وہ الگ نہیں ہوتے ہیں وَيُلْقُوا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ وَيَكُفُّوا أَيْدِيَهُمْ فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ اگر وہ لڑنے کے لیے آتے ہیں آگے تو تو پھر لڑو اور قتل کرو جہاں پاؤ قتل کرو یہ قرآنی احکام اور قرآنی پیغام اور قرآنی تعلیمات کا اہم ترین حصہ ہے اہم ترین حصہ ہے،جابجا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ کافر جب آپ کے ساتھ نہیں لڑتے ہیں تو پھر آپ نہیں لڑ سکتے ان کے خلاف جنگ نہیں کر سکتے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر اسلام تلوار کے ذریعے پھیلا ہے طاقت کے ذریعے پھیلا ہے اسلام کو اس وقت تک زندہ جب تک طاقت ہے جب تک تلوار ہے یار جس چیز کے ساتھ کھیلتا ہے جس چیز کے اوپر تقیہ ہے اس چیز کے ختم ہونے سے دین بھی ختم ہونا چاہیے قدرتی بات ہے آپ کہتے ہیں کہ یہ اسلام منطق نہیں رکھتا طاقت کے ذریعے پھیلا ہے وہ طاقت تو نہیں ہے اب تو طاقت تمہارے پاس ہے اب تم لوگوں نے اپنی جتنی طاقت تمہارے پاس ہے ان سب کو اس اسلام کے خلاف استعمال کیا ایک شخص اسلام کو چھوڑ کر کے تمہاری طرف نہیں آیا ایک فرد نہیں دکھا سکتے جو اسلام جوڑ کر کے وہ یہود بن گیا ہوں یا مسیحی بن گیا ہویا کافر ہو گیا ہو، مرتد ہو گیا ہو، تمہارے ان اربوں ڈالر کے خرچ کرنے کے نتیجے میں کیوں نہیں ہوتے طاقت اب مسلمانوں کے پاس نہیں ہے طاقت تو اب تمہارے پاس ہے اس اسلام کو ختم ہونا چاہیے طاقت نہیں ہے تلوار نہیں ہے اسلام کے پاس، اس پر مزید تھوڑی سی گفتگو ہے انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ بیان کریں گے۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ