تفسیر قرآن سورہ ‎الأنفال‎ آیات 36 - 39

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ لِیَصُدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ فَسَیُنۡفِقُوۡنَہَا ثُمَّ تَکُوۡنُ عَلَیۡہِمۡ حَسۡرَۃً ثُمَّ یُغۡلَبُوۡنَ ۬ؕ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی جَہَنَّمَ یُحۡشَرُوۡنَ ﴿ۙ۳۶﴾
جنہوں نے کفر اختیار کیا وہ اپنے اموال (لوگوں کو) راہ خدا سے روکنے کے لیے خرچ کرتے ہیں، ابھی مزید خرچ کرتے رہیں گے پھر یہی بات ان کے لیے باعث حسرت بنے گی پھر وہ مغلوب ہوں گے اور کفر کرنے والے جہنم کی طرف اکٹھے کیے جائیں گے۔
لفظ صَدَّ رکاوٹ ڈالنے اور روکنے دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس آیت کے شان نزول کے بارے میں متعدد اور مستند تفاسیر میں ابن عباس، مجاہد، سعید ابن جبیر و غیرھم سے روایت ہے کہ یہ آیت ابو سفیان کے بارے میں نازل ہوئی جب وہ شام سے تجارتی کافلہ لے کر مکہ واپس جارہا تھا۔ اور راستے میں اس ابوسفیان کے قافلے پر مسلمانوں کی طرف سے حملہ کا خطرہ تھا کیونکہ وہ مدینہ کے قریب سے گزر رہے تھے۔ اس خطرے کی وجہ سے ابوسفیان نے مکہ سے ایک کمک منگوائی اور مکہ سے ایک بہت بڑا لشکر چلا اور جنگ بدر کا واقعہ وجود میں آگیا۔ جنگ بدر میں مشرکین کو زبردست ہزیمت اٹھانا پڑی۔ یہ بات آپ کے علم میں ہونی چاہیے کہ مکہ کے بڑے بڑے لوگ جیسے ابوجہل وغیرہ ان کے مارے جانے سے پہلے ابوسفیان کی کوئی خاص حیثیت نہیں تھی یعنی بڑوں میں شمار نہیں ہوتے تھے لیکن ان بڑے بڑے سرداروں کے قتل ہو جانے کے بعد پھر ابوسفیان نے اس مسئلے کو آگے چلایا۔ مسلمانوں کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے ابوسفیان نے ذمہ داری اٹھا لی۔ لہٰذا ابوسفیان نے اپنا بہت سا مال خرچ کیا بعض تفاسیر میں اس مال کی مقدار کو بھی بیان کیا گیا کہ اتنا سونا چاندی خرچ کیا تھا۔ جبکہ اس کی زوجہ کے بقول ابوسفیان ایک بہت بڑا بخیل تھا اور اپنا مال خرچ نہیں کرتا تھا لیکن اس معاملے میں اس نے بہت بڑا مال خرچ کیا۔
اسی سلسلے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ یہ لوگ لوگوں کو راہ خدا سے روکنے کے لیے اور راہ خدا میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لیے مال خرچ کرتے ہیں فَسَیُنۡفِقُوۡنَہَا اور مال خرچ کریں گے۔ یہاں پر قرآن نے پیشین گوئی بھی فرمائی ہے کہ یہ لوگ آئندہ بھی مسلمانوں کے خلاف بہت مال خرچ کریں گے۔ لیکن یہ ان کا مال خرچ کرنا باعث حسرت ہوگا اور وہ شکست کھا جائیں گے۔ چنانچہ آنے والی جنگوں میں بھی وہ شکست سے دوچار ہوتے رہے۔ پس قرآن کریم کی پیشین گوئی بھی ثابت ہوگئی۔ آگے ارشاد ہوتا ہے کہ
لِیَمِیۡزَ اللّٰہُ الۡخَبِیۡثَ مِنَ الطَّیِّبِ وَ یَجۡعَلَ الۡخَبِیۡثَ بَعۡضَہٗ عَلٰی بَعۡضٍ فَیَرۡکُمَہٗ جَمِیۡعًا فَیَجۡعَلَہٗ فِیۡ جَہَنَّمَ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ﴿٪۳۷﴾
تاکہ اللہ ناپاک کو پاکیزہ سے الگ کر دے اور ناپاکوں کو ایک دوسرے کے ساتھ باہم ملا کر یکجا کر دے پھر اس ڈھیر کو جہنم میں جھونک دے، (دراصل) یہی لوگ خسارے میں ہیں۔
یہ جو لوگ مسلمانوں کے خلاف مال خرچ کرتے ہیں حقیقت میں تو اسلام کو مغلوب کرنے کے لیے خرچ کرتے ہیں لیکن ہوگا یہ کہ جیسے فرعون نے حضرت موسیٰ عليه‌السلام کو اپنے خلاف ایک قوت بننے کے لیے پالا۔ اگرچہ فرعون کا قصد اور ارادہ نہیں تھا کہ موسیٰ بڑے ہوکر اس کے خلاف قوت بن کے ابھرے گا لیکن آگے اس کا نتیجہ یہی ہونا تھا۔ گویا کہ فرعون اپنے خلاف کام کر رہا تھا۔ یہاں بھی مشرکین مال خرچ کررہے ہیں وہ بھی اپنے خلاف کیونکہ ان کے مال خرچ کرنے سے نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک تو یہ ان کی شکست کا باعث بنے گا۔ دوسرا خبیث اور طیب جدا جدا ہو جائیں گے۔ لِیَمِیۡزَ اللّٰہُ الۡخَبِیۡثَ مِنَ الطَّیِّبِ یعنی اس کے نتیجے میں فائدہ یہ ہوگا کہ پاکیزہ اور ناپاک لوگ جدا جدا ہو جائیں گے۔ کیونکہ اگر کوئی جنگ وغیرہ نہ ہوتی اور امن ہوتا تو پھر پتہ نہ چلتا کہ کون دشمن اسلام ہے اور کون دشمن اسلام نہیں ہے۔ ان جنگوں کی وجہ سے اور ان لوگوں کے مال خرچ کرنے کی وجہ سے ان خبیث اور طیب میں تمیز آگئی۔
وَ یَجۡعَلَ الۡخَبِیۡثَ بَعۡضَہٗ عَلٰی بَعۡضٍ اور یہ کہ خبیثوں کو ایک پلیٹ فارم مل جائے اور وہ سب جمع ہو جائیں۔ کیونکہ اگر مال خرچ نہ ہوتا تو کسی نے بھی ان کی طرف رخ نہیں کرنا تھا اور اس مال کے خرچ کرنے سے اور مال کو دیکھ سب خبیث ایک جگہ جمع ہوگئے۔
فَیَرۡکُمَہٗ جَمِیۡعًا رکام کہتے ہیں ایک جگہ ڈھیر بننے کو۔ پھر وہ سب لوگ ایک جگہ ڈھیر بن گئے۔ یعنی سب لوگ ایک جگہ جمع ہوگئے اور سب لوگ ایک ساتھ شکست کھا گئے۔ جس طرح دنیا میں ایک جگہ جمع ہوگئے تھے اور ایک جگہ ڈھیر بن گئے تھے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بھی ان سب لوگوں کہ ایک جگہ ان سب لوگوں کو جمع کرکے ڈھیر بنائے گا اور ایک ساتھ سب کو جہنم میں ڈال دے گا۔
قُلۡ لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ یَّنۡتَہُوۡا یُغۡفَرۡ لَہُمۡ مَّا قَدۡ سَلَفَ ۚ وَ اِنۡ یَّعُوۡدُوۡا فَقَدۡ مَضَتۡ سُنَّتُ الۡاَوَّلِیۡنَ﴿۳۸﴾
کفار سے کہدیجئے کہ اگر وہ باز آ جائیں تو جو کچھ پہلے(ان سے سرزد) ہو چکا اسے معاف کر دیا جائے گا اور اگر انہوں نے (پچھلے جرائم کا) اعادہ کیا تو گزشتہ اقوام کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ (ان کے بارے میں بھی) نافذ ہو گا۔
یہ دیکھیں پھر بھی اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف مال خرچ کرتے ہیں، جنگیں کرتے رہے ہیں اور ان سے مسلمانوں کے خلاف جو کچھ ہوسکتا ہے وہ کرتے رہے ہیں پھر بھی اللہ تعالیٰ نے ان کے اوپر اپنی رحمت کا دروازہ بند نہیں کیا۔ بلکہ ان لوگوں کے لیے ابھی تک گنجائش ہے جیسے آیت میں فرمایا قُلۡ لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ یَّنۡتَہُوۡا یُغۡفَرۡ لَہُمۡ مَّا قَدۡ سَلَفَ یعنی اگر یہ کافر اتنا کچھ کرنے باوجود ابھی بھی باز آجائیں تو ان کو معاف کیا جائے گا۔ جیسے حضرت حمزہ کے قاتل کو حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معاف کردیا تھا البتہ اتنا کہا کہ آپ میرے سامنے نہ آؤ تاکہ میری نظر تیرے چہرے پر نہ پڑے۔
یُغۡفَرۡ لَہُمۡ مَّا قَدۡ سَلَفَ ان کو معاف کیا جائے گا جو جرائم وہ پہلے کر چکے ہیں۔ اب یہاں یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ معاف کرنا کس معنوں میں ہے۔ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے وَاِنۡ آمَنُوا نہیں کہا یعنی اگر وہ ایمان لے آتے ہیں تو یُغۡفَرۡ لَہُمۡ ان کو معاف کردیا جائے گا۔ تو معاف کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ ان کے ایمان کی وجہ سے ان کے شرک اور کفر کا اور مسلمانوں کے خلاف لڑنے کا جو گناہ ہے وہ دھل کر صاف ہوجائے۔ کیونکہ خود ایمان گناہوں کو ختم کر دیتا ہے۔ یعنی اگر ایک شخص پوری زندگی کفر اور شرک کے اوپر رہا اور مرنے سے ایک دن پہلے دل سے ایمان لے آتا ہے تو اس کے تمام گناہ اور شرک وغیرہ دھل جاتے ہیں تو پھر وہ مومن مرتا ہے۔ لیکن یہاں ایمان کا ذکر نہیں ہے اِنۡ یَّنۡتَہُوۡا اگر وہ باز آجائیں اس کا ذکر ہے۔ یعنی اگر یہ لوگ باز آجائیں تو ان کو معاف کیا جائے گا۔چنانچہ فتح مکہ کے بعد حنین کی جنگ سامنے آگئی اور اس جنگ حنین کے بعد کوئی جنگ نہیں رہی کیونکہ مشرکین کی طاقت ختم ہوگئی اس وقت ان کو مَّا قَدۡ سَلَفَ کی سزا میں ان کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ رہنے دیا جائے گا اور اگر اسلام کی صفوں میں آتا ہے تو آنے دیا جائے گا۔ لیکن اگر ایمان لے آتا ہے تو اس کا گناہ مٹ جاتا ہے۔ اور اگر ایمان نہیں ہے صرف اسلام ہے تو اس کو چھوڑ دیا جائے گا۔ جہاں اسلام اور ایمان دونوں کا ذکر آتا ہے تو وہاں اسلام عدم انکار کا نام ہے اور ایمان سے مراد دل سے کسی چیز کو تسلیم کرنا ہے۔
لیکن اگر یہ لوگ باز آ جاتے ہیں پھر جنگ نہیں لڑتے اور راہ خدا سے لوگوں کو نہیں روکتے خواہ وہ ممکن نہ ہونے کی وجہ سے ہو یا ناکام ہونے کی وجہ سے ہو۔ ان کو چھوڑ دیا جائے گا جیسے فتح مکہ کے بعد اور جنگ حنین کے بعد مشرکین میں طاقت رہی نہیں تو پھر یُغۡفَرۡ لَہُمۡ ہو گیا۔ یعنی انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا اگر وہ مسلمانوں کے صفوں میں آنا چاہیں تو آنے دیا جائے گا رہن سہن کی اجازت دے دی جائے گی۔ لہذا یہاں اِنۡ یَّنۡتَہُوۡا کے بعد یُغۡفَرۡ لَہُمۡ مَّا قَدۡ سَلَفَ سے مراد ان کو دنیوی اعتبار سے درگزر کرنا ہے اور مسلمانوں کے صفوں میں رہنے دینا ہے۔ وَ اِنۡ یَّعُوۡدُوۡا فَقَدۡ مَضَتۡ سُنَّتُ الۡاَوَّلِیۡنَ اور اگر انہوں نے (پچھلے جرائم کا) اعادہ کیا تو گزشتہ اقوام کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ (ان کے بارے میں بھی) نافذ ہو گا۔
مختلف اقوام جو انبیاء عليهم‌السلام کے خلاف لڑتے رہے اور باز نہیں آتے تھے۔ بالآخر وہ بھی مٹ گئے تھے اور تم بھی مٹ جاؤ گے۔
وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ فَاِنِ انۡتَہَوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ﴿۳۹﴾
اور تم لوگ کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سارا اللہ کے لیے خاص ہو جائے، پھر اگر وہ باز آ جائیں تو اللہ یقیناً ان کے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے۔
ہم نے پہلے بھی کہا ہے کہ لَاۤ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ کے سلسلے میں کہ اسلام کی تمام جنگیں دفاعی تھیں اور فتنہ کے خلاف جنگیں تھیں۔ اسلام کی جنگ کسی کی آزادی کو سلب کرنے کے لیے جنگ نہیں تھی بلکہ سلب شدہ آزادی کے حصول کے لیے جنگ تھی۔ اسلام کی جنگیں کسی فتنہ اور فساد کو برپا کرنے کے لیے نہیں لڑی گئی تھی۔ بلکہ اسلام کی جنگیں فتنہ اور فساد کو ختم کرنے کے لیے لڑی گئی تھیں۔ اگر فتنہ نہیں ہے تو مسلمان کسی کو کچھ نہیں کہتے اور کسی کے اوپر جبر نہیں کیا جائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَ قَاتِلُوۡہُمۡ ان کے ساتھ لڑائی کرو حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ فتنہ ختم ہونے تک۔ لفظ حتی اگر کسی محسوس چیز کے لیے آتا ہے تو یہ انتہا بتانے کے لیے آتا ہے۔ جیسے ایک مثال بھی مشہور ہے کہ أكلت السمكة حتى رأسها اور غیر محسوس چیز کے لیے حتی آتا ہے تو یہ علت اور سبب بیان کرنے کے لیے آتا ہے۔ جیسے یہ آیت ہے۔ وَ لَا یَزَالُوۡنَ یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ حَتّٰی یَرُدُّوۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِکُمۡ اِنِ اسۡتَطَاعُوۡا وہ تم سے لڑتے رہیں گے تاکہ اگر ان سے ہوسکے تو وہ تم کو دین سے پھیر دیں۔اس آیت میں حتی علت بتانے کے لیے آیا ہے۔ اور یہاں بھی بالکل اسی طرح ہے کہ وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ ان کے ساتھ لڑائی کرو تاکہ فتنہ ختم ہوجائے۔ یہاں بھی حتی علت بتانے کے لیے آیا ہے۔ علت یہ ہے کہ فتنہ ختم ہونے تک۔ فتنہ کیا ہے؟ اس فتنہ کے بارے میں قرآن میں بہت ذکر آیا ہے۔ فتنہ اشد بھی ہے اور اکبر بھی ہے۔ قتل سے فتنہ اکبر بھی ہے اور اشد بھی ہے۔ فتنہ کا لغوی معنیٰ یہ ہے کہ سونے کو آگ میں تپا دیا جائے تاکہ کھرے اور کھوٹے جدا ہو جائیں۔ جیسے ایک آیت بھی ہے یَوۡمَ ہُمۡ عَلَی النَّارِ یُفۡتَنُوۡنَ کفار کے بارے میں ہے کہ اس دن ان کو آگ میں تپا دیا جائے گا۔ یہاں سے پتہ چل سکتا ہے کہ آگ میں تپانے کو فتنہ کہتے ہیں۔ یہاں سے انسان کو آزمائشی مراحل سے گزارنے کو بھی فتنہ کہتے ہیں۔ فتنہ کا مترادف لفظ فساد کے لیے بھی فتنہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔
یہاں اللہ تعالیٰ یہ حکم دے رہا کہ ان مشرکین کے ساتھ لڑائی کرو تاکہ فتنہ ختم ہو جائے۔ یہاں لڑائی کے سلسلے میں بتایا کہ اسلام میں جو لڑائی کی جاتی ہے وہ کسی کی آزادی کو سلب کرنے کے لیے نہیں لڑی جاتی بلکہ دفاع اور فتنہ کو ختم کرنے کے لیے لڑی جاتی ہے۔ اور جیسا کہ مشرکین اور غیر مسلم کا اعتراض ہے کہ اسلام میں دین تلوار کے زور پر پھیلا ہے۔ یہ اصلاً ایسی بات نہیں ہے بلکہ یہ جنگ فتنہ کو ختم کرنے کے لیے لڑی جاتی ہے۔ اگر کوئی گروہ جو ایمان بھی نہیں لاتا ہے اور فتنہ بھی نہیں کرتا اس کے لیے اسلام جنگ نہیں کرتا۔ اسلام کے سامنے دو قسم کے لوگوں کا قتال کیا جائے گا ایک تو مشرکین ہیں اور دوسرا اہل کتاب ہیں جو ہمیشہ اسلام کے خلاف فتنہ برپا کرتے رہے ہیں۔ لیکن اسلام کا رویہ ان دو گروہوں (مشرکین اور اہل کتاب) کے ساتھ مختلف ہے۔ مشرکین کے بارے میں فرمایا کہ ان کے ساتھ لڑو فتنہ ختم ہونے تک اور اہل کتاب کے بارے میں فرمایا کہ جنگ کرو یہاں تک کہ وہ جزیہ ادا کریں۔