تفسیر قرآن سورہ ‎الأنفال‎ آیت 29

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ فُرۡقَانًا وَّ یُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ﴿۲۹﴾
اے اہل ایمان اگر تم اللہ سے ڈرو تو وہ تمہیں حق و باطل میں تمیز کرنے کی طاقت عطا فرمائے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف مٹا دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
تقوی کے سلسلے میں یہ اہم ترین آیت ہے کہ تقوی کے اثرات کیا نتائج اور کیا ثمرات ہوتے ہیں اور تقوی انسان کے لیے کس قدر ضروری امر ہے اور نہج البلاغۃ کا تھوڑا سا مطالعہ کرنے والا دیکھتا ہے کہ شروع سے لیکر آخر تک مولا جگہ جگہ اتَتَّقُوا اللّٰہَ، اتَتَّقُوا اللّٰہَ تقوی کی تاکید اور سفارش کیوں فرماتے ہیں تقوی وقایہ سے ہے وقایہ بچنا تقوی بچنے کو کہتے ہیں اور بچنے والا چونکہ خوف کرتا ہے خطرات سے بچنے والا خطرے کا خوف کرتا ہے۔ اس لیے عموماً تقوی کا ترجمہ خوف سے کیا جاتا ہے۔ اتَتَّقُوا اللّٰہَ اللہ سے خوف کرو اللہ سے بچو کہنا محاورے میں صحیح نہیں بنتا اس لیے یہ ترجمہ کیا جاتا ہے اللہ سے خوف کرو۔ والّا تقوی کا مطلب یہ ہے بچو اپنے بچاؤ کرو۔ بچاؤ کا مطلب کیا ہوتا ہے یا اللہ سے بچاؤ یا اللہ سے ڈرو خوف کرنے کا کیا مطلب ہوتا ہے اللہ مہربان ذات ہے۔ کَتَبَ رَبُّکُمۡ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ اس نے اپنی ذات پر رحمت کو واجب گردانا ہے تو کریم رحیم ذات ہے اس سے کیوں ڈرے ہم؟ ہم اپنے ماں باپ سے ڈرتے ہیں نہیں ڈرتے ہیں ماں سے نہیں ڈرتے باپ سے نہیں ڈرتے، دو لمحوں کے لیے ہم کہتے ہیں مہربان ہے ماں باپ ان سے نہیں ڈرتے ہیں ان سے پیار و محبت کی توقع رکھتے ہیں تو اللہ سے کیوں ڈرے ہم ؟ وہ ارحم الراحمین ہے۔ جواب یہ ہے کہ آپ ماں باپ سے بھی نہیں ڈرتے اللہ سے بھی نہیں ڈرتے، اللہ بہت شفیق، رحیم اور مہربان رب ہے درست ہے والدین بھی آپ کے مہربان ہیں لیکن والدین کے مہربان کا مطلب یہ ہے کہ والدین آپ کو بے لگام چھوڑ دے آپ جو چاہے کرے اور پھر آپ کو والدین کا کوئی بھی خوف نہ ہو خوف ہوتا ہے۔ کون کہتا ہے والدین کا خوف نہیں ہوتا آپ کو بہت خوف ہوتا ہے۔ والدین جتنا شفیق ہوگا اتنا ہی آپ کی ہر نشست و برخاست کے اوپر نظر رکھے گا اور اگر آپ سے کوئی غلطی سرزد ہوتی ہے کوئی لغزش سرزد ہوتی ہے تو آپ ڈرتے ہیں والدین سے کیوں نہیں ڈرتے بہت ڈرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ہے اللہ تعالیٰ کی ذات کریم ہے، رحیم ہے اس سے نہیں ڈرایا جاتا انسان اپنی لغزشوں کی وجہ، اپنی غلطیوں کی وجہ سے اور اپنے گناہوں کی وجہ سے خوف کرتا ہے۔ فالواقع خوف اپنی لغزشوں کا، اپنی غلطیوں کا اور اپنے گناہوں کا خوف ہوتا ہے نہ اللہ کا خوف، اللہ غفور و رحیم ہے۔ آپ گناہ نہ کرے لغزش نہ کرے ایک بات۔
لہذا تقوی اپنے بچاؤ کرنا ان خطرات سے جو آپ کی زندگی کے لیے اور آخرت کی زندگی کے لیے اور اس ہمیشہ کی زندگی کے لیے خطرے کی چیزیں ہیں جو راہ تعین کیا ہے آپ کے لیے ایک عبد ہونے کے اعتبار سے اور اس زندگی کو دار ابتلاء، دار امتحان اور آزمائش کی زندگی ہونے کے اعتبار سے اور اصل مقصد زندگی آخرت ہے اور وہاں پر آپ کو سزا و جزا کا مقابلہ کرنا ہے اس اعتبار سے اس انسان کو بچاؤ کرنا ہوتا ہے۔ کیوں بچاؤ کرنا ہوتا ہے اس لیے کہ یہ انسان بڑے زبردست خطرے میں گھیرے ہوئے ہوتے ہیں انسان کو ہر طرف سے خطرہ ہوتا ہے۔ سب سے بڑا خطرہ اپنی نفس ہوتی ہے نفس سے انسان کو سب سے زیادہ خطرہ اپنے نفس کے اندر سے آتا ہے اور اگر شیطان انسان پر حملہ کرتا ہے تو اسی نفس کے ذریعے حملہ کرتا ہے اس کا بھی ذریعہ نفس ہے اس کا بھی اوزار و حربہ جو استعمال کرتا ہے وہ بھی نفس ہے سب سے مار آستین آپ کے لیے آپ کی نفس ہے اس بات پر گفتگو ہوتی رہی پہلے بھی آج دوبارا اس کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ آیت میں فرمایا اِنۡ تَتَّقُوا اللّٰہَ اگر تقوی اختیار کرو اپنے بچاؤ کرو تو اس تقوی کے آثار و ثمرات میں سے ایک اہم ثمرہ یہ ہے بہت سے ثمرات کا ذکر ہے خود قرآن میں لیکن ان میں سے اہم ثمرہ جو ہے وہ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ فُرۡقَانًا اللہ تعالی تمہارے لیے حق و باطل میں تمیز کرنے کی طاقت عنایت کرے گا، بینش دے گا، سوجھ بوجھ دے گا سمجھ دار بن جاؤ گے۔ بے وقوفی نہیں کرو گے فرقان عنایت ہوگا اگر تقوی کرتا ہے فرقان عنایت ہوگا کیسے فرقان عنایت ہوتا ہے تقوی اور فرقان میں ربط کیا ہے ربط وہی نفس سے ہے اس نفس کے بارے میں قرآن مجید میں یے ایک آیت میں فرمایا ونفس وما سوّاھا اور قسم ہے اس نفس کی اور اس ذات کی جس نے اس نفس کو بنائی ہے اور بنانے کے بعد فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا اور اس نفس کو سمجھایا ہے اللہ تعالیٰ نے الھم الہام کیا ہے سمجھایا ہے الہام اور وحی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ وحی میں الفاظ و آواز ہوتی ہے الہام الفاظ و آواز پر مشتمل نہیں ہوتا الہام مطلب اور معانی کو ذہن میں ڈال دیا جاتا ہے وہاں سوجھ بوجھ اس کے اندر ودیعت کی جاتی ہے جس کو ہدایت تکوینی کہتے ہیں یعنی قانونی ہدایت نہیں ہے یہ تخلیقی ہدایت ہے تخلیق کے ساتھ ساتھ البتہ تخلیق کے ماورا میں یہ ہدایت ودیعت کی جاتی ہے تخلیق کے ماورا میں، اس آیت میں ہے نا رَبُّنَا الَّذِیۡۤ اَعۡطٰی کُلَّ شَیۡءٍ خَلۡقَہٗ ثُمَّ ہَدٰی ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو خلقت عنایت فرمائی اور پھر ہدایت ودیعت کی ہے تخلیق کے ماورا میں ایک ہدایت ہے جو یہاں ودیعت ہوتی ہے اس کو الہام کے نام سے اس آیت میں فرمایا فالہمھا سمجھا دیا اس کو اس نفس کو فجور بھی سمجھا دیا بدی بھی اور برائی بھی سمجھا دی وتقواھا اور اس سے بچنے کا طریقہ بھی سمجھا دیا دو چیزیں ہیں اس انسان کے اندر شر بھی ہے اس نفس کے اندر خیر بھی ہے اس نفس کے اندر۔ نفس لوامۃ کہتے ہیں اس خیر والی نفس کو اور نفس امارۃ کہتے ہیں اس شر والی کو، دونوں اس کے اندر ہے چونکہ یہ انسان آزمائش اور امتحان کے لیے اور عقل دے کر کے اس بھیجا ہے اس لیے دونوں راستے اس کے سامنے ہوتے ہیں اِنَّا ہَدَیۡنٰہُ السَّبِیۡلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوۡرًا دو راستے انسان کے سامنے رکھے جاتے ہیں وَ ہَدَیۡنٰہُ النَّجۡدَیۡنِ وَ ہَدَیۡنٰہُ انسان کو ہم نے رہنمائی کیا ہے نجدین دو رستوں کی ہدایت کی یعنی راہ خیر اور راہ شر دونوں دکھا دیا یہ دونوں اس انسان کی نفس کے اندر موجود ہے۔ خیر بھی وجود ہے بہت بڑا شیطان بھی بیٹھا ہوا ہوتا ہے یہاں پر اور بہت بڑا فرشتہ بھی بیٹھا ہوتا ہے۔ اور نمرود و ہامان بھی یہاں بیٹھا ہوا ہوتا ہے اور اس کے مقابلے میں مومن جانثار اور فدا کار انسان بھی اس نفس کے اندر بیٹھا ہوا ہوتا ہے۔ شمر بھی اسی نفس کے اندر بیٹھا ہوا ہوتا ہے حبیب ابن ظاہر اور حر بن یزید ریاحی بھی بیٹھا ہوا ہوتا ہے۔ اس نفس کے اندر دونوں کے یہاں پر۔ یہ نفس جو انسان کے لیے سب سے بڑا دشمن ہے دشمن مبین اس لیے حدیث میں ہے نا کہ سب سے بڑا مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کے مقابلے میں جہاد کرتا ہے خواہشات نفسانی کے مقابلے میں جہاد کرتا ہے۔ اس کو رسول کریم نے جہاد اکبر کہا تھا مال غنیمت کے سلسلے کو، یہ نفس کی خواہشات جو ہے وہ بہت بڑا دشمن ہوتا ہے آپ کے لیے، اس میں خیر و شر دونوں موجود ہیں اس نفس کے اندر اگر ایک شخص جس میں خیر و شر دونوں کی صلاحیت موجود ہے دونوں کے لیے استعداد موجود ہے دونوں کے لیے قابلیت موجود ہے خیر اور شر میں سے جس پہلو کو موقع دیا جاتا ہے پرورش پاتا ہے یہ پہلو وہ سر اٹھاتا ہے نمایاں ہو جاتا ہے اور دوسرا جو ہے وہ دھب جاتا ہے دوسری طرف جو ہے وہ دھب جاتی ہے اگر ایک شخص ہے اس کے اندر، ہر شخص کے اندر خیر و شر ہوتا ہے البتہ فرق کرتا ہے کسی کے اندر شر کا رجحان زیادہ ہوتا ہے کسی کے اندر خیر کا رجحان زیادہ ہوتا ہے یہ فرق اس کی طینت و خلقت میں بھی جس کو آج کل جنیٹک کہتے ہیں۔ اس کے جنیٹک میں بھی یہ ودیعت ہے کہ اس کے اندر شر کا رجحان زیادہ ہے۔ جس کے اندر شر کا رجحان زیادہ ہے وہ خیر کرتا ہے تو اس کا ثواب زیادہ ہوتا ہے۔ جس کے اندر خیر کا رجحان زیادہ کرتا ہے تو وہ شر کرتا ہے تو اس کا گناہ زیادہ ہو جائے گا۔ ایک حدیث ہے جس کے اور میں ایک دن مشروحاً گفتگو کروں گا اس میں ارشاد فرمایا لو علم الناس كيف خلق الله الخلق لم يلم أحد أحدا اور اگر لوگوں کو پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو کس طرح خلق کی ہے تو کوئی کسی کی ملامت نہ کرتا اگر کسی سے شر صادر ہوتا ہے تو کہتا ہے ہاں بھئی اس نے تو شر ہی کرنا تھا اس کے وجود میں اس کی طینت میں، ہم لوگ احادیث میں طینت کے ساتھ تعبیر کرتے ہیں، فطرت کے ساتھ بھی تعبیر کرتے ہیں، مزاج و طبیعت اور سرشت کے ساتھ بھی تعبیر کرتے ہیں۔ اسی رجحان کو اس کی سرشت خراب ہے کہتے ہیں ہم لوگ اس کی طبیعت خراب ہے اس بات کی طرف ہم بہت سی تعبیرات خود بھی رکھتے ہیں۔
لہذا اگر ایک شخص کے اندر شر کا رجحان زیادہ ہے اور وہ خیر کرتا ہے ثواب زیادہ ملے گا۔ ایک شخص کے اندر خیر کا رجحان زیادہ ہے گناہ کرتا ہے تو گناہ زیادہ ملے گا ہر شخص کو اس کے مزاج اس کی طینت اس کی طبیعت جس پر اللہ تعالیٰ نے اس کو خلق کیا ہے اس کا امتحان اس کے حساب سے ہوجائے گا۔ اور اس امتحان کے حساب سے اس کو ثواب ملے گا اب ایک شخص ہے جس کی نفس کے اندر خواہش پرستی جو ہے وہ رچی بسی ہے زبردست ہے طاقتور ہے اس کی خواہش پرستی اور وہ اپنی اس خواہش پرستی کو کنٹرول کرتا ہے کبھی بھی اس کو اس نے سرکشی کرنے کی اجازت نہیں دی یہ بڑا مقام حاصل کرے گا۔ اور اگر دوسرا آدمی جس کو سرکشی کی اتنی خواش نہیں ہے بھولا بھالا آرام طبیعت کا انسان ہے تو وہ بھی دونوں بھی ایک قسم کے عل انجام دیں گے اس نے بھی گناہ نہیں کیا اس نے بھی کیا۔ لیکن اُس نے اپنی طبیعت کی سرکشی کو طاقت کے دبایا دوسرے کو دبانا نہیں پڑا۔ اس کے طبیعت کے اندر اتنی سرکشی نہیں ہے۔ عمل میں ایک ہوگئے ثواب میں فرق ہو گئے ان دونوں میں۔
اب تقوی کا کردار ہے یہاں اس جگہ خیر و شر دونوں ہیں انسان کے اندر کمی زیادتی ہے لیکن ہوتا ہر شخص میں خیر و شر کا مادہ موجود ہوتا ہے تقوی کا کیا کردار ہے ؟ تقوی کا یہ کردار ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے اندر موجود اس شیطان کو سر اٹھانے نہیں دیتا تقوی کرنے کا مطلب پرہیز کرتا ہے بچاؤ کرتا ہے جرم کا ارتکاب نہیں کرتا گناہ کا ارتکاب نہیں کرتا اس کا شیطان سر نہیں اٹھا سکتا ہے اور اس کا شریف پہلو ہے نفس کے اندر جس کو آپ فطرت کہتے ہیں، طینت کہتے ہیں وہ سالم رہتا ہے سالم! اور اگر اس طرف شیطان کو سر اٹھانے موقع دیا جاتا ہے ایسے معاشرے میں پھنس گیا ایک شخص کہ جس میں گناہ کو گناہ ہی نہیں سمجھتے اور شر و فساد ہے ایک گند ہے ایک گند میں مبتلا اس گند میں چلا جاتا ہے دو دن وہ کرے گا ملامت اس کے ضمیر کی طرف سے تھوڑی سی ملامت ہوگی کہ یار میں برا کرتا ہوں، میں کہاں پھنس گیا ہوں اور پھر رفتہ رفتہ وہ ملامت ختم ہو جاتی ے اور اس طرف جو خیر کا پہلو ہے وہ خیر کا پہلو جو ہے وہ اب ملامت نہیں کرتا۔ پہلے بھی اس پر گفتگو ہوئی ہے میں نے تشبیہ دی ہے اس کو عدالت کے ساتھ کہ دنیا میں بھی ایک عدالت ہے آخرت میں قائم عدالت کا ایک نمونہ ہے یہ عدالت ۔ یعنی ضمیر کی عدالت، وجدان کی عدالت۔ ضمیر ملامت کرتا ہے دو دن پھر اس کے بعد ملامت ختم ہو جاتی ہے اس ضمیر گلہ دھب جاتا ہے اور خیر کا پہلو جو ہے وہ خاموش ہو جاتا ہے اور پھر اچھے اور برے میں تمیز ختم ہو تی ہے، ظلم کو ظلم نہیں سمجھتے، گناہ کو گناہ نہیں سمجھتے فرقان نہیں ہوتا اس شخص کے پاس تاریکی میں ڈوب جاتا ہے جس کے پاس تقوی نہیں ہے۔ یعنی تقوی نہیں کا مطلب جس کا شر کا پہلو غالب آتا ہے اس کے پاس فرقان نہیں ہوتا وہ آپ دیکھتے ہیں معاشروں میں کسی برائی کو برائی نہیں سمجھا جاتا، کسی گناہ کو گناہ نہیں سمجھا جاتا، کسی ظلم و زیادتی کو ظلم و زیادتی نہیں سمجھا جاتا اصلاً فرقان نہیں ان لوگوں کے پاس حق و باطل میں، خیر و شر میں تمیز کا مادہ نہیں ہے لوگوں کے پاس اس تقوی نہ ہونے کی وجہ اس شر کا پہلو غالب آنے کی وجہ سے اور اس وجہ سے یہاں پر فرمایا یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ فُرۡقَانًا ایک تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرقان دیتا ہے تقوی کرنے والے کو تقوی رکھنے والا بینش رکھتا ہے سمجھدار ہوتا ہے اس کو ہر چیز نظر آتی ہے اس لیے کہ اس کی نفس میں جو طہارت ہے گندگی نہیں ہے غلاظت نہیں ہے اس کی نگاہ تیز ہوتی ہے الْمُؤْمِنِ یَنْظُرُ بِنُورِ اللّٰہِ کہ مومن اب نور خدا سے دیکھتا ہے تیز بین ہوتا ہے اس کی نگاہ جو ہے وہ تیز ہو جاتی ہے حقائق کا درک ہوتا ہے خیر و شر کا ادراک ہوتا ہے تقوی رکھنے والا۔ دیگر آیات ہیں تقوی کے اثرات بیان ہوئے میں مختلف آیات میں ایک دوسری آیت ہے اس میں فرمایا وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مَخۡرَجًا جو تقوی اختیار کرتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ نکلنے کا راستہ دیتا ہے دیکھو ! جو لوگ تقوی اختیار کرتے ہیں وہ ایک بینش کا مالک ہوتا ہے فرقان کا مالک ہوتا ہے وہ بند گلی میں نہیں پھنستا اس زندگی میں ہاں اور آخرت کے لیے بھی وہ راستہ نکالتا ہے یَجۡعَلۡ لَّہٗ مَخۡرَجًا مخرج ملتا ہے اس کے لیے نکلنے کا راستہ ملتا ہے، بند گلی میں نہیں پھنستا مومن نہیں پھنستا۔
تیسری آیت میں فرمایا وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ اَمۡرِہٖ یُسۡرًا تقریباً اسی طرح ہے جو تقوی اختیار کرتا ہے اس کے معاملات میں اللہ تعالیٰ آسانی پیدا کرتا ہے یعنی وہی بند گلی میں نہیں پھنستا اس زندگی میں بھی بینش کا مالک ہے حقائق کا ادراک ہوتا ہے اس کو خیر و شر کا پتا ہے، مصلحت و مفسدہ کا پتا ہے کیسے بند گلی میں پھنسے گا یہ شخص؟ جیسا کہ حدیث میں فرمایا الْمُؤْمِنِ یَنْظُرُ بِنُورِ اللّٰہِ نور اللہ سے جو شخص دیکھتا ہے وہ بند گلی میں نہیں پھنس سکتا وہ آرام سے نکل جاتا ہے تقوی بہترین زاد راہ قرآن میں ہے تقوی ہے۔
چوتھی آیت میں فرمایا وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یُکَفِّرۡ عَنۡہُ سَیِّاٰتِہٖ یہاں بھی فرمایا جو تقوی اختیار کرتا ہے تو اس کے لیے اللہ فرقان عنایت فرماتا ہے دوسرا وَّ یُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ اور دوسری چیز تمہارے گناہوں کا کفارہ کا وہ کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ یکفر چھپا دیتا ہے کفر چھپانے کو کہتے ہیں کافر چھپانے والا جو حق کو چھپاتے ہیں اس کو کافر کہتے ہیں حق کو چھپانے والے کو کافر کہتے ہیں ملحد انکار کرنے والا حق کو چھپاتا ہے۔ اور اسی طرح سے کفارہ بھی اسی طرح ہے کہ آپ کے گناہ جو ہے وہ اب ناپید ہو گیا گم ہوگیا ختم ہو گیا۔ اس کو کفارہ گناہ یعنی گناہ کو چھپا کر کے نابود کرنے والا نابود کرتا ہے۔ وَّ یُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ تمہارے گناہوں کو نابود کر دے گا، چھپا دے گا یعنی نہیں ہے اب گم ہو گیا ختم گناہ نہیں ہے۔ تقوی اختیار کرنے والے سے اگر گناہ سرزد ہوتا ہے تو پھر تقوی کی وجہ سے اس کے گناہ بھی معاف ہوتے ہیں اِنَّ الۡحَسَنٰتِ یُذۡہِبۡنَ السَّیِّاٰتِ نیکیاں گناہوں کو ختم کر دیتی ہیں۔ تقوی کرنے والا نیکی کرتا ہے اور پھر دوسری طرف بشر ہے بندہ ہے اس سے گناہ سرزد ہو جاتا ہے کبھی گناہ بھی سرزد ہوتا ہے معصوم تو نہیں ہوتا ، متقی معصوم تو نہیں ہوتا۔ معصوم کے علاوہ ہم لوگوں کی بات ہے تو گناہ سرزد ہونے کی صورت میں جو شخص تقوی کرتا ہے گناہ سرزد ہونے کی صورت میں اس کے گناہ معاف ہو جاتا ہے۔ یُکَفِّرۡ عَنۡہُ اس کے گناہ جو ہے وہ دھل جاتے ہیں صاف صاف ہو جاتے ہیں۔ گناہ دھلنے کا مطلب کیا ہوتا ہے ؟ کہ تقوی رکھنے والے کا ضمیر وجدان صاف اس کا ضمیر بیدار ہوتا ہے ضمیر کی بیداری کی وجہ سے فرقان ہے اس کے پاس اس کے پاس فرقان ہونے کی وجہ سے ایک صحیح بینش ہونے کی وجہ سے وہ گناہ جو اس سے سرزد ہوتا ہے وہ اس کو گناہ سمجھتا ہے وہ برا مناتا ہے خود کہ آہ میں نے گناہ کیا سبحان اللہ، استغفراللہ کتنا تو بد بخت آدمی ہے گناہ کر دیا صاف ہو گیا اسی جگہ گناہ سرزد ہوتے ہی ندامت ہوئی اس کو برا لگا اس آدمی کے پاس جس کے پاس تقوی نہیں ہے فرقان نہیں ہے بینش نہیں ہے گناہ کرتا ہے اگر کوئی کہتا ہے گناہ کرتے ہو؟ وہ منہ بناتا ہے کیا گناہ ہے چھوڑو۔ وہ گناہ کو گناہ نہیں سمجھتا۔ وہ اس کا گناہ جو ہے وہ اس کے گردن کے اوپر لگ جاتا ہے برقرار رہتا ہے۔ متقی کا نہیں برقرار رہتا ہے گناہ دھل جاتا ہے گناہ سرزد ہوتا ہے بندہ نشر ہے لیکن متقی کا گناہ رہتا ہے نہیں ہے بڑی بات ہے ٹکتا نہیں ہے ختم ہو جاتا ہے۔ کیوں ختم ہوتا ہے؟ اس لیے کہ جب گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کو بات سمجھ میں آتی ہے کہ میں نے برا کام کیا جیسے اس نے سمجھا میں نے برا کام کیا وہ دھل گیا گناہ۔ اس لیے حدیث میں ہے نا کہ "گناہ کو گناہ نہ سمجھنا سب سے بڑا گناہ ہے" جو گناہ کو گناہ سمجھتے ہیں اس کے گناہ دھل جاتے ہیں متقی کے پاس چونکہ بینش ہے فرقان ہے وہ گناہ کو گناہ سمجھتا ہے دھل جاتا ہے وَّ یُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ایک تو اس کو گناہ سمجھا اس نے اور وہیں پر دھل گیا دوسرا ہو سکتا ہے اگرچہ متقی ہے لیکن کسی گناہ کو کرنے کے بعد پچھتایا نہیں، پچھتایا نہیں اور گناہ کو برا نہیں سمجھا بہت مزا دیا۔ ٹھیک ہے ہو جاتا ہے کبھی ، کیا ہے ہونے دو کبھی متقی ہے لیکن کبھی ایک دو گناہ میں اس کو برا نہیں لگا۔ برا نہیں لگا گناہ برقرار ہے لیکن آدمی چونکہ متقی ہے خدا معاف کر دے گا اگر اس کو برا لگا ہے وہیں یُکَفِّرۡ ہو جائے گا اگر برا نہیں لگا تو اللہ تعالیٰ معاف کر دے گا۔ وہ غفور و رحیم ہے آخر غفور و رحیم کہاں ہے کہ گناہ بھی اگر سرزد ہوتا ہے تو اس کی مغفرت نہ ہو جائے، مغفرت ہو جاتے ہیں۔ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ وہ بڑا فضل والا ہے وہ تم کو برا بھی نہیں لگا گناہ بھی کیا اور گناہ بھی تمہارے نامہ اعمال میں ثبت بھی ہوا تو اللہ کو فضل کہاں کام دے گا؟ تو فرمایا ادھر کام دے گا وہ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ وہ تم کو معاف کر دے گا اللہ تعالیٰ ہم سب کو معاف کر دے۔