تفسیر قرآن سورہ ‎الأنفال‎ آیات 30 - 32

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

وَ اِذۡ یَمۡکُرُ بِکَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِیُثۡبِتُوۡکَ اَوۡ یَقۡتُلُوۡکَ اَوۡ یُخۡرِجُوۡکَ ؕ وَ یَمۡکُرُوۡنَ وَ یَمۡکُرُ اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ﴿۳۰﴾
اور (وہ وقت یاد کریں) جب یہ کفار آپ کے خلاف تدبیر سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کر دیں یا آپ کو قتل کر دیں یا آپ کو نکال دیں وہ اپنی چال سوچ رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔
یہ آیت رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت سے متعلق ہے۔ کفار قریش ایک جگہ جس کو دار الندوہ کہتے ہیں۔ وہاں پر جمع ہوجاتے ہیں اور رسول اللہ کے خلاف تدبیر سوچتے ہیں کہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جان چھڑانے کے لیے کیا کریں۔ وہاں پر قریش کے سب لوگ جمع تھے جس میں ابولہب بھی تھے اور ابو جہل بھی تھے اور دیگر لوگ بھی تھے۔ اس لیے مختلف آراء سامنے آ جاتی ہیں۔ کسی نے کچھ کہا تو کسی نے کچھ کہا آخر میں ایک رائے پر سب لوگ متفق ہوگئے۔ پہلے یہ سوچ رہے تھے کہ اگر کسی ایک فرد کو بھیج کر آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو شہید کروا دیا جائے تو بنی ہاشم انتقام لیں گے۔ کوئی قبیلہ یہ خون اپنے سر لینے کے لیے تیار نہ تھا۔ رائے پھر یہ سامنے آئی کہ کسی ایک قبیلہ کو ملوث نہیں کرتے بلکہ سب کے سب بیک وقت ملوث ہوجاتے ہیں۔ یعنی ہر قبیلے کے چند افراد چلے جاتے ہیں اور بیک وقت حملہ کریں گے اور ہر قبیلے کا بندہ ایک ایک وار کرکے سب زخم لگائیں تاکہ اس جرم میں سب شامل ہو جائیں تو بنی ہاشم کے لوگ سب سے انتقام نہیں لے سکیں گے۔ اس رائے پر اتفاق کر لیتے ہیں اور رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر کی طرف چلنے کے لیے آمادہ ہوجاتے ہیں اور رات کے وقت گھر گردوپیش جمع بھی ہوجاتے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق ابولہب جو کہ بنی ہاشم کا فرد تھا۔ دشمنوں کے ساتھ موجود تھا اور وہ اس قتل میں بھی شریک ہونا چاہتا تھا۔ تاہم بنی ہاشم کا ایک فرد ہونے کی وجہ سے اس نے کہا کہ رات کے وقت میں قتل کی اجازت نہیں دوں گا۔ کیونکہ یہاں عورتیں بھی ہیں اور دیگر افراد بھی ہیں تاہم میں رات کے وقت قتل کرنے کے اجازت نہیں دے سکتا۔ صبح ہونے دیں پھر بے شک ہم قتل کر دیں گے۔ انھوں نے ساری رات رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر کے گردو پیش میں گزاری۔ ادھر رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر وحی نازل ہوئی کہ یہ لوگ آپ گھر گرد محاصرہ کیے ہوئے ہیں اور آپ یہاں سے نکل جائیں۔ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہاں ایک آیت کی تلاوت کرتے ہوئے وہاں سے نکلتے ہیں۔ اس وقت جب حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر سے نکلتے ہیں تو ان لوگوں کو حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا وجود مبارک ان کو نظر نہیں آتا اور آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہاں سے آسانی سے نکل جاتے ہیں اگرچہ وہ سب لوگ گھر کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے اور تعداد بھی کافی تھی کیونکہ تمام قبائل کے لوگ آئے ہوئے تھے۔ بس اللہ تعالیٰ کی مدد سے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہاں سے نکل جاتے ہیں اور ادھر اپنے بستر پر حضرت علی عليه‌السلام کو سلا کے جاتے ہیں۔ جب آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی عليه‌السلام سے فرمایا کہ یا علی میرے بستر پر سو جاؤ تو حضرت علی عليه‌السلام نے یہ نہیں پوچھا کہ باہر لوگ بیٹھے ہوئے ہیں اور کسی بھی وقت حملہ آور ہو سکتے ہیں اور اگر میں آپ کے بستر پر سو جاؤں تو کیا میں بچ جاؤں گا۔ یہ سوال نہیں پوچھا۔ یعنی اپنے بارے میں نہیں پوچھا۔ بلکہ یہ پوچھا کہ اگر میں آپ کے بستر پر سو جاؤں تو کیا آپ محفوظ رہیں گے؟
اپنے بارے میں اس لیے سوال نہیں کیا کیونکہ حضرت علی عليه‌السلام اپنے بارے میں یہ فیصلہ کرکے سو گئے تھے کہ میں نے اپنی جان رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نثار کرنی ہے۔ لہٰذا یہاں تحفظ اور عدم تحفظ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ بستر پر پچنے کے لیے نہیں بلکہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بچانے کے لیے سونا تھا۔ اسی لیے حضرت علی عليه‌السلام نے اپنے مقصد کے بارے میں سوال کیا کہ میرے سونے سے کیا آپ کی جان محفوظ رہے گی۔ بہر حال حضرت علی عليه‌السلام رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر سو جاتے ہیں۔ جب صبح ہوتی ہے تو وہ سب لوگ گھر میں داخل ہوتے ہیں تو حضرت علی عليه‌السلام بستر سے اٹھ کر پوچھتے ہیں کہ کیا بات ہے؟ سب لوگ تعجب سے دیکھتے ہیں کہ بستر پر تو حضرت علی عليه‌السلام سوئے ہوئے ہیں۔ انھوں نے پوچھا کہ حضرت محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کہاں ہیں؟ آپ عليه‌السلام نے کہا کہ مجھے کیا پتہ کہ محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کہاں ہیں آپ خود دیکھ لو۔ یہ واقعہ صرف ہمارے مصادر میں نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کے مصادر میں یہ واقعہ موجود ہے۔ بلکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر حضرت علی ابن ابی طالب عليه‌السلام سوئے تھے۔ اور اس لیے سوئے تھے کہ اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں اور رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جان محفوظ رہے۔ یہاں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسلام کے اوپر ایک لطف تھا کہ حضرت علی عليه‌السلام بھی محفوظ رہے۔ یہاں پر حضرت علی عليه‌السلام کے فخریہ اشعار بھی ہیں۔ جس پر آپ عليه‌السلام نے ارشاد فرمایا کہ
وقیت بنفسی خیر من وطئ الحصی
روئے زمین پر چلنے والوں میں سے سب سے بہتر ہستی کی خاطر میں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ (بحار الانوار 19: 63۔ روح المعانی 9: 198)
آگے بھی اشعار ہیں لیکن سب یہاں پر بیان نہیں ہو سکتے۔
اب ہم آیت کی تشریح کے اوپر آتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وَ اِذۡ یَمۡکُرُ لفظ مکر تدبیر سوچنے کو کہتے ہیں۔ لیکن اگر لفظ مکر اس طرح بیان ہو جیسے قرآن میں ہے کہ وَ لَا یَحِیۡقُ الۡمَکۡرُ السَّیِّیٴُ یعنی مکر کے ساتھ اگر السَّیِّیٴُ کی قید لگائی جائے تو پھر یہ تدبیر بری ہوجاتی ہے۔ ہم اردو اور فارسی محاورے میں مکر کے ساتھ فریب استعمال کرتے ہیں یعنی مکر و فریب کہتے ہیں۔ ہمارا محاورہ الگ ہے لیکن قرآن میں اگر مکر کے ساتھ السَّیِّیٴُ ہوگا تو بری تدبیر ہوگی لیکن اگر صرف مکر ہے تو اس سے مراد تدبیر سوچنا ہے۔ ایک آیت میں آیا ہے کہ فَلِلّٰہِ الۡمَکۡرُ جَمِیۡعًا تمام تدبیریں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ تمام تدبیریں بری نہیں ہوتی یعنی لفظ تدبیر صرف بری تدبیر کے ساتھ مختص نہیں بلکہ تدبیر بری بھی ہوسکتی ہے اور اچھی بھی۔
وَ اِذۡ یَمۡکُرُ بِکَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا کافروں نے آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں تدبیر سوچی لِیُثۡبِتُوۡکَ اَوۡ یَقۡتُلُوۡکَ اَوۡ یُخۡرِجُوۡکَ کہ یا تو آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قید کر دیں جس پر لوگ متفق نہیں ہوئے تھے۔ یا آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کر دیں۔ اسی پر لوگ متفق ہوئے تھے۔ یا آپ کو یہاں سے نکال کر کسی دور دراز علاقے میں پھینک دیں۔ اس پر بھی لوگ متفق نہیں ہوئے تھے۔ ان تدبیروں میں سے صرف قتل والی تدبیر پر وہ لوگ متفق ہوئے تھے۔ وَ یَمۡکُرُوۡنَ یہ لوگ تدبیر کررہے تھے اور خدا بھی تدبیر کررہا تھا۔ کفار نے جو تدبیر کی تھی یہ ظلم اور زیادتی پر تدبیر ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہاں جو تدبیر ہے یا جو تدبیر ہوتی رہتی ہے وہ عدل اور انصاف پر مبنی ہوتی ہے۔ لہٰذا یہاں فرق ہے ایک ظالمانہ تدبیر ہے اور ایک عادلانہ تدبیر ہے۔ اسی لیے آگے فرمایا کہ وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ بہتر تدبیر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ عدل و انصاف پر مبنی تدبیر۔ ظالم کے ہاتھ سے ایک مظلوم کو بچانا یہ عدل و انصاف پر مبنی تدبیر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک جان کو بچانے کی تدبیر سوچی اور انہوں نے ایک جان کو تلف کرنے کی تدبیر سوچی۔ ایک جان کو بچانا اور ایک جان کو تلف کرنا ان دونوں میں جو فرق ہے یہاں بھی کافروں کی تدبیر اور اللہ کی تدبیر میں وہی فرق ہے۔
وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُنَا قَالُوۡا قَدۡ سَمِعۡنَا لَوۡ نَشَآءُ لَقُلۡنَا مِثۡلَ ہٰذَاۤ ۙ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ﴿۳۱﴾
اور جب انہیں ہماری آیات سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں: ہم نے سن لیا ہے اگر ہم چاہیں تو ایسی باتیں ہم بھی بنا سکتے ہیں، یہ تو وہی داستان ہائے پارینہ ہیں۔
اگر یہ لوگ اس قسم کا کلام پیش کرسکتے ہوتے تو وہ ایک نہیں بلکہ سینکڑوں کلام پیش کرتے اور ہر طرف سے کلام بنا کر پیش کرتے اور جس طرح بازار عکاظ میں مشاعرہ ہوتا تھا اور بہتر سے بہتر اشعار کا انتخاب ہوا کرتا تھا۔ پھر تو اس سے بھی بڑے زبردست اہتمام کے ساتھ بہتر سے بہتر کلام منتخب کرکے ایک دو نہیں بلکہ بہت سے کلام قرآن کا مقابلہ کرنے کے لیے سامنے آتے۔ اگر ان کے امکان میں ہوتا تو بہت بڑا کلام کا مجموعہ سامنے آتا۔ کیونکہ یہ ان کے لیے آسان تھا شعر اور نثر کے ساتھ کلام بنا بنا کر مقابلہ کرتے اور اس کے ذریعہ قرآن کو کلام الہٰی نہ ہونے کو ثابت کرنا ان کے نہایت آسان کام ہوتا۔ کیونکہ یہ ان کے قبضے کل مضمون تھا اور حالات بھی ان کے لیے سازگار تھے۔ ان سب کو چھوڑ کر پھر جنگ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اور اس مشکل کام یعنی جنگ کی طرف کیوں آتے بلکہ وہ بازار عکاظ میں یا مکہ مدینہ میں کہیں جمع ہوجاتے اور حج کے موقع پر وہ مشاعرہ کرتے اور دنیا بھر سے لوگوں کو بلا کر اپنا کلام پیش کرتے۔ لَقُلۡنَا مِثۡلَ ہٰذَاۤ یہ کہنا آسان ہے لیکن اس جیسا کلام پیش نہیں کر سکے۔ کہنے کے لیے تو ان لوگوں نے کہہ دیا کہ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ یعنی یہ وہی داستان ہائے پارینہ ہیں یعنی قدیم داستانیں ہیں وہی سناتے ہیں اور اس طرح سے تو ہم بھی کلام سنا سکتے ہیں۔ اور آگے ایک اور آیت ہے جس میں یہ ارشاد ہوتا کہ
وَ اِذۡ قَالُوا اللّٰہُمَّ اِنۡ کَانَ ہٰذَا ہُوَ الۡحَقَّ مِنۡ عِنۡدِکَ فَاَمۡطِرۡ عَلَیۡنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائۡتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ﴿۳۲﴾
اور (یہ بھی یاد کرو) جب انہوں نے کہا: اے اللہ! اگر یہ بات تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا ہم پر کوئی درد ناک عذاب نازل کر۔
اس آیت کے شان نزول کے سلسلے میں روایات شیعہ مصادر میں تو ہیں ہی لیکن غیر شیعہ مصادر میں بھی وافر مقدار میں یہ روایات موجود ہیں کہ یہ آیت غدیر خم کے موقع پر نازل ہوئی۔ ایک منافق شخص تھا اس نے ہی کہا تھا جس کا نام حارث بن نعمان فہری تھا اسی نے کہا تھا کہ اے محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ نے کہا کہ ان بتوں کو چھوڑ دو تو ہم نے چھوڑ دیا آپ نے کہا ایک اللہ کو مانو ہم نے مان لیا اور آپ نے کہا مجھے رسول مانو ہم نے مان لیا اس کے بعد آپ نے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور جہاد وغیرہ کا حکم دیا ہم نے مان لیا۔ آپ نے ان سب پر اکتفا نہیں کیا اور آپ نے اس لڑکے (حضرت علی عليه‌السلام) کے بارے میں کہہ دیا کہ من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ کہ جس جس کا میں مولا ہوں اس کا علی بھی مولا ہے آپ نے کہہ دیا۔ حارث بن نعمان فہری اس کے بعد رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پوچھتا ہے کہ یہ بات آپ نے خود اپنی طرف سے کہی ہے یا اللہ تعالیٰ کے طرف سے حکم آیا۔ جواب میں آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم آیا۔ تو اس نے کہا کہ اگر یہ بات سچ ہے تو اے اللہ مجھ پر تو پتھر نازل فرما۔ اتنے میں پتھر اس پر گرا اور وہ شخص مرگیا۔ یہ روایت شیعہ مصادر میں تو ہے ہی لیکن غیر شیعہ مصادر میں بھی موجود ہے۔
اس واقعہ کو ابو عبیدہ ھروی متوفی 223ھ نے اپنی تفسیر غریب القرآن میں، ابوبکر نقاش موصلی متوفی 351ھ نے اپنی تفسیر شفاء الصدور میں، ابو اسحاق بقلی متوفی 427ھ نے اپنی تفسیر میں، حاکم حسکانی نے دعاۃ الھداۃ میں، ابوبکر یحییٰ قرطبی متوفی 567ھ نے سورﮤ المعارج کی تفسیر میں، سبط ابن جوزی متوفی 654ھ نے تذکرہ میں، حموینی متوفی 722ھ نے فراید السمطین میں و دیگر 30 کے قریب علماء نے ذکر کیا ہے۔
ان سب نے لکھا ہے کہ یہ آیت غدیر خم کے موقع پر نازل ہوئی۔ اب ہم اس آیت پر آتے ہیں کہ کہا تو ایک شخص نے تھا لیکن آیت کی تعبیر میں قَالُوا آیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن میں ایسی بہت سی جگہیں ہیں جہاں ایک شخص کے بارے میں لفظ قَالُوا بہت سی جگہوں پر آیا ہے۔ ایک جگہ پر تو ایک شخص کے لیے بعض کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے۔ بس قرآن میں عمومی لفظ استعمال ہوتے ہیں لیکن اس کی تطبیق ایک شخص پر ہو سکتی ہے۔