تفسیر قرآن سورہ ‎الأنفال‎ آیات 52 - 53

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ ۙ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ كَفَرُوا بِآيَاتِ اللَّهِ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ شَدِيدُ الْعِقَابِ
بدر کے مشرکین کے ساتھ جو حشر ہوا اس کا ربط مذکور ہے یہاں، کہ مشرکین مکہ کے ساتھ وہی حشر ہوا جو فرعون اور فرعونیوں کے ساتھ ہوا تھا۔ جس طرح فرعون اور فرعونیوں میں كَفَرُوا بِآيَاتِ اللَّهِ آیات الہی اور اللہ تعالیٰ جل جلالہ کی نشانیوں کا انکار کیا تھا، تو اس انکار کی وجہ سے فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے ان کو گرفت میں لے لیا، ان کے گناہوں کے باعث، ان کے گناہوں کے سبب۔ وہ اپنے گناہ کے گرفت میں خود سے مبتلا ہو گئے۔ یہ موقف ہے بعض محققین کا، یہ سزا اور جزا جو ہے وہ قراردادی نہیں ہے، قدرتی، طبیعی اور فطری ہے۔ از خود مترتب ہوتا ہے، بِذُنُوبِهِمْ سبب ہے ان کے عذاب کا ان کے گناہ۔ ایسا نہیں ہے کہ ان لوگوں نے گناہ کیا تو اللہ تعالیٰ جل جلالہ کو غضب آیا اور پھر ان کے لیے عذاب مقرر کیا اور مقرر کرنے پر عذاب آیا۔ ایسا نہیں ہے، ان کا عمل جو ہے ان کے لیے، میں نے بتایا کہ انسان کا عمل جو ہے وہ انرجی کی شکل میں دوام پیدا کرتا ہے۔ جب عمل وجود میں آتا ہے تو عمل کو دوام ملتا ہے۔ اگر صحیح عمل ہے، نیک عمل ہے تو وہ آپ کا ساتھ نہیں چھوڑتا، اور اگر برا عمل ہے تو وہ آپ کی جان نہیں چھوڑتا۔
دونوں صورتوں میں وہ نہیں چھوڑتا آپ کو، بِذُنُوبِهِمْ ان کے گناہوں نے خود ان کو عذاب دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ جل جلالہ کا کام یہ ہے کہ ان کو اپنے اعمال کے گرفت میں جانے دیا، روکتا نہیں ہے راستہ، روک سکتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ جل جلالہ معاف فرما دیتا ہے تو روک دیتا ہے، اس کے اپنے عمل کے گرفت میں جانے سے روک دیتا ہے۔ معاف کرنا اللہ تعالیٰ جل جلالہ کی طرف سے مہربانی ہے نہ بھی معاف کرے تو ظلم نہیں ہوتا، اس کا اپنا عمل ہے اس کے اپنے عمل کے گرفت میں یہ جا رہا ہے، خدا کی طرف سے َأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ خدا ظلم نہیں کرتا اس کا اپنا عمل ہے جو اس کو عذاب دے رہا ہے۔ لیکن اگر اللہ جل جلالہ مہربانی کرتا ہے اللہ تعالیٰ جل جلالہ کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ جل جلالہ کی قبضہ قدرت میں آسمان اور زمین سب ہے، اللہ تعالیٰ جل جلالہ اس کو جب معاف فرماتا ہے تو اپنے اعمال کے اپنے عمل کے گرفت سے بچا سکتا ہے۔ یہ معاف کرنا ہے۔ فرمایا كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ ان کا حال بھی فرعونیوں کی طرح ہوا، اہل بدر کا حال، مشرکین مکہ کا حال بھی فرعونیوں کیطرح ہو گیا؛ کہ ان کو اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے ان کے گناہوں کے گرفت میں لے لیا تھا اسی طرح مکہ والوں کو بھی گرفت میں لے لیا۔
اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے؛ ذٰلِک یہ اس لیے ہوا کہ خواہ فرعون والے ہو سابقہ امتیں ہوں یا موجود امت یا آنے والی امتیں، اللہ تعالیٰ جل جلالہ کا قانون ایک جیسا ہوتا ہے وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا اللہ جل جلالہ کے طریقہ کار میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، اللہ جل جلالہ کی سنتِ کونیہ، قانونِ کائنات، طبیعتی قوانین ناقابل تغیر و تبدیل ہے۔ اس کے تحت ایسا اس لیے ہوا ذٰلک یعنی مشرکین مکہ کا انجام اس لیے ہوا جس طرح آل فرعون کا انجام ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ جل جلالہ کا ایک کلی قانون ہے اس لیے ہوا۔ وہ کلی قانون یہ ہے بِأَنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ اللہ تعالیٰ جل جلالہ جو نعمت کسی قوم کو عنایت فرماتا ہے اس وقت اسے نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہیں بدلتے۔
ایک بات میں کرتا ہوں عموماً؛ کہ یہاں اللہ تعالیٰ جل جلالہ کی طرف سے بعض مطالب ہوتے ہیں، مراحل ہیں، ان مراحل میں اللہ تعالیٰ جل جلالہ کی طرف سے پہل ہوتا ہے، بات کیا کرتا ہوں عموماً طالب علموں کے لیے کہ بات میں اللہ جل جلالہ میں اللہ تعالیٰ جل جلالہ پہل نہیں کرتا۔ ہم کو پہل کرنا پڑتا ہے، اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے پہل کیا ہم کو خلق کیا، پیدا کیا۔ اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے پہل کیا ہم کو عقل دی، اور شعور دیا، ہم کو ہماری اس زندگی کے لیے اور اس زندگی کے لیے ضرورت کی ہدایات ہمارے وجود اور ہماری فطرت کے اندر ودیعت فرمائی۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی خلقت عنایت فرمائی، پھر ہدایت بھی عنایت فرمائیـ ثُمَّ هَدَىٰ ہدایت اسی خلقت کے ساتھ ساتھ ہے البتہ ہدایت خلقت نہیں ہے ہدایت خلقت کے ماوراء میں ہے۔ اس کو ہم اپنے اصطلاح میں ہدایتِ تکوینی کہتے ہیں ہدایتِ تشریعی کے مقابلے میں۔ ہدایتِ تشریعی یہ ہے کہ پیغمبران آتے ہیں احکام امر و نہی لے کر کے آتے ہیں، حلال و حرام بیان کرتے ہیں یہ کام کرو یہ کام نہ کرو، یہ ہدایتِ تشریعی ہے شریعت کی طرف سے احکام لاتے ہیں انبیا عليهم‌السلام، ایک ہدایت ہدایتِ تکوینی ہے؛ فطری ہدایت ہے کہ انسان کے وجود کے اندر یہ ہدایت ودیعت۔ ہدایت تشریعی میں الفاظ ہوتے ہیں، عبارت ہوتے ہیں، متن ہے، آواز کے ساتھ، حروف کے ساتھ جو ہے یہ آپ کے لیے بیان ہوتے ہیں تشریعی۔ ہدایتِ تکوینی کسی آواز اور حروف اس کے ساتھ کلمات کے ساتھ نہیں، آپ کے وجود کے اندر ایک سوجھ بوجھ اور ایک فہم اور ایک سمجھ ودیعت ہے، إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا، وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ،
وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا، فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا
نفس کو اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے سمجھا دیا ہے کہ اس کے فجور کو یعنی کہ جو کام نیک نہیں ہے فجر ہے، وَتَقْوَاهَا اس سے بچنے کا طریقہ، فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا اس کا جو فجور ہے گناہ، اس کو بھی سمجھایا وَتَقْوَاهَا اور اس سے بچنے کا طریقہ بھی سمجھایا، دونوں چیزیں سمجھائیں، یہ ودیعت فرمائی اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے یہ ہدایت فرمائی ہم کو، اس میں اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے پہل کیا۔ اور پھر ایک بہت بڑی کائنات دے دی ہم کو، آسمان مسخر کیا، زمین مسخر کیا ہمارے لیے، اس میں اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے پہل کیا۔ خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا جو کچھ زمین میں ہے وہ تمہارے لیے اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے مسخر کیا ہے یا خلق کیا ہے۔ اس میں بھی اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے پہل کیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ جل جلالہ پہل نہیں کرتا۔ اس کے بعد ارشاد فرماتا ہے؛ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا جو لوگ ہماری راہ میں جد و جہد کرتے ہیں ان کو ہم ہدایت کا راستہ دکھاتے ہیں، نہیں جد و جہد کرتے ہیں نہیں دکھاتا۔ پہل ہم کو کرنا ہوتا ہے اللہ جل جلالہ پہل نہیں کرتا۔ إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ اللہ جل جلالہ کی مدد کرو تو اللہ جل جلالہ تمہاری مدد کرے گا۔ اللہ جل جلالہ یہاں پہل نہیں کرتا فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ تم اللہ تعالیٰ جل جلالہ کو یاد کرو تو اللہ جل جلالہ تمہیں یاد کرے گا۔ اللہ تعالیٰ جل جلالہ پہل نہیں کرتا۔ إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقَانًا اگر تقویٰ اختیار کرو تو اللہ تعالیٰ جل جلالہ تم کو حق و باطل اور نیک و بد میں تمیز کرنے کی طاقت عنایت فرمائے گا۔ یہ تمام مفاہیم اسی طرح ہیں یہاں بھی ِأَنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ جب تک یہ خود نہیں کرتے اللہ تعالیٰ جل جلالہ پہل نہیں کرتا۔ ادھر ایک مسئلہ ہے کہ اس آیت کے تحت انسان مجبور نہیں ہے، انسان کے لیے جو نعمتیں ہوتی ہیں وہ ان کے اپنے ہاتھ سے انسان اپنی تقدیر بناتا ہے۔ اپنی سرنوشت اپنی تقدیر انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اپنے ارادے کے قلم سے انسان اپنی تقدیر کو لکھ لیتا ہے۔ یا اپنے عمل کے قلم اور ارادے کی روشنائی سے اپنی تقدیر خود لکھ لیتا ہے۔ انسان مجبور نہیں ہے۔ اس آیت میں بھی صریحاً ارشاد فرمایا کہ؛ اللہ جل جلالہ جو ہے وہ نعمتوں کو تبدیل نہیں کرتا جب تک یہ خود تبدیل نہیں کرتے۔ سورہ رعد میں بھی ایک آیت ہے وہاں مفصلاً آپ کے لیے بات کریں گے کہ اللہ تعالیٰ جل جلالہ کی طرف سے ایک قانون ہے کہ اگر آپ یہ قانون امتوں کے بارے میں افراد کے بارے میں وہ تفصیلاً ہم وہاں بتائیں گے کہ ایک چیز میں ملازمت ہے تلازم ہے، لازم و ملزوم ہے دوسری چیز میں لازم و ملزوم نہیں ہے۔ اگر آپ اصلاح کرتے ہیں، اصلاحِ احوال کرتے ہیں، ایک قوم کی بات ہے، اجتماعی زندگی کی بات ہے، ایک قوم ہے، اس قوم میں اصلاح احوال ہے، عدل ہے، انصاف ہے، ظلم و زیادتی نہیں ہے، نافرمانی نہیں ہے، ایک دوسرے کا حق نہیں مارتے، اصلاحِ احوال ہے، تو نعمتوں کی فراوانی ہوگی۔ طبیعی ہے، نعمتوں کی فراوانی اس وقت ضروری ہے۔ اصلاح احوال کی صورت میں لازم و ملزوم ہے نعمتوں کی فراوانی۔ بہت سی آیات موجود ہیں کہ اہل کتاب سے کہا کہ اگر وہ تورات و انجیل کے اوپر عمل کرتے تو پھر ان کے اوپر آسمان و زمین، ہر طرف سے نعمتوں کی فراوانی ہو جاتی۔ اصلاحِ احوال کی صورت میں نعمتوں کی فراوانی ضروری ہے۔ لیکن اصلاح احوال نہ ہونے کی صورت میں، فسادِ احوال، معاشرتی صورت حال بدتر ہے، ظلم ہے، زیادتی ہے، ناانصافی ہے، وہاں پر نعمتیں چھن سکتیں ہیں۔ چھن جاتی ہیں، نہیں، چھن سکتیں ہیں۔ اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جل جلالہ کسی سے کوئی نعمت نہیں چھینتا جب تک یہ لوگ اپنی حالت نہیں بدلتے۔ جب حالت بدلتے ہیں، اصلاح احوال کے بعد فساد و فتنہ، اور ناانصافی ظلم و بربریت عام ہو جاتی ہے تو ان سے نعمت چھن جاتی ہے۔ مثلاً احادیث میں ہے کہ السلطان العادل خیر من المطر الوابل عادل انسان جو ہے موسلا دار بارش سے بھی بہتر ہے۔ نعمتوں کی فراوانی ہوتی ہے، ضروری ہے اس وقت لازم و ملزوم ہے، اصلاح احوال کی صورت میں نعمتوں کی فراوانی ضروری ہے۔ لازم و ملزوم ہے ان دونوں میں۔ لیکن اگر اصلاح احوال نہیں ہے، فساد ہے، ناانصافی ہے نعمتیں چھن سکتی ہے، چھن جاتی ہیں نہیں، ضروری نہیں۔ اس لیے ہمارے پاس آیات ہیں کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی مصیبت تم پر آتی ہے تو ذَٰلِكَ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ تو تمہارے اپنے ہاتھ کا کیا دھرا ہے وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ تمہارا ہاتھ کا کیا دھرا ہوتا بھی ہے اور نہیں بھی ہوتا، اس لیے اللہ تعالیٰ جل جلالہ معاف کرتا ہے، ضروری نہ ہوا۔ اس نکتے کو یاد رکھو، آگے ہم سورہ رعد میں تفصیلاً بتائیں گے؛ أَنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ کی تفسیر میں تفصیلاً ہم بیان کریں گے یہاں لازم و ملزوم ہے اور ادھر لازم و ملزوم نہیں ہے۔ یعنی اصلاح احوال کی صورت میں، نعمتوں کی فراوانی۔ اس آیت مطمع نظر یہی ہے۔ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ نعمتِ زندگی، زندگی بھی ایک نعمت ہے، امن و سکون بھی ایک نعمت ہے۔ امن و سکون اور زندگی کی نعمت بھی چھن جاتی ہے۔ فرعون کی قوم غرق ہو گئی۔ اور مشرکین مکہ قتل اور رسوا ہو گئے، ان سے امن چھن گیا۔ مختلف قوموں کے لیے امن ملتا ہے، امن نہیں ملتا، نا امنی ہے، امن ہے وہ خود ان کے اپنے ہاتھ کا کیا دھرا ہے۔ خود ان کا اپنے کسی نعمت کا چھن جانا، یہ اس میں خود وہی قوم، یہ عَلَىٰ قَوْمٍ اجتماعی مسئلہ ہے، فردی مسئلہ نہیں ہے، ایک نظام کا مسئلہ ہے کہ اگر کوئی نظام اس طرح ہو، کوئی قوم اس طرح کی ہو، ہم اپنے معاصر قوموں میں سے بہت سے قوموں کو دیکھ رہے ہیں ہم اپنی قوم کو بھی دیکھ رہے ہیں کہ امن کی جو نعمت ہے ہم سے ایک حد تک چھن گئی ہے تو وہ اس لیے چھن گئی ہے کہ ہم خود نا انصافی کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اور جان سے مار دیتے ہیں جن کا جرم ان کا عقیدہ ہے۔ ہر عقیدہ جرم نہیں ہوتا۔ عقیدہ میں آزادی ہوتی ہے۔ عقیدہ صحیح اور باطل ہوتا ہے۔ عقیدہ کی وجہ سے جرم نہیں ہوتا۔ اگر کافر ہے تو بھی نہیں مارا جاتا۔ لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ خدا نہی نہیں کرتا، روکتا نہیں ان لوگوں کے بارے میں جن لوگوں نے تم سے لڑائی نہیں کی، تم کو اپنے گھروں سے نہیں نکالا أَنْ تَبَرُّوهُمْ ان کے احسان کرو، نیکی کرو اس سے نہیں روکتا۔ وَتُقْسِطُوا ان کے ساتھ انصاف کرو۔ انصاف کرنے اور احسان کرنے۔ ۔۔ انصاف تو ایک انسانی مسئلہ ہے، کافر مسلم سب کو ملنا ہوتا ہے۔ لیکن أَنْ تَبَرُّوهُمْ ان کے اوپر احسان کرنے سے اللہ جل جلالہ نہیں روکتا۔ ان کافروں سے جو تمہارے سے لڑائی نہیں کرتا۔ وہ اپنے ایک عقیدے کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان کا عقیدہ باطل ہے آپ کے نزدیک۔ عقیدہ باطل ہونے کی وجہ سے اس سے زندگی کا حق نہیں چھین سکتے آپ۔ آپ کے اوپر قرآن میں جا بجا ہے کہ اگر وہ امن سے رہتے ہیں تو آپ کو حق نہیں ہے۔ ہم کسی مناسب موقع کے اوپر القتل غیلۃ کے اوپر بیان کیا کریں گے۔ بہر حال یہاں پر جو امن ہم سے چھن جاتا ہے وہ اس وجہ سے؛ قومی مسئلہ ہے۔ قومی مسئلہ میں کیا ہوتا ہے وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً اس فتنے سے بچو جو صرف ظالموں کو اپنے لپیٹ میں نہیں لیتا سب کو لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اجتماعی مسئلہ ہے اجتماعی مسئلے میں فرد کا کردار جو ہے وہ مؤثر نہیں ہوتا۔ قوم میں کچھ لوگ آتے ہیں اور پھر اس کے لپیٹ میں پوری قوم آ جاتی ہے۔ قوموں کی تقدیر قوموں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اور ان کے لیے نعمت کی فراوانی بھی ان کے ہاتھ میں ہے۔ اور نعمتوں کا چھین جانا بھی ان کے اپنے شامتِ اعمال کی وجہ سے ہے۔ وَ أَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ اللہ تعالیٰ جل جلالہ تمہاری آوازوں کو خوب سننے والا ہے تمہارے کردار کو بھی خوب دیکھنے والا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ اللہ جل جلالہ نے تمہاری بات نہیں سنی اور سننے سے پہلے تمہاری حالت بدل ڈالی۔ تمہارے حال احوال کا علم نہیں ہوا اور علم ہونے سے پہلے تمہارا حال احوال بدل دی، اور تم سے نعمتیں چھین لی، ایسا نہیں ہو سکتا۔ اللہ جل جلالہ سمیع ہے اللہ جل جلالہ علیم ہے۔ وہ تم سے بہتر تمہارے حال سے واقف ہے۔ جب تک تم اپنے اندر تغیر اور تبدیلی پیدا نہیں کرو گے اللہ تعالیٰ جل جلالہ پہل نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ جل جلالہ پہل کرے تو نا انصافی ہو جائے گی۔ یا اللہ تعالیٰ جل جلالہ پہل کرے سب کو ایک جیسی نعمت کرے تو ایک نا معقول کائنات وجود میں آ جائے گی۔ سب ایک جیسے ہیں، کام کرنے والے بھی نہ کرنے والے بھی، محنت کرنے والے بھی نہ کرنے والے بھی، عمل کرنے والے بھی نہ کرنے والے بھی۔ فاسق بھی وہی، فاجر بھی وہی، عابد بھی وہی، نیک بھی وہی، بد بھی وہی۔ اللہ جل جلالہ پہل کرے گا تو سب کو دے گا۔ سب کو نہیں دے گا کچھ کو دیں گے کچھ کو نہیں دیں گے تو اس امتیاز کی وجہ کیا ہوگی؟ کوئی عمل! تو پھر کوئی عمل وجہ امتیاز ہے، ابھی جیسے موجودہ کائنات میں یہ ہے کچھ کو اللہ تعالیٰ جل جلالہ دیتا ہے کچھ کو نہیں دیتا۔ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے ہدایت نہیں دیتا۔۔۔ کس کو ہدایت دیتا ہے؟ جو اس کا اہل ہے، لائق ہے، اس کو اس لائق ہے، ہدایت دیتا ہے جو اس لائق نہیں ہے اس کا اہل نہیں ہے اس کو نہیں دیتا۔ جو لائق ہے اس کو نعمت دیتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو نعمت کے اہل نہیں بناتا۔ نظام خراب کر تا ہے، ظلم و زیادتی اور بربریت جو ہے اس کو عام کرتا ہے، معاشرے میں نا انصافی عام ہو جاتی ہے۔ ظلم عام ہوتا ہے۔ نعمتِ امن چھن جاتا ہے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ